سلمان فارسی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(حضرت سلمان فارسی سے رجوع مکرر)
سلمان فارسی
(عربی میں: سَلْمَان اَلْفَارِسِيّ‏ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائشی نام مابہ بن یوذخشان
پیدائش سنہ 568ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کازرون   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 657ء (88–89 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدائن   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ساسانی سلطنت
خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت ابو عبد اللہ
لقب سلمان الخیر
سلمان ابن الاسلام
عملی زندگی
طبقہ صحابہ
نسب فارسی
نمایاں شاگرد انس بن مالک   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ واعظ ،  عسکری قائد ،  مترجم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان پہلوی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پہلوی زبان ،  کلاسیکی عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں تمام بعد ایک کے
فتح اسلامی فارس

سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ(53ق.ھ / 35ھ)جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کا تعلق فارس (ایران ) سے تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایران کے مشہور شہر اصفہان کے ایک گائوں روزبہ میں پیدا ہوئے۔ اسلام لانے سے قبل آپ ؓ کا نام مابہ تھا۔ آپ ؓ کے والد کا نام بوذخشان تھا۔آپ ؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے زرتشت مذہب ( مجوسی) کے پیروکار تھے ، لیکن حق کی تلاش میں فارس سے نکلے، اپنا آبائی مذہب مجوسیت چھوڑ کر عیسائیت اختیار کی اور بالآخر نبی اکرم ؐ کی بارگاہ میں پہنچ کر اسلام قبول کر لیا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کی زندگی حق کی تلاش اور جستجو سے عبارت تھی۔آپ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بہت دلچسپ اور اثر انگیز ہے۔ آپ کا تعلق مجوسیت سے تھا لیکن آپ کے دل میں ایک چنگاری روشن تھی جو انھیں بے چین رکھتی تھی اور وہ سوچتے تھے کہ یہ آگ جسے ہم خود روشن کرتے ہیں یہ ہمارا خدا تو کبھی نہیں ہو سکتی۔آپ کے والد بوذخشان ایک بڑے آتش کدے کے مہتمم بھی تھے۔ ایک دن انھوں نے حضرت سلمان سے کہا کہ آج میں کھیتوں میں نہیں جا سکوں گا اس لیے آج کھیتوں کی دیکھ بھال تمھارے ذمے ہے۔ حضرت سلمان ؓ نے ہامی بھر لی اور کھیتوں کی طرف چل دیے، راستے میں عیسائیوں کا ایک گرجا نظر آیا۔ آپ وہاں چلے گئے، ان کی عبادت کے طریقے سے بہت متاثر ہوئے اور اسی دن اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرلی۔ ان کے والد کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھیں گھر میں قید کر لیا اور ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دیں، لیکن آپ کسی نہ کسی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک قافلے کے ساتھ شامل ہوکر شام پہنچ گئے۔لیکن حق کی تلاش کا یہ سفر یہیں نہیں رکھا، آپ ؓ حق کی تلاش میں قریہ قریہ، ملکوں ملکوں بھٹکتے رہے، شام سے موصل(عراق)، وہاں سے نصیبین (ترکی) اور پھر عموریہ پہنچے۔عموریہ پہنچ کر آپؓ وہاں کے بڑے پادری کی خدمت میں رہنے لگے۔ اس پادری کا جب وقتِ اجل آیا تو اس نے حضرت سلمان ؓ کو بلا یا کہا کہ ’’ میرے بیٹے! اب میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں۔اب نبی آخرالزمان کے ظہور کا وقت قریب آ پہنچا ہے، جو صحرائے عرب سے اٹھ کر دینِ حنیف کو زندہ کرے گا اور اس زمین کی طرف ہجرت کرے گا جہاں کھجوروں کی کثرت ہوگی۔اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔وہ ہدیہ قبول کرے گا لیکن صدقہ کو اپنے لیے حرام سمجھے گا۔ تم جب اس نبی پاک کا زمانہ پائو تو اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا۔‘‘ اس مردِ درویش کے انتقال کے بعد حضرت سلمان اسی جستجو میں رہنے لگے کہ کوئی قافلہ حجاز کی طرف جا رہا ہو تو اس میں شامل ہو جائیں۔ آپؓ کی جستجو رنگ لائی اور قبیلہ بنو کلب کا ایک قافلہ عموریہ سے گذرا۔ آپ اس قافلے میں شامل ہو گئے لیکن راستے میں قافلے والوں کی نیت خراب ہو گئی او رجب یہ قافلہ وادی القریٰ پہنچا تو انھوں نے حضرت سلمانؓ کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔آپ نے اس کو اپنی قسمت سمجھ لیا لیکن اس کے باجود تلاشِ حق کی جو چنگاری آپ کے سینے میں روشن تھی ، وہ موجود رہی۔ ایک دن اس یہودی کا یک رشتہ دار جو یثرب( مدینہ) کا رہنے والا تھا، وہ اس سے ملنے آیا۔ اس کو ایک غلام کی ضرورت تھی۔ اس نے حضرت سلمان ؓ کے مالک سے انھیں خرید لیا اور یثرب لے آیا۔ یہاں جب آپ ؓ نے کھجور کے درختوں کے جھنڈ دیکھے تو آپ سمجھ گئے کہ اب تلاش ختم ہونے والی ہے۔ایک دن آپ ایک درخت پر چڑھے کام کر رہے تھے کہ ایک یہودی شہر سے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا۔

