مندرجات کا رخ کریں

حکیم غلام جیلانی خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حکیم غلام جیلانی خان
معلومات شخصیت
پیدائش 15 مئی 1873ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 23 فروری 1926ء (53 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ حکیم ،  طبیب ،  طبی مصنف ،  فرہنگ نویس   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی ،  عربی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 نشان افتخار شیر و خورشید   (1903)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حکیم و ڈاکٹر غلام جیلانی خان انصاری (1873ء – 1926ء) متحدہ ہندوستان کے معروف طبیب تھے، جنھیں جدید طب اور یونانی طب میں مہارت حاصل تھی۔ ان کے کارہائے نمایاں میں اردو زبان میں متعدد طبی کتب کی تصنیف شامل ہے، جو اردو طبی ادب کے فروغ میں معاون ثابت ہوئیں۔ طبی خدمات کے اعتراف میں انھیں حکومتِ ایران نے ”شمس الاطباء“ کا اور حکومتِ ہندوستان نے ”خان صاحب“ کا خطاب دیا۔

حکیم غلام جیلانی 15 منی 1873ء کو برطانوی عہد میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے میڈیکل کالج لاہور سے L. M. S. کی سند حاصل کی اور سنہ 1895ء میں برطانوی حکومت نے انھیں ایران میں برٹش ایجنٹ مقرر کیا۔ قیامِ ایران کے زمانے میں غلام جیلانی شاہی مجلس تحفظ صحت کے رکن بنائے گئے۔ سنہ 1905ء میں غلام جیلانی ملازمت ترک کر کے لاہور چلے آئے اور یہاں انھوں نے تصنیف و تالیف کا کام شروع کیا۔ ان کی تصانیف بہت مقبول ہوئیں اور ان کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ ہند نے انھیں ”خان صاحب“ کا خطاب عطا کیا اور اطبا نے انھیں شمس الاطبا کہنا شروع کیا۔ ان کا وصال 23 فروری 1926ء کو ہوا اور وہ لاہور میں اپنے برادر کبیر حکیم غلام محی الدین کے جوار میں دفن ہوئے۔

خاندانی پس منظر اور ابتدائی زندگی

[ترمیم]

ان کا تعلق علمی گھرانے سے تھا۔ ان کے اجداد سر زمین فارس سے ہجرت کر کے ہندوستان وارد ہوئے تھے۔ ان کے علمی حالات ان کی علمی لیاقت سے متاثر ہو کر آرنلڈ ہنری سیویج لنڈور نے اپنے سیاحت نامہ ”ایران و ترکستان“ میں درج کیے ہیں جو لاہور کی پبلک لائبریری میں محفوظ ہے۔[1]

ان کی پیدائش معزز انصاری خاندان میں 15 مئی 1873ء کو لاہور، صوبہ پنجاب میں ہوئی۔[2] ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی۔ عربی، فارسی اور انگریزی کی تعلیم کی تکمیل مدارس میں کر کے نورمل مڈل اسکول لاہور سے مڈل پاس کیا۔[2]

طبی سفر

[ترمیم]

ان کے والد سلطان محمود انصاری اپنے وقت کے جید عالم دین اور منجھے ہوئے حکیم تھے اور ان کا لاہور میں ایک کامیاب مطب و دوا خانہ تھا۔ چنانچہ غلام جیلانی نے طب کی تعلیم اپنے والد اور دیگر با کمال اطبا سے اخذ کی۔ یونانی طبی تعلیم کی تحصیل کے بعد لاہور کے میڈیکل کالج میں داخل ہو کر جدید طب (ڈاکٹری) کی اعلیٰ تعلیم کا آغاز کیا۔ اُس سمے ہندوستان میں جدید طب یعنی ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم صرف ڈپلوما تک محدود تھی۔ لہذا خان صاحب نے سنہ 1895ء میں لائسنشیئٹ اِن میڈیسن اینڈ سرجری کی سند حاصل کی اور اسی سال سرکاری ملازمت میں داخل ہو گئے۔ اور چند سال تک پنجاب کے کئی سرحدی مقامات پر مامور رہنے کے بعد وہ علمی صلاحیت کے سبب منتخب ہو کر ملک ایران کو روانہ کیے گئے جہاں ان کو کافی عزت و شہرت نصیب ہوئی۔[2]

ابتدا میں وہ گورنمنٹ برطانیہ کے قونصول یعنی سفیر متعینہ قائنات و کرمان کے ڈاکٹر مقرر ہوئے۔ لیکن تھوڑے عرصہ بعد آپ بہ مقام بیرجند دار الحکومت تہران ایران میں برٹش ایجنٹ مقرر کیے گئے۔ جہاں وہ اپنی طبی قابلیت کے سبب ممتاز خیال کیے جاتے تھے۔ شوکت الملک دوم (حکمراں ولایت قائنات و سیستان) نے ان کو اپنا طبی مشیر مقرر کیا۔ اس کے ایک سال بعد وہ دولت عظمیٰ برطانیہ کے سفارت خانہ، سیستان کے میڈیکل آفیسر مقرر ہوئے وہاں پر بھی ان کی طبی لیاقت کی قدر ہوئی۔[3]

