"ہن" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 3: سطر 3:


== ماخذ ==
== ماخذ ==
{{Infobox Former Country
انہیں ہیپھتھال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے کم از کم تین بادشاہوں کے نام ہیپھتھال تھا۔ مغربی دنیا میں سب سے پہلے پروکوپس نے توجہ دی۔ اس کا کہنا ہے کہ ہن خانہ بدوش نہیں تھے وہ اس سے بہت پہلے زرعی اراضی پر آباد تھے اور انہوں نے میڈیا کے ساتھ مل کر روم پر حملہ کیا ہے۔ (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ۔ 81)
|conventional_long_name = ہونی سلطنت<br>Hunnic Empire
|common_name = ہونی سلطنت <br>Hunnic Empire
|continent = Europe
|government_type = [[Tribe|Tribal]] [[Confederation]]
|event_start = [[Balamber]] began uniting the Huns and Germanic tribes
|year_start = 370s
|event_end = [[Dengizich]], son of Attila, dies
|year_end = 469
|image_map = Huns450.png
|image_map_caption = The Hunnic Empire under [[Attila]]
|common_languages = [[Hunnic language|Hunnic]]<br>[[Gothic language|Gothic]]<br>Various tribal languages
|leader1 = [[Balamber]]
|year_leader1 = 370s
|title_leader = [[List of Hunnic rulers|High King]]
|leader2 = [[Attila]] and [[Bleda]]|year_leader2 = c. 435-445|leader3 = Attila|year_leader3 = 445-453|leader4 = Dengizich|year_leader4 = 453-469|capital = |event1 = [[Attila]] and [[Bleda]] become co-rulers of the united tribes|event2 = Death of Bleda, Attila becomes sole ruler|event3 = [[Battle of the Catalaunian Plains]]|event4 = Invasion of northern Italy|event5 = [[Battle of Nedao]]|date_event1 = 437|date_event2 = 445|date_event3 = 451|date_event4 = 452|date_event5 = 454|event_pre = Huns appear north-west of the [[Caspian Sea]]|date_pre = pre 370s
|today = {{flag|Hungary}}<br>{{flag|Ukraine}}<br>{{flag|Moldova}}<br>{{flag|Russia}}<br>{{flag|Romania}}<br>{{flag|Slovakia}}<br>{{flag|Czech Republic}}<br>{{flag|Poland}}<br>{{flag|Germany}}<br>{{flag|Belarus}}<br>{{flag|Serbia}}<br>{{flag|Austria}}<br>{{flag|Lithuania}}<br>{{flag|Croatia}}<br>{{flag|Bulgaria}}}}
انہیں ہیپھتھال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے کم از کم تین بادشاہوں کے نام ہیپھتھال تھا۔ مغربی دنیا میں سب سے پہلے پروکوپس نے توجہ دی۔ اس کا کہنا ہے کہ ہن خانہ بدوش نہیں تھے وہ اس سے بہت پہلے زرعی اراضی پر آباد تھے اور انہوں نے میڈیا کے ساتھ مل کر روم پر حملہ کیا ہے۔ (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ۔ 81)
ہونگ نو (ہن) منگولی نہیں تھے ان خڈ و خال آریائی تھے اور یہ بات ان کے سپاہیوں کی تصاویر سے ظاہر ہے جو چینیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کا رنگ، لمبی ستواں ناک اور گھنی ڈراھیاں تھیں۔ چہرے جا زاویہ اور چپٹی ناک جو منگولی نسل کا خاصہ ہے ہنوں کے ہاں نہیں ملتے ہیں۔ (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ۔ 83)
ہونگ نو (ہن) منگولی نہیں تھے ان خڈ و خال آریائی تھے اور یہ بات ان کے سپاہیوں کی تصاویر سے ظاہر ہے جو چینیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کا رنگ، لمبی ستواں ناک اور گھنی ڈراھیاں تھیں۔ چہرے جا زاویہ اور چپٹی ناک جو منگولی نسل کا خاصہ ہے ہنوں کے ہاں نہیں ملتے ہیں۔ (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ۔ 83)
[[File:Hun üstök.jpg|thumb|ہون کے برتن]]
[[File:Hun üstök.jpg|thumb|ہون کے برتن]]