ایک دن آپ ایک درخت پر چڑھے کام کر رہے تھے کہ ایک یہودی شہر سے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا’’ خدا بنو قیلہ کو غارت کرے، سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس جا رہے ہیں جو مکہ سے آیا ہے اور خود کو نبی کہتا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہیں حضرت سلمان ؓ بد حواس ہوکر درخت سے اتر آئے اور اس شخص سے کہنے لگے کہ ’’ کیا کہا تم نے؟ ذرا پھر سے تو کہنا۔‘‘ ان کا آقا بہت غصہ ہوا اور ان ایک تھپڑ ما ر کر کہا کہ تم جاکر اپنا کام کرو۔ حضرت سلمان اس وقت تو خاموش ہو گئے لیکن ایک دن آپ ؓ کچھ کھانے کی چیزیں لے کر پیارے نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ چیزیں صدقہ کے طور پر پیارے نبی ﷺ کو پیش کر دیں۔ پیارے نبی ﷺ نے وہ چیزیں اپنے صحابہ میں تقسیم کر دیں لیکن خود کچھ نہ لیا۔ اگلے دن دوبارہ کچھ چیزیں لے حاضر ہو گئے اور اب انھوں کھانے پینے کی چیزیں بطور ہدیہ پیارے نبی کی خدمت میں پیش کر دیں۔ پیارے نبی ؐ نے خود میں وہ چیزیں کھائیں اور صحابہ ؓ میں بھی تقسیم کر دیں۔ حضرت سلمان ؓ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیوں کہ آخری نبی کی بتائی دو نشانیاں تو پوری ہوگئیں تھیں اب آخری نشانی یعنی مہر نبوت کو دیکھنا رہ گیا تھا۔چند دنوں بعد آپؓ کو پتا چلا کہ نبی اکرم ﷺ ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد تشریف لے گئے ہیں۔ حضرت سلمان ؓ بھی وہاں پہنچ گئے اور پیارے نبی ﷺ کو سلام کرکے آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوئے کہ موقع ملے تو مہر نبوت کا مشاہدہ کرلوں۔ پیارے نبی ؐ نے آپ ؓ کی کیفیت کو بھانپ لیا اور اپنی پشت سے کپڑا سرکا دیا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے کانپتے ہونٹوں سے مہر نبوت کو بوسہ دیا اور کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ ایمان قبول کرنے کے بعد نبی اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر رہنے لگے۔ پیارے نبی ؐ نے آپؓ کو یہودی کی غلامی سے نجات دلائی۔ اس کے بعد تو آپؓ سفر و حضر میں پیارے نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ آپ ؓ بہت جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ کے مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم ؐ نے غزوہ احزاب ( جنگ خندق) میں آپ ؓ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خندق کھودی اور دفاعی جنگ لڑی۔جنگ خندق کے موقع پر جب خندق کھودی جا رہی تھی ، مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں بحث چھِڑ گئی کہ سلمان ؓ کون ہیں۔ مہاجرین کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہیں جب کہ انصار کا کہنا تھا کہ سلمان میں سے ہیں۔ اسی دوران پیارے نبی ؐ تشریف لے آئے۔ آپ ؓ کو جب ساری بات کا علم ہوا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ سلمان میرے اہل بیت میں سے ہیں۔آپؓہر وقت عشق نبی میں غرق رہتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انھیں جہاد کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کے عشق رسول اور شوق جہاد کو دیکھ کر پیارے نبی ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے۔ علی ؓ ، عمارؓ اور سلمان ؓ کا۔ایک موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سلمان علم سے لبریز ہے۔ آپ ؓ بہت قناعت پسند، درویش صفت انسان تھے۔ دنیا داری سے دور بھاگتے تھے۔حضرت عمر بن ؓخطاب نے ان کو مدائن کا گورنر مقرر کیا۔اس کی جو تنخواہ ملتی وہ غریبوں ، مسکینوں میں تقسیم کردیتے اور خود چٹائی بُن کر کماتے، اس کا بھی ایک تہائی خیرات کردیتے تھے۔ سفر ہمیشہ بغیر زین کے گدھے پر سوا ہوکر کرتے۔ ایک دفعہ اسی طرح آپؓ گدھے پر بغیر زین کے سفر کر رہے تھے اور پیوند لگا کرتا پہنا ہوا تھا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھ لیا کہ ’’ اے امیر ! یہ آپ ؓنے کیا حالت بنائی ہوئی ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ’’ بھائی آرام و راحت تو صرف آخرت کے لیے ہے۔‘‘ آپ ؓ نے کبھی گھر نہیں بنایا، ہمیشہ کسی بھی درخت یا دیوار کے سائے میں رات گزار دیتے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ میں آپ کو گھر بنا دیتا ہوں، لیکن آپ نے انکار کر دیا۔ جب آپ نے مسلسل انکار کیا تو اس شخص نے کہا کہ اچھا میں آپ کی خواہش کے مطابق مکان بنا دیتا ہوں کہ آپ کا سر اس کی چھت سے جا لگے اور اگر لیٹیں تو پائوں دیوار سے جا ٹکرائیں۔ اس کے بعد آپ نے ہامی بھر لی اور اس شخص نے ان کو ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنا دی۔ جب آپ کا آخری وقت آیا تو آپ ؓ کا کل اثاثہ ایک بوسیدہ کمبل، ایک بڑا پیالہ، ایک لوٹا اور تسلہ تھا لیکن زہد تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ انتقال سے پہلے حضرت حضرت سعد بن ابی وقاس ؓ آپ ؓ کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ حضرت سلمان ؓ زارو قطار رو رہے ہیں۔ سبب پوچھنے پر فرمایا کہ ’’سرورِ کائنات ؐ نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ دولتِ دنیا جمع نہ کرنا اور میرے پاس اس دنیا کا اس قدر سامان جمع ہو گیا ہے، ڈرتا ہوں کہ کہیں اس اسبابِ دنیا کی وجہ سے آخرت میں آقا ؐ کے دیدار سے محروم نہ رہ جائوں۔آپؓ کا انتقال 35 ہجری میں حضرت عثمان غنی ؓ کے دور خلافت میں مدائن میں ہوا۔

نام و نسب[ترمیم]

نسبی تعلق اصفہان کے آب الملک کے خاندان سے تھا، مجوسی نام مابہ تھا، اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا اور بارگاہِ نبوت سے سلمان الخیرلقب ملا، ابو عبد اللہ، کنیت ہے، سلسلۂ نسب یہ ہے: مابہ ابن بوذخشان بن مورسلان بن یہوذان بن فیروز ابن سہرک۔[2] [3]

قبل اسلام[ترمیم]

حضرت سلمان کے والد اصفہان کے جی نامی قریہ کے باشندہ اور وہاں کے زمیندار و کاشتکار تھے ، ان کو حضرت سلمان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کو لڑکیوں کی طرح گھر کی چار دیواری سے نکلنے نہ دیتے تھے ، آتش کدہ کی دیکھ بھال ان ہی کے متعلق رکھی تھی؛ چونکہ مذہبی جذبہ سلمان میں ابتدا سے تھا، اس لیے جب تک آتش پرست رہے اس وقت تک آتش پرستی میں سخت غلو رہا اور نہایت سخت مجاہدات کیے ، شب و روز آگ کی نگرانی میں مشغول رہتے تھے ؛ حتی کہ ان کا شمار ان پجاریوں میں ہو گیا تھا جو کسی وقت آگ کو بجھنے نہ دیتے تھے۔ [4]

مجوسیت سے نفرت اور عیسویت کا میلان[ترمیم]

زمین ہی ان کے باپ کے معاش کا ذریعہ تھی؛ اس لیے زراعت کی نگرانی وہ بذاتِ خود کرتا تھا، ایک دن وہ گھر کی مرمت میں مشغولیت کی وجہ سے کھیت پرخود نہ جاسکا اور اس کی دیکھ بھال کے لیے سلمان کو بھیج دیا، ان کو رستہ میں ایک گرجا ملا، اس وقت اس میں عبادت ہو رہی تھی، نماز کی آوازیں سن کر دیکھنے کے لیے گرجے میں چلے گئے، نماز کے نظارہ سے ان کے دل پرخاص اثر ہوا اور مزید حالات کی جستجو ہوئی، عیسائیوں کا طریقہ عبادت اس قدر بھایا کہ بے ساختہ زبان سے نکل آیا کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے؛ چنانچہ کھیتوں کا خیال چھوڑ کے اسی میں محو ہو گئے، عبادت ختم ہونے کے بعد عیسائیوں سے پوچھا کہ اس مذہب کا سرچشمہ کہاں ہے؛ انھوں نے کہاکہ شام میں، پتہ پوچھ کر گھر واپس آئے، باپ نے پوچھا کہ اب تک کہاں رہے؟ جواب دیا کہ کچھ لوگ گرجے میں عبادت کر رہے تھے، مجھ کوان کا طریقہ ایسا بھلا معلوم ہوا کہ غروب آفتاب تک وہیں رہا، باپ نے کہا: وہ مذہب تمھارے مذہب کا پاسنگ بھی نہیں، جواب دیا، بخدا! وہ مذہب ہمارے مذہب سے کہیں برتر ہے، اس جواب سے ان کے باپ کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں یہ خیال تبدیل مذہب کی صورت میں نہ ظاہر ہو، اس لیے بیڑیاں پہنا کر مقید کر دیا؛ مگران کے دل میں تلاشِ حق کی تڑپ تھی، اس لیے عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب شام کے تاجر آئیں تو مجھ کو اطلاع دینا؛ چنانچہ جب وہ آئے تو اُن کو خبر کر دی؛ انھوں نے کہا کہ جب وہ واپس ہوں تو مجھے بتلانا؛ چنانچہ جب کاروانِ تجارت واپس لوٹنے لگا، ان کو خبر کی گئی، یہ بیڑیوں کی قید سے نکل کران کے ساتھ ہو گئے، شام پہنچ کر دریافت کیا کہ یہاں سب سے بڑا مذہبی شخص کون ہے؟ لوگوں نے وہاں کے پادری کا پتہ دیا، اس سے جاکر کہا کہ مجھ کو تمھارا مذہب بہت پسند ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمھارے پاس رہ کر مذہبی تعلیم حاصل کروں اور مجھ کو اس مذہب میں داخل کرو۔ [5]

