"اسرائیل پاکستان تعلقات" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
حوالہ کا ترجمہ
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 13: سطر 13:
سنہ 1990ء کی دہائی میں [[اوسلو معاہدہ]] کے بعد اسرائیل کے حق میں پاکستان کا رویہ کچھ نرم ہوا اور یہودی و پاکستانی نمائندوں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں اسرائیل کی اولین ترجیح سفارتی تعلقات کا قیام رہی، جبکہ پاکستان نے اسرائیل کے تئیں اپنی جارحانہ پالیسی کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق ان کی اس جارحانہ پالیسی کی اصل وجہ بالعموم [[عالم اسلام]] اور بالخصوص [[عالم عرب]] سے اتحاد کا مظاہرہ ہے۔ پاکستان اور اسرائیل ان کے [[پاکستان ترکی تعلقات|استنبول میں قائم سفارت خانوں]] کے ذریعے باہمی مذاکرات میں حصہ لیتے ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ [[2010ء]] میں [[ویکی لیکس]] کے مطابق پاکستان نے اسی [[استنبول]] میں قائم اپنے سفارت خانے کے ذریعے اسرائیل کو ایک [[دہشت گرد]] گروہ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھی۔<ref name="Military Science Institute of Pakistan Armed Forces">{{cite news
سنہ 1990ء کی دہائی میں [[اوسلو معاہدہ]] کے بعد اسرائیل کے حق میں پاکستان کا رویہ کچھ نرم ہوا اور یہودی و پاکستانی نمائندوں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں اسرائیل کی اولین ترجیح سفارتی تعلقات کا قیام رہی، جبکہ پاکستان نے اسرائیل کے تئیں اپنی جارحانہ پالیسی کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق ان کی اس جارحانہ پالیسی کی اصل وجہ بالعموم [[عالم اسلام]] اور بالخصوص [[عالم عرب]] سے اتحاد کا مظاہرہ ہے۔ پاکستان اور اسرائیل ان کے [[پاکستان ترکی تعلقات|استنبول میں قائم سفارت خانوں]] کے ذریعے باہمی مذاکرات میں حصہ لیتے ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ [[2010ء]] میں [[ویکی لیکس]] کے مطابق پاکستان نے اسی [[استنبول]] میں قائم اپنے سفارت خانے کے ذریعے اسرائیل کو ایک [[دہشت گرد]] گروہ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھی۔<ref name="Military Science Institute of Pakistan Armed Forces">{{cite news
|url=http://tribune.com.pk/story/19048/is-pakistan-like-israel-or-north-korea/
|url=http://tribune.com.pk/story/19048/is-pakistan-like-israel-or-north-korea/
|title=کیا پاکستان اسرائیل یا جنوبی کوریا کی طرح ہے؟
|title=Is Pakistan like Israel or North Korea?
|accessdate=جون 6، 2010
|accessdate=جون 6، 2010
|author=[[عائشہ صدیقہ (تجزیہ کار)|عائشہ صدیقہ]]
|author=[[عائشہ صدیقہ (تجزیہ کار)|عائشہ صدیقہ]]
|year= 1994
|year= 1994
|work=ایکسپریس ٹریبیون
|work=The Express Tribune
|quote=پاکستان اور اسرائیل کا آپسی رشتہ بیک وقت محبت اور نفرت کا ہے۔ گو کہ ہم تل ابیب سے نفرت کرتے ہیں لیکن بہت سے پاکستانیوں نے ان دونوں ملکوں کے مابین خوشی خوشی یہ کہہ کر یکسانی تلاش کرنا شروع کی کہ اسرائیل اور پاکستان دونوں کا قیام مذہبی بنیادوں پر ہوا ہے۔
|quote=Pakistan has a love-hate relationship with Israel. While we abhor Tel Aviv, secretly powerful Pakistanis happily claim similarities between the two states starting with the fact that both Israel and Pakistan were created on the basis of a religious identity.
}}</ref> تاہم سنہ 2018ء تک ان دونوں ریاستوں میں سرکاری طور پر سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے اور اب تک دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمن تصور کیے جاتے ہیں۔
}}</ref> تاہم سنہ 2018ء تک ان دونوں ریاستوں میں سرکاری طور پر سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے اور اب تک دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمن تصور کیے جاتے ہیں۔



نسخہ بمطابق 12:28، 12 جون 2018ء

اسرائیل-پاکستان دو طرفہ تعلقات
 اسرائیل  پاکستان
اسرائیل پاکستان
طرز حکومت
یہودی مملکت اسلامی جمہوریہ

