"خالد علیم" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:محقق
1 مآخذ کو بحال کرکے 2 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 202: سطر 202:
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
# [http://samt.ifastnet.com/Oct07/Mazameen/Jafar.html خالد علیم کا نغمہء محامد از قلم پروفیسر جعفر بلوچ]
# [http://samt.ifastnet.com/Oct07/Mazameen/Jafar.html خالد علیم کا نغمہء محامد از قلم پروفیسر جعفر بلوچ] {{wayback|url=http://samt.ifastnet.com/Oct07/Mazameen/Jafar.html |date=20131022035020 }}
# [http://www.globalurduforum.org/authors/view/8569 خالد علیم کا مختصر تعارف]
# [http://www.globalurduforum.org/authors/view/8569 خالد علیم کا مختصر تعارف]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}
# [http://pakistanica.com/literature/khalid-aleem/ خالد علیم کا کلام ]
# [http://pakistanica.com/literature/khalid-aleem/ خالد علیم کا کلام ]
# [http://www.urduweb.org/mehfil/threads/شام،-شفق،-تنہائی-۔۔-خالد-علیم۔2081/ شام ،شفق، تنہائی]#
# [http://www.urduweb.org/mehfil/threads/شام،-شفق،-تنہائی-۔۔-خالد-علیم۔2081/ شام ،شفق، تنہائی]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}#


[[زمرہ:اہل حدیث]]
[[زمرہ:اہل حدیث]]

نسخہ بمطابق 13:14، 17 جنوری 2021ء

خالد علیم اردو کے ممتاز شاعر اور محقق ہیں۔ آپ الاشراق کے مدیر بھی ہیں ۔

نام ونسب

خالد علیم بن علیم الدین علیم ناصری بن نبی بخش۔ ان کے والد علیم ناصری بھی اردو کے ممتاز نعتیہ شاعر ہیں۔ پروفیسر جعفر بلوچ لکھتے ہیں : " حضرت علیم ناصری اور ان کے فرزند ارجمند جناب خالد علیم دونوں اسلامی ادب کے قابلِ احترام نمائندے ہیں۔ ان دونوں معززین ادب کے ذکر سے مجھے اکثر زہیر بن ابی سلمیٰ اور ان کے سعادت مند بیٹے حضرت کعبؓ بن زہیر یاد آ جاتے ہیں۔ جس طرح حضرت کعبؓ اپنے والد کے تربیت یافتہ تھے اسی طرح خالد صاحب بھی حضرت علیم کے سایہ پرور ہیں۔ جس طرح زہیر و کعبؓ اپنے ادوار کے اکابر ادب میں سے تھے اسی طرح حضرت علیم اور جناب خالد نے بھی اپنے ہم عصروں سے اپنے کمالِ فن کا لوہا منوایا ہے۔ البتہ ان دونوں جوڑوں میں ایک نمایاں فرق بھی ہے۔ زہیرو کعبؓ کے معاملے میں بیٹا باپ سے یمن و سعادت کے باب میں بہت آگے نکل گیا۔ اس لیے کہ اسے اسلام قبول کرنے اور نعت نگار ہونے کا شرف حاصل ہو گیا اور نعت کے حسن قبول کی علامت کے طور پر انہیں بارگاہ نبویؐ سے چادر رحمت بھی عطا ہوئی، جب کہ حضرت علیم اور جناب خالد کا معاملہ یہ ہے کہ بفضل تعالیٰ باپ بیٹا دونوں حمد و نعت کہنے کی سعادت و برکت سے بہرہ مند ہیں اور ادب کی اس صراطِ مستقیم پر حضرت علیم جناب خالد کے خضر طریق بھی ہیں۔"

