"فضل الرحمن گنج مراد آبادی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 7: سطر 7:


== تعلیم وتربیت ==
== تعلیم وتربیت ==
آپ نے ابتدائی کتب درس نظامی (فقہ، اصول و کلام کا تکملہ وغیرہ) مولانا نور الحق بن مولانا انوار الحق فرنگی علی سے لکھنؤ میں کیا۔ آپ نے فرمایا ”ہم نے ان سے تفسیر بیضاوی و کامل قدوری اور پھر ہدایہ مکمل پڑھیں ۔ اس کے بعد دہلی کا سفر اختیار فرمایا۔ جہاں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے قرآن کریم حرفاً حرفاً صحاح ستہ، موطا امام مالک، موطا امام محمد،مسند امام اعظم،تفسیر قرطبی، دارمی، دار قطنی، معجم کبیر،مستدرک،جامع صغیر، قسطلانی، تفسیر کبیر، تفسیر روح البیان، تفسیر بغوی ،فقہ میں فقہ اکبر، شرح فقہ اکبر کا مکمل درس لیا اور سند فراغت سے سرفراز ہوئے۔
آپ نے ابتدائی کتب درس نظامی (فقہ، اصول و کلام کا تکملہ وغیرہ) مولانا نور الحق بن مولانا انوار الحق فرنگی علی سے لکھنؤ میں کیا۔ آپ نے فرمایا ”ہم نے ان سے تفسیر بیضاوی و کامل قدوری اور پھر ہدایہ مکمل پڑھیں۔ اس کے بعد دہلی کا سفر اختیار فرمایا۔ جہاں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے قرآن کریم حرفاً حرفاً صحاح ستہ، موطا امام مالک، موطا امام محمد،مسند امام اعظم،تفسیر قرطبی، دارمی، دار قطنی، معجم کبیر،مستدرک،جامع صغیر، قسطلانی، تفسیر کبیر، تفسیر روح البیان، تفسیر بغوی ،فقہ میں فقہ اکبر، شرح فقہ اکبر کا مکمل درس لیا اور سند فراغت سے سرفراز ہوئے۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی آپ کو تمام طلبہ سے الگ بعد نمازِ عشاء درس دیا کرتے تھے اور اس درس میں صرف شاہ صاحب کے داماد سید ظہیر الدین شہید کو شرکت کی اجازت تھی ۔ ایک روز سید ظہیر الدین شہید نے دورانِ درس شاہ صاحب سے عرض کیا کہ مولانا فضل الرحمن کو سب سے الگ درس دینے میں کیا حکمت ہے تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ مولوی فضل رحماں کو سب سے علاحدہ پڑھانے میں یہ راز ہے کہ ”وہ توجہات رسالت سے پڑھتے ہیں۔ ان کو برابر حضوری رسالت حاصل رہنے کو وجہ سے میں بھی یہ پسند کرتا ہوں کہ میری راتیں بھی حضوری رسالت میں حدیث و قرآن خوانی کے ساتھ گزریں“۔ مولوی فضل رحماں کو بفیض مصطفائی و بھی علوم عطا ہو رہے ہیں۔ سب کچھ وہ آنحضرت ﷺ سے پا لیتے ہیں اور پوچھ لیتے ہیں<ref>رحمت و نعمت صفحہ 116</ref>
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی آپ کو تمام طلبہ سے الگ بعد نمازِ عشاء درس دیا کرتے تھے اور اس درس میں صرف شاہ صاحب کے داماد سید ظہیر الدین شہید کو شرکت کی اجازت تھی۔ ایک روز سید ظہیر الدین شہید نے دورانِ درس شاہ صاحب سے عرض کیا کہ مولانا فضل الرحمن کو سب سے الگ درس دینے میں کیا حکمت ہے تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ مولوی فضل رحماں کو سب سے علاحدہ پڑھانے میں یہ راز ہے کہ ”وہ توجہات رسالت سے پڑھتے ہیں۔ ان کو برابر حضوری رسالت حاصل رہنے کو وجہ سے میں بھی یہ پسند کرتا ہوں کہ میری راتیں بھی حضوری رسالت میں حدیث و قرآن خوانی کے ساتھ گزریں“۔ مولوی فضل رحماں کو بفیض مصطفائی و بھی علوم عطا ہو رہے ہیں۔ سب کچھ وہ آنحضرت ﷺ سے پا لیتے ہیں اور پوچھ لیتے ہیں<ref>رحمت و نعمت صفحہ 116</ref>
== القابات ==
== القابات ==
قدوة السالکین۔.۔.تاجدارِ طریقت۔.۔.پروانہ شمع رسالت۔،۔ تاجدار علم ومعرفت
قدوة السالکین۔.۔.تاجدارِ طریقت۔.۔.پروانہ شمع رسالت۔،۔ تاجدار علم ومعرفت

نسخہ بمطابق 22:07، 21 مارچ 2018ء

شاہ فضل الرحمٰن صدیقی گنج مراد آبادیاہلسنت کے بڑے بزرگ اور آزادی ہند کے بڑے مجاہد ہیں۔

