"حسین احمد مدنی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م حسین احمد مدنیؒ
(ٹیگ: القاب)
سطر 83: سطر 83:
=== میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا ===
=== میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا ===
مولانا عبدالحق مدنیؒ کا بیان ہے:
مولانا عبدالحق مدنیؒ کا بیان ہے:
{{اقتباس|مدینہ منورہ والے حضرت ؒ کی اتنی عزت کرتے تھے کہ دوسرے کسی عالم کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا لیکن حضرت مدنیؒ رمضان شریف میں روزہ پر روزہ رکھتے اور کسی کو خبر نہ ہوتی۔ چنانچہ میں نے افطار کا پروگرام رکھا۔ کھانا لے آیا اصرار پر حضرت نے تھوڑا سا کھایا۔ میں سمجتا رہا کہ حضرت کے گھر سے بھی کھانا آئے گا مگر افطاری تو کجا سحر کو بھی نہ آیا۔ حضرت کے پاس چند کھجوریں تھیں جن سے روزہ افطار اور سحر کرلیا کرتے تھے۔ میں نے عض کیا آنجناب کے گھر سے نہ افطار میں کھانا آیا اور نہ سحر کیلئے کوئی خبر آئی؟


حضرت مدنی نے بات ٹالنے بہت کوشش کی اور گفتگو کا رخ ادھر ادھر پھیرنا چہا لیکن میرا صرار برھتا ہی گیا۔ فرمایا عبدالحق! جناب رسول اللہ ﷺ کی سنت تو کبھی پوری ہونی چاہیئے۔ اسکے بعد انتہائی بزرگانہ انداز میں فرمایا کہ میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا: (بار بار آدھ پاؤ مسور کی دال پکا کر سب گھر والوں نے تھوڑی تھوڑی پی کر یا تربوز کے چھلکے سڑک پر سے اۓھا کر دھو کر شب میں پکا کر اس کا پانی پی کر گذرکیا)
مدینہ منورہ والے حضرت ؒ کی اتنی عزت کرتے تھے کہ دوسرے کسی عالم کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا لیکن حضرت مدنیؒ رمضان شریف میں روزہ پر روزہ رکھتے اور کسی کو خبر نہ ہوتی۔ چنانچہ میں نے افطار کا پروگرام رکھا۔ کھانا لے آیا اصرار پر حضرت نے تھوڑا سا کھایا۔ میں سمجتا رہا کہ حضرت کے گھر سے بھی کھانا آئے گا مگر افطاری تو کجا سحر کو بھی نہ آیا۔ حضرت کے پاس چند کھجوریں تھیں جن سے روزہ افطار اور سحر کرلیا کرتے تھے۔ میں نے عض کیا آنجناب کے گھر سے نہ افطار میں کھانا آیا اور نہ سحر کیلئے کوئی خبر آئی؟
}}

حضرتؒ نے بات ٹالنے بہت کوشش کی اور گفتگو کا رخ ادھر ادھر پھیرنا چہا لیکن میرا صرار برھتا ہی گیا۔ فرمایا عبدالحق! جناب رسول اللہ ﷺ کی سنت تو کبھی پوری ہونی چاہیئے۔ اسکے بعد انتہائی بزرگانہ انداز میں فرمایا کہ میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا: (بار بار آدھ پاؤ مسور کی دال پکا کر سب گھر والوں نے تھوڑی تھوڑی پی کر یا تربوز کے چھلکے سڑک پر سے اۓھا کر دھو کر شب میں پکا کر اس کا پانی پی کر گذرکیا)


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

نسخہ بمطابق 16:52، 28 جولائی 2015ء

محمد حسین احمد
اسیر مالٹآ
سیّد حسین احمد مدنی
سید حسین احمد مدنیؒ

معلومات شخصیت
پیدائش 19 شوال،1296ھ بمطابق 1879ء
بانگڑ میو، ضلع اناؤں، اتر پردیش، ہندوستان
وفات 5 اکتوبر 1957ء (78 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیوبند  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ہندوستانی
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی دارالعلوم دیوبند
استاذ خلیل احمد انبہٹوی،  محمود حسن دیوبندی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد سرفراز خان صفدر،  عبد الحمید خان سواتی،  مولانا مجاہد الحسينى،  سید سیاح الدین کاکاخیل،  منت اللہ رحمانی،  احتشام الحق تھانوی،  مولانا جمشید علی خان،  قاری فخر الدین گیاوی،  نعمت اللہ اعظمی،  نصیر احمد خان بلند شہری  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم،  امام،  سیاست دان،  حریت پسند  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
دستخط
 
فائل:شیخ الہند مولانا سید حسین احمد مدنیؒ.jpg
سید حسین احمد مدنی


تعارف

پورا نام شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ ، آپ شیخ الہند مھمود حسن ؒ کے جانشین تھے۔

