حسین بن علی جعفی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(حسین بن علی الجعفی سے رجوع مکرر)

حسین بن علی جعفی مشہور تبع تابعی ہیں۔آپ یحییٰ بن معین اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہما جیسے ائمہ کے شیخ ہیں۔آپ نے 203ھ میں وفات پائی ۔

امام  ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حضرت حسین بن علی الجعفیؒ
(عربی میں: الحُسين بن علي الجعفي بن الوليد الكوفي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 119 ھ میں
کوفہ
تاریخ وفات سنہ 819ء (82–83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ابو عمارہ حمزہ الکوفی،  سفیان ثوری،  سفیان بن عیینہ  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص احمد بن حنبل،  اسحاق بن راہویہ،  یحییٰ بن معین،  ابو اسحاق جوزجانی،  ابو کریب  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث،  عالم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر فضیل ابن عیاض  ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب[ترمیم]

حسین نام اور ابو عبد اللہ یا ابو محمد کنیت تھی، والد کا نام علی اور جدِ امجد کا ولید تھا [1] جعفی بن سعد العشیرۃ سے نسبتِ ولاء رکھنے کے باعث الجعفی مشہور ہوئے۔ [2]

مولد[ترمیم]

آپ کی ولادت 119ھ میں بمقام کوفہ میں ہوئی، علامہ ابنِ سعد کا بیان ہے کہ وہ اور ان کے بھائی محمد جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ [3]کچھ عرصہ بعد جزیرہ منتقل ہو کر وہیں مستقل طور پر رہنے لگے تھے۔ [4]

فضل وکمال[ترمیم]

علم و فضل،زہد وتقویٰ اور عبادت و ریاضت کے اعتبار سے نہایت بلند مرتبہ تھے، متعدد تابعین کرام کے نگار خانہ علم سے اپنے دل و دماغ کو منور کرنے کی سعادت حاصل کی تھی، زمہرۂ اتباع تابعین میں اس حیثیت سے وہ نہایت ممتاز تھے کہ علم کے ساتھ عمل میں اتنا بلند مقام بہت کم ہی کے نصیب میں آسکا، یہ ان کی جلالتِ مرتبت اور عظمتِ شان ہی کا ثمرہ تھا کہ سفیان بن عیینہ جیسے فاضل اور امام عصر ان کی از حد تعظیم و تکریم کرتے تھے، ایک بار حسین الجعفی حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے، وہاں ابن عیینہ کو ان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو فوراً ملنے تشریف لائے اور فرطِ عقیدت میں ان کی دستِ بوسی کی، علاوہ ازیں عبد اللہ بن ادریس ،ابو اسامہ اور کوفہ کے دوسرے بہت سے محدثین وشیوخ ان کی خدمت میں باریابی کو مایۂ صد افتخار وناز تصور کرتے تھے، علامہ ابنِ سعد رقمطراز ہیں: وکان مألفاً لا ھل القرآن واھل الخیر [5] وہ اہل قرآن واہلِ الخیر کا مرجع تھے۔ امام خزرجی نے احد الاعلام والزھاد اورحافظ ذہبی نے شیخ الاسلام ،الحافظ المقری،الذاھد القدوۃ، لکھ کر ان کے فضل وکمال کو سراہا ہے۔ [6]

قرآن[ترمیم]

قرأت قرآن میں کامل عبور حاصل تھا۔اس فن میں انھیں شہر ۂ آفاق، ماہر قرأت سبعہ حمزہ بن حبیب الزیات سے شرف تلمذ حاصل تھا [7]مہارتِ فنی ہی کی وجہ سے شائقین کو قرآن کا درس بھی دیا کرتے تھے،ابن سعد لکھتے ہیں: له فضل قارئا للقرآن يقريء الناس [8] وہ بڑے فاضل قرآن کے قاری تھے اور لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے ایک بار کسانی سے دریافت کیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا قاری کون ہے؟ جواب دیا :حسین بن علی الجعفی،امام عجلی بیان کرتے ہیں: کان یقرأ الناس رأس فیہ وکان صالحاً [9] وہ لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے اس میں وہ ماہر تھے اور صالح انسان تھے۔

حدیث[ترمیم]