نسخہ بمطابق 15:09، 12 نومبر 2016ء

ہون (Hunes) نیم وحشی خانہ بدوش قبیلے تھے۔ یہ لوگ مشرقی یورپ، قفقاز اور وسطی ایشیا میں پہلی صدی عیسوی اور ساتویں عیسوی کے درمیاں آباد تھے۔ ان کا اصل وطن سائبیریا کا صحرائی علاقہ تھا۔ جس کو اسٹپس کا میدان (Land of Stepe) کہتے ہیں۔ جہاں آبادی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے وطن میں خوراک ملنا مشکل ہوگئی۔ چنانچہ ان قبیلوں نے دوسرے علاقہ کا رخ کیا۔[1] ان کی ایک شاخ سیر دریا یا سیحوں کی طرف بڑھی اور دوسری شاخ دریائے اتل (Valga ) کے راستہ یورپ میں داخل ہوگئی جہاں ہونوں نے ایک وسیع حکومت قائم کی تھی۔[2] ان کا مشہور سردار اٹلا (Atila) تھا۔ جس نے یورپ میں تباہی مچادی تھی۔ اٹلا کی موت 453ء؁ میں ہوئی اور اس کی موت سے یورپ میں ہن مملکت کو زبردست صدمہ پہنچا اور ہن مملکت کا ذوال شروع ہوگیا۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ ۷۷۱)ہن قوم جو ہیاطلہ (Haytals) یا سفید ہن (With Hun) اور رومی ہفالت (Ephthalites)، چینی یزاYetha کے علاوہ چیونی اور اپنے حکمران کے نام سے یققلی کہلاتے تھے۔[3] [4]

ماخذ

ہونی سلطنت
Hunnic Empire
370s–469
The Hunnic Empire under Attila
The Hunnic Empire under Attila
عمومی زبانیںHunnic
Gothic
Various tribal languages
حکومتTribal Confederation
High King 
• 370s
Balamber
• c. 435-445
Attila and Bleda
• 445-453
Attila
• 453-469
Dengizich
تاریخ 
• Huns appear north-west of the Caspian Sea
pre 370s
• 
370s
• Attila and Bleda become co-rulers of the united tribes
437
• Death of Bleda, Attila becomes sole ruler
445
451
• Invasion of northern Italy
452
454
• 
469
موجودہ حصہ مجارستان
 یوکرین
 مالدووا
 روس
 رومانیہ
 سلوواکیہ
 چیک جمہوریہ
 پولینڈ
 جرمنی
 بیلاروس
 سربیا
 آسٹریا
 لتھووینیا
 کرویئشا
 بلغاریہ

انہیں ہیپھتھال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے کم از کم تین بادشاہوں کے نام ہیپھتھال تھا۔ مغربی دنیا میں سب سے پہلے پروکوپس نے توجہ دی۔ اس کا کہنا ہے کہ ہن خانہ بدوش نہیں تھے وہ اس سے بہت پہلے زرعی اراضی پر آباد تھے اور انہوں نے میڈیا کے ساتھ مل کر روم پر حملہ کیا ہے۔ (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ۔ 81) ہونگ نو (ہن) منگولی نہیں تھے ان خڈ و خال آریائی تھے اور یہ بات ان کے سپاہیوں کی تصاویر سے ظاہر ہے جو چینیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کا رنگ، لمبی ستواں ناک اور گھنی ڈراھیاں تھیں۔ چہرے جا زاویہ اور چپٹی ناک جو منگولی نسل کا خاصہ ہے ہنوں کے ہاں نہیں ملتے ہیں۔ (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ۔ 83)

