حکیم تائب رضوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حکیم ، مصور ، موسیقار ،پنجابی شاعر اور مشہور پنجابی کلام 'آپنا گراں ہووے 'کے خالق حکیم تائب رضوی جنوری 1931 کو ضلع کیمبل پور کے گاؤں شمس آباد کے ایک علمی ادبی سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ اصل نام سید عنایت علی شاہ تھا۔ آپ کے نانا مولانا سید ولایت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ جن کی شہرت مولوی شاہ ولایت شمس آبادی کے نام سے تھی ایک بہت بڑے عالم دین، ادیب اور باکمال ولی تھے۔ ان کے پاس جن قرآن پاک پڑھنے آتے تھے۔ برطانوی دور میں وہ جامع مسجد کیمبل پور کے خطیب تھے

تائب رضوی بہت سارے علوم تو گھر سے ہی پڑھ کر نکلے اور اس بات کا اعتراف انھوں نے اپنی والدہ کی لوح مزار پر یہ جملہ لکھوا کر کیا۔ ' جنہاں نے تائب رضوی نوں جنم دے کے شاعری سکھائی '۔ گھر مکتب کی تعلیم کے بعد ان کے اندر کے فنکار نے ان کو مختلف فنون کی طرف راغب کیا۔ انھوں نے شاعری اور خطاطی کے ساتھ ساتھ نقش گری بھی شروع کر دی۔اس زمانے میں میں ایسے پلنگ تیار کیے جاتے تھے جن کے تکیہ پشت پر نقاشی والے کانچ لگے ہوتے تھے اور ان کی نقش گری الٹی طرف سے کی جاتی تھی جولکڑی میں جڑ دیا جاتا تھا اور سیدھی جانب سے دیکھنے پر آج کے تھری ڈی آرٹ کے جیسے لگتے تھے۔اس فن میں تائب رضوی کا کوئی ہمسر و مد مقابل نہ تھا۔اس کے علاوہ وہ ایک باکمال دست شناس، ماہر موسیقی اور قیافہ شناس بھی تھے۔

کچھ عرصہ شوق پورے کرنے کے بعد تائب رضوی لاہور چلے گئے اور طبیہ کالج لاہور سے طب و حکمت کی سند لے کر واپس کیمبل پور آگئے۔ آپ کا گھر مولا بھائیا والی گلی میں جو پہلی گلی مشرق کی سمت جاتی ہے اس کی نکڑ پر تھا۔ تائب رضوی نے اصطبل بازار میں بقائدہ مطب کا آگاز کیا اور انجمن طبیبان کیمبل پور کی بنیاد رکھی ۔ ان کے احباب میں حکیم حیدر واسطی، غلام محمد نذر صابری قابل ذکر ہیں۔

تائب صاحب بڑے پر بہار اور دلچسپ شخص تھے ۔ انی کی محفل میں کسی کو اکتاہٹ کا اححساس نہیں ہوتا تھا بہت بر جستہ گو تھے۔ ایک بار فیض باغ میں میرے نانا کی گھر کی ڈیوڑھی میں آرام کر رہے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے، ایک پھیری والی روز آتی تھی اور یہ اس کی آواز سے تنگ ہوتے تھے۔ اُس دن وہ آئی اور حسب معمول آواز لگائی ' لو نی کڑیو ولیتی پِناں ' انھوں نے برجستہ کیا ' آ او دوپہری نیا جِناں '۔اسی طرح ایک بار کسی محفل میں ایک خاتون نے انھیں متاثر کرنے کی کوشش کی تو اس پر جناب تائب رضوی صاحب برجستہ بولے ' کَیہاں کُترِیاں ناساں نی ، کنے وچ سو موری اِساں کتھے چھپاساں نی '۔ اس زمانے میں خواتین کے پورے کان سلے جاتے تھے۔ بحیثیت طبیبب ہی بہت قابل ہستی تھے وہ اپنے تیار کردہ نسخہ جات اور ادویات کے نام بھی شاعرانہ بلکہ ساحرانہ انداز میں رکھتے تھے مثلاً شفاء، تسکین، اشتہاء وغیرہ۔

چھ ستمبر 1982کو پنجابی کے یہ انمول شاعر لاہور اللہ کوپیارے ہو گئے۔ ٹاؤن شپ قبرستانمیں دفن کیا گیا۔ [1]

کلام[ترمیم]

آپڑاں گراں ہووے

توتاں نِی چھاں ہووے

وانڑیں نِی منجھی ہووے

سرے تلے بانہہ ہو وے

ہتھے وچ بٹیرا رکھاں

شملہ اُچیرا رکھاں

حجرے تے دیرا رکھاں

سَنگیاں چے ناں ہووے

آپڑاں گراں ہووے

 
 
 
تیرا جیوے کیمبل پور کڑئے

توں ہولی ہولی ٹر کڑئے

سر چُک کے ڈولا لسی دا

نی اڑیے انج نئیں نسی دا

تیرا جیوے کیمبل پور کڑئے

 توں ہولی ہولی ٹر کڑئے


بدل وسدا کنڑی کنڑی
ویکھو نی سیئو جھڑی بنڑی

کمیاں دے پُھل کھڑ کھڑ ہسدے
پانی دے وچ تردے نسدے
بھیت دلاں دے مول نہ دسدے
اینہاں بھانڑیں کھیڈ بنڑی

بدل وسدا کنڑی کنڑی

لکن میٹی کھیڈن بال
گبھرو ہس ہس پانڑ دھمال
وچ ترنجناں کھینوں تھال
کھیڈن آئی جنڑی کھنڑی

بدل وسدا کنڑی کنڑی

بدل ہٹیا ہویی رشنائی
ویکھو بڈھڑی پینگ چڑھائی
ہریاول دے کپڑے پا کے
دھرتی رانی بنڑی ٹھنڑی

بدل وسدا کنڑی کنڑی
ویکھو نی سیئو جھڑی بنڑی

حوالہ جات[ترمیم]

  1. پنجابی شمارہ ششماہی ونگاں ص 61- جمالیات پبلیکیشنز ، اٹک