حدیث نبوی میں ان کا پایہ بہت بلند تھا،اس کی تحصیل انھوں نے کبار ائمہ سے کی تھی، اس وقت کبار تابعین کی مجلسیں اجڑتی جارہی تھیں، لیکن پھر بھی سلیمان الاعمش اور ہشام بن عروہ جیسے علما علم و فضل کی قندیلیں فروزاں کیے موجود تھے، حسین الجعفی نے ان سے پوری طرح کسبِ ضو کیا ،بالخصوص زائدۃ ان کے دولت کدہ پر خود تشریف لاتے اور حدیث بیان کیا کرتے،اسی بنا پر شیخ مذکور سے سب سے زیادہ روایت کرنے کا شرف حسین ہی کو حاصل ہے۔ نمایاں اساتذہ حدیث میں مذکورہ علما کے علاوہ موسیٰ الجہنی، لیث بن ابی سلیم ،جعفر بن یرقان، زائدہ، فضیل بن مرزوق، حسین بن حر ، ابن ابی داؤد ،اسرائیل بن موسیٰ ،فضیل بن عیاض کے اسمائے گرامی لائق ذکر ہیں۔ [10]

درسِ حدیث اور تلامذہ[ترمیم]

ایک عرصہ تک حسین الجعفی غالباً فرطِ احتیاط کی بنا پر درسِ حدیث سے احتراز کرتے رہے، لیکن پھر ایک شب انھوں نے حالتِ خواب میں دیکھا کہ حشر و نشر کا ہنگامہ کار زار گرم ہے اور ایک منادی صدا لگارہا ہے کہ علما جنت میں داخل ہوجائیں،انہی کے ہمراہ حسین الجعفی بھی جانے لگے تو یہ کہہ کر انھیں روک دیا گیا کہ: اجلس لست منھم انت لا تحدث تم بیٹھے رہو تمھارا شمار علما میں نہیں، اس لیے کہ تم حدیث نہیں روایت کرتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے درس وروایت حدیث کا جو سلسلہ شروع کیا تو آخر عمر تک برابر قائم رکھا؛چنانچہ ان کے شاگردِ رشید حمید بن الربیع بیان کرتے ہیں کہ: فلم یزل یحدث فی البرد والحر والمطرحتیٰ کتبنا عنہ اکثر من عشرۃ الاف [11] پھر وہ برابر گرمی، سردی، برسات ہر موسم میں درسِ حدیث دیتے رہے حتیٰ کہ ہم نے ان سے دس ہزار حدیثوں کی کتابت کی۔ ان کے خرمنِ علم کے خوشہ چینیوں میں امام احمد،ابن اسحاق ،ٰٰیحییٰ بن معین، محمد بن رافع، ابن الفرات، عباس الدوری، محمد بن عاصم، عبداللہ بن ابی عوانہ، ابوبکر بن ابی شیبہ ، ابوکریب ، ہارون الحمال، شجاع بن المخلد، ہنا والسری،ابنِ ابی عمر، عبد بن حمید، ابو سعود الرازی اور عراق کے دوسرے بہت سے مشاہیر علما شامل ہیں۔ [12]

ثقاہت[ترمیم]

علما ومحققین نے بالاتفاق ان کی ثقاہت وعدالت اورتثبت واتقان کو تسلیم کیا ہے، محمد بن عبد الرحمن ہروی کہتے ہیں "مارأیت اتقن منہ"[13] احمد العجلی کا بیان ہے "کان ثقۃ" [14] عثمان بن ابی شیبہ کا قول ہے‘بخ بخ ثقۃ صدوق’ علاوہ ازیں یحییٰ بن معین، امام بخاری، ابن سعد اور ابنِ حبان نے بھی توثیق کی ہے۔

زہد وعبادت[ترمیم]

انھوں نے پوری زندگی حالتِ تجرد میں گذاردی، بلاشبہ انسانی زندگی کا یہ نہایت پر از محن مرحلہ ہوتا ہے،جس سے شاذونادر ہی کوئی کامیابی سے گزرتا ہے لیکن حسین الجعفی کا دامنِ زہد و ورع بہت پاک وصاف رہا،غالباً اسی بنا پر وہ بکثرت عبادت کرتے تھے تاکہ دنیا اور اس کے مزخرفات سے قطعی بے التفاقی اور بے رغبتی رہے؛ چنانچہ ان کی کتاب زندگی میں اس باب کو بڑی اہمیت وعظمت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے،علامہ ابن جوزی رقمطراز ہیں: کان من العلماء العباد [15] وہ عبادت گزار علما میں تھے۔ ابن سعد لکھتے ہیں "کان عابدً اناسکاً" یحییٰ بن یحییٰ کابیان ہے کہ ان بقی احد من الابدال ال فحسین الجعفی [16] اگر صوفیہ میں کوئی باقی رہا تو وہ حسین الجعفی ہیں۔ حافظہ ذہبی خامہ ریز ہیں کان مع تقدمہ فی العلم رأما فی الذھد والعباد [17] وہ بایں ہمہ علم و فضل،زہد وتقویٰ میں بھی بلند مرتبہ تھے۔

