"ناموسی قتل" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 15: سطر 15:
;(الف) عدالتی پہل
;(الف) عدالتی پہل
جون 22، 2010 کو سپریم کورٹ نے ایک غیرسرکاری تنظیم کی مفاد عامہ درخواست پر مرکزی حکومت اور نو ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے واضح کیا کہ قتل کے معاملوں میں کچھ بھی عزت و تعظیم کا پہلو نہیں ہے۔
جون 22، 2010 کو سپریم کورٹ نے ایک غیرسرکاری تنظیم کی مفاد عامہ درخواست پر مرکزی حکومت اور نو ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے واضح کیا کہ قتل کے معاملوں میں کچھ بھی عزت و تعظیم کا پہلو نہیں ہے۔

;(ب) قانونی پہل
[[قومی کمیشن برائے خواتین]] (National Commission for Women) نے ایک اکائی قائم کی ہے جو کہ جرائم کو دیکھتی ہے اور متاثرین قانونی جارہ جوئی میں مدد کرتی ہے۔


==مزید دیکھیے==
==مزید دیکھیے==

نسخہ بمطابق 18:46، 14 ستمبر 2015ء

ہرسال دنیا کے 31 سے زائد ممالک میں ہزاروں عورتوں کو ان ہی کے عزیزواقارب کی جانب سے خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ قاتلوں کا ایقان ہے ہوتا ہے کہ ان کی شناخت خاندان کے نام و شہرت سے جڑی ہے۔ اس کی وجہ سے جب بھی خاندان کو بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے، رشتے دار قاتل بنتے ہیں۔وہ قتل ہی کو صورت حال کا واحد حل تصور کرتے ہیں۔ یہ رسم بھارت، پاکستان اور عرب ممالک میں کافی حد تک پھیلی ہوئی ہے۔

پاکستان میں بلوچستان اور سندھ میں زیادہ عام تھی۔ انکے رسم و رواج کے مطابق اپنے خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اسکے شریک جرم کا قتل کرنا جائز تھا اور قاتل سزا سے صاف بچ جاتا تھا۔سندھ میں اسے کاروکاری کہتے ہیں۔ پنجاب میں یہ کالا کالی کہلاتی ہے۔ خیبرپختونخواہ میں طورطورہ جبکہ بلوچستان میں سیاہ کاری کہی جاتی ہے۔اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام تھا۔ لوگ اپنے کسی دشمن کو تنہا پا کر مار دیتے تھے اور پھر اپنے ہی خاندان کی کسی عورت کو جو بڑھیا یا بچی بھی ہو سکتی تھی، کو مار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیتے تھے اور بیان دیتے تھے کہ انہیں غلط کام کرتے دیکھا گیا تھا اس لیے غیرت میں آ کران دونوں مار دیا گیا

قتل کے وجوہ

خاندان کے قتل پر آمادہ ہونے کی وجہ دراصل کسی لڑکی کی کسی لڑکے سے بڑھنے والی قربت ہے۔ یہ معاملہ صرف ملاقاتوں تک محدود ہو سکتا ہے، جسمانی تعلقات تک آگے بڑھ سکتا ہے، یا جیساکہ اکثر ترقی پزیر ممالک "خانہ آبادی" کے نام سے شادی کو موسوم کیا گیا ہے، اسی منطقی حد تک پہنچ سکتا ہے۔ کئی جگہوں پر لڑکیوں کو اپنے شریک حیات کے انتخاب کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اگر لڑکی کبھی ذات، برادری یا مذہب سے باہر کے لڑکے کو چنتی ہے، تو یہ اور بھی فتنہ و فساد اور قتل وخون کی نوعیت لے سکتا ہے۔

بھارت میں عزت و آبرو سے جڑے قتل کے معاملے

حالانکہ عزت و آبرو سے جڑے قتل کے معاملے بھارت کے کئی شہری اور دیہی علاقوں میں رونما ہوئے ہیں، تاہم ان واقعات کی کثرت گاؤں کے علاقوں میں زیادہ ہے۔

کھپ پنچاہت

کھپ پنچاہتیں بھارت کے خود ساختہ ادارے ہیں۔ یہاں لڑکیوں کی اپنی مرضی سے شادی بھی ایک قابل سزا جرم ہے۔ ہریانہ کے کچھ گاؤں میں لڑکیوں کو دھمکایا جانا، بے عزت کیا جانا یا پنچایتی فیصلے کے تحت قتل ہونا ایک عام بات ہے۔ یہاں خاندان والے ہی کئی بار اپنی لڑکیوں کو کیڑاکُش ادویہ دے کر مار ڈالتے ہیں اور پولیس کو اطلاع دیے بغیر لاشوں کو جلا دیتے ہیں۔ اگر لڑکی کہیں لڑکے ساتھ فرار ہوتی ہے، تب پورے خاندان کا مقاطعہ کیا جاتا ہےاور خاندان کو بھاری جرمانہ دینا ہوتا ہے۔ مگر عمومًا لڑکے کے لوگوں کو کوئی اُف تک نہیں کہتا۔

قتل کے معاملوں کو روکنے کی پہل

(الف) عدالتی پہل

جون 22، 2010 کو سپریم کورٹ نے ایک غیرسرکاری تنظیم کی مفاد عامہ درخواست پر مرکزی حکومت اور نو ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے واضح کیا کہ قتل کے معاملوں میں کچھ بھی عزت و تعظیم کا پہلو نہیں ہے۔

(ب) قانونی پہل

قومی کمیشن برائے خواتین (National Commission for Women) نے ایک اکائی قائم کی ہے جو کہ جرائم کو دیکھتی ہے اور متاثرین قانونی جارہ جوئی میں مدد کرتی ہے۔

مزید دیکھیے

بیرونی ربط

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