حسن مطلع

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حسنِ مطلع اگر کسی غزل میں دو مطلعے ہوں، تو دوسرے کو حسنِ مطلع کہتے ہیں۔ مثلاً ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں:

  • کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی
  • بجھا جاتا ہے دل، چہرے کی تابانی نہیں جاتی
  • نہیں جاتی کہاں تک فکرِ انسانی نہیں جاتی
  • مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی

اس میں تھوڑا اختلاف ہے

1: "بحرالفصاحت" جو 'نجم الدین' کی تالیف کردہ ہے اور عروض و قوافی,علم بیان و بدیع پر ایک مستند کتاب کا درجہ رکھتی ہے اس میں واضح کہا گیا ہے کہ غزل کے پہلے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور باقی ہر شعر کا دوسرا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے اور دوسرا شعر ( بیت ثانی) حسنِ مطلع یا زیبِ مطلع کہلاتا ہے آگے یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ غزل میں ایک سے زیادہ مطلع بھی ہو سکتے ہیں بہرحال حسنِ مطلع کی وضاحت کے لیے بیتِ ثانی کہا گیا ہے نا کہ مطلع ثانی

2: اردو کی دو مستند ترین لغات فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات میں بھی حسنِ مطلع کی وضاحت (غزل یا قصیدے کے مطلع کے بعد کا شعر / دوسرا شعر یا دوسرا بیت) کہ کر کی گئی ہے نا کہ دوسرا مطلع


حوالہ جات[ترمیم]