مناقب وفضائل[ترمیم]

اوپر مذکور ہوا کہ وہ تمام زندگی مجرد رہے اور 84 برس پر محیط اس طویل ترین مدت کا بیشتر حصہ مسجد میں درس و تدریس اور عبادت و ریاضت میں گزارا، ابنِ سعد کی روایت ہے کہ ساٹھ سال تک مسلسل مسجد جعفی میں اذان دی[18] خوف وخشیت الہی اس درجہ غالب تھا کہ زندگی بھر نہ تو کبھی ہنسے اور نہ مسکرائے، حجاج بن حمزہ بیان کرتے ہیں کہ: مارأیت حسینا الجعفی ضاحکاً ولا متبسما ولا سمعت منہ کلمۃ رکن فیھا الی الدنیا [19] میں نے حسین الجعفی کو کبھی ہنستے اور مسکراتے نہیں دیکھا اور نہ کوئی ایسی بات ان کے منہ سے سُنی جس میں دنیا کی طرف کوئی میلان ظاہر ہو۔ ایک مرتبہ خلیفۂ وقت ہارون الرشید سے مکہ میں ملاقات ہو گئی،خلیفہ نے سلام عرض کیا،جب انھیں علم ہوا کہ یہ خلیفہ وقت ہیں تو بڑی جامع نصیحت فرمائی: یاحسن الوجہ انت مسٔول عن ھذاالخلق کلھم [20] اے حسین چہرے والے تو اس ساری خلق خدا کا ذمہ دار ہے خلیفہ یہ سُن کر رونے لگا۔

علما کی رائے[ترمیم]

تمام فضلا و علما نے ان کے جلالتِ علم وعمل کا برملا اعتراف کیا ہے، امام احمد کا ارشاد ہے کہ میں نے کوفہ میں حسین الجعفی سے بڑا کوئی فاضل نہیں دیکھا، وہ تو بالکل راہب تھے۔ [21] ابو مسعود الرازی کہتے ہیں "افضل من رایت الجفری وحسین الجعفی [22]احمد العلی کا بیان ہے: وکان صالحاً لم اررجلاً قط افضل منہ وکان صحیح الکتاب [23] وہ نیک انسان تھے، میں نے ان سے افضل کوئی انسان نہیں دیکھا وہ صحیح الکتاب تھے۔ سفیان ثوری کا قول ہے"ھذاراھب"

حلیہ[ترمیم]

نہایت حسین اور خوبرو انسان تھے۔ [24]

وفات[ترمیم]

خلیفہ ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں ذی القعدہ 203ھ میں بمقام کوفہ انتقال فرمایا[25]اس وقت 84 سال کی عمر تھی [26]سنہ وفات کے متعلق 204ھ کا بھی قول ملتا ہے،لیکن امام بخاری، ابنِ سعد، ابن قانع، مطین اور ابنِ حبان نے اول الذکر ہی کو بالجزم صحیح ترین قرار دیا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب التہذیب:2/357،وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال :84)
  2. (اللباب فی الانساب:2/231)
  3. (طبقات ابن سعد:6/276)
  4. (کتاب الانساب:131)
  5. (طبقات ابن سعد:6/277)
  6. (خلاصہ تذہیب،تہذیب الکمال:84،وتذکرۃ الحفاظ:1/320)
  7. (ایضاً)
  8. (طبقات ابن سعد:6/76)
  9. (تہذیب التہذیب:2/358)
  10. (طبقات ابن سعد:6/227،وخلاصہ تذہیب التہذیب:1/84)
  11. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:84، وتہذیب التہذیب:2/358)
  12. (کتاب الانساب:131 ومرأۃ الحنان :2/8)
  13. (تہذیب التہذیب:2/258)
  14. (تذکرۃ الحفاظ:1/320)
  15. (صفوۃ الصفوۃ:3/104)
  16. (العبرنی خبر من غبر:1/339)
  17. (ایضاً:339)
  18. (طبقات ابن سعد:6/276)
  19. (تہذیب التہذیب:2/358)
  20. (کتاب صفۃ الصفوۃ:3/105)
  21. (مراۃ الجنان:2/8 والعبر،:1/341،وخلاصہ تذہیب:84 وصفۃ الصفوۃ :3/104)
  22. (تہذیب التہذیب:2/358)
  23. (تذکرۃ الحفاظ:1/320)
  24. (تہذیب التہذیب:2/358)
  25. (طبقات ابن سعد:6/277،وصفۃ الصفوۃ:3/105)
  26. (تذکرۃ الحفاظ:1/320)