حفص بن سلیمان کوفی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو عمرو

حفص بن سلیمان

الاسدی الکوفی
حفص
ذاتی
پیدائش706 عیسوی
وفات796 عیسوی (عمر 89–90 سال)
مذہباہل سنت
آبائی شہرمکہ
والدین
  • سلیمان بن المغیرۃ بن ابی داؤد (والد)
مرتبہ
استاذعاصم بن ابی النجود

ابو عَمرو حفص بن سلیمان بن المغیرۃ بن ابی داؤد الاسدی الکوفی (عربی: أبو عمرو حفص بن سليمان بن المغيرة الأسدي الكوفي)، معروف بَہ حفص (706–796 عیسوی؛ 90–180 ہجری[1][2] قاری قرآن اور روایاتِ قراءت میں ماہر تھے۔ فنِ قرآن کے سات روایتی طریقوں میں سے ایک کی نشر و اشاعت کرنے والے تھے، ان کا طریقہ (روایتِ حفص عن عاصم) عالم اسلام میں سب سے زیادہ مقبول و معروف ہوا۔[3]

حفص؛ عاصم کے شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے داماد بھی تھے۔[4] بغداد میں پیدا ہونے کے بعد، حفص بالآخر مکہ چلے گئے جہاں انھوں نے اپنے سسر کے طریقۂ قراءت کو مقبول و عام کیا۔[4]

آخر کار عاصم کے واسطے سے حفص کی قراءت (قراءتِ حفص عن ابی عاصم) کو مصر کا سرکاری طریقہ بنا دیا گیا،[5] 1923ء میں شاہ فواد اول کی سرپرستی میں قرآن کی معیاری مصری طباعت کے طور پر قراءت حفص کو باضابطہ طور پر اپنایا گیا۔[4] آج کل قرآن کے اکثر نسخے روایتِ حفص میں موجود ہیں۔ شمالی اور مغربی افریقا میں روایتِ ورش کے مطابق پڑھنے کا زیادہ رجحان ہے۔[6]

قراءتِ حفص[ترمیم]

مسجد کوفہ، 1915ء

تمام روایاتِ قراءت میں سے صرف کوفی روایتِ حفص نے بسملہ کو سورۂ فاتحہ میں ایک الگ آیت کے طور پر شامل کیا ہے۔[7]

10 ویں صدی میں، ابن مجاہد نے اپنی کتاب السبعۃ فی القراءات میں قرآن کی سات قراءتیں قائم کیں، جو بعد میں سبعہ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ان میں سے تین قارئین کا تعلق کوفہ سے تھا، جو ابتدائی اسلامی تعلیم کا مرکز تھا۔[8] تین کوفی قراء کسائی، حمزہ الزیات اور عاصم بن ابی النجود تھے۔

روایتِ حفص عن عاصم؛ کوفی طرزِ تلاوت کی نمائندگی کرتی ہے، جو عالم اسلام میں قرآن کی دو بڑی زبانی وسائل میں سے ایک ہے۔[9] 1924ء میں شائع ہونے والا مؤثر معیاری قرآن (قاہرہ ایڈیشن) حفص عن عاصم کی تلاوت پر مبنی ہے۔

سلسلۂ روایت[ترمیم]

امام حفص ابن سلیمان ابن المغیرۃ الاسدی الکوفی نے عاصم بن ابی النجود کوفی تابعی سے سیکھا، انھوں نے ابو عبدالرحمٰن السلمی کوفی سے، انھوں نے عثمان بن عفان، علی ابن ابی طالب، ابی بن کعب اور زید بن ثابت سے اور انھوں نے نبی محمد بن عبد اللہ سے۔

روایت ِ حفص کا سلسلہ
درجہ راوی قراءت
1 پیغمبر محمد بن عبد اللہ
2 عثمان بن عفان، علی ابن ابی طالب، ابی بن کعب، عبد اللہ بن مسعود اور زید بن ثابت
3 ابو عبدالرحمٰن السلمی کوفی
4 عاصم بن ابی النجود
5 امامِ حفص

روایت حدیث[ترمیم]

حفص بن سليمان علم روايت حديث میں مضبوط نہیں تھے، جس طرح وہ علم تجوید و قراءت میں مضبوط تھے اور شاید اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کا اکثر وقت علم تجوید و قرات میں صرف ہوتا تھا۔