اسرائیل پاکستان تعلقات ان دو طرفہ تعلقات کو کہا جاتا ہے جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان اور یہودی مملکت اسرائیل کے درمیان میں رہے ہیں۔ یہ تعلقات غیر تسلیم شدگی سے لے کر سوویت افغان جنگ کے دوران میں قریبی تال میل تک ہر دور میں بدلتے رہے۔ ان دونوں مملکتوں کا قیام نظریاتی قرار دادوں پر مبنی رہا ہے (دیکھیے دو قومی نظریہ اور یہودیوں کا وطن) اور دونوں ہی ریاستیں برطانوی سلطنت سے آزاد ہو کر وجود میں آئی تھیں۔ درحقیقت پاکستان اور اسرائیل کے مابین حکومتی سطح پر باضابطہ تعلقات کبھی قائم نہیں ہوئے۔ پاکستانی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل عرب ریاستوں سے کچھ معاہدے کر لے تو وہ اسرائیل سے علانیہ سفارتی تعلقات قائم کریں گے۔ اس کے برعکس پاکستان کے اسرائیل مخالف تنظیم آزادی فلسطین سے قریبی تعلقات ہیں، مثلاً پہلے انتفاضہ کے موقع پر پاکستان کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کاروں کے لیے رسد رسانی اور طبی امداد کا بندوبست کیا گیا تھا۔ نیز متعدد موقعوں پر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کی بنا پر ریاست ہائے متحدہ امریکا سے کشیدگی بھی پیدا ہوئی ہے۔ جب پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کا افشا ہوا تو اسرائیل کو ہمیشہ ان جوہری صلاحیتوں سے خدشہ رہا۔ پاکستان میں بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے ان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن حکومت اسرائیل کی کچھ کلیدی شخصیتوں نے اس کی مخالفت کی جس کی بنا پر یہ حملہ نہیں ہو سکا۔

سنہ 1990ء کی دہائی میں اوسلو معاہدہ کے بعد اسرائیل کے حق میں پاکستان کا رویہ کچھ نرم ہوا اور یہودی و پاکستانی نمائندوں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں اسرائیل کی اولین ترجیح سفارتی تعلقات کا قیام رہی، جبکہ پاکستان نے اسرائیل کے تئیں اپنی جارحانہ پالیسی کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق ان کی اس جارحانہ پالیسی کی اصل وجہ بالعموم عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب سے اتحاد کا مظاہرہ ہے۔ پاکستان اور اسرائیل ان کے استنبول میں قائم سفارت خانوں کے ذریعے باہمی مذاکرات میں حصہ لیتے ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ 2010ء میں ویکی لیکس کے مطابق پاکستان نے اسی استنبول میں قائم اپنے سفارت خانے کے ذریعے اسرائیل کو ایک دہشت گرد گروہ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھی۔[1] تاہم سنہ 2018ء تک ان دونوں ریاستوں میں سرکاری طور پر سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے اور اب تک دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمن تصور کیے جاتے ہیں۔

تاریخ

اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون کا ایک دستخط شدہ خط

پاکستان اور اسرائیل کے بیچ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش 1947ء میں کی گئی تھی، جب اسرائیل کے اولین وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون نے ایک تار جناح کو روانہ کیا جو پاکستانی کے اہم بانی اور ملک میں قائد اعظم کے نام سے جانے جاتے تھے۔ تاہم جناح نے اس تار کا کوئی جواب نہیں دیا۔[2][3] 1949ء میں باور کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کراچی میں اپنی نمائندگی قائم کرنے کی کوشش کی تھی، جو اس وقت پاکستان کا دار الحکومت تھا یا پھر کم از کم دونوں ملکوں کے بیچ کھل کر تجارتی تعلقات رائج کرنا چاہتی تھی۔[4] اس سلسلے کا پہلا رابطہ برطانیہ میں موجود پاکستانی ہائی کمشنر، اسرائیلی نمائندوں اور یہودی تنظیموں کے بیچ 1950ء کے دہے میں ہوا تھا۔[4] پاکستانی حکومت سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ وہ افغانستان میں بسنے والے چند سو یہودیوں کو بھارت کے لیے گزرگاہ کا پروانہ دے تاکہ یہ لوگ اسرائیل میں جاکر آباد ہو سکیں۔[4] اس موقع پر پاکستان کی حکومت نے گزرگاہ کا پروانہ دینے سے انکار کر دیا تھا تھا، جس کے بعد یہ یہودی لوگ ایران کے راستے سے جانے میں کام یاب ہو گئے۔[4]

1952ء میں سر ظفر اللہ خان پاکستان کے وزیر خارجہ بنے۔ اس وزارتی دور کے دوران اسرائیل کے خلاف سخت گیر پالیسیاں اپنائی گئی اور عرب ملکوں میں اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔[4] لہٰذا خان کی پالیسی عرب ممالک ہی سے کلیدی تعلقات قائم کرنے میں معاون رہی تھی۔[4]