ولادت

19 شوال 1296ھ بمطابق 1879ء بمقام بانگڑ میو ضلع اناؤں، اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

شجرہ نسب

حسین احمد مدنی سید ہیں۔ آپکا شجرہ حسین بن علی سے جا ملتا ہے۔آپکا شجرہ کچھ یوں ہے:

حسین احمد بن سید حبیب اللہ بن سید پیر علی بن سید جہانگیر بخش بن شاہ انور اشرف بن شاہ مدن الیٰ شاہ نور الحق۔

شاہ نور الحق، سید احمد توختہ تمثال رسول کی اولاد میں سے تھے اور وہ سید محمد مدنی المعروف بہ سید ناصر ترمذی کی اولاد سے تھے اور وہ سید حسین اصغر بن حضرت امام زین العابدین ابن شہید کربلا حضرت حسین بن علی کی اولاد سے تھے۔[3]

خاندان

سید حسین احمد مدنی کے 4 بھائی تھے۔محمد صدیق، احمد، جمیل احمد،محمود، بھائیوں میں آپ درمیانے تھے۔

آپکی تین بہنیں تھیں۔

  • زینب  (4 برس کی عمر میں فوت ہوئی)
  • نسیم زہرہ  (ڈیڑھ سال کی عمر میں فوت ہوئی)
  • ریاض فاطمہ (24 سال کی عمر میں مدینہ میں فوت ہوئیں)

ابتدائی تعلیم

آپکے والد سکول ہیڈ ماسٹر تھے۔ جب آپ کی عمر 3 سال کو پہنچی تو والد کی تبدیلی قصبہ ٹانڈہ میں ہوگئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم یہاں حاصل کی۔قاعدہ بغدادی اور پانچویں سیپارے تک والدہ سے پھر پانچ سے اخیر تک والد سے ناظرہ قرآن پڑھا۔

عصری بنیادی نصابی کتب

آمد نامہ، دستور الصبیاں، گلستان کا کچھ حصہ مکان پر اور اسکول میں دوئم درجہ تک پڑھنا ہوا۔ حساب، جبرو مقابلہ تک مساحت اور اقلیدس مقالہ اولیٰ، تمام جغراقفیہ عمومی و خصوصی، تاریخ عمومی و خصوصی، مساحت علمی (تختہ جریب وغیرہ سے امین ناپ کر باقاعدہ نقشہ بنانا) اور ہر چیز آٹح سال کی عمر تک بخوبی یاد ہوگئی تھی۔تیرہ سال کی عمر میں والد صاحب نے 1309ھ میں دارالعلوم دیوبند بھیج دیا۔ دو بھائی پہلے سے وہیں مقیم تھے چنانچہ انہی کے زیر سایہ بھائیوں کمرہ میں رہنے لگے۔ یہ کمرہ مولانا محمود الحسن کے مکان کے بالکل قریب واقع تھا۔

اساتذہ؛محمود الحسن، ذولفقار علی، عبدالعالی، خلیل احمد سہارنپوری، حکیم محمد حسن، غلام رسول بفوی، حافظ محمد احمد، حبیب الرحمٰن، محمد صدیق

دیوبند میں تعلیم کا آغاز

یہان پہنچنے کے بعد گلستان اور میزان شروع کی۔ بڑے بھائی صاحب نے محمود الحسن سے ابتدا کی درخواست کی چنانچہ مجمع میں انہوں نے مولانا خلیل احمد سے فرمایا آپ شروع کرادیں انہوں نے ابتداء کروادی۔ پھر بھائی سے میزان، منشعب پڑھی۔

حسین احمد مدنی کی زبانی:

دیوبند پہنچنے کے بعد وہ ضعیف سی کھیل کود کی آزادی جوکہ مکان پر تھی۔ وہ بھی جاتی رہی۔دونوں بھائی صاحبان بالخصوص بڑے بھائی صاحب سب سے ذیادہ سخت تھے۔ خوب مارا کرتے تھے۔ اس تقید اور نگرانی نے مجھ میں علمی شغف ذیادہ سے ذیادہ اور لہو لعب کا شغف کم سے کم کردیا۔[4]

مالٹا میں قید

محمود الحسن کو شریف مکہ حسین بن علی نے گرفتار کر کے انگریز کے حوالہ کیا تو انکے ہمراہ چار شاگرد بھی تھے جن میں حسین احمد مدنی بھی تھے۔ محمود الحسن نے کہا انگریزی گرنمنٹ نے مجھ کو تو مجرم سمجھا ہے، تم تو بے قصور ہو اپنی رہائی کی کوششیں کرو تو چاروں نے جواب دیا حضرت جان تو چلی جائے گی مگر آپکی خدمت سے جدا نہیں ہونگے۔

