"عزیز میاں" کے نسخوں کے درمیان فرق
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7) |
||
سطر 5: | سطر 5: | ||
|پس_منظر = انفرادی_فنکار |
|پس_منظر = انفرادی_فنکار |
||
|پیدائش_نام = عبد العزیز |
|پیدائش_نام = عبد العزیز |
||
|عرف = عزیز میاں میرٹھی<br>عزیز میاں قوال |
|عرف = عزیز میاں میرٹھی<br/>عزیز میاں قوال |
||
|ولادت = [[17 اپریل]] 1942ء |
|ولادت = [[17 اپریل]] 1942ء |
||
|وفات = [[6 دسمبر]] 2000ء |
|وفات = [[6 دسمبر]] 2000ء |
||
سطر 11: | سطر 11: | ||
|آلہ = [[ہارمونیئم]] |
|آلہ = [[ہارمونیئم]] |
||
|صنف = [[قوالی]] |
|صنف = [[قوالی]] |
||
|پیشہ = گلوکار<br>گیت نگار<br>موسیقار |
|پیشہ = گلوکار<br/>گیت نگار<br/>موسیقار |
||
|سرگرم_دور = 1970ء تا 2000ء |
|سرگرم_دور = 1970ء تا 2000ء |
||
}} |
}} |
||
سطر 26: | سطر 26: | ||
عزیز میاں کی قوالیوں میں زیادہ توجہ کورس گائیکی پر دی جاتی تھی جس کا مقصد قوالی کے بنیادی نکتہ پر زور دینا تھا۔ عزیز میاں کو شاعری پڑھنے میں کچھ ایسی مہارت حاصل تھی جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔ ان کی بیشتر قوالیاں دینی رنگ لیے ہوئے تھیں گو کہ انہوں نے رومانی رنگ میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ عزیز میاں کی مقبول ترین قوالیاں "میں شرابی میں شرابی" (یا "تیری صورت") اور "اللہ ہی جانے کون بشر ہے" شامل ہیں۔ |
عزیز میاں کی قوالیوں میں زیادہ توجہ کورس گائیکی پر دی جاتی تھی جس کا مقصد قوالی کے بنیادی نکتہ پر زور دینا تھا۔ عزیز میاں کو شاعری پڑھنے میں کچھ ایسی مہارت حاصل تھی جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔ ان کی بیشتر قوالیاں دینی رنگ لیے ہوئے تھیں گو کہ انہوں نے رومانی رنگ میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ عزیز میاں کی مقبول ترین قوالیاں "میں شرابی میں شرابی" (یا "تیری صورت") اور "اللہ ہی جانے کون بشر ہے" شامل ہیں۔ |
||
=میں شرابی= |
= میں شرابی = |
||
عزیز میاں کو اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پر بحث کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتے اور اشرف المخلوقات کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتے۔ خدا سے ہم کلام ہونے والی قوالیوں میں وہ زیادہ تر [[محمد اقبال|علامہ اقبال]] کی شاعری استعمال کرتے۔ مثلا عزیز میاں کے مندرجہ ذیل پسندیدہ اشعار پڑھیے: |
عزیز میاں کو اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پر بحث کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتے اور اشرف المخلوقات کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتے۔ خدا سے ہم کلام ہونے والی قوالیوں میں وہ زیادہ تر [[محمد اقبال|علامہ اقبال]] کی شاعری استعمال کرتے۔ مثلا عزیز میاں کے مندرجہ ذیل پسندیدہ اشعار پڑھیے: |
||
<div style='text-align: center;'> |
<div style='text-align: center;'> |
||
باغ{{زیر}} بہشت سے مجھے اذن{{زیر}} سفر دیا تھا کیوں<br |
باغ{{زیر}} بہشت سے مجھے اذن{{زیر}} سفر دیا تھا کیوں<br/> |
||
کار{{زیر}} جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر |
کار{{زیر}} جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر |
||
</div> |
</div> |
||
<div style='text-align: center;'> |
<div style='text-align: center;'> |
||
مجھے تو اس جہاں میں بس اک تجھی سے عشق ہے <br |
مجھے تو اس جہاں میں بس اک تجھی سے عشق ہے <br/> |
||
یا میرا امتحان لے یا میرا اعتبار کر |
یا میرا امتحان لے یا میرا اعتبار کر |
||
سطر 43: | سطر 43: | ||