سیاسی تنازع


اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا رویہ

پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کے سفر پر موجود پابندی

اسرائیل کی جنگ آزادی کے دوران اسرائیل کے واشنگٹن میں موجود سفارتی مشن کو اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان اس بات کی کوشش میں تھا کہ عربوں کو فوجی امداد فراہم کی جائے، جس میں یہ افواہیں بھی شامل تھے کہ ایک پاکستانی فوجی دستہ فلسطین بھیجا جانے والا ہے تاکہ وہاں پر اسرائیل کا مقابلہ کیا جا سکے۔ پاکستان نے چیکوسلوواکیا سے 250,000 رائفل خریدے تھے جو ظاہری طور پر عربوں کے لیے تھے۔ یہ بھی بات عام پوئی کہ پاکستان نے اطالیہ سے تین جہاز مصر کے لیے خریدے تھے۔[5]

پاکستانی فضائیہ نے 1967ء کی چھ روزہ جنگ اور 1973ء کی 6 روزہ جنگ جنگ یوم کپور میں حصہ لیا تھا۔ سیف الاعظم، جس نے ایک پاکستانی جنگ جو پائلٹ کے طور کام پر کیا تھا، نے کم از کم 4 اسرائیلی جہازوں کو مار کر گرا دیا تھا۔[6] جنگ یوم کپور کے بعد پاکستان اور پی ایل او نے ایک معاہدے پر دستخط کیا تاکہ پی ایل او کے افسروں کو پاکستانی فوجی اداروں میں تربیت فراہم کی جائے گی۔[7] 1982ء کی جنگ لبنان میں پاکستانی رضاکاروں نے پی ایل او کے لیے کام کیا تھا اور ان میں سے کچھ کو بیروت کے محاصرے کے دوران قید میں لے لیا گیا تھا۔ ٹائم کے مطابق فرانسیسی دانشور برنرڈ-ہنری لیوی نے یہ بھی دعوٰی کیا ہے کہ ڈانئیل پرل، جو ایک امریکی اسرائیلی تھے، ان کو پاکستان کے ان عناصر کی جانب سے قتل کر دیا گیا تھا جنہیں آئی ایس آئی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ حالاں کہ اس کے لیے کوئی قابل تصدیق ثبوت مہیا نہیں کیا گیا ہے، تاہم پرل کا یہ کردار کے وہ آئی ایس آئی اور القاعدہ کے بیچ روابط کی تہ تک پہنچ رہے تھے، ان کی موت کا سبب بنا۔[8] بی بی سی اور ٹائم سے موصولہ کچھ دیگر خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسندوں نے پرل کا قتل اس وجہ سے کیا کہ کیوں کہ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ پرل ایک اسرائیلی موساد کا خفیہ ایجنٹ تھا جو امریکی صحافی کی آڑ میں ان کے ملک میں کام کر رہا تھا۔[9][10]

اس کے علاوہ، پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں جیسے کہ جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور عسکریت پسند گروہ جیسے کہ لشکر طیبہ سختی سے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور یہ لوگ مسلسل اس ملک کو دشمن اسلام اور دشمن پاکستان قرار دیتے آئے ہیں۔[11][12]

پاکستان اپنے شہریوں کو اسرائیل جانے سے منع کرتے آیا ہے اور ہر پاکستانی پاسپورٹ یہ عبارت رکھتا ہے "یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے۔"[13][14][15]

پاکستان کے ساتھ اسرائیل کا رویہ

اسرائیل کا صحرائے نجیب جہاں پاکستان پر حملے کے لیے اسرائیل مشق کر چکا ہے۔

1980ء کے دہے میں اسرائیل نے منصوبہ بنایا کہ وہ بھارت کے تعاون کے ساتھ یا اس کے بغیر ہی پاکستان کی ابم سہولتوں پر حملہ کرے گا۔[16][17]

1981ء میں عراق کے نیوکلیر ری ایکٹر کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نے مبینہ طور طور اسی طرز کا ایک حملہ پاکستان کی نیوکلیائی سہولتوں پر کرنے پر کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہوٹہ میں واقع ہیں۔ اس کے لیے بھارت سے مدد کی گزارش کی گئی۔ سیٹلائٹ سے دست یاب تصاویر اور انٹلی جنس کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے اسرائیل نے مکمل پیمانے پر کہوٹہ سہولت کا تمثیلی نمونہ صحرائے نجیب میں بنایا تھا جہاں ایف 16 اور ایف 15 کے اسکواڈرن ہواباز یہ امکانی حملے کی مشق بھی کر چکے تھے۔

’ایشین ایج’ کے مطابق، صحاقی ایڈرین لیوی اور کیتھرین اسکاٹ کلارک نے اپنی مشترکہ انگریزی کتاب بعنوان ‘Deception: Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracy’ میں یہ بات واضح کی کہ اسرائیلی فضائیہ کہوٹہ پر ہوائی حملے کا ارادہ رکھتی تھی۔ یہ حملہ 1980ء کے دہے میں بھارت کی ریاست گجرات کے جامنگر کے فضائی ٹھکانے سے کرنا تھا۔ کتاب کا دعوٰی ہے کہ “مارچ 1984ء میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مہر رضامندی بھی ثبت کر دی تھی جس سے کہ بھارت، پاکستان اور اسرائیل نیوکلیائی تصادم کے بے حد قریب آگئے تھے۔[18]