تبدیل مذہب[ترمیم]

چنانچہ وہ مجوسیت کے آتش کدے سے نکل کر آسمانی باپ کی بادشاہت کی پناہ میں آگئے؛ مگر یہ پادری بہت بدکردار اور بداخلاق تھا، لوگوں کو صدقہ کرنے کی تلقین کرتا اور جب اس کے قبضہ میں آجاتا تو فقراء اور مساکین کو دینے کی بجائے خود لے لیتا؛ حتی کہ سونے اور چاندی کے سات مٹکے اس کے پاس جمع ہو گئے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اس کی حرص اور لالچ کو دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے تھے؛ مگر زبان سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اتفاق سے وہ مر گیا، عیسائی شان وشوکت سے اس کی تجہیز و تکفین کرنے کوجمع ہو گئے، اس وقت انھوں نے سارا اعمالنامہ ان لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا؛ انھوں نے ان کو لے جاکر اس کے اندوختہ کے پاس کھڑا کر دیا، تلاشی لی گئی تو واقعی سات مٹکے سونے چاندی سے بھرے ہوئے برآمد ہوئے، عیسائیوں نے اس کی سزا میں دفن کرنے کی بجائے اس کی نعش کو صلیب پر لٹکا کر سنگ سار کیا، اس کی جگہ دوسرا پادری مقرر ہوا، یہ بڑا عابد وزاہد اور تارک الدنیا تھا، شب و روز عبادتِ الہٰی میں مشغول رہتا، سلمان اس سے بہت مانوس ہو گئے اور دلی محبت کرنے لگے اور آخر تک اس کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے، جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تواس سے کہا کہ میں آپ کے پاس عرصہ تک نہایت لطف ومحبت کے ساتھ رہا، اب آپ کا وقت آخر ہے، اس لیے آئندہ کے لیے مجھ کوکیا ہدایت ہوتی ہے، اس نے کہا کہ میرے علم میں کوئی ایسا عیسائی نہیں ہے جو مذہب عیسوی کا سچا پیروہو، سچے لوگ مر کھپ گئے اور موجودہ عیسائیوں نے مذہب کوبہت کچھ بدل دیا ہے؛ بلکہ بہت سے اصول توسرے سے چھوڑ ہی دیے ہیں، ہاں موصل میں فلاں شخص ہے جو دین حق کا سچا پیرو ہے تم جاکر اس سے ملاقات کرنا۔ [6]

موصل کا سفر[ترمیم]

اس پادری کی موت کے بعد حق کی جستجو میں وہ موصل پہنچے اور تلاش کرکے اس سے ملے اور اپنا واقعہ بیان کیا کہ فلاں پادری نے مجھ کو ہدایت کی تھی کہ آپ کے یہاں ابھی تک حق کا سرچشمہ اُبلتا ہے اور میں آپ سے مل کر اپنی تشنگی فرو کرنا چاہتا ہوں، اس نے ان کو ٹھہرالیا پہلے پادری کی رائے کے مطابق یہ پادری درحقیقت بڑا متقی اور پاکباز تھا، اس لیے انھوں نے اس کے پاس مستقل قیام کر لیا؛ مگر تھوڑے دنوں کے بعد اس کا وقت بھی آگیا، آئندہ کے متعلق حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اس سے بھی وصیت کی خواہش کی، اس نے نصیبین میں ایک شخص کا پتہ بتایا۔ ،[7]

نصیبین کا سفر[ترمیم]

چنانچہ اس کی موت کے بعد آپ نصیبین پہنچے اور اس پادری سے ملکر دوسرے پادری کی وصیت بتلائی ، یہ اسقف بھی پہلے دونوں اسقفوں کی طرح بڑا عابد اور زاہد تھا، سلمان یہاں مقیم ہو کر اس سے روحانی تسکین حاصل کرنے لگے، ابھی کچھ ہی دن اس کی صحبت سے فیض اُٹھایا تھا کہ اس کا وقت بھی آخر ہو گیا، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے گذشتہ اسقفوں کی طرح اس سے بھی آئندہ کے متعلق مشورہ طلب کیا، اس نے عموریہ میں گوہر مقصود کا پتہ دیا ۔ [8]

عموریہ کا سفر[ترمیم]

چنانچہ اس کی موت کے بعد انھوں نے عموریہ کا سفر کیا اور وہاں کے اسقف سے مل کر پیام سنایا اور اس کے پاس مقیم ہو گئے، کچھ بکریاں خرید لیں، اس سے مادی غذا حاصل کرتے تھے اور صبر و شکر کے ساتھ روحانی غذا اسقف سے حاصل کرنے لگے، جب اس کا پیمانۂ حیات بھی لبریز ہو گیا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنی سرگزشت سنائی کہ اتنے مراتب طے کرتا ہوا آپ کے پاس پہنچا تھا، آپ بھی آخرت کا سفر کرنے کو آمادہ ہیں، اس لیے میرا کوئی سامان کرتے جائیے، اس نے کہا: بیٹا میں تمھارے لیے کیا سامان کروں؟ آج دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی نہیں ہے جس سے ملنے کا میں تمھیں مشورہ دوں؛ البتہ اب اس نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جو ریگستانِ عرب سے اُٹھ کر دینِ ابراہیم علیہ السلام کو زندہ کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرے گا، اس کے علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کرے گا؛ لیکن صدقہ کو اپنے لیے حرام سمجھے گا، اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی؛ اگر تم اس سے مل سکو تو ضرور ملنا۔ [9]

اسقف کی بشارت اور عرب کا سفر[ترمیم]

اس پادری کے مرنے کے بعد کچھ عرصہ تک عموریہ میں رہے، کچھ دنوں بعد بنو کلب کے تاجر ادھر سے گذرے، آپ نے ان سے کہا کہ اگر تم مجھ کو عرب پہنچا دو تو میں اپنی گائیں اور بکریاں تمھاری نذر کر دوں گا، وہ لوگ تیار ہو گئے اور زبانِ حال سے یہ شعر پڑھتے ہوئے ساتھ ہولیے۔

؎ چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک راہرو کے ساتھ space
space-پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

[10]

غلامی[ترمیم]

لیکن ان عربوں نے وادی القریٰ میں پہنچ کر ان کو دھوکا دیا اور ایک یہودی کے ہاتھ غلام بنا کر فروخت کر ڈالا، کھجور کے درخت نظر آئے تو آس بندھی کہ شاید یہی وہ منزلِ مقصود ہے جس کا اسقف نے پتہ دیا تھا، تھوڑے دن قیام کیا تو یہ اُمید بھی منقطع ہو گئی، آقا کا چچا زاد بھائی مدینہ سے ملنے آیا، اس نے سلمان رضی اللہ عنہ کو اس کے ہاتھ بیچ دیا۔ [11]

غلامی اور مدینہ کا سفر[ترمیم]

وہ اپنے ساتھ ان کو مدینہ لے چلا اور سلمان غلامی در غلامی کی رسوائی سہتے ہوئے مدینہ پہنچے؛ مگر ہاتفِ غیب تسکین دے رہا تھا کہ یہ غلامی نہیں ہے ؎