تصانیف

محامد

محامد جناب خالد علیم کا مقبول مجموعہ حمد و نعت ہے۔

فغاں دل

فغان دل(1976ء)شاعری

شام شفق تنہائی

شام شفق تنہائی (2000ء) سال اشاعت : نومبر 2001ء خزینہ علم و ادب لاہور

کوئی آنکھ دل سے بھری رہی

کوئی آنکھ دل سے بھری رہی(1999ء)شعری مجموعہ

بغداد آشوب

بغداد آشوب(2003ء)عراق پر آپڑنے والی قیامت کے متعلق نظموں کا مجموعہ

اُردو شاعرات کی نعتیہ شاعری

اُردو شاعرات کی نعتیہ شاعری(1995ء) اُردو شاعرات کی نعتیہ شاعری سے متعلق تحقيقى كتاب

تمثال

رباعیات

نقد ونظر

پروفیسر جعفر بلوچ لکھتے ہیں : جناب خالد کی غیر معمولی قدرت کلام ہر ادب پرست قاری کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے متعدد اساتذہ فن کی زمینوں اور متعدد مشہور و معروف قصیدوں یا شعری شاہکاروں کے تسلسل میں دادِ سخن دی ہے اور اپنے نقوش کمال کی آب و تاب کو کہیں مدھم نہیں ہونے دیا۔ وہ مشکل اور کم مروج زمینوں اور بحروں میں بھی بڑی کامیابی اور حیرت انگیز سہولت کے ساتھ تخلیق فن کی منزلیں قطع کرتے ہیں۔ انہوں نے مردف زمینوں میں بھی متوجہ کرنے والے شعر نکالے ہیں۔ پابند و آزاد فنی ہئتیں ان کے وجدانی ریموٹ کنٹرول کے اشاروں کی فوری اور بلاتامل اطاعت کرتی ہیں۔ جناب خالد کی حمدیہ و نعتیہ رباعیاں بھی ایک خاص شان رکھتی ہیں۔ رفعت فن اور تقدس موضوع کے حوالے سے یہ رباعیاں ہمیں رباعیات امجد حیدر آبادی کی یاد دلاتی ہیں۔

نمونہ کلام

حمد

نعت

ترے ﷺفراق کا غم ہے مجھے نشاط انگیز

یہی ہے راہرو شوق کے لیے مہمیز

اسی کے نم سے ہے باقی مری نگاہ کا نور

اسی کے سوز سے ہے سازِ دل نوا آمیز

اسی کا جذبِ خوش آہنگ ہے نظر میں کہ آج

مرا کدو ہے مئے سلسبیل سے لبریز

مرے کلام میں تاثیر اسی کے دم سے ہے

اسی سے فکر کی بنجر زمین ہے زرخیز!