ہون کے برتن

افغانستان میں نفوذ

ہونوں کا مشرق کی طرف خانہ بدوشی کا مجوزہ راستہ

ہن افغانستان میں یوچییوں کی چھوٹی شاخ کے ساتھ آئے تھے۔ جب یوچی خورد کے بادشاہ نے اپنی فتوحات کا دائرہ کوہستان ہندوکش کے جنوب تک بڑھایا اور کابل، غزنی، گندھارا کے علاقے اپنی مملکت میں شامل کئے، تو ہنوں کا ایک قبیلہ غزنین کے علاقے میں آباد ہوگیا۔ یہ ہنوں کی اپنی مملکت کی تشکیل کی ابتدائی کوشش تھی۔ کیدار نے جب آزادی کا حق منوانے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں شاپور سے ازسرنو تصادم ہوا اور میں کیدار کی مملکت چھن گئی اور خود بھی مارا گیا۔ اس جنگ میں ہنوں نے شاپورکا ساتھ دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں باختریہ کی مملکت ہنوں کے قبضہ میں آگئی، جو اپنے حکمران خاندان کے نام پر یققلی کے نام سے معروف ہوئے۔ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ) 400ء؁ عیسوی کے قریب کوہ ہندوکش کے شمال و جنوب کی سرزمین ہنوں کے قبضہ میں آچکی تھی۔ جنہیں ہندوکش کے سلسلہ کوہستان نے دو حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ مگر زابلی شاخ شمالی شاخ کی برتری تسلیم کرتی تھی اور دونوں ریاستیں ساسانیوں کی باج گزار تھیں۔ ساسانی جب تک طاقتور رہے ہن ساسانیوں کے باج گزار رہے۔ پانچویں صدی عیسوی میں ہنوں نے دیکھا ایران رومیوں کے طویل عرصہ تک رزم و پیکار اور کوہ قاف کے دروں کی وحشی قبائل کے مقابلے میں ان کی حفاظت مشکلات کا باعث ہو رہی ہے، تو ایرانی اقتدار کا جوا اتارنے کے لئے ہاتھ پیر مارنے لگے اور انہوں نے خراسان پر حملہ کردیا۔ لیکن بہرام گورنے نہایت مستعدی سے ان کا مقابلہ کیا اور انہیں مرو کے قریب ایسی شکست دی کہ ہن بہرام کی زندگی میں سراٹھانے کی ہمت نہیں کرسکے۔ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ) (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 98)

ایرانیوں پر غلبہ

بہرام گور کی موت کے بعد یزدگرد جانشین ہوا تو ہنوں نے نہ صرف خود مختیاری حاصل کرلی بلکہ ایران پر حملے شروع کردیئے۔ یزدگرد کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہرمزد تخت نشین ہوا، مگر اس کے دوسرے بیٹے فیروز نے نہیں مانا اور مدد لینے کے لئے ہنوں کے پاس پہنچ گیا اور ان سے مدد حاصل کرکے ایک لڑائی میں ھرمز کو قتل کردیا اور ساسانی تخت حاصل کرلیا۔ فیروز نے ہنوں کو ایک خظیر رقم دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر فیروزنے تخت حاصل کرنے کے بعد ایفائے عہد سے انکار کردیا۔ اس پر ہنوں نے ساسانی سلطنت کے مشرقی حصہ کو تاراج کرکے اجاڑ دیا۔ فیروز نے کوشش کی کہ ہنوں کی اس سرکش کی روک تھام کرے۔ مگر وہ ناکام رہا اس لئے مجبوراََ ایک خطیر رقم کے بدلے فیروز کو ہنوں سے صلح کرنی پڑی۔ مگر یہ صلح دیرپا ثابت نہیں ہوئی اور ہنوں کے حملے دوبارہ شروع ہوگئے۔ فیروز 482ء؁ میں وہ ایک لشکر لے کر گیا اور فیروزاور ہنوں کے درمیان بلخ کے قریب جنگ ہوئی، اس جنگ میں ساسانیوں کو شکست ہوئی اور فیروز ماراگیا۔ فیروز کے جانشین بلاش نے خراج کی ادائیگی پر صلح کرلی اور ہنوں کو ایک خظیر رقم سالانہ دینا منظور کرلیا اور اس طرح ہن ساسانیوں کے باج گزار کے بجائے ساسانیوں سے خراج لینے لگے اور ساسانیوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک ہنوں کو خراج دیا۔ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ) (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 99۔ 100)