اسی سے ہوگی تیرے غمکدہ کی آبادی

تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

درحقیقت اس غلامی پر جو مقصود دوعالم کے آستانے تک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے ہزاروں آزادیاں قربان ہیں، جوں جوں محبوب کی منزل قریب آتی جاتی تھی کشش بڑھتی جاتی تھی اور آثار وعلامات بتاتے تھے کہ شاہد مقصود کی جلوہ گاہ یہی ہے، اب ان کوپورا یقین ہو گیا اور دیدار جمال کی آرزو میں یہاں دن کاٹنے لگے؛ اس وقت آفتاب رسالت مکہ پرتوافگن ہو چکا تھا؛ لیکن جوروستم کے بادلوں میں چھپا تھا، سلمان رضی اللہ عنہ کو آقا (مالک) کی خدمت سے اتنا وقت نہ ملتا کہ خود اس کا پتہ لگاتے، آخر انتظار کرتے کرتے وہ روزِ مسعود بھی آگیا کہ مکہ کا آفتاب عالم تاب مدینہ کے افق پر طلوع ہوا، حرمان نصیب سلمان کی شب ہجر تمام ہوئی اور صبح اُمید کا اُجالا پھیلا، یعنی سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، سلمان کھجور کے درخت پرچڑھے ہوئے کچھ درست کر رہے تھے اور آقا(مالک) نیچے بیٹھا تھا کہ اس کے چچازاد بھائی نے آکر کہا کہ خدا بنی قیلہ کو غارت کرے، سب کے سب قباء میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں، جو مکہ سے آیا ہے، یہ لوگ اس کو نبی سمجھتے ہیں، سلمان کے کانوں تک اس خبرکا پہنچنا تھا کہ یارائے ضبط باقی نہ رہا، صبرو شکیب کا دامن چھوٹ گیا، بدن میں سنسناہٹ پیدا ہو گئی اور قریب تھا کہ کھجور کے درخت سے فرشِ زمین پرآجائیں؛ اسی مدہوشی کے عالم میں جلد ازجلد درخت سے نیچے اُترے اور بدحواسی میں بے تحاشا پوچھنے لگے، تم کیا کہتے ہو؟ آقا نے اس سوال پر گھونسا مار کرڈانٹا کہ تم کو اس سے کیا غرض، تم اپنا کام کرو، اس وقت سلمان خاموش ہو گئے؛ لیکن اب صبر کسے تھا کھانے کی کچھ چیزیں پاس تھیں ان کے لے کر دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں اور کچھ غریب الدیار اور اہلِ حاجت آپ کے ساتھ ہیں، میرے پاس یہ چیزیں صدقہ کے لیے رکھی تھیں، آپ لوگوں سے زیادہ ان کے مستحق کون ہو سکتے ہیں؟ اس کو قبول فرمائیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو کھانے کا حکم دیا؛ مگرخود نوش نہ فرمایا؛ اس طرح سے سلمان رضی اللہ عنہ کو نبوت کی ایک علامت کا مشاہدہ ہو گیا کہ نبی صدقہ نہیں قبول کرتا، دوسرے دن پھر ہدیہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کل آپ نے صدقہ کی چیزیں نہیں نوش فرمائی تھیں، آج یہ ہدیہ قبول فرمائیے، آپ نے قبول فرمایا، خود بھی نوش کیا اور دوسروں کوبھی دیا، اس طرح سے دوسری نشانی یعنی مہر نبوت کی بھی زیارت کی اور باچشم پرنم آپ کی طرف بوسہ دینے کو جھکے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سامنے آؤ! وہ سامنے آئے اور اپنی ساری سرگزشت سنائی؛ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دلچسپ داستان اپنے تمام اصحاب کو سنوائی۔ [12]

اسلام[ترمیم]

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جب اپنا گوہر مقصود پاچکے تو اس دولت کو اپنے دل کے خزانے میں رکھ کر آقا کے گھر واپس آئے، اتنے مرحلوں کے بعد وہ دین سے ہم آغوش ہوئے۔

آزادی[ترمیم]

غلامی کی مشغولیت کے باعث فرائضِ مذہبی ادا نہ کرسکتے تھے؛ اسی وجہ سے غزوۂ بدر و غزوہ اُحد میں شریک نہ ہو سکے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے آقا کو معاوضہ دے کر آزادی حاصل کرلو، تین سو کھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ سونے پرمعاملہ طے ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے سفارش فرمائی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو،سب نے حسب حیثیت کھجور کے درخت دیے، اس طریقہ سے تین سودرخت ان کومل گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد سے ان کو بٹھایا اور زمین وغیرہ ہموار کرکے ایک شرط پوری کردی، اب سونے کی ادائیگی باقی رہ گئی اس کا سامان بھی خدا نے کر دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی غزوہ میں مرغی کے بیضہ کے برابر سونا مل گیا، آپ نے سلمان کودے دیا، یہ وزن میں ٹھیک چالیس اُوقیہ تھا، اس سے گلو خلاصی حاصل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگے [13] [14]

مناقب[ترمیم]

ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کر لیں گے [15] غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی کے موقع پر سلمان سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ اس پر مہاجرین نے کہا کہ " سلمان ہمارا ہے" انصار نے یہ سنا تو کہا "سلمان ہمارا ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے " اس لیے سلمان کو مہاجرین یا انصار کی بجائے اہل بیت میں شمار کیا گيا۔


مواخاۃ[ترمیم]

غلامی سے آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مستقل اقامت اختیار کی، اس وقت بالکل غریب الدیار تھے، کوئی شناسا نہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی مہاجرین کی طرح ان سے اور ابودرداء سے مواخاۃ (مواخاۃ کے معنی بھائی چارہ کے ہیں)کرا دی۔[16]

غزوات[ترمیم]

بدر و احد کی لڑائیاں ان کی غلامی کے زمانہ میں ختم ہو چکی تھیں، آزادی کے بعد پہلا غزوۂ خندق پیش آیا، اس میں انھوں نے اپنے حسن تدبیر سے دونوں لڑائیوں کی تلافی کردی، غزوۂ خندق میں تمام عرب کا ٹڈی دل مسلمانوں کے خلاف امنڈ آیا تھا کہ ان کا کامل استیصال کر دے، حملہ خود مدینہ پر تھا، جس کے چاروں طرف نہ قلعہ تھا، نہ فصیل تھی اور مقابلہ بھی سخت تھا، ایک طفر کفار کی تعداد ریگستانِ عرب کے ذروں کے برابر تھی اور دوسری طرف مٹھی بھرمسلمان تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے مشورہ کیا، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ چونکہ ایران کی صف آرائیاں دیکھے ہوئے تھے، اس لیے جنگی اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے؛ چنانچہ انھوں نے مشورہ دیا کہ اس انبوہ کا کھلے میدان مقابلہ کرنا اچھا نہیں ہے؛ بلکہ مدینہ کے چاروں طرف خندقیں کھود کر شہر کو محفوظ کردینا چاہیے، یہ تدبیر مسلمانوں کوبہت پسند آئی اور اسی پرعمل کیا گیا۔ [17] خندق کی کھودائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی بہ نفسِ نفیس شریک ہوئے تھے اور مٹی ڈھوتے ڈھوتے شکم مبارک مٹی سے اٹ گیا تھا اور رجزیہ اشعار زبانِ مبارک پرجاری تھے [18] ذیقعدہ سنہ میں طرفین میں جنگ شروع ہوئی، عربوں کواس طریقۂ جنگ سے واقفیت نہ تھی وہ آئے توتھے کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے؛ مگر یہاں آکر دیکھا کہ ان کے اور مدینہ کے بیچ میں خندق کی فصیل حائل ہے، وہ 22/ دن تک مسلسل محاصرہ کیے پڑے رہے؛ مگر شہر تک پہنچنا ان کو نصیب نہ ہوا اور آخرکار ناکام واپس پھر گئے، غزوۂ خندق کے علاوہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تمام لڑائیوں میں مسلمانوں کے دوش بدوش شریک رہے [19] اور غزوۂ خندق کے بعد سے کوئی عزوہ ایسا نہیں ہوا جس میں شریک ہوکر دادِ شجاعت نہ دی ہو۔ [20] [21]

