"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 7: سطر 7:


2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔
2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔

== حضرت عمر ابن الخطاب والی روایت سے دلیل پکڑنا ==

یہ لوگ حضرت عمر ابن الخطاب کی اس روایت سے بھی دلیل پکڑتے ہیں۔ اسکی تفصیل ان حضرات کی زبانی یہ ہے:

<blockquote>اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. نبی کریم صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح نبی کریم(ص) نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول (ص)! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”<br>اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛<br>فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )<br>[سورۃ النساء 4:65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.<br>یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی نبی کریم(ص) کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے ۔</blockquote>


حضرت عمر والی اس روایت کے متعلق اصل حقائق یہ ہیں کہ:

# یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)
# یہ روایت غریب ہے اور فقط ابن الاسود سے مروی ہے۔
# یہ روایت منکر ہے (یعنی ایسی روایت جو نہ صرف یہ کہ ضعیف ہو، بلکہ کسی صحیح روایت کے مخالف بھی ہو)
# اس روایت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہےجو کہ ضمرة بن حبيب سے مروی ہے۔ مگر ضمرۃ نے رسول اللہ (ص) کا دور نہیں پایا ہے، لہذا یہ لائق اعتماد نہیں۔ (اس راوی کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے، یعنی رسول (ص) کی وفات کے 117 سال کے بعد)

یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔


سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن چھپا کر مفت تقسیم کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

<blockquote>اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)</blockquote>

امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔پہلی [http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=4246&pid=367977 روایت کا لنک یہ ہے]۔ دوسری روایت کا[http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=2201&pid=366771 لنک یہ ہے۔]

=== حضرت عمر والی یہ روایت علم درایت کی کسوٹی پر ===

عقل اللہ کی طرف سے انسان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔ اگر یوں آنکھیں بند کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے روایات پیش کرنے کی بجائے کچھ عقل سے کام لے لیا جائے تو بہت سی ایسی ناگوار باتوں سے بچا جا سکتا ہے۔

اس روایت کے مطابق ایک شخص کو رسول اللہ (ص) کےدنیاوی معاملے کے صرف ایک فیصلے پر اعتراض ہوا تو حضرت عمر نے فوراً بغیر کسی توبہ کا موقع دیے، بغیر کوئی وارننگ دیے فی الفور اسے قتل کر دیا۔

مگر ذرا سوچئے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے، وہ رسول (ص) کا دنیاوی معاملات میں ایک فیصلہ تو کیا بلکہ پوری کی پوری شریعت کو پامال کر کے اسکا انکار کر رہا ہوتا ہے، اللہ اور اسکے رسول کا مکمل انکار کر رہا ہوتا ہے، مگر اسکے باوجود اسے فی الفور قتل نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اُسے تین دن کی مہلت دینا کا حکم ہے تاکہ اُسے موقع مل سکے کہ وہ توبہ کر سکے۔

عقل رکھنے اور اسے استعمال کرنے والوں کے لیے اس بات میں مکمل سبق موجود ہے کہ وہ حق و باطل میں تمیز کر سکیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔

=== سلمان تاثیر کا قتل اسی ضعیف و منکر روایت کی وجہ سے ہوا ہے ===

جتنے بھی حضرات (علماء) نے ممتاز قادری کی حمایت کی ہے، انہوں نے اسی حضرت عمر والی ضعیف اور منکر روایت کو استعمال کیا ہے۔ انکا اصرار ہے کہ چونکہ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون سے راضی نہیں تھےاس لیے انکا قتل ایسے ہی ضروری تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت عمر نے اُ س شخص کو قتل کر دیا تھا جو اللہ کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہورہا تھا۔


اور یہ تو صرف ابتدا ہے۔ اس روایت میں یہ پوٹینشل پورا موجود ہے کہ صرف توہین رسالت قانون ہی نہیں بلکہ جلد ہی اسکا نفاذ دیگر قوانین سے اختلاف کرنے والوں پر بھی ہو رہا ہو گا اور انہیں فقط اس بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہوگا کہ انکے دل ان قوانین پر راضی نہیں ہو رہے تھے لہذا انکو کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے بھی قتل کر ڈالو۔


== حضرت ابو بکر صدیق کی روایت: رسول (ص) کے علاوہ کسی اور کو برا بھلا کہنے پر قتل کرنا جائز نہیں ==
== حضرت ابو بکر صدیق کی روایت: رسول (ص) کے علاوہ کسی اور کو برا بھلا کہنے پر قتل کرنا جائز نہیں ==

نسخہ بمطابق 01:47، 12 جولائی 2014ء


اب تک عدالت کےحکم کے تحت کسی توہین کر مرتکب شخص کو قتل نہیں کیا گیا ہے، مگر اس دوران میں دس افراد کو جیلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔[1] اس آرڈیننس کے دو تعبیرات پر شدید تنقید ہے۔

1۔ چھوٹی سی چھوٹی بات پر بھی اس آرڈیننس کے تحت قتل کی سزا ہو جاتی ہے۔

2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔

حضرت ابو بکر صدیق کی روایت: رسول (ص) کے علاوہ کسی اور کو برا بھلا کہنے پر قتل کرنا جائز نہیں

حضرت ابو بکر سے ایک روایت یہ مروی ہے:

ايك آدمى نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ سخت لہجہ اختيار كيا تو ميں نے كہا: كيا ميں اسے قتل كردوں؟ تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور كہنے لگے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد يہ كسى كے ليے بھى نہيں ہے۔صحيح نسائى حديث نمبر ٣٧٩٥

دلائل آپ کے سامنے پیش ہو تو چکے ہیں۔ رسول اللہ (ص) سے منسوب ساری روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ پہلی مرتبہ میں ہی قتل نہیں کر دیا گیا، بلکہ پہلے مرحلے میں عفو و درگذر اور ہدایت و نصیحت سے کام لیا گیا ہے۔

شریعت بنانے والی ذات فقط اور فقط اللہ ہے۔ حتی کہ رسول اللہ (ص) کو بھی ذرہ برابر حق حاصل نہیں کہ وہ شریعت سازی کریں۔ ہم رسول (ص) کی بات اس لیے مانتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے کہ رسول (ص) اسکے سوا کچھ نہیں بولتے جو کہ اللہ نے انکی طرف وحی کیا ہے۔ اور جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر صرف اور صرف رسول (ص) پر نازل ہوتے تھے، کسی دوسرے صحابی پر نہیں۔

چنانچہ قرآن اور قول رسول ہی واحد حجت ہے۔

صحابہ کرام اگر قول رسول بیان فرما رہے ہیں تو وہ قابل قبول ہے، مگر اگر کوئی مسئلہ بیان کر رہے ہیں تو اس کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھنا ہو گا۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام کے آپس میں بہت سے مسائل پر ایک دوسرے کی آراء سے اختلاف کیا۔

وحی فقط رسول (ص) پر نازل ہوتی تھی، اور صرف انہی کا اسوہ شریعت کا حصہ بنے گا۔ کسی بھی صحابی کی رائے کو قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں ہی پرکھا جائے گا اور صرف اسکے بعد اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ صحابی اپنی رائے میں غلطی کر سکتا ہے، مگر یہ فقط اور فقط رسول (ص) کی ذات ہے جو کہ شریعت کے اصول بتاتے وقت کوئی غلطی نہیں کر سکتی۔

چنانچہ حضرت ابوبکر کی یہ روایت ابو ہریرہ والی روایت کے مطابق نہیں جس میں بذات خود رسول (ص) شریعت واضح کر رہے ہیں۔ اور اسکے بعد بھی اگر حضرت ابو بکر کی روایت صرف اسی صورت میں قبول ہو سکے گی جب رسول (ص) کی دوسری نابینا صحابی والی اور یہودیہ عورت والی روایات کی روشنی میں یہ کہا جائے کہ پہلے مرحلے میں ہی قتل نہیں ہے بلکہ مسلسل اور عادت بنا لیے جانے پر قتل کیا گیا۔

نیز یہ روایت ایک مسلمان کے متعلق لگتی ہے جب وہ رسول (ص) کی ذات کے خلاف گستاخی کرے۔ چنانچہ اس صورت میں غیر مسلم کے خلاف یہ سزا جاری نہ ہو سکے گی۔

خلاصہ

  1. موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس کے حامی حضرات جن قرآنی آیات کو پیش کرتے ہیں، وہ سب کی سب “تفسیر بالرائے” ہیں اور نہ رسول اللہ (ص) اور نہ کسی صحابی نے ان قرآنی آیات سے وہ مطلب نکالا جو یہ حضرات تفسیر بالرائے کرتے ہوئے نکال رہے ہیں۔
  2. اور جو روایات یہ حضرات پیش کرتے ہیں ان میں سے اکثر ضعیف اور منکر ہیں، یا پھر غیر متعلق ہیں۔
  3. اگر ان روایات کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ہرگز ہرگز صحیح ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کی اپنی پیشکردہ روایات کے مطابق پہلی مرتبہ میں ہی فی الفور قتل نہیں کر دیا جاتا ہے بلکہ شروع میں انہیں مسلسل اچھی نصیحت کی جاتی ہے اور صرف عادت اور معمول بنا لینے کے بعد قتل کیا جاتا ہے۔ جبکہ موجودہ آرڈیننس میں عفو و درگذر کی کوئی گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
  4. وہ روایات اور قرآنی آیات جو بیان کر رہی ہیں کہ توہین کرنے پر اللہ اور اُسکے رسول (ص) نے صبر کرنے کا حکم دیا ہے، وہ ان حضرات کے پیشکردہ دلائل کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔
  5. موجودہ حالت میں یہ آرڈیننس نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے اسکا misuse کسی صورت نہیں روکا جا سکتا ہے اور شریر لوگ مسلسل اسکو اپنی ذاتی دشمنیاں اور شرارت نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے معصوموں پر جھوٹے الزامات لگاتے رہیں گے۔ عدالت اور گواہوں سے پاک قتل کر دینے والی احادیث ان شریر لوگوں کو مکمل موقع فراہم کرتی رہیں گی کہ وہ جرم کر کے سارا گناہ توہینِ رسالت آرڈیننس کی جھولی میں ڈال کر مسلسل دینِ اسلام کو بدنام کرتے رہیں اور کوئی انکا بال بیکا تک نہ کر پائے۔
  6. بہت ضرورت ہے کہ یہ حضرات اپنی ضد چھوڑ کر قبول کریں کہ موجودہ حالت میں اس میں سقم موجود ہیں۔ انہیں دور کرنے کی ہر صورت میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات

'ترچھا متن'ترچھا متن'ترچھا متن'''