نظم

ہمیں اک عہد کرنا ہے

ہمیں اپنی جنوں آثار تنہائی سے

وحشت خیز اور پرہول راتوں کے مسلسل رتجگوں سے

عہد کرنا ہے

ہمیں اک عہد کرنا ہے

در و دیوار کی بے مہر خاموشی سے

آنکھوں میں دریچوں سے گزرتے

خوف کے لرزیدہ لمحوں سے

مکانوں میں مکینوں کی فسردہ ہم نشینی سے

سماعت میں اترتے اجنبی لہجوں سے

سنگ آثار آوازوں سے

ہر سو قریۂ بے سبزہ و گل میں

سرابوں کے چمکتے منظروں سے

عرصۂ بے سائباں میں آتشیں کرنوں کی بارش سے

نگاہوں کے سلگتے زاویوں میں

شہر ناپرساں کی صحرا آشنا ویرانیوں سے

اور ان نا آشنا رستوں کے سناٹوں سے

ان ڈھلتی ہوئی شاموں کی بے چہرہ اداسی سے

غم ہجراں کی ان جاں سوز صبحوں کی سسکتی ساعتوں سے

دل کے صحرا کی سلگتی بے کنارہ وسعتوں سے

اور سر شاخ تمنا کھلنے والی حسرتوں سے

عہد کرنا ہے

کہ ہم ہر اک صعوبت سے گزر جائیں گے لیکن

عرصۂ ہجراں کی اس جانکاہ تنہائی کی جاں آشوبیوں میں بھی

وطن کی نرم اور مہکی ہواؤں، دلنشیں صبحوں

شفق آثار شاموں کی سہانی ساعتوں کو اپنی پلکوں پر سجا لیں گے

سفر اندر سفر پھیلے ہوئے تنہائی کے صحرا میں ہم

عہد گزشتہ کی کسی مہتاب شب کو تازہ رکھیں گے

مسافت کے غبار آلود آئینے کو ہم

گزرے ہوئے لمحوں کے روشن عکس سے شفاف کر لیں گے

ہم اپنے طاق دل میں

اس کی یادوں کا دیا روشن رکھیں گے

لوح جاں پر خامۂ احساس سے

اس کی ہوس ناآشنا وارفتگی تحریر کر لیں گے

تو اپنی آنکھ کے جل تھل میں

اس کی مہرباں آنکھوں کے دلکش رنگ بھر لیں گے

ہم اس کے مرمریں ہاتھوں کے گل اندام لمسوں

انگبیں لہجے کی جاں آویز خوشبو

اور اس کے کاکل شب رنگ کی دلکش مہک کو

اپنی سانسوں میں بسا لیں گے

کہ اس کے شبنمیں چہرے کے ہم سارے دھنک رنگوں کو

اپنی سوچ کی گہرائیوں میں تہ رکھیں گے

اور جب ہم ہجر جاں آشوب کی وادی سے واپس

اس کے وصل مہرباں کے قریۂ مہر آشنا میں لوٹ جائیں گے

تو یہ ساری اذیت بھول جائیں گے

ہم ان وحشی ہواؤں کو چراغ یاد گل کرنے نہیں دیں گے

غزل

اب اپنے اپنے مقامات میں ہیں کھوئے ہوئے

جو ایک خون کے رشتے میں تھے پروئے ہوئے

خلا کے دشت میں گرم سفر ہے قریۂ خاک

بدن میں اپنے زمانوں کا غم سموئے ہوئے

اجاڑ دے نہ کہیں آنکھ کو یہ ویرانی

گزر گئی ہے اب اک عمر کھل کے روئے ہوئے

تم اپنا وار سلامت رکھو کہ ہم نے بھی

یہ طور دیکھے ہوئے ہیں، یہ دکھ ہیں ڈھوئے ہوئے

کبھی کبھی یہ چراغ آسماں کے دیکھتے ہیں

ہماری آنکھ میں یادوں کے زخم دھوئے ہوئے

کھڑے تھے ہم سر ساحل یہ دیکھنے کے لیے

کہ باخبر ہیں کہاں کشتیاں ڈبوئے ہوئے

---

اسے کیا خبر کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی

اسے کیا خبر کہ تمام شب کوئی آنکھ دل سے بھری رہی

کوئی تار تار نگاہ بھی تھی صد آئنہ، اسے کیا خبر

کسی زخم زخم وجود میں بھی ادائے چارہ گری رہی

میں اسیر شام قفس رہا مگر اے ہوائے دیارِ دل

سرِ طاقِ مطلعِ آفتاب مری نگاہ دھری رہی

سفر ایک ایسا ہوا تو تھا کوئی ساتھ اپنے چلا تو تھا

مگر اس کے بعد تو یوں ہوا نہ سفر نہ ہم سفری رہی

وہ جو حرفِ بخت تھا لوحِ جاں پہ لکھا ہوا، نہ مٹا سکے

کفِ ممکنات پہ لمحہ لمحہ ازل کی نقش گری رہی

ترے دشتِ ہجر سے آ چکے بہت اپنی خاک اڑا چکے

وہی چاک پیرہنی رہا وہی خوئے در بدری رہی

وہی خواب خواب حکایتیں وہی خالد اپنی روایتیں

وہی تم رہے وہی ہم رہے وہی دل کی بے ہنری رہی

حوالہ جات

  1. خالد علیم کا نغمہء محامد از قلم پروفیسر جعفر بلوچ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ samt.ifastnet.com (Error: unknown archive URL)
  2. خالد علیم کا مختصر تعارف[مردہ ربط]
  3. خالد علیم کا کلام
  4. شام ،شفق، تنہائی[مردہ ربط]#