عہدِ صدیقی اور عراق[ترمیم]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ عرصہ تک مدینہ میں رہے، عہد صدیقی کے آخر یا عہد فاروقی کی ابتدا میں انھوں نے عراق کی اور ان کے اسلامی بھائی ابودرداء رضی اللہ عنہ نے شام کی سکونت اختیار کرلی؛ یہاں کی اقامت کے بعد ابودرداء رضی اللہ عنہ کوخدا نے مال اور اولاد کی حیثیت سے بہت نوازا؛ انھوں نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ تم سے جدا ہونے کے بعد خدا نے مجھ کو مال ودولت اور اہل و عیال سے سر فراز کیا اور ارضِ مقدس کی سکونت کا شرف بخشا، انھوں نے جواب دیا کہ یاد رکھو! مال ودولت اور اولاد کی کثرت میں کوئی خیر نہیں ہے؛ بلکہ خیر اس میں ہے کہ تمھارا حلم زیادہ ہو اور تمھارا علم تم کونفع پہنچائے، محض ارضِ مقدس کا قیام کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ تمھارا عمل اس قابل نہ ہو اور عمل بھی اس طرح کا ہو کہ گویا خدا تم کودیکھ رہا ہے اور تم اپنے کو مردہ سمجھو۔ [22] [23]

عہد فاروقی[ترمیم]

ایران کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور چونکہ خود ایرانی تھے اس لیے فتوحات میں بہت قیمتی امداد پہنچائی مگر اصول اسلام کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا , ایک ایرانی قصر کے محاصرہ کے وقت جارحانہ حملے کے پہلے محصورین کو سمجھا دیا کہ میں بھی تمھارا ہم قوم تھا؛ لیکن خدا نے مجھ کواسلام سے نوازا، تم لوگ عربوں کی اطاعت گزاری سے کسی طرح نہیں بچ سکتے، تم کو سمجھائے دیتا ہوں کہ اگر تم اسلام لا کر ہجرت کرکے ہم میں مل جاؤ توتم کو اہلِ عرب کے حقوق دیے جائیں گے اور جو قانون ان کے لیے ہے وہی تم پرجاری کیا جائے گا اور اگر اسلام نہیں قبول کرتے اور صرف جزیہ منظور کرتے ہو تو ذمیوں کے حقوق تم کو ملیں گے اور ان کا قانون تم پر نافذ کیا جائے گا، تین دن تک برابر تبلیغ کا فرض ادا کرتے رہے، جب کوئی اثر نہ ہوا تو حملہ کا حکم دے دیا اور مسلمانوں نے قصرِ مذکور بزورِ شمشیر فتح کر لیا۔ [24] فتح جلولا میں بھی شریک تھے اور وہاں مشک کی ایک تھیلی ان کے ہاتھ آئی تھی [25] جس کواپنی زندگی کے آخری لمحات میں کام میں لائے۔ [26]

گورنری[ترمیم]

حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے عہد خلافت میں مدائن کی گورنری پر سرفراز ہوئے، چونکہ سلمان فارسی مقربین بارگاہِ نبوی میں سے تھے؛ اسی لیے عمر ان کا بہت احترام کرتے تھے، ایک دفعہ یہ عمر کے پاس گئے،اس وقت آپ ایک گدے پرٹیک لگائے بیٹھے تھے، سلمان کو دیکھ کر گدا ان کی طرف بڑھا دیا۔[27] [28]

علالت[ترمیم]

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بیمار پڑے،حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عیادت کوگئے تو رونے لگے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو عبد اللہ رونے کا کون سا مقام ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم سے خوش خوش دنیا سے اُٹھے، تم ان سے خوضِ کوثر پر ملو گے، بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے ملاقات ہو گی، کہا: خدا کی قسم میں موت سے نہیں گھبراتا اور نہ دنیا کی حرض باقی ہے، رونا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے عہد کیا تھا کہ ہمارا دنیاوی سازو سامان ایک مسافر کے زادِ راہ سے زیادہ نہ ہو؛ حالانکہ میرے گرد اس قدر سانپ (اسباب) جمع ہیں، سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کل سامان جس کوسانپ سے تعبیر کیا تھا، ایک بڑے پیالے، ایک لگن اور ایک تسلہ سے زیادہ نہ تھا، اس کے بعد سعد رضی اللہ عنہ نے خواہش کی کہ مجھ کو کچھ نصیحت کیجئے، فرمایا: کسی کام کا قصد کرتے وقت، فیصلہ کرتے وقت اور تقسیم کرتے وقت خدا کو یاد رکھا کرو [29] اس بیماری کے دوران میں اور احباب نے بھی نصیحت اور وصیت کی خواہش کی، فرمایا: تم میں سے جس سے ہو سکے اس کی کوشش کرے کہ وہ حج، عمرہ، جہاد یا قرآن پڑھتے ہوئے جان دے دے اور فسق و فجور اور خیانت کی حالت میں نہ مرے۔ [30]وقت آخر آیا تو اپنی بیوی سے وہی مشک کی تھیلی منگائی اور اپنے ہاتھ سے پانی میں گھول کر اپنے چاروں طرف چھڑکوایا اور سب کو اپنے پاس سے ہٹادیا، لوگ تنہا چھوڑ کر ہٹ گئے، تھوڑی دیر کے بعد پھر گئے تو دیکھا کہ مرغ روح قفسِ خاکی سے پرواز کر چکا تھا۔ [31]

وفات[ترمیم]

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سلمان فارسی کو رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ 656ء میں مدائن کا گورنر مقرر کیا مگر وہاں جانے کے چند ہفتے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ آپ کی تاریخ وفات 10 رجب المرجب 35ھ ہے۔[32] ان کا روضہ مدائن ہی میں ہے۔[33]

فضل و کمال[ترمیم]

