"خدیجہ بنت خویلد" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 64: سطر 64:
{{شیعیت میں محترم شخصیات}}
{{شیعیت میں محترم شخصیات}}


<link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:555ء_کی_پیدائشیں" />
<link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:619ء_کی_وفیات" aria-labelledby="link=ویکیپیڈیا:منتخب_مضامین&amp;#124;10px&amp;#124;منتخب_مضمون_محمدﷺ" />
<link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:ازواج_مطہرات" />
[[زمرہ:اہل بیت]]
[[زمرہ:اہل بیت]]
[[زمرہ:جنت المعلیٰ میں مدفون شخصیات]]
[[زمرہ:جنت المعلیٰ میں مدفون شخصیات]]

نسخہ بمطابق 08:01، 25 اپریل 2018ء

{{{نام}}}
ولادت 556ء
مکہ مکرمہ
وفات 30 اپریل 619ء (مطابق قمری ہجری تقویم)
22 نومبر 619ء (مطابق تقویم نسی)
(63–64 سال)
مکہ مکرمہ
محترم در اسلام: اہل سنت و جماعت، شیعہ اثناعشری، اباضیہ، دروز،
زیدیہ اور اور تمام مسلمان
مزار جنت المعلیٰ، الحجون، مکہ مکرمہ
نسب * والد: خويلد بن اسد

خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء– وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے پیدا ہوئی اورصرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کے بڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوبطورہدیہ پیش کی گئی تھیں ۔

شجرہ نسب و خاندانی حالات

خدیجہ بنت خویلد اسد بن عبد العزیٰ بن قصی، قصی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جد امجد تھے۔ آپ کا تعلق قریش کی ایک نہایت معزز شاخ بنی اسد سے تھا، یہ خاندان اپنی شرافت و نجابت اور کاروباری معاملات میں ایمانداری اور راست روی سے عزت و شہرت کے بلند مقام پر فائز تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا۔ آپ کے والد ایک مشہور تاجر تھے اور بہت مالدار۔

ازدواجی زندگی

قتادہ کے قول کے مطابق، خدیجہ بنت خویلد کی پہلی شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی جس سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ اس کے انتقال کے بعد دوسری شادی ابوہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی جس سے تین لڑکے ہند اور طاہر پیدا ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد ابوہالہ کی بھی وفات ہو گئی۔ اس کے بعد آپ کی تیسری شادی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہوئی۔ جن سے آپ کی اولاد بھی ہوئی، آپ کی وفات ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ شہر میں محمد صل للہ علیہ والہ کی زوجہ کی حیثیت سے ہوئی۔

حدیث میں ذکر

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدیجہ کو بہت یاد کرتے تھے۔ حافظ ابن کثیر نے مختلف لوگوں سے روایت لکھی ہے[1] کہ عائشہ نے فرمایا کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سامنے خدیجہ کو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف و توصیف فرمائی تو عائشہ کے بیان کے مطابق ان پر وہی اثر ہوا جو کسی عورت پر اپنے شوہر کی زبانی اپنے علاوہ کسی دوسری عورت کی تعریف سن کر ہوتا ہے جس پر عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ قریش کی اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔ اس کے بعد عائشہ فرماتی ہیں کہ میری زبان سے یہ کلمات سن کر آپ کا رنگ اس طرح متغیر ہو گیا جیسے وحی کے ذریعے کسی غم انگیز خبر سے یا بندگانِ خدا پر اللہ کے عذاب کی خبر سے ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ

ان سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی، انہوں نے اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے بطن سے مجھے اللہ تعالٰیٰ نے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا جب کہ میری کسی دوسری بیوی سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔(جو زندہ رہتی)[1]

وفات

سیدہ خدیجہ نے 65 سال کی عمر میں ہجرت سے تین سال قبل 10 ماہِ رمضان بروز پیر 30 اپریل 619ء کو مکہ میں وفات پائی۔سیدہ خدیجہ کی وفات مدینہ کی ہجرت اور نماز فرض ہونے سے پہلے اسی سال ہوئی جب ابوطالب کی وفات ہوئی۔ اس سال کو عام الحزن کا نام ملا۔ روایات کے مطابق انہیں جنت میں موتیوں سے تیار کردہ گھر ملے گا۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے ایک دن حاضر ہو کر خدیجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدیجہ ہیں ان کا ساتھ اور کھانا پینا ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہے گا کیونکہ اللہ تعالٰیٰ نے انہیں سلام بھیجا ہے اور میں بھی انہیں سلام کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا کہ انہیں بشارت دے دیجیئے کہ اللہ نے ان کے لیے جنت میں ایک بڑا خوشنما اور پرسکون مکان تعمیر کرایا ہے۔ جس میں کوئی پتھر کا ستون نہیں ہے۔ یہی روایت امام مسلم نے حسن بن فضیل کے حوالے سے بھی بیان کی ہے۔ اسی روایت کو اسی طرح اسماعیل بن خالد کی روایت سے بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔[2]

اولاد

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد کی تعداد سات تھی جن میں تین بیٹے اورچار بیٹیوں کے نام ذيل میں دیے گئے ہيں :

بیٹے :

  1. القاسم
  2. عبداللہ
  3. ابراہیم

بیٹیاں:

  1. زینب بنت محمد
  2. رقیہ بنت محمد
  3. ام کلثوم بنت محمد
  4. فاطمہ زھرا

فاطمہ زہرا کے علاوہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام اولاد ان کی زندگی ہی میں فوت ہو گئی۔

مآخذ

  1. ^ ا ب البدایۃ والنہایۃ از حافظ ابن کثیر جلد 3 صفحہ 144 اردو ترجمہ شائع کردہ نفیس اکیڈمی کراچی
  2. البدایۃ والنہایۃ از حافظ ابن کثیر جلد 3 صفحہ 143 اردو ترجمہ شائع کردہ نفیس اکیڈمی کراچی