صابری برادران نے عزیز میاں کی قوالی "میں شرابی میں شرابی" کو اپنی ایک قوالی "پینا وینا چھوڑ شرابی" میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ عزیز میاں نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب اپنی ایک اور قوالی "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" میں دیا۔ عزیز کے صابری برادران کو جواب کے بعد سے "میں شرابی میں شرابی" اور "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" کو ایک ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ |
صابری برادران نے عزیز میاں کی قوالی "میں شرابی میں شرابی" کو اپنی ایک قوالی "پینا وینا چھوڑ شرابی" میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ عزیز میاں نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب اپنی ایک اور قوالی "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" میں دیا۔ عزیز کے صابری برادران کو جواب کے بعد سے "میں شرابی میں شرابی" اور "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" کو ایک ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ |
||
=وفات= |
= وفات = |
||
عزیز میاں کا انتقال [[دسمبر]] 6، [[2000|2000ء]] کو [[تہران]] ([[ایران]]) میں [[یرقان]] کی وجہ سے ہوا۔ انہیں [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] کرم اللہ وجہ کی برسی کے موقع پر ایرانی حکومت نے قوالی کے لیے مدعو کیا تھا۔ عزیز میاں کے دو بیٹے، عمران اور تبریز، ان کے ورثہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ دونوں قوالی کے انداز میں اپنے والد سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ آپ کو [[ملتان]] میں دفن کیا گیا۔ |
عزیز میاں کا انتقال [[دسمبر]] 6، [[2000|2000ء]] کو [[تہران]] ([[ایران]]) میں [[یرقان]] کی وجہ سے ہوا۔ انہیں [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] کرم اللہ وجہ کی برسی کے موقع پر ایرانی حکومت نے قوالی کے لیے مدعو کیا تھا۔ عزیز میاں کے دو بیٹے، عمران اور تبریز، ان کے ورثہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ دونوں قوالی کے انداز میں اپنے والد سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ آپ کو [[ملتان]] میں دفن کیا گیا۔ |
||
{{تمغا برائے حسن کارکردگی|}} |
{{تمغا برائے حسن کارکردگی|}} |
||
==حوالہ جات== |
== حوالہ جات == |
||
{{حوالہ جات}} |
{{حوالہ جات}} |
||
==بیرونی روابت== |
== بیرونی روابت == |
||
* [https://www.tanumanusoufi.blogspot.com/ تنو منو صوفی بلوگ سپاٹ] |
* [https://www.tanumanusoufi.blogspot.com/ تنو منو صوفی بلوگ سپاٹ] |
||
[[زمرہ: |
[[زمرہ:1942ء کی پیدائشیں]] |
||
[[زمرہ: |
[[زمرہ:2000ء کی وفیات]] |
||
[[زمرہ:بیسویں صدی کے گلوکار]] |
[[زمرہ:بیسویں صدی کے گلوکار]] |
||
[[زمرہ:پاکستانی |
[[زمرہ:پاکستانی قوال]] |
||
[[زمرہ:پاکستانی مرد گلوکار]] |
[[زمرہ:پاکستانی مرد گلوکار]] |
||
[[زمرہ:پاکستانی موسیقی]] |
|||
⚫ | |||
[[زمرہ:تمغائے حسن کارکردگی]] |
[[زمرہ:تمغائے حسن کارکردگی]] |
||
[[زمرہ: |
[[زمرہ:فضلا جامعہ پنجاب]] |
||
[[زمرہ:2000ء کی وفیات]] |
|||
[[زمرہ:قوال]] |
[[زمرہ:قوال]] |
||
[[زمرہ: |
[[زمرہ:لاہور کے گلوکار]] |
||
⚫ |
نسخہ بمطابق 00:40، 23 مارچ 2018ء
عزیز میاں | ||
---|---|---|
عزیز میاں قوال عزیز میاں قوال | ||
فنکار موسیقی | ||
پیدائشی نام | عبد العزیز | |
دیگر نام | عزیز میاں میرٹھی عزیز میاں قوال | |
ولادت | 17 اپریل 1942ء | |
ابتدا | لاہور، پاکستان | |
وفات | 6 دسمبر 2000ء | |
اصناف موسیقی | قوالی | |
پیشہ | گلوکار گیت نگار موسیقار | |
آلۂ موسیقی | ہارمونیئم | |
سرگرم دور | 1970ء تا 2000ء |
