"جمال ابڑو" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← (5), ← using AWB
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:نثر نگار
سطر 33: سطر 33:
[[زمرہ:تحریک پاکستان]]
[[زمرہ:تحریک پاکستان]]
[[زمرہ:پاکستانی مصنفین]]
[[زمرہ:پاکستانی مصنفین]]

[[زمرہ:نثر نگار]]
[[زمرہ:سندھ]]
[[زمرہ:سندھ]]
[[زمرہ:سندھی شخصیات]]
[[زمرہ:سندھی شخصیات]]

نسخہ بمطابق 06:41، 13 اپریل 2016ء

Jamal-ud-din Abro
جمال ابرو

معلومات شخصیت
پیدائش 2 مئی 1924(1924-05-02)
سنگین(ضلع دادو), سندھ, پاکستان
وفات جون 30، 2004(2004-60-30) (عمر  80 سال)
کراچی
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جمال ابڑو ممتاز ماہر تعلیم علی خان ابڑو کے بیٹے تھے - انہوں نے ابتدائی تعلیم میہڑ کے قریب اپنے گاؤں سانگی میں حاصل کی۔ وہ کچھ عرصہ جوناگڑھ میں بھی زیر تعلیم رہے-

تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1948 میں جمال ابڑو وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے- کچھ عرصے تک پبلک پراسیکیوٹر رہنے کے بعد عدلیہ سے منسلک ہوگئے۔ وہ سندھ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائر ہوئے- اس دوران وہ سندھ اسمبلی کے سیکریٹری اور سروسز ٹربیونل کے چیئرمین بھی رہے- لیکن ان کی پہچان ادب اور ان کے ترقی پسند خیالات تھے-

انہوں نے اسکول کے زمانے سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا- انہوں نے سچ، پیار، محبت، انسانی حقوق، مساوات اور سماجی انصاف جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا-

ان کی پہلی کتاب ’ پشو پاشا ‘ افسانوں کا مجموعہ تھی جس نے انہیں امر کر دیا- ان کی کہانیوں نے مواد، اسلوب، فن اور خیالات کے حوالے سے سندھی ادب میں ایک انقلاب برپا کر دیا- انہوں نے سندھی افسانہ نگاری کو نئے رجحانات سے روشناس کیا۔

ابڑو کا شمار جدید سندھی افسانے کے بانیوں میں ہوتا ہے- ان کے بعض افسانوں کے ترجمے انگریزی، اردو، روسی اور جرمن زبانوں میں بھی ہوچکے ہیں-

جمال ابڑو کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سندھی ادب میں ترقی پسند خیالات کو ناصرف روشناس کرایا بلکہ اس مقصد کے لئے علمی کام اورتنظیم سازی بھی کی-

وہ سندھی ادیبوں کی ترقی پسند تنظیم سندھی ادبی سنگت کے بانیوں میں سے تھے- اس تنظیم نے سندھ میں سیاسی فکر کی ترقی اور ترویج میں اہم کردار ادا کیا-

ان کے بیٹے بدر ابڑو سندھ کے ممتاز ادیب اور محقق ہیں-

جمال ابڑو کو ادب کے علاوہ سندھ کی تاریخ اور ثقافت پر بھی دسترس حاصل تھی - انہوں کی خود نوشت سوانح کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں-

ترقی پسند فکر رکھنے والے ابڑو عمر کے آخری حصے میں مذہب کی طرف راغب ہو گئے تھے ۔80 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