مقالہ نمبر 41، میک نائر جسے یو ایس اے ایف کی ایئر یونیورسٹی نے شائع کیا تھا (مقالے کا انگریزی عنوان India Thwarts Israeli Destruction of Pakistan's "Islamic Bomb" تھا)، بھی اس منصوبے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے مطابق “اسرائیل کی دل چسپی پاکستان کے کہوٹہ ری ایکٹر کو تباہ کرنے میں اس وجہ سے تھی کی وہ "اسلامی بم" کو روک دے گا۔ اس کی پیش رفت کو بھارت کی جانب سے روک دیا گیا کیوں کہ 1982ء میں اسرائیلی جنگی جہازوں کو درکار ایندھن کی فراہمی سے اس نے انکار کر دیا۔ یہ بھارت کی پالیسی سبھی بیرونی فوجی ہوائی / بحری جہازوں کے لیے رہی ہے۔ اسرائیل اپنی جانب سے ممکنہ حملے کو ایک مشترکہ بھارتی اسرائیلی کارروائی بنانا چاہ رہا تھا تاکہ اس حملے کی پوری ذمے داری صرف اسی کے سر پر نہ رکھی جائے۔[19]

یکم اکتوبر 2015ء کو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتنیاہو نے ایک امکانی بے چینی کی صورت حال کو اس وقت ٹال دیا جب انہوں نے نیو یارک کی سیرافینا میں اپنے عشائیے کو منسوخ کر دیا کیوں کہ وہاں پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی رات کے کھانے پر آ رہے تھے۔ شریف اپنے اس سخت یقین کے لیے جانے جاتے ہیں کہ "فلسطین پر اسرائیل کی بربریت عریاں حیثیت رکھتی ہے۔"[20]

فوجی انٹلی جنس کا تعاون

2008ء کا ممبئی حملہ، جس کی زد میں نریمن ہاؤز کا ایک یہودی خاندان آ گیا تھا۔ پاکستان کی انٹلی جنس نے اس حملے میں یہودیوں کو نشانہ بنائے جانے کی اطلاع پہلے ہی اسرائیل کو دے دی تھی،

ایک دوسرے کے ساتھ ان تمام مخاصمتوں کے باوجود دونوں ممالک کے بارے میں اطلاعات موجود ہیں کہ ان لوگوں ڈائریکٹوریٹس قائم کیے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ انٹلی جنس تعاون جاری رکھا جا سکے۔[1]

پاکستان کے اسرائیل ساتھ دفاعی تعاون کی تاریخ 1980ء کے ابتدائی دہے سے تعلق رکھتی ہے جب پاکستان کے صدر اور فوجی عملے کے صدر جنرل جنرل ضیاء الحق نے آئی ایس آئی کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ اسرائیل کے موساد کے ساتھ معاملتوں کے لیے ایک خفیہ ڈائریکٹوریٹ قائم کرے۔[21] یہ انٹلی جنس دفاتر دونوں ممالک کے سفارت خانوں میں بنائے گئے جو واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھے جہاں موساد، آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے مل ایک مکمل دہے تک مخالف سوویت کارروائی کو جاری تھا، جس کا علامتی نام آپریشن سائیکلون رکھا گیا تھا۔[22] اس تعاون کے حصے کے طور پر اسرائیل نے سوویت ساختہ ہتھیاروں کو افغان باغیوں کو فراہم کیا تھا جو سوویت یونین سے افغانستان میں لڑ رہے تھے اور اسی طرح اسرائیل پاکستانی فوج کو بھی پتھیار فراہم کر رہا تھا۔[22]

ویکی لیکس نے ریاستہائے متحدہ کے ایک سفارتی دستاویز کو جاری کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی نے خفیہ طور پر انٹلی جنس کی معلومات موساد کو فراہم کی ہے۔ آئی ایس آئی نے ایک تبادلہ خیال کی روداد حاصل کی تھی کہ اسرائیلی شہریوں کو ستمبر اور نومبر 2008ء کے بیچ حملے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے ( جیسا کہ 26 نومبر کے ممبئی حملے ہوا تھا، جس کے نشانوں میں ایک یہودی مرکز — دی نریمن ہاؤز بھی تھا)۔[23] اس بات کی بھی اطلاع دی گئی ہے کہ پاکستان کے لفٹننٹ جنرل احمد شجاع پاشا موساد کے ساتھ سیدھے تعلقات بنائے ہوئے تھے۔[24]