عزیز میاں (ولادت: 17 اپریل، 1942ء، وفات: 6 دسمبر، 2000ء) پاکستان کے چند مقبول ترین قوالوں میں سے ہیں۔ ان کی پیدائش بھارت کے شہر دہلی میں ہوئی۔
عزیز میاں کا شمار قدرے روایتی قوالوں میں ہوتا تھا۔ ان کی آواز بارعب اور طاقتور تھی۔ لیکن ان کی کامیابی کا راز صرف ان کی آواز نہیں تھی۔ عزیز میاں نہ صرف ایک عظیم قوال تھے بلکہ ایک عظیم فلسفی بھی تھے، جو اکثر اپنے لیے شاعری خود کرتے تھے۔ عزیز میاں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے اردو اور عربی میں ایم اے کیا ہوا تھا۔
ان کا اصل نام عبد ا لعزیز تھا۔ "میاں" ان کا تکیہ کلام تھا، جو وہ اکثر اپنی قوالیوں میں بھی استعمال کرتے تھے، جو بعد میں ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ انہوں نے اپنے فنی دور کا آغاز "عزیز میاں میرٹھی" کی حیثیت سے کیا۔ میرٹھی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد عزیز میاں نے بھارت کے شہر میرٹھ سے اپنے وطن کی طرف ہجرت کی تھی۔
انہیں اپنے ابتدائی دور میں "فوجی قوال" کا لقب ملا کیونکہ ان کی شروع کی سٹیج کی بیشتر قوالیاں فوجی بیرکوں میں فوجی جوانوں کے لیے تھیں۔
مختلف قسم کے معمولی الزامات پر انہیں کئی دفعہ گرفتار کیا گیا لیکن بعد ازاں بری کر دیا گیا۔
عزیز میاں کی قوالیوں میں زیادہ توجہ کورس گائیکی پر دی جاتی تھی جس کا مقصد قوالی کے بنیادی نکتہ پر زور دینا تھا۔ عزیز میاں کو شاعری پڑھنے میں کچھ ایسی مہارت حاصل تھی جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔ ان کی بیشتر قوالیاں دینی رنگ لیے ہوئے تھیں گو کہ انہوں نے رومانی رنگ میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ عزیز میاں کی مقبول ترین قوالیاں "میں شرابی میں شرابی" (یا "تیری صورت") اور "اللہ ہی جانے کون بشر ہے" شامل ہیں۔
میں شرابی
عزیز میاں کو اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پر بحث کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتے اور اشرف المخلوقات کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتے۔ خدا سے ہم کلام ہونے والی قوالیوں میں وہ زیادہ تر علامہ اقبال کی شاعری استعمال کرتے۔ مثلا عزیز میاں کے مندرجہ ذیل پسندیدہ اشعار پڑھیے:
باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
مجھے تو اس جہاں میں بس اک تجھی سے عشق ہے
یا میرا امتحان لے یا میرا اعتبار کر
پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ مزاح کار عمر شریف نے ایک دفعہ عزیز میاں کے بارے میں ایک مزاحیہ شو میں کہا تھا: "لوگوں کے جھگڑے زمین پر ہوتے ہیں، اس کے جھگڑے آسمان پہ ہیں۔ یہ اللہ سے جھگڑا کرتا ہے"۔
صابری برادران نے عزیز میاں کی قوالی "میں شرابی میں شرابی" کو اپنی ایک قوالی "پینا وینا چھوڑ شرابی" میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ عزیز میاں نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب اپنی ایک اور قوالی "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" میں دیا۔ عزیز کے صابری برادران کو جواب کے بعد سے "میں شرابی میں شرابی" اور "ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں" کو ایک ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
وفات
عزیز میاں کا انتقال دسمبر 6، 2000ء کو تہران (ایران) میں یرقان کی وجہ سے ہوا۔ انہیں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی برسی کے موقع پر ایرانی حکومت نے قوالی کے لیے مدعو کیا تھا۔ عزیز میاں کے دو بیٹے، عمران اور تبریز، ان کے ورثہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ دونوں قوالی کے انداز میں اپنے والد سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ آپ کو ملتان میں دفن کیا گیا۔