سر ہنری میک ماہن اور لارڈ رونالڈشے جیسے امرائے برطانیہ نے سنہ 1900ء میں دورانِ سیاحت ایران خان صاحب سے علاج کروایا تھا اور ان کی مدح سرائی کی تھی۔ تقریبا عرصہ آٹھ یا نو سال تک مختلف مقامات ایران میں کام کرنے پر سنہ 1904ء میں ان کی حسن خدمت کے صلہ میں حکومتِ ہندوستان نے بطورِ ذاتی اعزاز کے ان کو خان صاحب کا خطاب عطا کیا تھا۔ اس سے قبل دورانِ قیام ایران میں حکومت ایران نے بھی ان کی بے پناہ عزت افزائی کی اور سنہ 1902ء میں ان کو ”شمس الاطباء“ کے خطاب سے نوازا اور سنہ 1903ء میں مظفر الدین شاہ شاہِ ایران نے نشان افتخار شیر و خورشید ان کو مرحمت کیا۔ پھر سنہ 1904ء میں مملکتِ ایران کی شاہی مجلس حفظ الصحت [fa] نے ان کو اپنا ممبر منتخب کیا۔[3]

سنہ 1906ء میں وہ اپنے وطن لاہور میں رخصت پر آئے اور بعض خانگی امورات کے سبب سنہ 1907ء میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے اور تبھی سے وہ لاہور میں مطب کرنے لگے۔ لیکن زیادہ تر وہ طبی تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے۔ ڈاکٹری و طبی کتب کے مطالعہ اور تصنیف و تالیف کا ان کو ابتدا ہی سے شوق تھا۔ چنانچہ انڈین میڈیکل ریکارڈ کلکتہ جو کلکتہ کا ایک معروف انگریزی رسالہ تھا اس میں ان کے کئی مضامین شائع ہوئے اور دو مرتبہ ام کو اس رسالہ کے انعامی مضامین انعامات مع سندات ملے۔[4]

علمی و ادبی خدمات

[ترمیم]

حکیم غلام جیلانی متعدد اردو رسائل و جرائد میں اپنے علمی مضامین و مباحث کی وجہ سے معروف تھے۔ ان کے تحریری مذاکرے اور مقالات پیسہ اخبار، وطن اور وکیل جیسے موقر اخبارات میں شائع ہوئے، جب کہ اردو طبی رسائل مثلاً مجلہ طبیہ (دہلی)، اخبارِ حکمت (لاہور) اور بالخصوص رفیق الاطباء میں ان کے متعدد تحقیقی و تجزیاتی مضامین شائع ہوئے۔ حکیم غلام جیلانی کی تالیفات کو اپنے عہد میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی معروف تصنیف ”مخزنِ حکمت“، جو ”گھر کا حکیم و ڈاکٹر“ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، عوام و خواص میں یکساں مقبول تھی۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی دونوں جلدوں کے بہتیرے ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقے کے گھروں میں یہ کتاب بکثرت موجود تھی اور کئی افراد نے محض ان دو جلدوں کا مطالعہ کرکے خود کو علاج و معالجہ کے لیے تیار کر لیا۔ مخزنِ حکمت کی مقبولیت کے پیش نظر اسی طرز پر کئی دیگر کتب بھی منظرِ عام پر آئیں، تاہم ان میں سے کوئی بھی وہ مقام حاصل نہ کر سکی جو حکیم غلام جیلانی کی اس تصنیف کو نصیب ہوا۔ حکیم غلام جیلانی کو تصنیف و تالیف کا فطری ملکہ حاصل تھا۔ ان کی علمی صلاحیت کا اعتراف اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ وہ مختلف طبیہ کالجوں اور پنجاب یونیورسٹی کے طبی امتحانات میں بطور ممتحن فرائض انجام دیتے رہے۔ طبابت سے انھیں گہری دلچسپی تھی اور وہ مطب میں وقت کی پابندی سے حاضر ہوتے تھے۔[4]

ان کی تالیفات کو علمی حلقوں میں اس قدر قدر و منزلت حاصل تھی کہ ان کی تصانیف کی ایک ایک جلد انڈیا آفس (لندن) اور برٹش میوزیم (لندن) کے سرکاری کتب خانوں میں رکھی گئی تھی۔[5]

حکیم غلام جیلانی لاہوری کو اپنے ایک طبی تصنیفی کام کے لیے عربی و فارسی زبان پر عبور رکھنے والے معاون کی ضرورت تھی۔ اسی ضمن میں انھوں نے فیروز طغرائی کو لاہور طلب کیا، جو تقریباً ساڑھے تین برس تک ان کے ساتھ وابستہ رہے۔ حکیم غلام جیلانی کے نام سے عربی کی چند کتب کے تراجم شائع ہوئے، ان میں سے بعض فیروز طغرائی کی کاوشیں تھیں۔ حکیم غلام جیلانی اردو طبیہ کا ایک معروف ماہنامہ ”رفیق الاطباء“ بھی شائع کرتے تھے، جس میں فیروز طغرائی کے کئی مضامین اور تراجم بھی شائع ہوئے۔[6]