ایام اسیری میں صدمات

حسین احمد مدنی جب مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے تو پورا خاندان اور بسا بسایا گھر چھوڑ کر گئے نکلے تھے۔ سفر صرف دو چار دنوں کا تھا مگر تقدیر میں طویل لکھا تھا۔ گرفتار ہوئے مصر کیجانب روانگی ہوئی، سزا ہوئی۔ پھانسی کی خبریں گرم ہوئیں۔ مالٹا کی قید پیش آئی۔ استاد کی قربت اور انکی پدرانہ شفقت نے ہر مشکل آسان اور قابل برداشت بنادی تھی۔ قیدو بند کی سختیاں صبرو شکر کیساتھ جھیل رہے تھے۔

ایک دن کئی ہفتوں کی رکی ہوئی ڈاک پہنچی تو ہر خط مین کسی نہ کسی فرد خاندان کی موت کی خبر ملتی۔ اس طرح ایک ہی وقت میں باپ، جواں سال بچی، ہونہار بیٹے، جانثار بیوی، بیمار والدہ اور دو بھائیوں سمیت سات افراد خاندان کی جانکاہ خبر ملی۔ موت بر حق ہے مگر جن حالات میں حسین احمد مدنی کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں انہیں برداشت کرنا پہاڑ کے برابر کلیجہ چاہیے تھا۔[5]

جیل میں قرآن حفظ کرنا

سیّد حسین احمد مدنی نے مالٹا کی قید کے دوران 10 ماہ میں قرآن مجید یاد کرکے محمود الحسن کو تراویح کے بعد نوافل میں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح نصف جمادی اولا سے یاد کرنا شروع کیا اور ربیع الاول میں پورا یاد کر کے محمود الحسن کو اگلے رمضان میں سنادیا۔ اس دوران والد کی وفات اور دیگر کنبہ کی موت کی خبر نے بہت گہرا صدمہ و دکھ پہنچایا۔

جیل سے رہائی

جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد ٹوٹل ساڑھے تین سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد حضرت شیخ الہند اور انکے تمام ساتھیوں کو جن میں حسین احمد مدنی بھی شامل تھے آخر کار رہائی مل گئی۔ جب گھر سے چلے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گئے تھے مگر رہائی کے بعد جب اپنے علاقہ پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ خاندان کے افراد کی اموات اور 40 یا 42 برس کی عمر تھی۔ صدمے پہ صدمہ خاندان تھا نہ گھر۔[6]

سیرت و اخلاق

ڈاکٹر عبدالرّحمان شاجہان پوری فرماتے ہیں کہ:

علم عمل کی دنیا میں عظیم الشان شخصیات کے ناموں کے ساتھ مختلف خصائل و کمالات کی تصویریں ذہن کے پردے پر نمایاں ہوتی ہیں، لیکن شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کا نام زبان پر آتا ہے تو ایک کامل درجے کی اسلامی زندگی اپنے ذہن و فکر ، علم اور اخلاق و سیرت کے تمام کصائل و کمالات اور مھاسن و مھامد کے ساتھ تصویر میں ابھرتی اور ذہن کے پردوں پر نقش ہوجاتی ہے۔اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ اسلامی زندگی کیا ہوتی ہے؟ تو میں پورے یقین اور قلب کے کامل اطمینان کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ ھسین احمد مدنیؒ کی زندگی کو دیکھ لیجئے، اگر چہ یہ ایک قطعی اور آخری جواب ہے ، لیکن میں جانتا ہون کہ اس جواب کو عملی جواب تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ان حضرات کا قلب اس جواب سے مطمئن نہیں ہوسکتا جنہوں نے اپنی دور افتادگی و عدم مطالعہ کی وجہ سے یا قریب ہوکر بھی اپنی غفلت کی وجہ سے ،یا اس وجہ سے کہ کسی خاص ذوق و مسلک کے شغف و انہماک ، یا بعض تعصبات نے انکی نظروں کے آگے پردے ڈال دیئے تھے اور وہ حسین احمدؒ کے فکر کی رفعتوں ، سیرت کی دل ربائیوں اور علم و عمل کی جامعیت کبریٰ کو مھسوس نہ کرسکے تھے اور انکے مقام کی بلندیوں کا اندازہ نہ لگا سکے تھے۔[7]

یتیموں کی سرپرستی اور صلہ رحمی

مولانا فرید الوحیدی ؒ خود راوی ہیں کہ حضرت مدنیؒ یتیموں اور بیواؤن کی عموما امداد فرماتے تھے۔ ایسے افراد میری نظر میں ہیں جنہیں بے روزگاری کے دور میں مستقل امداد دیتے رہے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم کی قید نہ تھی۔ جو لوگ مفلوک الحال ہوتے انکی امداد باضابطہ طور پر فرماتے۔ عید کے مواقع پر اگر آبائی وطن ہوتے تو خود رشتہ داروں کے ہاں عید سے پہلے جاتے اور عیدی تقسیم فرماتے۔

