"ابو الفضل فیضی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 20: سطر 20:
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:بھارتی مرد شعرا]]
[[زمرہ:1547ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1547ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1595ء کی وفیات]]
[[زمرہ:1595ء کی وفیات]]

نسخہ بمطابق 20:36، 13 اگست 2017ء

ابو الفضل فیضی شیخ ابو الفیض مبارک کے بیٹے اورمؤرخ ابو الفضل علامی کے بڑے بھائی تھے۔یہ اکبر کے نورتن میں سے ایک ہے۔

ولادت

ان کی ولادت سلیم شاہ (سوری) کے عہد میں آگرہ میں 1547ء میں ہوئی ۔ ابو الفضل کے والد شیخ مبارک ناگور کے رہنے والے تھے تا ہم ابو الفضل کی پیدائش آگرہ میں ہوئی۔

علمی مقام

انہوں نے عربی زبان میں تعلیم حاصل کی۔5برس کی عمر میں ہی وہ لکھنے اور پڑھنے کے قابل ہوگئے تھے۔اکبر کے دربار میں شاعر اور ادیب کی حیثیت سے موجود تھے۔بہت اچھا ہونے کی وجہ سےاکبر نے انہیں’’ ملکہ الشعراء‘‘ کا خطاب عطا کیا اور انہیں شہزادہ مراد کا اتالیق مقرر کیا۔ تین شہزادوں کے استاد رہے۔تاریخ ، فلسفہ اور طب وادبیات کے ماہرتھے۔ابو الفضل کے تعلق سے جو منفی بات مشہور ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اکبر کو دین الہیٰ رائج کرنے کیلئے کافی ترغیب دی۔عقائد کے معاملے میں وہ اکبر کے خیالات پر حاوی تھے۔

اکبر کے رتن

1575میں اکبر کے دربار میں ان کی رسائی ہوئی۔اکبر نے ان کو علم و فراست کی وجہ سے اپنے نو رتن میں شامل کیا تھا۔دکن کی کئی جنگوں میں بھی انہوں نے حصہ لیا۔ وہ مغلیہ فوج کے سپہ سالار بھی رہے۔

تصنیفات

وہ بہت بڑا مصنف ہے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس کی تصنیفات 101 تھیں چند مشہور کتابیں یہ ہیں

  • سواطع الالہام (بے نقط تفسیر)ہیں۔
  • مرکز ادوار
  • سلیمان وبلقیس
  • اکبر نامہ (اکبر کی سوانح حیات پر مشتمل تحریرجس کی تین جلدیں ہیں)
  • بیجاگڑنت
  • لیلاوتی اورمہابھارت کا ترجمہ (مہا بھارت کے ایک حصہ کا ترجمہ سنسکرت میں کیا)۔
  • دیوان طباشیر الصبح

وفات

ابو الفضل فیضی کی وفات عارضہ دمہ کی وجہ سے آگرہ میں 1595ء بمطابق 1004ھ میں ہوئی ۔[1] بتایا جاتا ہے کہ ابو الفضل کو اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم نے سازش کے ذریعہ قتل کروادیا۔ دکن کی لڑائی سے واپسی کے دوران ویر سنگھ بندیلا نامی ایک راجہ کے ذریعہ یہ کام کروایا گیا۔ ابو الفضل ‘مان سنگھ اور دوسرے نو رتنوں کی طرح جہانگیر کی تاجپوشی کے خلاف تھے۔مدھیہ پردیش کے ترواڑ کے قریب ان کی تدفین کردی گئی اور ان کا سر شہزادہ کو بطور تحفہ بھیجا گیا تھا۔ یہ واقعہ1613کا ہے جبکہ سلیم نے1602میں ہی مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لی تھی۔[2]

حوالہ جات

  1. اردو دائرہ معارف اسلامہ جلد 15،صفحہ 1088 تا 1089 جامعہ پنجاب لاہور
  2. http://viqarehind.com/اکبر-کے-نو-9-رتن قسط10/