آخر میں وہ اعزازی طور پر آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج دہلی کے بورڈ آف ایگزامنرز (مجلس ممتحنین) کے رکن نیز اسی کالج کی ٹیکسٹ بک کمیٹی (مجلس معین نصاب تعلیم) کے رکن اور جماعتہائے مدرسہ طبیہ دہلی کے ممتحن اور جماعت زبدۃ الحکماء و عمدۃ الحكماء و حكيم حاذق متعلقہ اسلامیہ کالج لاہور کے بھی ممتحن رہے تھے۔[7]

تصانیف

[ترمیم]
  • ”مخزن الادویہ ڈاکٹری یا میٹریا میڈیکا با تصویر“: دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب علم الادویہ میں اہم و مستند مرجع ہے۔ اس میں امریکا کی مفرد و مرکب ادویات کے نام لاطینی، انگریزی، یونانی، عربی، فارسی، سنسکرت، ہندی اور اردو زبانوں میں، ان کے افعال، خواص اور طریقہ استعمال بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب کو علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور یہ برٹش میوزیم، انڈیا آفس لندن، امپیریل لائبریری کلکتہ اور میڈیکل کالج لاہور جیسے اداروں کی زینت بنی۔
  • ”مخزنِ حکمت یا گھر کا حکیم و ڈاکٹر“: یہ کتاب طبِ خانگی پر اردو زبان میں ایک مقبول اور نادر تصنیف ہے، جس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ کتاب کی ضخامت تقریباً ایک ہزار چار سو صفحات ہے اور اسے عام گھریلو علاج کے حوالے سے ایک مستند مرجع مانا جاتا ہے۔
  • ”تاریخ الاطباء“: اس کتاب میں مشرق و مغرب کے متقدمین و متاخرین مشاہیر اطبا، حکما، ویدوں اور ڈاکٹروں کی سوانح، طبی خدمات، تجربات اور انکشافات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ کتاب تقریباً نو سو صفحات پر مشتمل ہے اور علم طب کی تاریخ کا ایک وقیع مرجع سمجھی جاتی ہے۔
  • ”علاج بالمفردات یونانی و ڈاکٹری“: اس کی ضخامت چند سو صفحات ہے۔
  • ”ہندوستان کی جڑی بوٹیاں“: اس کی ضخامت تقریباً 1000 صفحات ہے۔
  • ”مخزن الجواہر“: یہ تقریبا ہزار صفحات پر مشتمل ایک ضخیم طبی لغت ہے۔ اس میں تقریبا چودہ ہزار عربی و فارسی کی قدیم و جدید طبی اصطلاحات ہیں اور تقریباً چھ سات ہزار ان کی مترادف انگریزی ڈاکٹری اصطلاحات ہیں، گویا علم الامراض، علم الجراحت، علم الادویہ، علم الصیدلہ، علم الکیمیا، علم الحیات، علم التشریح اور علم منافع الاعضا، وغیرہ وغیرہ کی کل میں اکیس ہزار طبی و ڈاکٹری اصطلاحات ہیں۔ مصنف کے بقول انھوں نے ”سالہا سال کی محنت اور جانفشانی کے بعد اس طبی و ڈاکٹری لغات کو لکھا ہے۔“[8]
  • ”مخزن العلاج المعروف بیاض جیلانی“: علاج بالمفردات، علاج بالمرکبات اور علاج بالمجربات کا انسائیکلوپیڈیا۔
  • ”کتاب المرکبات یعنی مخزن المرکبات“: مع علاج الامراض و معلم دوا سازی، دو ہزار مرکبات پر مشتمل
  • ”ہیومن اناٹومی و فزیالوجی“: تشریح و فعلیات پر ایک جامع کتاب۔

وفات

[ترمیم]

ان کا وصال 23 فروری سنہ 1926ء کو ہوا اور لاہور میں اپنے برادر حکیم غلام محی الدین کے جوار میں دفن ہوئے۔[9][10] حکیم غلام جیلانی کے فرزندوں میں مسعود کھدر پوش اور حکیم محمد محمود انصاری (مدفن درگاہ عبد اللہ شاہ غازی، کلفٹن کراچی) نے بڑا نام پایا۔ محمد محمود انصاری اپنے والد کے کتب خانہ کے نگران تھے۔[11]

حوالہ جات

[ترمیم]
مآخذ
کتابیات (بلحاظ سالِ نشر)
  • حکیم حافظ سید حبیب الرحمٰن (1988)۔ ہندوستان کے مشہور اطباء (پہلا ایڈیشن)۔ نئی دہلی: ترقی اردو بیورو
  • پروفیسر محمد اسلم (1993)۔ خفتگان خاک لاہور (پہلا ایڈیشن)۔ لاہور: ادارۂ تحقیقات پاکستان
  • شمس الاطباء غلام جیلانی (1923)۔ مخزن الجواہر طبی و ڈاکٹری لغات۔ لاہور: مرکنٹائل پریس
  • مالک رام (2011)۔ تذکرۂ معاصرین حصہ سوم۔ نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان