"رابعہ خضداری" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''رابعہ خضداری''' جو '''رابعہ بلخی''' کےنام سے بھی مشہور ہیں، رابعہ پہلی بلوچ [[فارسی زبان|فارسی]] گو [[شاعرہ]] تھیں۔ جو چوتھی صدی ہجری کی فارسی شاعرہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔<ref>[http://persianacademy.ir/userfiles/file/gozaresh02/daneshname02.pdf گزارش فرهنگستان زبان و ادب فارسی۔ ص 63]</ref> رابعہ کے والد کعب قزداری تھے ۔آپ بلوچی النسل تھے اور [[خراسان]]، [[قندھار]]، بست کے حاکم رہے۔
'''رابعہ خضداری''' جو '''رابعہ بلخی''' کےنام سے بھی مشہور ہیں، رابعہ پہلی بلوچ [[فارسی زبان|فارسی]] گو [[شاعرہ]] تھیں۔ جو چوتھی صدی ہجری کی فارسی شاعرہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔<ref>[http://persianacademy.ir/userfiles/file/gozaresh02/daneshname02.pdf گزارش فرهنگستان زبان و ادب فارسی۔ ص 63]</ref> رابعہ کے والد کعب قزداری تھے ۔آپ بلوچی النسل تھے اور [[خراسان]]، [[قندھار]]، بست کے حاکم رہے۔


=== نمونہ کلام ===
== نمونہ کلام ==
# {{شعر آغاز}}
# {{شعر آغاز}}
{{ب|مرا بعشق همی متهم کنی بہ حیل |چہ حجت آری پیش خدای عزوجل}}
{{ب|مرا بعشق همی متهم کنی بہ حیل |چہ حجت آری پیش خدای عزوجل}}

نسخہ بمطابق 05:32، 19 جولائی 2017ء

رابعہ خضداری جو رابعہ بلخی کےنام سے بھی مشہور ہیں، رابعہ پہلی بلوچ فارسی گو شاعرہ تھیں۔ جو چوتھی صدی ہجری کی فارسی شاعرہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔[1] رابعہ کے والد کعب قزداری تھے ۔آپ بلوچی النسل تھے اور خراسان، قندھار، بست کے حاکم رہے۔

نمونہ کلام

  1. مرا بعشق همی متهم کنی بہ حیل چہ حجت آری پیش خدای عزوجل
    بہ عشقت اندر عاصی همی نیارم شدبذنبم اندر طاغی همی شوی بمثل
    نعیم بی تو نخواهم جحیم با تو رواستکہ بی تو شکّر زهر است و با تو زهر عسل
    بروی نیکو تکیہ مکن کہ تا یکچندبہ سنبل اندر پنهان کنند نجم زحل
    هرآینہ نہ دروغ است آنچہ گفت حکیمفمن تکبر یوماً فبعد عز ذل
    1. دعوت من بر تو آن شد کایزدت عاشق کناد بر یکی سنگین‌دل نامهربان چون خویشتن
      تا بدانی درد عشق و داغ هجر و غم کشیچون بهجر اندر بپیچی پس بدانی قدر من
      1. ز بس گل کہ در باغ مأوی گرفتچمن رنگ ارتنگ مانی گرفت
        صبا نافهٔ مشک تبت نداشتجهان بوی مشک از چہ معنی گرفت
        مگر چشم مجنون بہ ابر اندر استکہ گل رنگ رخسار لیلی گرفت
        بہ می‌ماند اندر عقیقین قدحسرشکی کہ در لالہ مأوی گرفت
        قدح گیر چندی و دنیی مگیرکہ بدبخت شد آنکہ دنیی گرفت
        سر نرگس تازہ از زرّ و سیمنشان سر تاج کسری گرفت
        چو رهبان شد اندر لباس کبودبنفشہ مگر دین ترسی گرفت
        1. عشق او باز اندر آوردم بہ بندکوشش بسیار نامد سودمند
          عشق دریایی کرانہ ناپدیدکی توان کردن شنا ای هوشمند
          عشق را خواهی کہ تا پایان بریبس بباید ساخت با هر ناپسند
          زشت باید دید و انگارید خوبزهر باید خورد و انگارید قند
          توسنی کردم ندانستم همیکز کشیدن تنگ‌تر گردد کمند

          حوالہ جات

          1. مقالہ:رابعہ بلخي یا حمامهء در حمام خون ذؤیان خرد