"عزیز میاں" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 27: سطر 27:


=میں شرابی=
=میں شرابی=
عزیز میاں کو اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پر بحث کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتے اور اشرف المخلوقات کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتے۔ خدا سے ہم کلام ہونے والی قوالیوں میں وہ زیادہ تر [[محمد اقبال|علامہ اقبال]] کی شاعری استعمال کرتے۔ مثلا عزیز میاں کے مندرجہ ذیل پسندیدہ اشعار پڑہیے:
عزیز میاں کو اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پر بحث کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتے اور اشرف المخلوقات کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتے۔ خدا سے ہم کلام ہونے والی قوالیوں میں وہ زیادہ تر [[محمد اقبال|علامہ اقبال]] کی شاعری استعمال کرتے۔ مثلا عزیز میاں کے مندرجہ ذیل پسندیدہ اشعار پڑھئے:


<div style='text-align: center;'>
<div style='text-align: center;'>

نسخہ بمطابق 18:31، 18 مارچ 2015ء

عزیز میاں
عزیز میاں قوال
عزیز میاں قوال
فنکار موسیقی
پیدائشی نامعبد العزیز
دیگر نامعزیز میاں میرٹھی
عزیز میاں قوال
ولادت17 اپریل 1942ء
ابتدالاہور، پاکستان
وفات6 دسمبر 2000ء
اصناف موسیقیقوالی
پیشہگلوکار
گیت نگار
موسیقار
آلۂ موسیقیہارمونیئم
سرگرم دور1970ء تا 2000ء

عزیز میاں (ولادت: 17 اپریل 1942ء، وفات: 6 دسمبر 2000ء) پاکستان کے چند مقبول ترین قوالوں میں سے ہیں۔ ان کی پیدائش بھارت کے شہر دہلی میں ہوئی۔

عزیز میاں کا شمار قدرے روایتی قوالوں میں ہوتا تھا۔ ان کی آواز بارعب اور طاقتور تھی۔ لیکن ان کی کامیابی کا راز صرف ان کی آواز نہیں تھی۔ عزیز میاں نہ صرف ایک عظیم قوال تھے بلکہ ایک عظیم فلسفی بھی تھے، جو اکثر اپنے لیے شاعری خود کرتے تھے۔ عزیز میاں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے اردو اور عربی میں ایم اے کیا ہوا تھا۔

ان کا اصل نام عبدا لعزیز تھا۔ "میاں" ان کا تکیہ کلام تھا، جو وہ اکثر اپنی قوالیوں میں بھی استعمال کرتے تھے، جو بعد میں ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ انہوں نے اپنے فنی دور کا آغاز "عزیز میاں میرٹھی" کی حیثیت سے کیا۔ میرٹھی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد عزیز میاں نے بھارت کے شہر میرٹھ سے اپنے وطن کی طرف ہجرت کی تھی۔

انہیں اپنے ابتدائی دور میں "فوجی قوال" کا لقب ملا کیونکہ ان کی شروع کی سٹیج کی بیشتر قوالیاں فوجی بیرکوں میں فوجی جوانوں کیلیے تھیں۔

مختلف قسم کے معمولی الزامات پر انہیں کئی دفعہ گرفتار کیا گیا لیکن بعدازاں بری کر دیا گیا۔

عزیز میاں کی قوالیوں میں زیادہ توجہ کورس گائیکی پر دی جاتی تھی جس کا مقصد قوالی کے بنیادی نکتہ پر زور دینا تھا۔ عزیز میاں کو شاعری پڑھنے میں کچھ ایسی مہارت حاصل تھی جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔ ان کی بیشتر قوالیاں دینی رنگ لیے ہوئے تھیں گو کہ انہوں نے رومانی رنگ میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ عزیز میاں کی مقبول ترین قوالیاں "میں شرابی میں شرابی" (یا "تیری صورت") اور "اللہ ہی جانے کون بشر ہے" شامل ہیں۔

میں شرابی

عزیز میاں کو اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پر بحث کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتے اور اشرف المخلوقات کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتے۔ خدا سے ہم کلام ہونے والی قوالیوں میں وہ زیادہ تر علامہ اقبال کی شاعری استعمال کرتے۔ مثلا عزیز میاں کے مندرجہ ذیل پسندیدہ اشعار پڑھئے:

باغِ بہشت    سے مجھے    اذنِ سفر دیا    تھا کیوں
کارِ    جہاں    دراز    ہے    اب    میرا    انتظار کر    

مجھے تو اس جہاں میں بس اک تجھی سے عشق ہے
یا   میرا   امتحان    لے    یا    میرا    اعتبار کر   

پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ مزاح کار عمر شریف نے ایک دفعہ عزیز میاں کے بارے میں ایک مزاحیہ شو میں کہا تھا: "لوگوں کے جھگڑے زمین پر ہوتے ہیں، اس کے جھگڑے آسمان پہ ہیں۔ یہ اللہ سے جھگڑا کرتا ہے"۔

صابری برادران نے عزیز میاں کی قوالی "میں شرابی میں شرابی" کو اپنی ایک قوالی "پینا وینا چھوڑ شرابی" میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ عزیز میاں نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب اپنی ایک اور قوالی "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" میں دیا۔ عزیز کے صابری برادران کو جواب کے بعد سے "میں شرابی میں شرابی" اور "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" کو ایک ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

وفات

عزیز میاں کا انتقال دسمبر2000 کو تہران (ایران) میں یرقان کی وجہ سے ہوا۔ انہیں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی برسی کے موقع پر ایرانی حکومت نے قوالی کیلیے مدعو کیا تھا۔ عزیز میاں کے دو بیٹے، عمران اور تبریز، ان کے ورثہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ دونوں قوالی کے انداز میں اپنے والد سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ آپ کو ملتان میں دفن کیا گیا۔

حوالہ جات

بیرونی روابت

  • [www.tanumanusoufi.blogspot.com]