ترکوں کا ہونوں پر غلبہ

531ء؁ میں نوشیرواں عادل ساسانی خاندان کا سب سے نامور حکمران ہوا۔560ء؁ میں وسط ایشیاء کی بساط پر ایک نئی قوم نمودار ہوئی، یعنی ترکوں کی مغربی سلطنت جس کا حکمران ایل خان تھا۔ نوشیروان نے اس سے دوستانہ تعلقات قائم کرلئے اور ترکوں کی مدد سے ہنوں پر حملے کئے، جس میں ان کا سردار مارا گیا اور انہیں شکست ہوئی، اور ان کی مملکت کا خاتمہ ہوگیا۔ مگراس علاقے پر ترکوں کا اثر و رسوخ قائم ہو گیا۔ (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 106)

برصغیر پر حملہ

ہنوں کی جنوبی یعنی زابلی سلطنت جو انہوں نے کشن حکمرانوں کو شکست دے کر حاصل کی تھی۔ وہ کشنوں کو شکست دے کر برصغیر میں داخل ہوگئے اور ۸۵۴ عیسوی میں انہوں نے پہلی مرتبہ گپتا مملکت پر حملہ کیا۔ شروع میں سکندا گپت نے بڑی حد تک ان کا مقابلہ کیا اور انہیں کامیابی سے روک لیا۔ لیکن ہنوں کے نئے نئے گروہ برابر آتے رہے اور آخر کار گپتا مملکت میں داخل ہوگئے۔ ان لڑائیوں کی تفصیلات تو نہیں ملتی ہیں، لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ سکندا گپت خود اپنے علاقے کے وسط میں ان پر حملہ کیا تھا اور اس کے علاوہ گپتا حکومت کے سکوں کی قیمت گرگئی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتا ہے کہ ہن گپتا حکومت کے وسیع علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 171۔176۔ 177)

زابلی خاندان

پانچویں صدی عیسوی میں زابلی مملکت پر ایک نیا خاندان حکمران تھا۔ اس خاندان کے دو بادشاہوں ٹورامن (Toramana) اور مہرکلا (Miheracula) نے برصغیر میں وسیع فتوحات کیں۔ ٹورامن نے شمال مغربی علاقوں کے وسیع حصے پر اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے سکے اور کتبے ہونوں کی تاریخ کا سب سے بڑا ماخذ ہیں۔ جو مدھیہ پردیش سے لے کر شمالی علاقوں اور ایران سے ملے ہیں۔ اس سے اس کی سلطنت کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ [5] [6]۔

ہیونگ سانگ نے لکھا ہے کہ گپتا خاندان کے بالادیتہ نے ہون سردار ٹورامن کے حملہ کو روکا اور اس کو شکست دے کر اس کے بیٹے مہر گل (Miheracula) کو قید کرلیا اور بعد میں اس کو قید سے آزاد کردیا۔

دارلحکومت

وی اے اسمتھ (V A Smith) کا کہنا ہے کہ ہنوں کے دارلحکومت کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ بامیان تھا کہ ہرات۔ مہرگل جب برصغیر کا گورنر تھا تو اس کا دارلحکومت سالہ (سیالکوٹ) تھا۔ مگر ہنوں کی وسیع مملکت کا دارلحکومت بامیان تھا۔ چینی مصنف سون لونگ Song long ۹۱۵ عیسوی میں ہرات میں مہر کولا کے دربار میں آیا تھا۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 178)

