"کثیر شوہری" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
درستی املا
سطر 5: سطر 5:
==تعدد ازواج اور کثیر زوجگی میں فرق==
==تعدد ازواج اور کثیر زوجگی میں فرق==
[[تعدد ازواج]] صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے، جس میں صرف مرد ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ جبکہ کثیر زوجگی، مردوں، عورتوں اور حیوانات کے لیے ہے۔<br />
[[تعدد ازواج]] صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے، جس میں صرف مرد ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ جبکہ کثیر زوجگی، مردوں، عورتوں اور حیوانات کے لیے ہے۔<br />
تعدد ازواج صرف مسلمانوں کے ہاں چار بیویوں تک محدود ہے اگر پانچ بیویاں ہونگی تو کثیر زوجگی شمار ہو گی اور ایک سے زیادہ شوہر رکھنے والی عورت کیلئےکبھی تعددازواج استعمال نہیں ہوا ویسے معنی کے اعتبار سے تین بیویاں بھی کثیر شمار ہوتی ہیں۔<br />
تعدد ازواج صرف مسلمانوں کے ہاں چار بیویوں تک محدود ہے اگر پانچ بیویاں ہونگی تو کثیر زوجگی شمار ہو گی اور ایک سے زیادہ شوہر رکھنے والی عورت کے لیےکبھی تعددازواج استعمال نہیں ہوا ویسے معنی کے اعتبار سے تین بیویاں بھی کثیر شمار ہوتی ہیں۔<br />
اسلام نے توتعدد ازواج پر پابندی لگا کر اس کو چار تک محدود کر دیا۔ ایک صحابی تھے [[غیلان بن سلمہ]] ثقفی۔ قبول اسلام کے وقت ان کی دس بیویاں تھیں۔ آپ نے کہا کہ بھئی چار سے تو زیادہ رکھنے کی گنجائش نہیں۔ انہیں چھ بیویوں کو طلاق دینا پڑی۔ اسلام نے تو زائد تعداد کو محدود کیا اور اس محدود تعدادکو ہی تعدد ازواج کہا گیا کثیر زوجگی نہیں<ref>سنن ترمذی ابواب النکاح</ref><br />
اسلام نے توتعدد ازواج پر پابندی لگا کر اس کو چار تک محدود کر دیا۔ ایک صحابی تھے [[غیلان بن سلمہ]] ثقفی۔ قبول اسلام کے وقت ان کی دس بیویاں تھیں۔ آپ نے کہا کہ بھئی چار سے تو زیادہ رکھنے کی گنجائش نہیں۔ انہیں چھ بیویوں کو طلاق دینا پڑی۔ اسلام نے تو زائد تعداد کو محدود کیا اور اس محدود تعدادکو ہی تعدد ازواج کہا گیا کثیر زوجگی نہیں<ref>سنن ترمذی ابواب النکاح</ref><br />
تعدد محدود کیلئے جبکہ کثیر لا محدود کیلئے استعمال ہوتا ہےجس کی وضاحت اس عبارت سے ہوتی ہے۔<br />
تعدد محدود کے لیے جبکہ کثیر لا محدود کے لیے استعمال ہوتا ہےجس کی وضاحت اس عبارت سے ہوتی ہے۔<br />
"اس بات پر فقہاء امت کا اجماع ہے کہ اس آیت ٍ(سورہ نساء آیت 3)کی رو سے تعدد ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے"۔<ref>تفسیر تفہیم القرآن سید ابوالاعلی مودودی سورہ نساء آیت 3</ref>
"اس بات پر فقہاء امت کا اجماع ہے کہ اس آیت ٍ(سورہ نساء آیت 3)کی رو سے تعدد ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے"۔<ref>تفسیر تفہیم القرآن سید ابوالاعلی مودودی سورہ نساء آیت 3</ref>



نسخہ بمطابق 09:43، 1 فروری 2018ء

دروپدی پانچ پانڈو بھائیوں کی بیوی

تعدد شوہری (Polyandry) بعض قوموں میں دستور تھا کہ ایک عورت بیک وقت ایک سے زیادہ شوہر رکھ سکتی تھی۔ جیسے مہابھارت کے زمانے میں رانی دروپدی پانچ بھائیوں کی بیوی تھی۔ آج بھی مدغاسکر اور ملایا کے بعض حصوں اور بحرالکاہل کے جزیروں کی عورتیں ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ شادیاں کرسکتی ہیں۔اسکیمو اور جنوبی امریکا کی عورتیں بھی تعدد شوہری کی قائل ہیں۔ تبت اور شاید ہندوستان کے بعض پرانے قبائل میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یہ رسم رائج ہے۔ لیکن اہل اسلام اور اہل کتاب یعنی مسیحی اور یہودی قوموں کے ہاں تعدد شوہری قطعاً ناجائز ہے بلکہ اگر کوئی عورت ایسا کرتی ہے تو وہ صریح زنا کی مرتکب سمجھی جاتی ہے۔

تعدد ازواج اور کثیر زوجگی میں فرق

تعدد ازواج صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے، جس میں صرف مرد ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ جبکہ کثیر زوجگی، مردوں، عورتوں اور حیوانات کے لیے ہے۔
تعدد ازواج صرف مسلمانوں کے ہاں چار بیویوں تک محدود ہے اگر پانچ بیویاں ہونگی تو کثیر زوجگی شمار ہو گی اور ایک سے زیادہ شوہر رکھنے والی عورت کے لیےکبھی تعددازواج استعمال نہیں ہوا ویسے معنی کے اعتبار سے تین بیویاں بھی کثیر شمار ہوتی ہیں۔
اسلام نے توتعدد ازواج پر پابندی لگا کر اس کو چار تک محدود کر دیا۔ ایک صحابی تھے غیلان بن سلمہ ثقفی۔ قبول اسلام کے وقت ان کی دس بیویاں تھیں۔ آپ نے کہا کہ بھئی چار سے تو زیادہ رکھنے کی گنجائش نہیں۔ انہیں چھ بیویوں کو طلاق دینا پڑی۔ اسلام نے تو زائد تعداد کو محدود کیا اور اس محدود تعدادکو ہی تعدد ازواج کہا گیا کثیر زوجگی نہیں[1]
تعدد محدود کے لیے جبکہ کثیر لا محدود کے لیے استعمال ہوتا ہےجس کی وضاحت اس عبارت سے ہوتی ہے۔
"اس بات پر فقہاء امت کا اجماع ہے کہ اس آیت ٍ(سورہ نساء آیت 3)کی رو سے تعدد ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے"۔[2]

حوالہ جات

  1. سنن ترمذی ابواب النکاح
  2. تفسیر تفہیم القرآن سید ابوالاعلی مودودی سورہ نساء آیت 3