اسرائیل اور پاکستان، دونوں سرد جنگ کے دوران مغربی ممالک کے اتحادی تھے، جب بھارت سوویت یونین کا اتحادی تھا۔ بھارت نے افغانستان پر سوویت قبضے کی حمایت کی تھی اور سوویت حامی قائد محمد نجیب اللہ کی مدافعت کی تھی۔ پاکستان اور اسرائیل نے سوویت قبضے کی مخالفت کی تھی اور اسرائیل افغان باغیوں کو پاکستان کے توسط سے ہتھیار بھی فراہم کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے بعض فلسطینی گروہوں جیسے کہ پی ایل او سے سوویت یونین کی فراہم کردہ ہتھیاروں کو ضبط بھی کر چکا ہے۔[22]

تعلقات کو معمول پر لانا

سفارتی تعلقات

پاکستان کے جنرل پرویز مشرف، جنہوں نے سب سے پہلے اپنے صدارتی دور میں اسرائیل سے سفارتی تعلق کی وکالت کی تھی۔

کچھ اسرائیلی قائدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے جانے چاہیے کیوں کہ ممکن ہے کہ پاکستان اسرائیل اور عالم اسلام کے ایک پل کا کام کر سکتا ہے جس میں عرب ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔[25] حالانکہ ان دو ممالک نے سرکاری طور پر تعلقات قائم نہیں کیے ہیں، دونوں ممالک کے بیچ کئی معاملتیں انجام پائی ہیں۔[26] جنگ نیوز کے مطابق اس طرح کی کئی خبریں گشت کر رہی ہیں کہ کئی سرکردہ پاکستانی شخصیات اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔[27]

سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے کھل کر اسرائیل کے ساتھ کے تعلقات کی مدافعت کی۔ وہ پہلے پاکستانی مسلمان ہیں جن کا ہاریٹز کی مصنفہ دانا ہارمن نے لندن میں انٹرویو لیا۔[28]

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے بھی پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی حمایت کی تھی۔[29] تشبیہ سید ایک معروف پاکستانی نژاد امریکی تھے جنہوں نے کھل کر اپنے کئی کالموں اور نگارشات میں اسرائیل کی حمایت کی تھی۔ یہ سلسلہ ان کے پورے صحاقی کیریئر میں جاری رہا۔[30]

2016ء میں پاکستانی پی ایچ ڈی اسکالر اور لکھاری ملک شاہ رخ نے پاکستان اور اسرائیل کی دوستی کا حلقہ قائم کیا جو دونوں ممالک کے بیچ سفارتی تعلقات کے لیے مہم چلا رہا تھا۔

فوجی تعلقات

برطانیہ کے محکمہ کاروبار، ایجاد اور صلاحیت کے مطابق 2013ء کی اطلاع ہے کہ اسرائیل نے فوجی ٹیکنالوجی کو پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ 2011ء میں پاکستان نے برطانیہ سے آلات کو خریدنا شروع کیا جنہیں بعد میں پاکستان بھیجنا تھا۔ اس میں کئی برق رفتار جنگی نظام اور ایئر کرافٹ کے اجزا شامل تھے۔[31] اسرائیل نے اس خبر کی تردید کی اسے گم راہ کن قرار دیا۔[32]

کھیل کے میدان میں تعاون

پاکستانی ٹینس کھلاڑی اعصام الحق قریشی، جنہوں نے سب سے پہلے ایک اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ مشارکت میں کھیلا

فٹ بال وہ واحد کھیل ہے جس میں یہ دو ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے 1960ء کے ایشین کپ کوالیفائروں میں دیکھے گئے تھے۔ ومبلڈن اوپن میں اسرائیلی ٹینس کھلاڑی عامر حداد نے پاکستانی کھلاڑی اعصام الحق کے ساتھ تیسرے دور کا ڈبلز کھیلا۔ اسرائیلی اور پاکستانی ٹیم، جس میں ایک اسرائیلی اور ایک پاکستانی تھا، سرخیوں کا حصہ بنی۔[33] یہ دل چسپ ساجھے داری ایس اوپن مقابلوں میں بھی دیکھی گئی جہاں ان کھلاڑیوں کے ہموطن جمع ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ متحدہ طور پر ان دونوں کھلاڑیوں نے آرجنٹینا کے ماریانو ہوڈ اور سیباسچین پریٹو کو شکست دی تھی۔ [34]

ڈان کیزیل، جو ایک اسرائیلی نژاد جرمن کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں، پاکستانی کرکٹ ٹیم کے تربیت کار اور فزیوتھراپسٹ رہ چکے ہیں۔ وہ لاہور میں قیام پزیر تھے۔[35]