عموماً انھیں روایت حدیث میں ثقہ اور مضبوط راوی نہیں سمجھا جاتا یہی وجہ ہے کہ بخاری و مسلم نے ان سے وہی روایتیں لی ہیں، جن روایتوں کو کسی دوسرے ثقہ راوی کی روایت سے تقویت ملتی ہو۔

علم روایت حدیث میں اکثر ائمۂ جرح و تعدیل یعنی فن اسماء الرجال کے ماہرین روایت حدیث کے باب میں ان کے ضعف پر متفق ہیں، ذیل میں بعض ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں:

  • امام احمد نے فرمایا : ما به بأس (ان میں کوئی حرج نہیں ہے) اور ایک روایت یہ ہے کہ امام احمد نے ان کے بارے میں فرمایا : صالح (باب روایت میں مقبول ہیں) اور ایک مرتبہ فرمایا: متروک (انھیں باب روایت میں ترک کیا گیا ہے)
  • یحیی بن معین نے کہا: لیس بثقۃ (وہ ثقہ نہیں ہیں)

علی بن مدینی نے کہا: ضعیف الحدیث و ترکته علی عمد (باب حدیث میں ضعیف ہیں، میں نے جان بوجھ کر انھیں چھوڑا ہے)

  • ابراہیم جوزجانی نے کہا: قد فرغ منه من دھر (یہ اور اس سے ملتا جلتا جملہ ”قد فرغ منه منذ دھر“ شدت ضعف کو بتانے کے ليے بتایا گیا ہے)
  • امام نسائی نے کہا: لیس بثقۃ و لا یکتب حدیثہ (وہ ثقہ نہیں ہیں اور ان کی حدیث نہیں لکھی جائے گی، ایک دوسرے مقام میں کہا: متروک (باب روایت میں انھیں چھوڑ دیا گیا ہے)
  • امام زکریا ساجی نے کہا: له احادیث بواطیل (ان کے پاس باطل و موضوع حدیثیں ہیں)
  • ابن عدی نے کہا : عامۃ احادیثه غیر محفوظۃ (ان کی اکثر حدیثیں غیر محفوظ ہیں)
  • ابو زرعہ نے کہا: ضعیف الحدیث (باب روایت میں ضعیف ہیں)
  • وکیع ابن الجراح نے ان کے بارے میں کہا: کان ثقۃ (وہ ثقہ و قابل اعتماد تھے)
  • امام ترمذی اور امام نسائی نے مسند علیؓ میں بہ طورِ متابعت ان سے روایت لی ہے اور ابن ماجہ نے بھی ان سے روایت لی ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Muhammad Ghoniem and MSM Saifullah (8 Jan 2002)۔ "The Ten Readers & Their Transmitters"۔ Islamic Awareness۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  2. Shady Hekmat Nasser (2012)۔ "Ibn Mujahid and the Canonization of the Seven Readings"۔ The Transmission of the Variant Readings of the Qur'an: The Problem of Tawaatur and the Emergence of Shawaadhdh۔ لائیڈن: Brill Publishers۔ صفحہ: 129۔ ISBN 9789004240810 
  3. Bewley, Aishah. "The Seven Qira'at of the Qur'an" آرکائیو شدہ 2006-05-01 بذریعہ وے بیک مشین, Aisha Bewley's Islamic Home Page
  4. ^ ا ب پ Peter G. Riddell, Early Malay Qur'anic exegical activity, p. 164. Taken from Islam and the Malay-Indonesian World: Transmission and Responses. London: C. Hurst & Co., 2001. آئی ایس بی این 9781850653363
  5. Cyril Glasse, The New Encyclopedia of Islam, p. 268. Intr. by Huston Smith. لینہم، میری لینڈ: Rowman & Littlefield, 2003. آئی ایس بی این 9780759101906
  6. Aisha Geissinger, Gender and Muslim Constructions of Exegetical Authority: A Rereading of the Classical Genre of Qurʾān Commentary, pg. 79. Leiden: Brill Publishers, 2015. آئی ایس بی این 9789004294448
  7. Stefan Wild, Al-Baydawi. Quran: an Encyclopedia
  8. Yasin Dutton (2012)۔ "Orality, Literacy and the 'Seven Aḥruf' Ḥadīth"۔ Journal of Islamic Studies۔ 23 (1): 1–49۔ ISSN 0955-2340۔ JSTOR 26201011۔ doi:10.1093/jis/etr092 
  9. Ibn Warraq, Which Koran? Variants, Manuscript, Linguistics, pg. 45. Prometheus Books, 2011. آئی ایس بی این 1591024307

کتابیات[ترمیم]