حسن عباس رضا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


"آوارگی میں حد سے گذر جانا چاہیے

لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے"

20 نومبر 1951ء کو راولپنڈی کے ایک لوئر مڈل کلاس گھر میں پیدا ہوئے، والد محترم صوفی محمد زمان، ایک فرشتہ صفت، انتہائی ہمدرد اور نیک انسان تھے، والدہ مرحومہ کا نام زینب بی بی تھا۔ پانچ بھائی اور ایک بہن تھی، تین بھائی ایام جوانی ہی میں داغِ مفارقت دے گئے، اسلامیہ ہائی سکول راولپنڈی کے مدرّس کی حیثیت سے والد نے ہزاروں طالب علموں کو فارسی اور اردو کی تعلیم دی۔ آپ کے بے شمار طالبعلموں نے ادب و شعر کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے میں نام کمایا۔ حسن نے میڑک تک ابا جی مرحوم سے فارسی اور اردو پڑھی، بعد ازاں گورنمنٹ کمرشل کالج سے ڈی کام کرنے کے بعد پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کیا پہلا شعر 1972 میں لکھا، محکمہ تعلیم پنجاب سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا، بعد ازاں احمد فراز اکیڈمی آف لیٹرز لے گئے، وہاں چھ برس تک فرائض سر انجام دیے۔ اس دوران آمر ضیاع الحق کا مارشل لا لگ گیا، فراز صاحب کو تو گرفتار کر کے وہ اٹک قلعہ لے گئے، مگر حسن کو تین روز تک روزانہ جی ایچ کیو کے کسی آفس میں لے جاتے، پوچھ گچھ کرتے اور ’’معصوم‘‘ جان کر شام کو گھر چھوڑ جاتے۔ اکیڈمی آف لیٹرز کے بعد حسن نے ایک اور نیم سرکاری ادارے اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شایع ہونے والے میگزین ’’ یارانِ وطن ‘‘ کو جوائن کر لیا، یہاں پر محترم ممتاز مفتی مرحوم، ضیا اقبال شاہد مرحوم اور محمد علی چراغ کے ساتھ دو برس تک کام کیا۔

دورانِ ملازمت حسن نے اپنے ادبی میگزین ’’ خیابان ‘‘ کی اشاعت جاری رکھی، مارشل لا کے عروج کا زمانہ تھا، جب خیابان کا تیسرا شمارہ منظرِ عام پر آیا، اس میں اداریہ، حسن کی نظموں کے علاوہ، اختر حسین جعفری مرحوم، ظفر خان نیازی کی نظم، رشید احمد کی نظمیں، اعجاز راہی مرحوم کا مضمون، احمد داؤد مرحوم کا افسانہ، احمد فراز کی غزل، غرض کہ بہت سی دیگر تخلیقات پر سرخ نشان لگا کر، خیابان پر پابندی لگا دی گئی، اعتراض وہی پرانے کہ اسلام، فوج اور پاکستان کے خلاف مواد ہے، نیز فحاشی کا بھی الزام لگایا گیا، خیر فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے حسن کے گھر کا محاصرہ کیا اور گھر میں موجود خیابان کے نئے، پرانے شمارے اور بہت سی دیگر کتابیں اپنے ساتھ لے گئے۔

حسن اس وقت گھر پر نہیں تھا اور اتفاق سے وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (P.N.C.A) میں ملازمت کا پہلا دن تھا، اس شام پی این سی اے کے زیر اہتمام لیاقت میموریل ہال میں ہونے والی محفل موسیقی میں ڈیوٹی پر مامور تھے اور اس وقت ہال میں اقبال بانو غزل سرا تھیں، جب کسی دوست نے مجھے وہاں آ کر اطلاع دی اور یہ مشورہ بھی دیا کہ فوری طور پر روپوش ہو جاؤں، ابھی ایسا کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ تازہ اطلاع ملی کہ حسن کی گرفتاری کی شرط پرپولیس والد کو اپنے ساتھ لے گئی ہے، لہذا فوری طور پر حسن نے گرفتاری دے دی، دوسرے دن پولیس نے عدالت سے دس روزہ جسمانی ریمانڈ لے کر ہتھکڑی پہنائی اور صدر بازار لے گئے اور وہاں کے تمام بک سٹالز سے خیابان کے شمارے ضبط کر لیے، ایک بک سٹال کے مالک خواجہ صاحب نے حسن کو پولیس کی حراست میں ہتھکڑی پہنے دیکھا تو انھوں نے پولیس سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا کہ آپ ایک شاعر کو یوں ہتھکڑی لگا کر سرِ بازار گھما رہے ہیں، یہ علم و ادب کی توہین ہے، مگر پولیس کو ایسی باتیں سننے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، بارہ روز تک حراست میں رکھا گیا

1999ء میں ایک نظم لکھی تھی ’’ میرے بادشاہ ‘‘ اس پر بھی سرکار دربار کے حکم سے مقدمہ تیار کیا گیا، لیکن اس دوران نہ صرف حکومت کا خاتمہ ہو گیا، بلکہ حسن خود بھی امریکا آ گیا،اور دوبارہ سرکاری مہمان بننے کی ’’ خواہش ‘‘ دل ہی میں رہ گئی۔۔ 1985ء میں پہلے شعری مجموعے ’’ خواب عذاب ہوئے ‘‘ کا فلیپ فیض صاحب نے لکھا اور یہ فیض صاحب کی زندگی کی آخری تحریر تھی، اس کتاب کا پیش لفظ کشور ناہید نے تحریر کیا تھا۔ ٹھیک دس برس بعد 1995 میں دوسرا شعری مجموعہ ’’ نیند مسافر‘‘ شایع ہوا، جس کا دیباچہ قاسمی صاحب نے لکھا تھا اور فلیپ احمد فراز نے 2000 میں بوجوہ امریکا آنا پڑا، یوں پہلے دو برس ورجینیا میں اور بعد ازاں نیویارک میں مقیم ہ رہے،تیسرا اور تادمِ تحریر نیا شعری مجموعہ ’’ تاوان ‘‘ 2004 میں اسلام آباد سے شایع ہوا جس کا دیباچہ گلزار نے لکھا ہے۔ میرا نیا شعری مجموعہ زیرِ ترتیب ہے اور 2008ء کے آخر تک شایع ہوا، ۔

پاکستان میں قیام کے دوران نے ٹی وی، ریڈیو اور سٹیج کے لیے متعدد ڈرامے، گیت اوراسکرپٹ تحریر کیے اور پی این سی اے کے زیر اہتمام منعقدہ ڈراما فیسٹیول میں ہونے والے ڈراموں کو کتابی شکل میں شایع کیا۔

1984ء میں شادی ہوئی، اہلیہ روبینہ شاہین نہ صرف شعر شناس اور ادب دوست تھیں، بلکہ وہ باقاعدہ افسانہ نگار بھی ہیں، دو خوبصورت بیٹے عطا ہویے ، بڑا بیٹا فرہاد حسن، پاکستان میں ہے اور پاکستان ایئر فورس میں پائلٹ ہے، دوسرا بیٹا وامق حسن ہے، جو حسن کے ساتھ نیویارک میں ہے،