"عبدالرشید (دیانند سرسوتی کا قتل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ترتیب (9.7)
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
سطر 4: سطر 4:


توہین رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کفر کی آخری حد ہے۔ شرد ہانند کی لگائی ہوئی آگ ہر طرف بھڑک رہی تھی اور جاں نثاران مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دل تڑپ رہے تھے۔ بگراس ضلع بلند شہر (یوپی) سے ایک نوجوان عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھا اور اس نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرنے والے اس گروہ کے سرغنہ کا قصہ پاک کرنے کی ٹھان لی۔ شمع رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ پروانہ غازی عبد الرشید تھا۔ ایک غریب مگر معزز گھرانے کا یہ فرزند جس کی خوش قسمتی پر کائنات ہمیشہ ناز کرے گی، [[دہلی]] سے [[افغانستان]] روانہ ہوا اور وہاں سے ایک پستول خرید کر لوٹ آیا۔ اب غازی عبد الرشید تھا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیقراریاں تھیں۔ جذبوں کی حرارت جوں جوں بڑھتی گئی اور اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ نکھرتا گیا۔ وہ موقع کی تلاش میں تھا اور قدرت نے یہ موقع اسے جلد ہی فراہم کر دیا۔ 17 دسمبر 1926ء کو شرد ہانند دہلی میں اپنے مکان پر موجود تھا کہ غازی عبد الرشید ریوالور لے کر دن دہاڑے اس کے آ شرم میں جا پہنچا۔ ملت اسلامیہ کے اس غیور فرزند نے دشمن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شرد ہانند ملعون کو للکارا اور پستول کی لبلبی دبا دی۔ چھ گولیاں اس ملعون کے سینے میں پیوست ہو گئیں اور یوں بیسیویں صدی کے ایک بہت بڑے فتنے کی کہانی اپنے بھیانک انجام کو پہنچ گئی۔<br/>
توہین رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کفر کی آخری حد ہے۔ شرد ہانند کی لگائی ہوئی آگ ہر طرف بھڑک رہی تھی اور جاں نثاران مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دل تڑپ رہے تھے۔ بگراس ضلع بلند شہر (یوپی) سے ایک نوجوان عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھا اور اس نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرنے والے اس گروہ کے سرغنہ کا قصہ پاک کرنے کی ٹھان لی۔ شمع رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ پروانہ غازی عبد الرشید تھا۔ ایک غریب مگر معزز گھرانے کا یہ فرزند جس کی خوش قسمتی پر کائنات ہمیشہ ناز کرے گی، [[دہلی]] سے [[افغانستان]] روانہ ہوا اور وہاں سے ایک پستول خرید کر لوٹ آیا۔ اب غازی عبد الرشید تھا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیقراریاں تھیں۔ جذبوں کی حرارت جوں جوں بڑھتی گئی اور اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ نکھرتا گیا۔ وہ موقع کی تلاش میں تھا اور قدرت نے یہ موقع اسے جلد ہی فراہم کر دیا۔ 17 دسمبر 1926ء کو شرد ہانند دہلی میں اپنے مکان پر موجود تھا کہ غازی عبد الرشید ریوالور لے کر دن دہاڑے اس کے آ شرم میں جا پہنچا۔ ملت اسلامیہ کے اس غیور فرزند نے دشمن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شرد ہانند ملعون کو للکارا اور پستول کی لبلبی دبا دی۔ چھ گولیاں اس ملعون کے سینے میں پیوست ہو گئیں اور یوں بیسیویں صدی کے ایک بہت بڑے فتنے کی کہانی اپنے بھیانک انجام کو پہنچ گئی۔<br/>
شرد ہانند کے قتل سے ہندؤوں میں صف ماتم بچھ گئی جبکہ مسلمانوں نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا۔ غازی عبد الرشید نے ابتدائی کارروائی کے دوران میں ہی قتل کا اعتراف کر لیا۔ دہلی، یوپی اور پنجاب کے مسلمانوں نے مقدمے میں گہری دلچسپی لی۔ ہر پیشی پر عدالت میں غازی عبد الرشید سے محبت کرنے والوں کا بے پناہ ہجوم امڈ آتا۔ مقدمے کی ساری رواداد خود مولانا [[محمد علی جوہر]] نے شائع کی۔ عدالت نے غازی عبد الرشید کو پھانسی کی سزا دی اور ملت اسلامیہ نے اپنے اس قابل فخر سپوت کو ’’شہید اسلام‘‘ اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطاب سے نوازا۔<ref>[http://khatm-e-nubuwwat.org/LeafLet/leaflet.htm :: Welcome To Khatm-e-Nubuwwat Books Section ::<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>
شرد ہانند کے قتل سے ہندؤوں میں صف ماتم بچھ گئی جبکہ مسلمانوں نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا۔ غازی عبد الرشید نے ابتدائی کارروائی کے دوران میں ہی قتل کا اعتراف کر لیا۔ دہلی، یوپی اور پنجاب کے مسلمانوں نے مقدمے میں گہری دلچسپی لی۔ ہر پیشی پر عدالت میں غازی عبد الرشید سے محبت کرنے والوں کا بے پناہ ہجوم امڈ آتا۔ مقدمے کی ساری رواداد خود مولانا [[محمد علی جوہر]] نے شائع کی۔ عدالت نے غازی عبد الرشید کو پھانسی کی سزا دی اور ملت اسلامیہ نے اپنے اس قابل فخر سپوت کو ’’شہید اسلام‘‘ اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطاب سے نوازا۔<ref>{{Cite web |url=http://khatm-e-nubuwwat.org/LeafLet/leaflet.htm |title=:: Welcome To Khatm-e-Nubuwwat Books Section ::<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان --> |access-date=2015-10-12 |archive-date=2015-10-17 |archive-url=https://web.archive.org/web/20151017175758/http://khatm-e-nubuwwat.org/LeafLet/leaflet.htm |url-status=dead }}</ref>