ہونوں کا زوال

ٹورامن کا جانشین مہر کولا (مہر گل) (515ء؁ تا 544ء؁) حکمران بنا۔ یہ ایک طاقتور حکمران تھا اور چالیس ملکوں سے خراج وصول کرتا تھا۔ ہندی روایات میں اسے ایک ظالم حکمران بتایا گیا ہے کہ وہ بنی نوح انسان پر ظلم توڑتا تھا۔ اس نے اپنے ظلم کا مظاہرہ مقامی لوگوں کے قتل عام سے کیا۔ اس نے امن پسند بدھوں کو تہہ بالا کرڈالا اور نہایت بے رحیمی سے ان کی خانقاہوں اور اسٹوپوں کو تباہ و برباد کرڈالا۔ اس کے ظلم و ستم نے مقامی راجاؤں کو اس کے خلاف ایک متحدہ وفاق بنانے پر مجبور کردیا اور اسے قومی وفاق نے پہلے اسے بالادیتہ کی سردگی میں شکست دی اور اس کو بعد میں ۳۳۵ء؁ میں منڈسور کے راجہ یسودھرمن نے اسے مکمل شکست دی۔ اس کے بعد اس کی حکومت افغانستان تک محدود ہو کر رہے گئی۔ اس شکست کے بعد مہراکولا زیادہ دیر تک زندہ نہ رہا۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 178 تا 180) ہنوں نے وسطہ ہند اور ہند پر تقریباََ دوسو سال حکومت کی، ان کے دور میں ہندوستان میں دوبارہ ہندو مذہب کا احیاء ہوا اور بدھ مت کا ذوال شروع ہوا۔ ہن سورج کی پوجا کرتے تھے، اس لئے ان کو سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر شیو مہاراج کو اپنانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنے جھنڈے پر آنندی (بیل) کی تصویر بنائی تھی، جو شیو کی علامت تھی۔ چینی سیاح ہوانگ سانگ ہنوں کے آخری دور 629ء؁ میں برصغیر آیا تھا۔ اس کے سفر نامے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ کئی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور یہ ریاستیں ہنوں کی باج گزار تھیں۔ جب ہنوں کی حکومت کمزور ہوئی تو یہ ریاستیں خود مختیار ہوگئیں۔ (سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، 146۔ 147)

خاتمہ

مہرکلا کے مرنے کے بعد جلد ہی افغانستان سے ہنوں کا اقتدار ختم ہوگیا اور ترکوں کے عروج نے ان کی قوت کو زبر دست صدمہ پہنچایا۔ ترکوں نے ایران کے نوشیروان کے اتحاد سے افغانستان میں ان کے اقتدار کا 563ء؁ تا 567ء؁ کے دوران مکمل خاتمہ کردیا اور کچھ عرصہ تک ساسانیوں نے ہنوں کے کچھ علاقوں پر قبضہ جمالیا، لیکن ترکوں کی بڑھتی ہوئی طاقت نے سارے افغانستان پر اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ ہنوں کی دونوں سلطنتوں کے خاتمہ کے بعد ان کے امراء کے قبضہ میں علاقہ رہے تھے۔ مسلمانوں کی آمد کے وقت ان کے بہت سے خاندانوں کی افغانستان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں اور ان میں سے بعض چینیوں کو اور بعض ایرانیوں کو خراج ادا کررہے تھے۔ [7]

حوالہ جات

  1. Denis Sinor (editor) (1990)۔ The Cambridge history of early Inner Asia (1. publ. ایڈیشن)۔ Cambridge [u.a.]: Cambridge Univ. Press۔ صفحہ: 177–203۔ ISBN 9780521243049 
  2. Gmyrya L. Hun Country At The Caspian Gate, Dagestan, Makhachkala 1995, p. 9 (no ISBN but the book is available in US libraries, Russian title Strana Gunnov u Kaspiyskix vorot, Dagestan, Makhachkala, 1995)
  3. ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 153
  4. افغانستان۔ معارف اسلامیہ
  5. ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 178
  6. افغانستان۔ معارف اسلامیہ
  7. افغانستان۔ معارف اسلامیہ