خط زمانی

  • پاکستان اور اسرائیل کے بیچ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش 1947ء میں کی گئی تھی، جب اسرائیل کے اولین وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون نے ایک تار جناح کو روانہ کیا جو پاکستانی کے اہم بانی اور ملک میں قائد اعظم کے نام سے جانے جاتے تھے۔ تاہم جناح نے اس تار کا کوئی جواب نہیں دیا۔
  • 1949ء میں فلپائن ایئر لائنز ایک واحد فضائی خدمت کے طور پر ابھری جو کراچی اور لوڈ (تل ابیب) کے بیچ ہوائی ربط قائم کر چکی تھی جب وہ منیلا–لندن کے لیے خدمات فراہم کر رہی تھی۔[36] تاہم یہ پتہ نہیں چلا کہ ان دونوں کے بیچ کتنے مسافروں اور کتنے کارگو کا تبادلہ ہوا۔
  • دونوں ملکوں کے بیچ پہلا رابطہ برطانیہ میں موجود پاکستانی ہائی کمشنر، اسرائیلی نمائندوں اور یہودی تنظیموں کے بیچ 1950ء کے دہے میں ہوا تھا۔ مذاکرات کا اہم موضوع معاملتوں کو آگے بڑھانا اور کھلے کاروبار کو فروغ دینا تھا۔
  • 14 جنوری 1953ء کو ظفر اللہ خان اور ابا ایبان کے بیچ اجلاس ہوا جس میں ثانی الذکر ریاستہائے متحدہ کے لیے اسرائیل سفیر تھے۔ یہ اجلاس بہتر اسرائیلی پاکستانی تعلقات پر مرکوز تھا۔[5]
  • 1980ء کے دہے میں اسرائیل نے منصوبہ بنایا کہ وہ بھارت کے تعاون کے ساتھ یا اس کے بغیر ہی پاکستان کی ابم سہولتوں پر حملہ کرے گا۔ 1981ء میں عراق کے نیوکلیر ری ایکٹر کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نے مبینہ طور طور اسی طرز کا ایک حملہ پاکستان کی نیوکلیائی سہولتوں پر کرنے پر کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہوٹہ میں واقع ہیں۔ اس کے لیے بھارت سے مدد کی گزارش کی گئی۔ سیٹلائٹ سے دست یاب تصاویر اور انٹلی جنس کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے اسرائیل نے مکمل پیمانے پر کہوٹہ سہولت کا تمثیلی نمونہ صحرائے نجیب میں بنایا تھا جہاں ایف 16 اور ایف 15 کے اسکواڈرن ہواباز یہ امکانی حملے کی مشق بھی کر چکے تھے۔ مگر پاکستانی فضائیہ کو قبل از وقت اطلاع مل گئی اور کڑے حفاظتی انتظامات کو بہ روئے کار لایا گیا۔[37][38]
  • پاکستان کے اسرائیل ساتھ دفاعی تعاون کی تاریخ 1980ء کے ابتدائی دہے سے تعلق رکھتی ہے جب پاکستان کے صدر اور فوجی عملے کے صدر جنرل جنرل ضیاء الحق نے آئی ایس آئی کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ اسرائیل کے موساد کے ساتھ معاملتوں کے لیے ایک خفیہ ڈائریکٹوریٹ قائم کرے۔ یہ انٹلی جنس دفاتر دونوں ممالک کے سفارت خانوں میں بنائے گئے جو واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھے جہاں موساد، آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے مل ایک مکمل دہے تک مخالف سوویت کارروائی کو جاری تھا، جس کا علامتی نام آپریشن سائیکلون رکھا گیا تھا۔ اس تعاون کے حصے کے طور پر اسرائیل نے سوویت ساختہ ہتھیاروں کو افغان باغیوں کو فراہم کیا تھا جو سوویت یونین سے افغانستان میں لڑ رہے تھے اور اسی طرح اسرائیل پاکستانی فوج کو بھی پتھیار فراہم کر رہا تھا۔[21]
  • 1993ء میں سابق وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو اپنے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل فوجی آپریشن پرویز مشرف کے توسط سے موساد کے ساتھ تعلقات بڑھانے کو کہا۔ یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے ایک سرکردہ اسرائیلی نمائندے سے ملاقات اپنے واشنگٹن ڈی سی دورے کے دوران کی تھی جو بہ طور اس ملاقات کے لیے اسرائیل سے جہاز میں آیا تھا۔
  • 1998ء میں پاکستان کے قدامت پسند وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اسرائیلی ہم منصب بنیامین نیتنیاہو کو ایک خفیہ خط لکھ کر اطلاع دی کہ پاکستان اپنی نیوکلیر ٹیکنالوجی کو ایران کے ساتھ اس کے نیوکلیر پروگرام کی مدد کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔
  • 2003ء میں صدر پرویز مشرف نے ان امکانات کا اظہار کیا جن کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں۔[39]
  • 2005ء میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ پہلی بار مل کر تبادلہ خیال کیے تھے۔[40] تاہم اس اجلاس کے بعد مشرف نے واضح کیا کہ پاکستان مملکت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک کہ مملکت فلسطین کا قیام نہ ہو،[41]— حالانکہ مشرف نے یہ بھی کہا کہ بالآخر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا۔[42]
  • 2010ء کے غیر مصدقہ طور پر افشا کیے گئے امریکا کے سرکاری تبادلہ خیال سے پتہ چلا ہے کہ اکتوبر 2009ء سے پاکستانی انٹلی جنس ایجنسی کے صدر لفٹننٹ شجاع پاشا نے ممبئی دہشت گردانہ حملوں اور اس میں ممکنہ طور پر یہودیوں کے نشانہ بنانے کی اطلاع دی تھی۔[23][43]
  • 2011ء میں اسرائیل نے مبینہ طور پر فوجی ٹیکنالوجی کو پاکستانی فوج کو فراہم کیا تھا۔[31][32]
  • 2015ء میں اسرائیلی سائنس دان رمضی سلیمان نے ایک سائنسی کانفرنس میں شرکت کی جس کی اسپانسرشپ پاکستان اکیڈمی آف سائنسز نے لاہور میں کی تھی۔[44]
  • 2016ء میں ملک شاہ رخ نے جو ایک پی ایچ ڈی اسکالر رہے، اسرائیل اور پاکستان کی دوستی کا حلقہ قائم کیا جو دونوں ملکوں کے بیچ سفارتی تعلقات کے لیے مہم چلا رہا تھا۔
  • 2017ء میں بھارت کے اپنے سرکاری دورے کے دوران بنیامین نیتن یاہو نے اس تجویز کو خارج کر دیا کہ ان کے ملک کی بھارت کے ساتھ مشارکت پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہوں نے کہا “ہم (اسرائیل) پاکستان کے دشمن نہیں ہے اور پاکستان کو بھی ہمارا دشمن نہیں ہونا چاہیے۔“[45]