== مزید دیکھیے ==
== مزید دیکھیے ==

نسخہ بمطابق 21:30، 30 دسمبر 2021ء

غازی عبد الرشید شہید بگراس ضلع بلند شہر (یوپی) کے رہنے والے تھے جو دہلی میں رہائش پزیر تھے۔ آپ نے آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کے شرد ہانند نامی چیلے کو گستاخی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جرم میں دہلی میں قتل کیا، جس کی وجہ سے برطانوی راج میں ان پر مقدمہ چلا کر انہیں 14 نومبر 1926ء کو پھانسی دے دی گئی، مسلمانوں نے انہیں غازی اور شہید کے القابات سے نوازا۔

واقعہ

شرد ہانند رسوائے زمانہ شدھی تحریک کا بانی اوراس کے چیلوں نے اسلام پر کیچڑ اچھالا ۔

توہین رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کفر کی آخری حد ہے۔ شرد ہانند کی لگائی ہوئی آگ ہر طرف بھڑک رہی تھی اور جاں نثاران مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دل تڑپ رہے تھے۔ بگراس ضلع بلند شہر (یوپی) سے ایک نوجوان عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھا اور اس نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرنے والے اس گروہ کے سرغنہ کا قصہ پاک کرنے کی ٹھان لی۔ شمع رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ پروانہ غازی عبد الرشید تھا۔ ایک غریب مگر معزز گھرانے کا یہ فرزند جس کی خوش قسمتی پر کائنات ہمیشہ ناز کرے گی، دہلی سے افغانستان روانہ ہوا اور وہاں سے ایک پستول خرید کر لوٹ آیا۔ اب غازی عبد الرشید تھا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیقراریاں تھیں۔ جذبوں کی حرارت جوں جوں بڑھتی گئی اور اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ نکھرتا گیا۔ وہ موقع کی تلاش میں تھا اور قدرت نے یہ موقع اسے جلد ہی فراہم کر دیا۔ 17 دسمبر 1926ء کو شرد ہانند دہلی میں اپنے مکان پر موجود تھا کہ غازی عبد الرشید ریوالور لے کر دن دہاڑے اس کے آ شرم میں جا پہنچا۔ ملت اسلامیہ کے اس غیور فرزند نے دشمن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شرد ہانند ملعون کو للکارا اور پستول کی لبلبی دبا دی۔ چھ گولیاں اس ملعون کے سینے میں پیوست ہو گئیں اور یوں بیسیویں صدی کے ایک بہت بڑے فتنے کی کہانی اپنے بھیانک انجام کو پہنچ گئی۔
شرد ہانند کے قتل سے ہندؤوں میں صف ماتم بچھ گئی جبکہ مسلمانوں نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا۔ غازی عبد الرشید نے ابتدائی کارروائی کے دوران میں ہی قتل کا اعتراف کر لیا۔ دہلی، یوپی اور پنجاب کے مسلمانوں نے مقدمے میں گہری دلچسپی لی۔ ہر پیشی پر عدالت میں غازی عبد الرشید سے محبت کرنے والوں کا بے پناہ ہجوم امڈ آتا۔ مقدمے کی ساری رواداد خود مولانا محمد علی جوہر نے شائع کی۔ عدالت نے غازی عبد الرشید کو پھانسی کی سزا دی اور ملت اسلامیہ نے اپنے اس قابل فخر سپوت کو ’’شہید اسلام‘‘ اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطاب سے نوازا۔[1]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. ":: Welcome To Khatm-e-Nubuwwat Books Section ::"۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2015