مولانا مدنیؒ اپنے یتیم بھتیجے کی شادی کیلئے 25،000 پچیس ہزار روپے جیب کی مالیت سے عالی شن گھر تعمیر کروایا۔بھتیجے کی وفات کے بعد انکی اولاد کا کہنا ہے کہ گرفتاری و قید تک ہمیں احساس بھی نہ ہونے دیا کہ ہم یتیم ہیں۔ غرض یہ کہ اس دور نفسا نفسی میں حقیقی پوتوں کے ساتھ پرخلوص مہرو محبت عنقا ہے۔ بھتیجے اور اسکی اولاد کے ساتھ غیر معمولی مہرو محبت کے برتاؤ کی مثال بھی شاید مشکل سے نظر آئے۔[8]

مستحقین کی خبر گیری

مولانا نجم الدین اصلاحیؒ تحریر کرتے ہیں:

حضرت مدنیؒ جب تک زندہ رہے سخاوت کا دریا بہتا رہا اور فیاضی کا سمندر موجزن رہا۔ حضرت کا محبوب مشغلہ ہی یہی تھا کہ دولت کو اللہ کے راستہ مین لتایا جائے اور نادار لوگوں کی ضروریوت پوری کی جائیں۔
  • طلبا کی ایک جماعت ایسی بھی تھی جسکی آپؒ مدد کیا کرتے تھے۔ میرے ہی کمرے میں ایک صاحب رہتے ےتھے جنہیں اصولا مدرسہ سے کھانا نہیں ملتا تھا میں نے ایک دن پوچھ لیا تا کہا کہ حضرت مدنیؒ انتظام فرما دیتے ہیں۔
  • ایک مرتبہ حضرت کی خدنت میں ھاضر تھا دیگر حاضرین کی کافی تعداد تھی۔ عرضیاں پیش کی جارہی تھیں ایک طالب علم کی عضی کو غور سے پڑھا پھر اسکے بعد دریافت کیا کہ تمہارے گھر تک سفر کا کرایہ کتنا ہے۔ اس نے کہا 15 روپے۔ پوچھا تمہارے پاس کتنے ہیں یا بالکل نہیں ہیں؟ اس نے جواب دیا 7 روپے، پھر حضرت نے جیب سے اسے 8 روپے عنایت کیئے۔ بعد مین معلوم ہوا کہ سال بھر میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔[9]

میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا

مولانا عبدالحق مدنیؒ کا بیان ہے:

مدینہ منورہ والے حضرت ؒ کی اتنی عزت کرتے تھے کہ دوسرے کسی عالم کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا لیکن حضرت مدنیؒ رمضان شریف میں روزہ پر روزہ رکھتے اور کسی کو خبر نہ ہوتی۔ چنانچہ میں نے افطار کا پروگرام رکھا۔ کھانا لے آیا اصرار پر حضرت نے تھوڑا سا کھایا۔ میں سمجتا رہا کہ حضرت کے گھر سے بھی کھانا آئے گا مگر افطاری تو کجا سحر کو بھی نہ آیا۔ حضرت کے پاس چند کھجوریں تھیں جن سے روزہ افطار اور سحر کرلیا کرتے تھے۔ میں نے عض کیا آنجناب کے گھر سے نہ افطار میں کھانا آیا اور نہ سحر کیلئے کوئی خبر آئی؟

حضرت مدنی نے بات ٹالنے بہت کوشش کی اور گفتگو کا رخ ادھر ادھر پھیرنا چہا لیکن میرا صرار برھتا ہی گیا۔ فرمایا عبدالحق! جناب رسول اللہ ﷺ کی سنت تو کبھی پوری ہونی چاہیئے۔ اسکے بعد انتہائی بزرگانہ انداز میں فرمایا کہ میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا: (بار بار آدھ پاؤ مسور کی دال پکا کر سب گھر والوں نے تھوڑی تھوڑی پی کر یا تربوز کے چھلکے سڑک پر سے اۓھا کر دھو کر شب میں پکا کر اس کا پانی پی کر گذرکیا)

حوالہ جات

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/130563811 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/144828 — بنام: Sayyid Ḥusain Aḥmad Madnī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. تاریخ آئینہ اودھ صفحہ 64
  4. (تخلیص نقش حیات، صفحہ 54 تا 55)
  5. شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒایک تاریخی و سوانحی مطالعہ، از فرید الوحید
  6. چراغ محمد، از مولانا زید الحسینی
  7. ایک سیاسی مطالعہ ، از ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری
  8. شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ، صفحہ 71 ، از مولانا عبدالقیوم حقانی
  9. شیخ الالسلام صفحہ نمبر 232