شمس الحق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(حضرت صاحب کوہستان سے رجوع مکرر)
شمس الحق
معلومات شخصیت

شمس الحق فاروقی المعروف حضرت صاحب کوہستان سے مشہور ہیں۔

نام[ترمیم]

آپ کا نام شمس الحق آپ کا نسب 5 واسطوں سے خواجہ سیف الدین الفاروقی تک پہنچتا ہے، جو عروۃ الوثقی خواجہ محمد معصوم الفاروقی کے صاحبزادے ہیں۔

سلسلہ نسب[ترمیم]

حضرت صاحب کوہستان کاسلسلہ نسب یوں ہے شمس الحق بن شاہ عزیز احمد عرف پیرزادہ بن شیخ فدا احمد بن شیخ فضا احمد بن شیخ محمد موسی بن شیخ سیف الدین بن خواجہ محمد معصوم بن شیخ احمد سرہندی المعروف امام ربانی، مجدد الف ثانی

ولادت[ترمیم]

حضرت ایشان شہید نے اپنی بیٹی خوبی جہان بی بی ضیاء الحق کے نکاح میں دی۔ جب ان کا وصال ہوا تو حضرت میاں جی اور تبرک شاہ (یہ خوبی جہاں بی بی کے بھائی تھے) نے خوبی جہان بی بی کا نکاح شاہ عزیز احمد سے کر دیا اور انہی سے شمس الحق صاحب پیدا ہوئے جبکہ اس سے پہلے بھی والد محترم کی شادی ہو چکی تھیں۔

والد محترم کا انتقال[ترمیم]

آپ کی عمر ابھی 12،13 سال تھی کہ آپ کے والد محترم شاہ عزیز احمد 3 صفرالمظفر 1296ھ کووادی پنج شیر کی بستی رخہ میں انتقال فرما گئے۔ وفات سے قبل آپ نے کابل، پغمان،لوگر،کوہ دامن اور چہاردیہ میں لوگوں کو اپنے بیٹے شمس الحق کا تعارف کرایا۔ اور ظاہری تربیت کے لیے ان کے ماموں شاہ ضیاء مجددالمعروف حضرت میانجی کے حوالے کر دیا ۔

خلافت و نیابت[ترمیم]

باطنی طور پر خلافت والد محترم نے عطا کی تھی اور ظاہری اسباب کو آپ کے ماموں حضرت میانجی نے مکمل فرما دیا لیکن آپ لوگوں سے دور رہتے تو آپ کے والد صاحب کے مریدین نے ان کے ماموں کو شکایت کی جس پر ان کو ماموں نے ڈانٹا کچھ عرصہ پغمان چلے گئے جب شاہ ضیاء الحق کا وصال ہوا تو واپس آئے اور شاہ ضیاء الحق نے خواب میں اس بات پر غصہ ہوئے کہ لوگوں کی تربیت کیوں نہیں فرما رہے تو آپنے اس طرف توجہ فرمائی۔

القابات[ترمیم]

غلام نجم الدین کابلی نے ان کی سوانح حیات اور خوارق عادات پر ایک رسالہ گلدستہ کرامات شمسیہ لکھا جس میں ان کے القاب و اوصاف یوں بیان کیے ہیں۔ قطب دائرہ زمان،غوث انس و جان،قیوم عالم و عالمیان،ولی بارگاہ حضرت منان،غوث الجن والبشر،مجدد مائۃ ربع والعشر،شیخنا ،امامنا،قدوۃالمحققین،زبدۃ العارفین،شاہ محمد شمس الحق والدین،علیہ الرحمۃ والرضوان،الفاروقی نسباً، حنفی مذہباً،والنقشبندی مذہباً،

والد کی ہجرت[ترمیم]

آپ کے والد شاہ عزیز احمد نے جب ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط ہوا تو کابل ہجرت کی،اس وقت شاہ ضیاء الحق کی ولایت کا کابل اور اطراف اکناف میں خوب شہرہ تھا جب شاہ عزیز احمد وہاں پہنچے توانکی اہلیہ(شمس الحق صاحب کی والدہ)اوردو بھائی شیخ فدا محمد اور شیخ عطا محمدمدینہ منورہ ہجرت کر گئے تھے۔ شاہ عزیز احمد فارسی (مقامی زبان) سے واقفیت نہ رکھتے تھے۔حضرت ایشان شہید نے لوگوں کو تعارف کرایا تو لوگ آپ کی طرف لپک پڑے۔

وصال[ترمیم]

22 ربیع الاول 1350ھ بمطابق 5 اکتوبر 1931ء بروز جمعہ بعد از نماز مغرب 70 سال کی عمر میں وصال ہوا۔ آپ کا مزار ضلع کوہستان کے مضافات میں علاقہ اشتر گرام میں بستی دیہنو میں واقع ہے۔ ان کی وجہ سے اس علاقے کو گلبہار سے یاد کیا جاتا ہے۔[1][2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ مشائخ سیفیہ،حافظ محمد عرفان قادری،صفحہ 162 تا 165،بہار اسلام پبلیکیشنز لاہور
  2. تاریخ اولیاء المعروف بالہامات غیبیہ فی سلاسل سیفیہ،صفحہ 144،علی محمد بلخی نورانی کتب خانہ قصہ خوانی بازار پشاور پاکستان۔