"ناموسی قتل" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ویکائی
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:Honorkilling.jpg|thumb|عالمی سطح پر ناموسی قتل کے معاملوں کا جائزہ لیتی ایک کتاب]]
[[ملف:Honorkilling.jpg|thumb|عالمی سطح پر ناموسی قتل کے معاملوں کا جائزہ لیتی ایک کتاب]]
ہرسال دنیا کے 31 سے زائد ممالک میں ہزاروں عورتوں کو ان ہی کے عزیز و اقارب کی جانب سے خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ قاتلوں کا ایقان ہوتا ہے کہ ان کی شناخت خاندان کے نام و شہرت سے جڑی ہے۔ اس کی وجہ سے جب بھی خاندان کو بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے، رشتے دار قاتل بنتے ہیں۔ وہ قتل ہی کو صورت حال کا واحد حل تصور کرتے ہیں۔ یہ رسم [[بھارت]]، [[پاکستان]] اور [[عرب]] ممالک میں بہت حد تک پھیلی ہوئی ہے۔
ہرسال دنیا کے 31 سے زائد ممالک میں ہزاروں عورتوں کو ان ہی کے عزیز و اقارب کی جانب سے خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ قاتلوں کا ایقان ہوتا ہے کہ ان کی شناخت خاندان کے نام و شہرت سے جڑی ہے۔ اس کی وجہ سے جب بھی خاندان کو بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے، رشتے دار قاتل بنتے ہیں۔ وہ قتل ہی کو صورت حال کا واحد حل تصور کرتے ہیں۔ یہ رسم [[بھارت]]، [[پاکستان]] اور [[عرب]] ممالک میں بہت حد تک پھیلی ہوئی ہے۔

[[File:Karokari3.PNG|thumb|کارو کاری]]
[[File:Karokari3.PNG|thumb|کارو کاری]]
[[پاکستان]] میں [[بلوچستان]] اور [[سندھ]] میں زیادہ عام تھی۔ انکے رسم و رواج کے مطابق اپنے خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اسکے شریک جرم کا قتل کرنا جائز تھا اور قاتل سزا سے صاف بچ جاتا تھا۔سندھ میں ایسے قتل کو کاروکاری کہتے ہیں۔ [[پنجاب]] میں یہ کالا کالی کہلاتا ہے۔ [[خیبرپختونخوا]] میں طورطورہ جبکہ بلوچستان میں سیاہ کاری کہا جاتا ہے۔اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام تھا۔ لوگ اپنے کسی دشمن کو تنہا پا کر مار دیتے تھے اور پھر اپنے ہی خاندان کی کسی عورت کو جو بڑھیا یا بچی بھی ہو سکتی تھی، کو مار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیتے تھے اور بیان دیتے تھے کہ انہیں غلط کام کرتے دیکھا گیا تھا اس لیے غیرت میں آ کران دونوں کو مار دیا گیا۔
[[پاکستان]] میں [[بلوچستان]] اور [[سندھ]] میں زیادہ عام تھی۔ انکے رسم و رواج کے مطابق اپنے خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اسکے شریک جرم کا قتل کرنا جائز تھا اور قاتل سزا سے صاف بچ جاتا تھا۔ سندھ میں ایسے قتل کو ''کاروکاری'' کہتے ہیں۔ [[پنجاب، پاکستان|پنجاب]] میں یہ ''کالا کالی'' کہلاتا ہے۔ [[خیبر پختونخوا]] میں ''طورطورہ'' جبکہ بلوچستان میں ''سیاہ کاری'' کہا جاتا ہے۔ اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام تھا۔ لوگ اپنے کسی دشمن کو تنہا پا کر مار دیتے تھے اور پھر اپنے ہی خاندان کی کسی عورت کو جو بڑھیا یا بچی بھی ہو سکتی تھی، کو مار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیتے تھے اور بیان دیتے تھے کہ انہیں غلط کام کرتے دیکھا گیا تھا اس لیے غیرت میں آ کران دونوں کو مار دیا گیا۔


==قتل کے وجوہ==
==قتل کے وجوہ==

نسخہ بمطابق 15:48، 1 دسمبر 2016ء

عالمی سطح پر ناموسی قتل کے معاملوں کا جائزہ لیتی ایک کتاب

ہرسال دنیا کے 31 سے زائد ممالک میں ہزاروں عورتوں کو ان ہی کے عزیز و اقارب کی جانب سے خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ قاتلوں کا ایقان ہوتا ہے کہ ان کی شناخت خاندان کے نام و شہرت سے جڑی ہے۔ اس کی وجہ سے جب بھی خاندان کو بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے، رشتے دار قاتل بنتے ہیں۔ وہ قتل ہی کو صورت حال کا واحد حل تصور کرتے ہیں۔ یہ رسم بھارت، پاکستان اور عرب ممالک میں بہت حد تک پھیلی ہوئی ہے۔

فائل:Karokari3.PNG
کارو کاری

پاکستان میں بلوچستان اور سندھ میں زیادہ عام تھی۔ انکے رسم و رواج کے مطابق اپنے خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اسکے شریک جرم کا قتل کرنا جائز تھا اور قاتل سزا سے صاف بچ جاتا تھا۔ سندھ میں ایسے قتل کو کاروکاری کہتے ہیں۔ پنجاب میں یہ کالا کالی کہلاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں طورطورہ جبکہ بلوچستان میں سیاہ کاری کہا جاتا ہے۔ اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام تھا۔ لوگ اپنے کسی دشمن کو تنہا پا کر مار دیتے تھے اور پھر اپنے ہی خاندان کی کسی عورت کو جو بڑھیا یا بچی بھی ہو سکتی تھی، کو مار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیتے تھے اور بیان دیتے تھے کہ انہیں غلط کام کرتے دیکھا گیا تھا اس لیے غیرت میں آ کران دونوں کو مار دیا گیا۔

قتل کے وجوہ

خاندان کے قتل پر آمادہ ہونے کی وجہ دراصل کسی لڑکی کی کسی لڑکے سے بڑھنے والی قربت ہے۔ یہ معاملہ صرف ملاقاتوں تک محدود ہو سکتا ہے، جسمانی تعلقات تک آگے بڑھ سکتا ہے، یا جیساکہ اکثر ترقی پزیر ممالک "خانہ آبادی" کے نام سے شادی کو موسوم کیا گیا ہے، اسی منطقی حد تک پہنچ سکتا ہے۔ کئی جگہوں پر لڑکیوں کو اپنے شریک حیات کے انتخاب کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اگر لڑکی کبھی ذات، برادری یا مذہب سے باہر کے لڑکے کو چنتی ہے، تو یہ اور بھی فتنہ و فساد اور قتل وخون کی نوعیت لے سکتا ہے۔

بھارت میں عزت و آبرو سے جڑے قتل کے معاملے

حالانکہ عزت و آبرو سے جڑے قتل کے معاملے بھارت کے کئی شہری اور دیہی علاقوں میں رونما ہوئے ہیں، تاہم ان واقعات کی کثرت گاؤں کے علاقوں میں زیادہ ہے۔

کھیپ پنچاہت

کھیپ پنچایتیں بھارت کے خود ساختہ ادارے ہیں۔ یہاں لڑکیوں کی اپنی مرضی سے شادی بھی ایک قابل سزا جرم ہے۔ ہریانہ کے کچھ گاؤں میں لڑکیوں کو دھمکایا جانا، بے عزت کیا جانا یا پنچایتی فیصلے کے تحت قتل ہونا ایک عام بات ہے۔ یہاں خاندان والے ہی کئی بار اپنی لڑکیوں کو کیڑاکُش ادویہ دے کر مار ڈالتے ہیں اور پولیس کو اطلاع دیے بغیر لاشوں کو جلا دیتے ہیں۔ اگر لڑکی کہیں لڑکے کےساتھ فرار ہوتی ہے، تب پورے خاندان کا مقاطعہ کیا جاتا ہےاور خاندان کو بھاری جرمانہ دینا ہوتا ہے۔ مگر عمومًا لڑکے کے لوگوں کو کوئی اُف تک نہیں کہتا۔

قتل کے معاملوں کو روکنے کی پہل

(الف) عدالتی پہل

22 جون، 2010ء کو سپریم کورٹ نے ایک غیرسرکاری تنظیم کی مفاد عامہ درخواست پر مرکزی حکومت اور نو ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے واضح کیا کہ قتل کے معاملوں میں کچھ بھی عزت و تعظیم کا پہلو نہیں ہے۔

(ب) قانونی پہل

قومی کمیشن برائے خواتین (National Commission for Women) نے ایک اکائی قائم کی ہے جو جرائم کو دیکھتی ہے اور متاثرین قانونی جارہ جوئی میں مدد کرتی ہے۔

(ج) قانون سازی کی کوشش

بھارت کی حکومت کے زیر غور ایک تجویز ہے تعزیرات ہند کی دفعہ 300 میں ایک ذیلی دفعہ جوڑ دی جائے جو عزت و آبرو سے جڑے قتل کے معاملوں پر مرکوز ہو۔ یہ دفعہ قتل کے جرم پر روشنی ڈالتی ہے، جس کی سب سے بڑی سزا موت ہے اور کم ترین سزا جرمانہ ہے۔ یہ بھی زیر غور ہے کہ ان معاملوں میں مدد کے لیے بھارت کے قانون شہادت (Indian Evidence Act) اور خصوصی شادی کے قانون (Special Marriage Act, 1954) میں ترمیم کی جائے تاکہ دو الگ سماجی پس منظر کے لوگ شادی کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کرنے کے بعد انہیں شادی کی قانونی کارروائی کے لیے لازمی 30 دنوں کے انتظار کے مرحلے سے گزرنا نہ پڑے۔ یہ ترمیم اس لیے ضروری سمجھی جارہی ہے کیونکہ ان شادی بیاہ کے مواقع پر جوڑوں کے بیچ قانونی طور پر رشتہ تسلیم کیے جانے جانے کے لیے عموماً 45 دن لگتے ہیں۔ اس دوران لڑکے اور لڑکی دونوں کی جانوں کو خطرہ ہوسکتاہے۔[1]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. ”Honor Killing”, Shivam Joshi, Journal of IPEM (Noida), Volume 8, No.2, July-Dec 2014, ISSN 0974-8903 pp 80-85.

بیرونی ربط