مزید دیکھیے

مزید پڑھیے

حوالہ جات

  1. ^ ا ب عائشہ صدیقہ (1994)۔ "کیا پاکستان اسرائیل یا جنوبی کوریا کی طرح ہے؟"۔ ایکسپریس ٹریبیون۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 6، 2010۔ پاکستان اور اسرائیل کا آپسی رشتہ بیک وقت محبت اور نفرت کا ہے۔ گو کہ ہم تل ابیب سے نفرت کرتے ہیں لیکن بہت سے پاکستانیوں نے ان دونوں ملکوں کے مابین خوشی خوشی یہ کہہ کر یکسانی تلاش کرنا شروع کی کہ اسرائیل اور پاکستان دونوں کا قیام مذہبی بنیادوں پر ہوا ہے۔ 
  2. Israel Today (18 February 2013)۔ "Could Israel and Pakistan be Friends?"۔ Israeltoday.co.il 
  3. P. R. Kumaraswamy (جون 1997)۔ "The Strangely Parallel Careers of Israel and Pakistan"۔ The Middle East Quarterly۔ IV (2): 31–39۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 4, 2012۔ Pakistan is like Israel, an ideological state. Take out the Judaism from Israel and it will fall like a house of cards. Take Islam out of Pakistan and make it a secular state; it would collapse. —Zia ul-Haq, Pakistan's ruler, دسمبر 1981 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث Moshe Yegar (2007)۔ "Pakistan and Israel"۔ Dr. Moshe Yegar, Jewish Political Studies Review۔ Jerusalem Center for Public Affairs۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011 
  5. ^ ا ب Moshe Yegar, "Pakistan and Israel", Jewish Political Studies Review 19:3–4 (Fall 2007)
  6. "Have Jet — Will Travel: The Story of Saiful Azam, Fighter Pilot"۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2017 
  7. Mushahid Hussain, "How Pakistan Views Israel and the Palestinians", Middle East International, ستمبر 1988، 21; P. R. Kumaraswamy, Beyond the Veil: Israel–Pakistan Relations (Tel Aviv: Jaffee Center for Strategic Studies, Tel Aviv University, 2000), 34
  8. On the Trail of Daniel Pearl, By Daren Fonda Saturday, ستمبر 27، 2003
  9. "BBC News - SOUTH ASIA - Daniel Pearl: Seeker for dialogue"۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  10. The Odd Ordeal Of Daniel Pearl, By Unmesh Kher Monday, Time, فروری 11، 2002
  11. Jamaat-e-Islami declares Israel, US the World's "top terrorists", Sana News آرکائیو شدہ 2011-07-24 بذریعہ وے بیک مشین
  12. <DOMAIN_NAME>۔ "Protests Across Pakistan Against Israel's Commando Action On Gaza Flotilla"۔ The MEMRI Blog۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  13. Pakistan K1 Visa Processing Times آرکائیو شدہ 2011-09-14 بذریعہ وے بیک مشین
  14. Canada Immigration Info' - FAQs, Info' available as answer for the question "Are some passports better to have than others?".
  15. "Hubertus Hoffmann - Conflict Resolutions and World Security Solutions - worldsecuritynetwork.com"۔ 23 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  16. India Thwarts Israeli Destruction of Pakistan's "Islamic Bomb", McNair Paper Number 41, Radical Responses to Radical Regimes: Evaluating Preemptive Counter-Proliferation, May 1995
  17. "India Thwarts Israeli Destruction of Pakistan's "Islamic Bomb""۔ Institute of National Strategic Studies۔ مئی 1995۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 4، 2012 
  18. [Deception: Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracy, Adrian Levy and Catherine Scott-Clark]
  19. [McNair’s paper #41 published by USAF University]
  20. "Netanyahu refused to be in same restaurant as Sharif: report"۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  21. ^ ا ب Charlie Wilson's War: The Extraordinary Story of How the Wildest Man in Congress and a Rogue CIA Agent Changed the History of Our Times, By George Crile, Grove Press, 2007, Chapter 10.