ولادت

شاہ فضل الرحمٰن عثمانى گنج مراد آبادی یکم رمضان المبارک بوقت صبح صادق 1208ھ کو اودھ کے علاقے ملانواں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا اسم مبارک شاہ اہل اللہ بن شیخ فیض اور والدہ بی بی بصیرت تھا جو شاہ عبد الرحمن لکھنوی کے مرید تھے اور گنج مراد آبادی کا نام ‘‘فضل الرحمٰن’’ آپ ہی نے تجویز فرمایا اور اسی سے آپ کی تاریخ ولادت نکلتی ہے [1]

حسب و نسب

شاہ فضل الرحمٰن کا سلسلہ نسب 29 واسطوں سے ہوتا ہوا خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق اس دور میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ اہل اللہ شاہ کے یہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان کے مہینے میں دودھ نہیں پیتا۔ اس بات کا اس قدر چرچا ہوا کہ جب کبھی رمضان المبارک کی 29 تاریخ کو مطلع ابر آلود ہوتا تو لوگ آپ کی والدہ کے پاس آکر دریافت کرتے کہ کیا آج آپ کے بچے نے دودھ نوش فرمایا ہے۔ آپ کی والدہ بتاتیں کہ ہاں تو وہ یقین کر لیتے کہ شوال کا چاند ہو گیا۔[2]

تعلیم وتربیت

آپ نے ابتدائی کتب درس نظامی (فقہ، اصول و کلام کا تکملہ وغیرہ) مولانا نور الحق بن مولانا انوار الحق فرنگی علی سے لکھنؤ میں کیا۔ آپ نے فرمایا ”ہم نے ان سے تفسیر بیضاوی و کامل قدوری اور پھر ہدایہ مکمل پڑھیں۔ اس کے بعد دہلی کا سفر اختیار فرمایا۔ جہاں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے قرآن کریم حرفاً حرفاً صحاح ستہ، موطا امام مالک، موطا امام محمد،مسند امام اعظم،تفسیر قرطبی، دارمی، دار قطنی، معجم کبیر،مستدرک،جامع صغیر، قسطلانی، تفسیر کبیر، تفسیر روح البیان، تفسیر بغوی ،فقہ میں فقہ اکبر، شرح فقہ اکبر کا مکمل درس لیا اور سند فراغت سے سرفراز ہوئے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی آپ کو تمام طلبہ سے الگ بعد نمازِ عشاء درس دیا کرتے تھے اور اس درس میں صرف شاہ صاحب کے داماد سید ظہیر الدین شہید کو شرکت کی اجازت تھی۔ ایک روز سید ظہیر الدین شہید نے دورانِ درس شاہ صاحب سے عرض کیا کہ مولانا فضل الرحمن کو سب سے الگ درس دینے میں کیا حکمت ہے تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ مولوی فضل رحماں کو سب سے علاحدہ پڑھانے میں یہ راز ہے کہ ”وہ توجہات رسالت سے پڑھتے ہیں۔ ان کو برابر حضوری رسالت حاصل رہنے کو وجہ سے میں بھی یہ پسند کرتا ہوں کہ میری راتیں بھی حضوری رسالت میں حدیث و قرآن خوانی کے ساتھ گزریں“۔ مولوی فضل رحماں کو بفیض مصطفائی و بھی علوم عطا ہو رہے ہیں۔ سب کچھ وہ آنحضرت ﷺ سے پا لیتے ہیں اور پوچھ لیتے ہیں[3]

القابات

قدوة السالکین۔.۔.تاجدارِ طریقت۔.۔.پروانہ شمع رسالت۔،۔ تاجدار علم ومعرفت

بیعت و خلافت

آپ سلسلہ قادریہ نقشبندیہ مجددیہ کے شہر آفاق بزرگ شاہ محمد آفاق دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سلوک کی تعلیم حاصل کی اور بیعت خلافت سے سرفراز ہوئے۔ آپ کے مرشد نے آپ کو علامہ ابن جزری کی کتاب حصن حصین پڑھائی اور اس کے پڑھنے اور پڑھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ شاہ آفاق دہلوی آپ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اوروفات سے پہلے آپ کے مرشد نے آپ کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی۔ مرشد کی نظر عنایت دیکھ کر بعض مریدوں نے عرض کیا کہ وہ پہلے سے مرید ہیں لیکن ان پر اتنی نظر عنایت کیوں نہیں جتنی کہ مولوی فضل رحمان پر ہے۔ شاہ آفاق نے جواب دیا”تم کو میں چاہتا ہوں کہ کچھ ہوجاﺅ اور ان کو حق تعالیٰ چاہتا ہے لہٰذا میں بھی اسی کو چاہتا ہوں جس کو حق تعالیٰ چاہتا ہے“ [4]

وفات

آپ نے 105 سال طویل عمر پائی 23ربیع الاول 1313ھ کو وفات ہوئی، گنج مراد آباد (ہندوستان) میں مزار مرجع الخلائق ہے۔

حوالہ جات

  1. تذکرہ محدث سورتی صفحہ 35
  2. مسالک السالکین صفحہ791 جلد دوم
  3. رحمت و نعمت صفحہ 116
  4. تذکرہ اولیائے پاک و ہند صفحہ 390