"بلھے شاہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:تصوف
سطر 68: سطر 68:
[[زمرہ:پنجابی صوفیا]]
[[زمرہ:پنجابی صوفیا]]
[[زمرہ:مغلیہ سلطنت کے شعراء]]
[[زمرہ:مغلیہ سلطنت کے شعراء]]

[[زمرہ:تصوف]]
[[زمرہ:1680ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1680ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1757ء کی وفیات]]
[[زمرہ:1757ء کی وفیات]]

نسخہ بمطابق 10:54، 8 نومبر 2017ء

بلھے شاہ
حضرت بابا بلھے شاہ
پیدائش1680
اچ, پنجاب
وفات1757 (aged 77)
قصور, پنجاب
پیشہشاعر
زبانپنجابی
نسلپنجابی
دورمغلیہ سلطنت
اصنافکافی

بلھے شاہ ایک پنجابی صوفی شاعر تھے۔

ابتدائی زندگی

بلھے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ ہے۔[1]آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 1680ء میں مغلیہ سلطنت کے عروج میں اوچ گیلانیاں میں پیدا ہو ئے۔[2] کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد قصور کے قریب پانڈومیں منتقل ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔قرآن ناظرہ کے علاوہ گلستان بوستان بھی پڑھی اور منطق، نحو، معانی، کنز قدوری،شرح وقایہ، سبقاء اور بحراطبواة بھی پڑھا۔ شطاریہ خیالات سے بھی مستفید ہو ئے۔ مرشد کی حیثیت سے شاہ عنایت کے ساتھ ان کا جنون آمیز رشتہ ان کی مابعد الطبیعیات سے پیدا ہوا تھا۔ وہ پکے وحدت الو جودی تھے، اس لئے ہر شے کو مظہر خدا جانتے تھے۔ مرشد کے لئے انسان کامل کا درجہ رکھتے تھے۔ مصلحت اندیشی اور مطابقت پذیری کبھی بھی ان کی ذات کا حصہ نہ بن سکی۔ ظاہر پسندی پر تنقید و طنز ہمہ وقت ان کی شاعری کا پسندیدہ جزو رہی۔ ان کی شاعری میں شرع اور عشق ہمیشہ متصادم نظر آتے ہیں اور ان کی ہمدردیاں ہمیشہ عشق کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ان کے کام میں عشق ایک ایسی زبردست قوت بن کر سامنے آتا ہے جس کے آگے شرع بند نہیں باندھ سکتی۔

زندگی

بلھے شاہ مغلیہ سلطنت کے عالمگیری عہد کی روح کے خلاف رد عمل کانمایاں ترین مظہر ہیں۔ ان کا تعلق صوفیاء کے قادریہ مکتبہ فکر سے تھا۔ ان کی ذہنی نشوونما میں قادریہ کے علاوہ شطاریہ فکر نے بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اسی لئے ان کی شاعری کے باغیانہ فکر کی بعض بنیادی خصوصیات شطاریوں سے مستعار ہیں۔ ایک بزرگ شیخ عنایت اللہ قصوری، محمد علی رضا شطاری کے مرید تھے۔ صوفیانہ مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے اور قادریہ سلسلے سے بھی بیعت تھے اس لئے ان کی ذات میں یہ دونوں سلسلے مل کر ایک نئی ترکیب کا موجب بنے۔ بلھے شاہ انہی شاہ عنایت کے مرید تھے۔

شاعری

اپنی شاعری میں وہ مذہبی ضابطوں پر ہی تنقید نہیں کرتے بلکہ ترکِ دنیا کی مذمت بھی کرتے ہیں اور محض علم کے جمع کر نے کو وبالِ جان قرار دیتے ہیں۔ علم کی مخالفت اصل میں” علم بغیر عمل“ کی مخالفت ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ بلھے شاہ کی شاعری عالمگیری عقیدہ پرستی کے خلاف رد عمل ہے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ لاقانونیت، خانہ جنگی، انتشار اور افغان طالع آزماؤں کی وحشیانہ مہموں میں بسر ہوا تھا، اس لئے اس کا گہرا اثر ان کے افکار پر بھی پڑا۔ ان کی شاعری میں صلح کل، انسان دوستی، اور عالم گیر محبت کا جود رس ملتا ہے ،وہ اسی معروضی صورت حال کے خلاف رد عمل ہے۔

نمونہ کلام

پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی

انتقال

بلھے شاہ کا انتقال 1757ء میں قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔[3] ان کے مزار پر آج تک عقیدت مند ہر سال ان کی صوفیانہ شاعری گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

ان کے کلام کے بارے میں

بیرونی روابط

حوالہ جات