  22. ^ ا ب پ "Pakistan got Israeli weapons during Afghan war"۔ Pakistan: Daily Times Monitor۔ July 20, 2003۔ September 30, 2003 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ July 4, 2012 , mirrored at "Pakistan Got Israeli Weapons During Afghan War"۔ Daily Times Monitor۔ 20 July 2003۔ ستمبر 30, 2003 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  23. ^ ا ب Yaakov Katz (دسمبر 1، 2010)۔ "WikiLeaks: Pakistan passed terror intel to Israel"۔ Jerusalem Post: International directorate۔ Jerusalem Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 دسمبر 2010 
  24. Steve Linde (21 مئی 2010)۔ "World's 50 most influential Jews"۔ Jerusalem Post۔ 45. Bernard-Henri Lévy, Philosopher. 
  25. "Bhutto wanted ties with Israel, sought Mossad protection"۔ Israel Today۔ دسمبر 28، 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 4، 2012 
  26. "Pakistan-Israel in landmark talks"۔ BBC News۔ ستمبر 1، 2005۔ اخذ شدہ بتاریخ مئی 5، 2010 
  27. Azeem M. Mian (دسمبر 25، 2009)، "PP's leadership connection to Tel Aviv"، جنگ اخبارات کا گروپ، صفحہ: 1، 11 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 2009 
  28. "Relations with Israel could help Pakistan, says former president Musharraf"۔ Haaretz۔ 6 جنوری 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2012 
  29. Muhsen Ali (8 ستمبر 2015)۔ "Kasuri's encounter with Israel's Shalom – an inside story" 
  30. "Tashbih Sayyed"۔ Arutz Sheva 
  31. ^ ا ب "ISPR denies Israel arming Pakistan with hi-tech gear, says report baseless"۔ Paktribune۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  32. ^ ا ب Press Trust of India (12 جون 2013)۔ "Israel denies exporting military equipment to Pakistan"۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  33. "Sport"۔ The Guardian۔ London۔ فروری 10، 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ مئی 5، 2010 
  34. ZINSER LYNN (29 اگست 2002ء)۔ "2002 U.S. OPEN; Together, This Team Succeeds"۔ https://www.nytimes.com۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جون، 2018۔ For Hadad and Qureshi, the nice part is that they are more than a heartwarming off-court story. They have enjoyed more success together than they ever had separately. As singles players, they struggle to win matches at challenger-level tournaments. As doubles players with other partners, they haven't been able to crack the top 100.  روابط خارجية في |website= (معاونت)
  35. Ori Lewis (12 جولائی 2001)۔ "Dan Kiesel: Our man in Pakistan"۔ Haaretz۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 4، 2012 
  36. "Philippine Air Lines October 22, 1949 timetable, page 3 of 4" 
  37. Shahid R. Siddiqi (14 February 2010)۔ "How safe are Pakistan's nuclear assets"۔ Dawn.com۔ 25 نومبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  38. Deception: Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracy, by Adrian Levy and Catherine Scott-Clark
  39. "Musharraf opens debate on Israel relations"۔ BBC news۔ 3 July 2003۔ اخذ شدہ بتاریخ July 4, 2012 
  40. "Pakistan-Israel in landmark talks"۔ BBC News۔ 1 September 2005۔ اخذ شدہ بتاریخ July 4, 2012 
  41. "Musharraf says Pakistan not to recognize Israel"۔ People's Daily Online۔ Xinhua News Agency۔ September 2, 2005۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 4، 2012 
  42. "Musharraf: Pakistan will eventually recognize Israel"۔ ynetnews.com۔ September 27, 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ July 4, 2012 
  43. Barak Ravid (1 December 2010)۔ "WikiLeaks: Pakistan tipped off Israel on terror threats in India"۔ Haaretz۔ Reuters۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 4, 2012 
  44. Jack Khoury (28 فروری 2015)۔ "Israeli lecturer takes part in Pakistan conference"۔ Haaretz۔ Haaretz۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مارچ 2015 
  45. Israel not an enemy of Pakistan: Netanyahu - The Express Tribune