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے دن کا بڑا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں گزرتا تھا، اس لیے قدرۃ آپ علوم و معارفِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کافی بہرہ ورہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کے مبلغ علم کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: ان کوعلم اوّل اور علم آخر سب کا علم تھا اور وہ خود ایسا دریا تھے جو پایابی سے نآشنا رہا، وہ ہمارے اہلِ بیت میں تھے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وہ علم وحکمت میں لقمانِ حکیم کے باربر تھے [34] علم اوّل سے مراد کتب سابقہ کا علم اور علم آخر سے مقصود آخری کتاب الہٰی یعنی قرآن کا علم ہے اور اہلِ بیت سے ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت و اختصاص کی بناپر اور اس لیے کہ عربوں میں ان کا کوئی خاندان نہ تھا، آپ نے ان کویہ شرف بخشا کہ اعزازاً اپنے اہلِ بیت میں داخل کر لیا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جو خود بھی بہت بڑے عالم اور صاحب کمال صحابی تھے ان کے کمال علم کے معترف تھے؛ چنانچہ ایک مرتبہ اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ چار آدمیوں سے علم حاصل کرنا، ان میں ایک سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی تھا [35] ایک موقع پر خود زبانِ نبوت نے ان کے علم و فضل کی ان الفاظ میں تصدیق کی ہے کہ سلمان رضی اللہ عنہ علم سے لبریز ہیں [36] صاحب اسدالغابہ لکھتے ہیں کہ سلمان رضی اللہ عنہ فضلائے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں تھے[37] آپ کی کوششوں سے حدیث کا کافی حصہ اشاعت پزیر ہوا، آپ کی کوششوں سے حدیث کا کافی حصہ اشاعت پزیر ہوا، آپ کے مرویات کی تعداد 60/ ہے ، ان میں سے تین حدیثیں متفق علیہ ہیں، ان کے علاوہ ایک میں مسلم اور تین میں بخاری منفرد ہیں۔ [38] ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، ابوالطفیل رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، اوس بن مالک اور ابن عجرہ وغیرہ آپ کے زمرۂ تلامذہ میں ہیں۔ گوحضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ علم اوّل اور آخر کے امین تھے؛ تاہم حدیث بیان کرنے میں بہت محتاط تھے، اس لیے ان کی مرویات کی تعداد 60/سے زیادہ متجاوز نہ ہوئیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں لوگوں سے ایسی باتیں بیان کرتے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کی حالت میں کسی سے فرمائی تھیں لوگ اس کی تصدیق کے لیے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، آپ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ حذیفہ رضی اللہ خود زیادہ اچھا جانتے ہیں، لوگوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے آکر کہا کہ ہم نے آپ کی بیان کردہ حدیث سلمان رضی اللہ عنہ کو سنائی وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ تردید، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آکر سلمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جو کچھ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اس کی تصدیق کیوں نہیں کرتے، فرمایا بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کوکچھ غصہ میں کہہ دیتے تھے اور بعض اوقات خوش ہوکر کچھ فرمادیتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ تم اس قسم کی باتوں کوبیان کرکے کسی کوکسی کا دوست اور کسی کوکسی کا دشمن بنادوگے، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ خداوند غصہ کی حالت میں اگر کسی کے متعلق کوئی برا کلمہ نکل جائے تواس کوبھی اس کے حق میں خیر کر دینا، پھر ان سے کہا کہ تم اس قسم کی باتوں سے باز آؤ نہیں تو میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آگاہ کر دوں گا۔ [39] چونکہ وہ اسلام کے قبل عرصہ تک نصرانی رہ چکے تھے اس لیے عیسائی مذہب کے متعلق بھی کافی معلومات رکھتے تھے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ سلمان رضی اللہ عنہ دو کتابوں کا علم رکھتے ہیں، کلام اللہ کا اور انجیل کا، مذہب عیسوی کے مسائل محض پادریوں کی زبانی نہیں سنے تھے؛ بلکہ خود انجیل کا مطالعہ کیا تھا؛ چنانچہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے توراۃ میں دیکھا ہے کہ کھانے کے بعد وضو کرنے سے برکت ہوتی ہے۔[40] [41]

عام حالات میں تقرب بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم[ترمیم]

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اس مخصوص زمرے میں تھے جس کو بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خاص تقرب حاصل تھا، مخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے علاوہ کم لوگ ایسے تھے جو بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی پزیرائی میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ہمسری کر سکتے ہوں، غزوۂ خندق کے موقع پرجب مہاجرین اور انصار علاحدہ علاحدہ جمع ہوئے تو مہاجرین کہتے تھے کہ سلمان رضی اللہ عنہ ہمارے زمرہ میں ہیں، انصار کہتے تھے کہ ہماری جماعت میں ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان رضی اللہ عنہ ہمارے اہلِ بیت میں ہیں [42] ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سلمان رضی اللہ عنہ کی شب کی تنہائی کی صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اتنی لمبی ہوتی تھی کہ ہم لوگوں (ازواج رضی اللہ عنھن) کو خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں ہماری باری کی رات بھی اس نشست میں نہ گذر جائے،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے، علی رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی [43] آپ کے تقرب کی آخری مثال یہ ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسے فدائی اسلام اور جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعض رفقا کے بارے میں رنجیدہ ہو گئے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ (جواُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے) چند آدمیوں کے ساتھ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گذرے، ان تینوں بزرگوں نے کہا کہ خدا کی کوئی تلوار خدا کے دشمن (ابوسفیان) کے گردن پر نہیں پڑی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ سردارِ قریش کے متعلق زبان سے ایسا کلمہ نکالتے ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ تم نے ان لوگوں کو ناراض کر دیا؛ اگر تم نے ان لوگوں کو ناراض کیا تو گویا خدا کو ناراض کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بہت نادم ہوئے اور آکر ان بزرگوں سے معذرت کی۔[44] [45]

اخلاق و عادات[ترمیم]

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مذہبی جذبہ کی شدت فطری تھی ، جس طرح آتش پرستی کے زمانے میں سخت آتش پرست اور نصرانیت کے زمانہ میں سخت عابد و زاہد نصرانی تھے۔ اسی طرح مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد السام کا مکمل ترین نمونہ بن گئے، ان کے اصل فضل و کمال کا میدان یہی ہے۔

زہد و تقویٰ[ترمیم]

ان کا زہد و ورع اس حد تک پہنچ گیا تھا جس کے بعد رہبانیت کی حد شروع ہو جاتی ہے، اس کی ادنی مثال یہ ہے کہ عمر بھر گھر نہیں بنایا، جہاں کہیں دیوار یا درخت کا سایہ ملتا پڑے رہتے، ایک شخص نے اجازت چاہی کہ میں آپ کے لیے مکان بنا دوں ؟ فرمایا : مجھ کو اس کی حاجت نہیں ، وہ پیہم اصرار کرتا رہا ، یہ برابر انکار کرتے رہے، آخر میں اس نے کہا کہ آپ کی مرضی کے مطابق بناؤں گا، فرمایا: وہ کیسا؟ عرض کیا کہ اتنا مختصر کہ کھڑے ہوں تو سر چھت سے مل جائے اور اگر لیٹیں تو پیر دیواروں سے لگیں، فرمایا خیر اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ چنانچہ اس نے ایک جھونپڑی بنا دی ۔[46]اس زہد کا اثر زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں تھا، مزخرفاتِ دنیاوی کو کبھی پاس نہ آنے دیا وفات کے وقت گھر کا پورا اثاثہ بیس بائیس درہم سے زیادہ کا نہ تھا، بستر میں معمولی سا بچھونا تھا اور دو اینٹیں جن کا تکیہ بناتے تھے، اس پربھی روتے تھے اور فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کا ساز و سامان ایک مسافر سے زیادہ نہ ہونا چاہیے اور میرا یہ حال ہے [47] یہ حالت زندگی کے ہر دَور میں قائم رہی، جب امارت کے عہدے پر ممتاز تھے، اُس وقت بھی کوئی فرق نہ آیا، حسن بیان کرتے ہیں کہ سلمان رضی اللہ عنہ جب پانچ ہزار (5000) تنخواہ پاتے تھے اور تیس ہزار نفوس پر حکومت کرتے تھے، اس وقت بھی صرف ان کے پاس ایک عبا تھی جس میں لکڑیاں جمع کرتے تھے، اس کا آدھا حصہ بچھاتے تھے اور آدھا اوڑھتے تھے [48] زہد و ورع کا یہ حال تھا کہ خادم کو گوشت کی بوٹیاں گن کر دیا کرتے تھے کہ مبادا اس کی طرف سے کوئی سوءِظن نہ پیدا ہو۔ [49]

رہبانیت سے اجتناب[ترمیم]

اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اسلام کی تعلیم کے خلاف رہبانیت کی طرف مائل تھے، مذہبی تشدد کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق کا بھی پورا پورا لحاظ رکھتے تھے اور دوسروں کوبھی اس کی تلقین کرتے تھے، ا ن کے اسلامی بھائی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بڑے عابد و زاہد تھے۔ رات بھر نماز پڑھتے تھے اور دن بھر روزہ رکھتے تھے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان سے ملنے ان کے گھر جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بیوی کو بہت خراب حالت میں دیکھا، پوچھا تم نے کیا صورت بنا رکھی ہے؛ انھوں نے کہا کس کے لیے بناؤ سنگار کروں، تمھارے بھائی کو تو دنیا کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ جب گھر آئے تو بڑے تپاک سے ملے اور کھانا منگوایا؛ مگر خود معذرت کی کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا جب تک تم نہ کھاؤ گے میں نہ کھاؤں گا؛ پھر رات کو حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس ہی لیٹے اور ان کو دیکھتے ہی رہے، جب وہ عبادت کو اُٹھے تو روک کر فرمایا کہ تم پر تمھارے رب، تمھاری آنکھ اور تمھاری بیوی سب کا حق ہے، روزوں کے ساتھ افطار اور شب بیداری کے ساتھ سونا بھی ضروری ہے ، اس کے بعد دونوں نے یہ معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش کیا، آپ نے ابودرداء رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ سلمان رضی اللہ عنہ تم سے زیادہ مذہب کے واقف کار ہیں۔[50] [51]

سادگی[ترمیم]

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی تصویر حیات میں تکلف کے آب ورنگ کی بجائے سادگی بہت غالب تھی جوہرزمانہ میں یکساں قائم رہی، مدائن کی امارت کے زمانہ میں جب کہ شان وشوکت اور حدم وحشم وغیرہ تمام لوازم ان کے لیے مہیا ہو سکتے تھے، اس وقت بھی ان کی سادگی میں کوئی فرق نہیں آیا، لباس میں ایک عبا اور ایک معمولی سی جانگھبا اور ایک اونچا پائجامہ ہوتا تھا؛ چونکہ ان کے سرکے بال گھنے اور کان لمبے لمبے تھے اس لی اس ایرانی ہیئت کودیکھ کرلوگ، گرگ آمد، گرگ آمد کہتے، ایک مرتبہ اسی امارت کے زمانہ میں اس شان وشوکت سے نکلے کہ سواری میں بلازین کا گدھا تھا، لباس میں ایک تنگ اور چھوٹی قمیض تھی، جو سواری پر سے کسی وجہ سے اُٹھ گئی تھی، جس سے گھٹنے بھی نہ چھپتے تھے، ٹانگیں کھلی ہوئی تھیں، لڑکے اس ہیئت کذائی میں دیکھ کران کے پیچھے لگ گئے، لوگوں نے یہ طوفانِ بدتمیزی دیکھا تو ڈانٹ کران کوہٹایا کہ امیر کا پیچھا کیوں کرتے ہو، ایک دستہ فوج کی سرداری سپرد ہوئی، فوجی امارت کی شان وشوکت کا توکیا ذکر یہاں معمولی سپاہی کی بھی وضع نہ تھی؛ چنانچہ فوجی نوجوان دیکھ کرہنستے اور کہتے کہ یہی امیر ہیں؟ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مدائن سے شام آئے، اس وقت وہاں کے گورنر تھے؛ مگر اپنی سادگی کی وجہ سے معمولی لباس اور ابترحالت میں تھے، ان سے کہا گیا کہ آپ نے اپنے کواس قدر ابترکیوں بنارکھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آرام وراحت توصرف آخرت کے لیے ہے۔ ابوقلابہ راوی ہیں کہ ایک شخص حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا، دیکھا تو بیٹھے آٹا گوندھ رہے ہیں، پوچھا خادم کہاں ہے؟ کہا کام سے بھیجا ہے، مجھ کویہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ دودو کاموں کابار اس پر ڈالوں؛ اس غیر معمولی سادگی کی وجہ سے لوگوں کوان پر اکثر مزدور کا دھوکا ہوجایا کرتا تھا، ایک مرتبہ ایک عبسی نے جانور کے لیے چارہ خریدا، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کھڑے تھے ان سے کہا کہ اس کوگھر تک پہنچادو، وہ اُٹھاکر لے چلے، راستہ میں لوگوں نے دیکھا تو کہنے لگے لائیے ہم پہنچادیں، یہ حال دیکھ کر عبسی نے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، وہ سن کر بہت نادم ہوا اور کہا کہ آپ تکلیف نہ کیجئے، آپ نے فرمایا اس میں مجھے نیت کا ثواب ملتا ہے، اب میں اس بوجھ کو غیر پہنچائے ہوئے نیچے نہیں رکھ سکتا۔ .[52]

فیاضی[ترمیم]

فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نمایاں وصف تھا، جو کچھ آپ کو تنخواہ ملتی تھی وہ کل کی کل مستحقین میں تقسیم کر دیتے تھے اور خود چٹائی بن کر معاش پیدا کرتے تھے اور چٹائی کی آمدنی کا بھی ایک تہائی اصل سرمایہ کے لے رکھ لیتے تھے، ایک تہائی بال بچوں پرخرچ کرتے اور ایک تہائی خیرات کرتے تھے، ارباب علم کے بڑے قدر دان تھے، جب کوئی رقم ہاتھ آجاتی تو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے شائقین کو بلا کر کھلا دیتے تھے۔ [53] [54]

صدقات سے اجتناب[ترمیم]

صدقات سے آپ بہت سخت پرہیز کرتے تھے؛ اگر کسی چیز میں صدقہ کا ادنی شائبہ ہوتا تواس سے بھی احتراز کرتے، ایک غلام نے خواہش کی کہ مجھ کو مکاتب بنا دیجے، فرمایا تمھارے پاس کچھ ہے، کہا میں لوگوں سے مانگ کر ادا کر دوں گا، فرمایا تم مجھ کو لوگوں کے ہاتھ کا دھوون کھلانا چاہتے ہو (حالانکہ اس کا مانگنا ان کے لیے صدقہ نہ رہ جاتا)۔ [55] [56]

حلیہ[ترمیم]

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بال گھنے ، کان لمبے اور دراز قامت تھے۔

زریں اقوال[ترمیم]

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے بہت سے حکیمانہ جملے اور زریں اقوال کتب احادیث میں منقول ہیں، ان میں سے چند جواہر ریزے ہم یہاں نقل کرتے ہیں: ایک مرتبہ دجلہ کے کنارے جانے کا اتفاق ہوا، ایک شاگرد بھی ساتھ تھا، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے کہا کہ گھوڑے کو پانی پلا لاؤ، اس نے حکم کی تعمیل کی، آپ نے فرمایا خوب اچھی طرح پلاؤ، جب وہ سیراب ہو گیا توشاگرد سے مخاطب ہوکر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا اس جانور کے پانی پینے سے دجلہ میں کوئی کمی واقع ہوئی؟ اس نے کہا جی نہیں؛ پھرآپ نے فرمایا کہ علم کی مثال بھی ایسی ہی ہے، اس میں سے جتنا بھی خرچ کیا جائے گھٹتا نہیں چاہیے کہ علم نافع طلب کرو، آپ نے فرمایا کہ علم بہت ہے اور عمر تھوڑی توبقدر علم دین اسے حاصل کرلو اور ساری دنیا کے علوم کے پیچھے نہ پڑو۔ فرمایا مؤمن کی مثال ایک مریض کی ہے اور اس کے پاس طبیب موجود ہے جومرض اور اس کے علاج سے بخوبی واقف ہے، مریض کوجب کوئی ایسی چیز کی خواہش ہوتی ہے جو اس کے لیے مضر ہوتی ہے تووہ اس کو روکتا ہے؛ اسی طرح وہ برابر اس کی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہوجاتا ہے؛ اسی طرح مؤمن کی خواہشات بھی بہت ہوتی ہیں؛ مگر اللہ تعالیٰ اس کو بری اور مضر خواہشات سے بچاتا رہتا ہے؛ تآنکہ اسے موت آجاتی ہے اور وہ جنت کی تمام نعمتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے؛ اگر وہ پہلے بازنہ رکھا گیا ہوتا تواس کویہ نعمتیں کیسے ملتیں۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ان کو لکھا کہ آپ ارض مقدس (غالباً بیت المقدس) میں چلے آئیے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان کوجواب میں لکھا کہ کوئی زمین انسان کو مقدس نہیں بناتی؛ بلکہ اس کو خود اس کا عمل مقدس اور متبرک بناتا ہے؛ پھر آپ نے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم کسی جگہ کے قاضی بنادیے گئے ہو تو اگر تمھارے فیصلوں سے لوگوں میں انصاف ہو تو بہت اچھا ہے اور اگر تم مصنوعی قاضی ہو تو پھر ایسا نہ ہوکہ اپنے فیصلوں سے تمھیں دوزخ میں جانا پڑے، یحیی بن سعید بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ابودرداء رضی اللہ عنہ کا یہ حال ہو گیا کہ جب دو آدمیوں میں فیصلہ کرتے اور فریقین واپس جانے لگتے توان کی طرف ایک نظر ڈالتے اور ان سے فرماتے کہ واقعی میں مصنوعی قاضی ہوں، واپس آؤ اور پھرمجھ سے اپنا مقدمہ بیان کرو، شاید فیصلہ میں غلطی ہو گئی ہو۔ فرماتے ہیں کہ مجھے تین آدمیوں پر بڑا تعجب ہوتا ہے، ایک وہ جودنیا کی طلب میں پڑا ہوا ہے اور موت اسے طلب کررہی ہے، دوسرا وہ جوموت سے غافل ہے؛ حالانکہ موت اس سے غافل نہیں ہے، تیسرا وہ جو قہقہے مارکر ہنستا ہے اور نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے یاناراض، فرمایا تین چیزیں مجھے اس قدر غمگین کرتی ہیں کہ میں رو دیتا ہوں، ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی جدائی، دوسری عذاب قبر، تیسری قیامت کا خطرہ۔ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے نصیحت کی خواہش ظاہر کی، آپ نے فرمایا: بولو نہیں، اس نے کہا کہ لوگوں میں رہ کریہ کیسے ممکن ہے، آپ نے فرمایا کہ اگر بولو تو صحیح ہو اور مناسب بات کہو، اس نے کہا کہ کچھ اور ارشاد ہو، فرمایا کہ غصہ نہ کرو، اس نے کہا کہ میں غصہ میں قابو سے باہر ہو جاتا ہوں، فرمایا کہ اپنے ہاتھ اور زبان کو قابو میں رکھو، اس نے کہا کچھ اور ارشاد فرمائیے، فرمایا کہ لوگوں سے ملو جلو نہیں، اس نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں سے ملا جلا نہ جائے؟ آپ نے فرمایا اگر ملتے جلتے ہو تو پھر بات میں سچائی سے کام لو اور امانت ادا کر دیا کرو۔ [57] [58]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عنوان : Исламский энциклопедический словарьISBN 978-5-98443-025-8
  2. "anwar-e-islam.org - This website is for sale! - «» anwar-e-islam Resources and Information"۔ 26 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2015 
  3. سانچہ:استشهاد مختصر
  4. مزرعة وبئر سيدنا سلمان الفارسي رضي الله عنه ( الميثب ) بالمدينة المنورة... صور - منتديات طيبة نت آرکائیو شدہ 2013-10-22 بذریعہ وے بیک مشین
  5. الخراز، خالد. روائع القصص النبوي. الاسكندرية: الدار العالمية للنشر والتوزيع. 2003. ص 15.
  6. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ (6) آرکائیو شدہ 2017-04-25 بذریعہ وے بیک مشین
  7. "سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» قصة سلمان الفارسي (5)"۔ 14 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  8. البحر الزخار المعروف بمسند البزار» حديث سلمان آرکائیو شدہ 2017-04-25 بذریعہ وے بیک مشین
  9. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ (5) آرکائیو شدہ 2017-04-25 بذریعہ وے بیک مشین
  10. سانچہ:استشهاد
  11. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ (1) آرکائیو شدہ 2017-04-25 بذریعہ وے بیک مشین
  12. (قبل ازاسلام سے آزادی تک کے کل حالات مسنداحمد بن حنبل:5/41 تا 44، سے ماخوذ ہیں)۔
  13. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ (3) آرکائیو شدہ 2017-04-25 بذریعہ وے بیک مشین
  14. صحیح البخاری جلد 2 ص 727 قدیمی کتب خانہ کراچی
  15. بخاری:2/898،
  16. (ابن سعد:2/48)
  17. (بخاری، کتاب المغازی، غزوۂ خندق)
  18. (مسندابن حنبل:5/44)
  19. (اُسد الغابہ:2330)
  20. البداية والنهاية » سنة خمس من الهجرة النبوية » غزوة الخندق آرکائیو شدہ 2017-04-26 بذریعہ وے بیک مشین
  21. (اسدالغابہ:2/23)
  22. سيدنا محمد صلى الله عليه وسلم لمحمد رشيد رضا » غزوة الخندق وهي الأحزاب » حفر الخندق
  23. (مسنداحمد بن حنبل:5/441)
  24. (ابن سعد:4/66)
  25. السيرة النبوية لابن هشام » غزوة الخندق » سلمان وإشارته بحفر الخندق آرکائیو شدہ 2017-04-26 بذریعہ وے بیک مشین
  26. مستدرک حاکم:3/599
  27. سلمان الفارسي من أشار بحفر الخندق، فتاوى إسلام ويب آرکائیو شدہ 2017-05-19 بذریعہ وے بیک مشین
  28. (ابن سعد:4/5،6)
  29. (ابن سعد:4/5،6)
  30. سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» قصة سلمان الفارسي (2) آرکائیو شدہ 2017-04-25 بذریعہ وے بیک مشین
  31. جہان امام ربانی،اقلیم ہشتم،صفحہ 377،امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی
  32. تذکرہ مشائخ نقشبندیہ نور بخش توکلی صفحہ53 ناشر مشتاق بک کارنر لاہور
  33. (ابن سعد:4/66)
  34. (ابن سعد:4/61)
  35. (ابن سعد:4/61)
  36. (اسدالغابہ:2/331)
  37. (تہذیب الکمال:147)
  38. (مسنداحمد بن حنبل:5/41)
  39. (مسنداحمد بن حنبل:5/41)
  40. سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» قصة سلمان الفارسي (4) آرکائیو شدہ 2017-04-26 بذریعہ وے بیک مشین
  41. (مستدرک حاکم:3/598)
  42. (جامع ترمذی، مناقب سلمان)
  43. (مسلم:2/362،مصر)
  44. سنن الترمذي» كتاب المناقب» باب مناقب سلمان الفارسي رضي الله عنه آرکائیو شدہ 2017-12-27 بذریعہ وے بیک مشین
  45. (استیعاب:2/576)
  46. (مسنداحمد بن حنبل:5/438،439)
  47. (ابن سعد:4/62)
  48. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ (2) آرکائیو شدہ 2017-04-25 بذریعہ وے بیک مشین
  49. (استیعاب:3/572)
  50. تفسير القرآن العظيم لابن كثير» تفسير سورة البقرة» تفسير قوله تعالى إن الذين آمنوا والذين هادوا والنصارى والصابئين آرکائیو شدہ 2017-12-27 بذریعہ وے بیک مشین
  51. مسند أحمد» مسند الأنصار رضي الله عنهم» حديث معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنه آرکائیو شدہ 2017-12-27 بذریعہ وے بیک مشین
  52. (ابن سعد:4/64)
  53. سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» قصة سلمان الفارسي (3) آرکائیو شدہ 2017-12-27 بذریعہ وے بیک مشین
  54. (ابن سعد:4/64)
  55. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ (4) آرکائیو شدہ 2017-04-25 بذریعہ وے بیک مشین
  56. (یہ تمام اقوال، صفوۃ الصفوۃ سے لیے گئے ہیں)
  57. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ (7) آرکائیو شدہ 2017-04-25 بذریعہ وے بیک مشین

سانچے[ترمیم]