"ثاقب لکھنوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← مہاراجا
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 6: سطر 6:
[[1906ء]] میں وہ [[ایران]] کے [[سفارتخانہ|سفارت خانہ]] میں ملازم ہو گئے۔
[[1906ء]] میں وہ [[ایران]] کے [[سفارتخانہ|سفارت خانہ]] میں ملازم ہو گئے۔


[[1908ء]] میں مہاراجا [[محمود آباد]] سے تعلق ہو گیا اور میر منشی کا عہدہ ملا۔ مگر تقسیم ہند کے بعد جب یہ ختم ہوا تو ثاقب بھی گمنام ہو گئے اور یاد الٰہی میں دن گزارے۔ اور دو سال بعد 80 سال کی عمر میں [[24 نومبر]] [[1949ء]] کو وہ گزر گئے۔<ref>http://www.pakistanconnections.com/history/index/2013-11-24/84</ref>
[[1908ء]] میں مہاراجا [[محمود آباد]] سے تعلق ہو گیا اور میر منشی کا عہدہ ملا۔ مگر تقسیم ہند کے بعد جب یہ ختم ہوا تو ثاقب بھی گمنام ہو گئے اور یاد الٰہی میں دن گزارے۔ اور دو سال بعد 80 سال کی عمر میں [[24 نومبر]] [[1949ء]] کو وہ گزر گئے۔<ref>{{Cite web |url=http://www.pakistanconnections.com/history/index/2013-11-24/84 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2015-11-17 |archive-date=2016-03-05 |archive-url=https://web.archive.org/web/20160305092528/http://www.pakistanconnections.com/history/index/2013-11-24/84 |url-status=dead }}</ref>


==نمونہ کلام==
==نمونہ کلام==

نسخہ بمطابق 07:20، 17 جنوری 2021ء

ثاقب لکھنوی کا اصل نام ذاکر حسین تھا، ثاقب تخلص اور لکھنؤ سے تعلق کی بنا پر لکھنوی کہلاتے تھے۔ ثاقب لکھنوی کی پیدائش 2 جنوری 1869ء کو آگرہ میں ہوئی تھی۔ تاہم بعد کے دور میں وہ لکھنؤ چلے گئے تھے۔ ثاقب کی شہرت کا اصل سبب ان کا مجموعہ کلام دیوان ثاقب ہے۔[1]

پیشہ

ثاقب نے تجارت سے آغاز کیا مگر اس میں گھر کی ساری جمع پونجی ضائع ہوئی۔

1906ء میں وہ ایران کے سفارت خانہ میں ملازم ہو گئے۔

1908ء میں مہاراجا محمود آباد سے تعلق ہو گیا اور میر منشی کا عہدہ ملا۔ مگر تقسیم ہند کے بعد جب یہ ختم ہوا تو ثاقب بھی گمنام ہو گئے اور یاد الٰہی میں دن گزارے۔ اور دو سال بعد 80 سال کی عمر میں 24 نومبر 1949ء کو وہ گزر گئے۔[2]

نمونہ کلام

آدھی سے زیادہ شب غم کاٹ چکا ہوں

اب بھی اگر آ جاؤ تو یہ رات بڑی ہے


آپ اٹھ رہے ہیں کیوں مرے آزار دیکھ کر

دل ڈوبتے ہیں حالت بیمار دیکھ کر


اپنے دل بے تاب سے میں خود ہوں پریشاں

کیا دوں تمہیں الزام میں کچھ سوچ رہا ہوں


باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگ


بلا سے ہو پامال سارا زمانہ

نہ آئے تمہیں پاؤں رکھنا سنبھل کر


بوئے گل پھولوں میں رہتی تھی مگر رہ نہ سکی

میں تو کانٹوں میں رہا اور پریشاں نہ ہوا[3]

حوالہ جات

  1. https://rekhta.org/poets/saqib-lakhnavi/profile
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 نومبر 2015 
  3. https://www.rekhta.org/poets/saqib-lakhnavi/couplets?lang=ur