"رام سنگھ اول" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م اضافہ خانہ معلومات > (بدرخواست صارف:BukhariSaeed)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم ماخذ 2017ء)
سطر 36: سطر 36:


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
# عہد مغلیہ میں ہندو امرا از منشی محمد سعید احمد مارہروی
# عہد مغلیہ میں ہندو امرا ، منشی محمد سعید احمد مارہروی
# Sarkar Jadunath (1984, reprint 1994)۔ ''A History of Jaipur''، New Delhi: Orient Longman, <nowiki>ISBN 81-250-0333-9</nowiki>۔
# Sarkar Jadunath (1984, reprint 1994)۔ ''A History of Jaipur''، New Delhi: Orient Longman, <nowiki>ISBN 81-250-0333-9</nowiki>۔
[[زمرہ:1688ء کی وفیات]]
[[زمرہ:1688ء کی وفیات]]

نسخہ بمطابق 12:00، 30 مئی 2018ء

رام سنگھ اول
رام سنگھ اول
1667–1688
پیشروJai Singh I
جانشینBishan Singh
نسل
  • 8 sons and 3 daughters, including:
  • Kunwar Kishan Singh (died 1682)
  • Kunvri Shivanshi (1667–1672)
مکمل نام
Mirza Raja Ram Singh Bahadur Khan
شاہی خاندانKacchwaha
پیدائش1640
آمیر
وفاتApril 1688ء (عمر 47–48)
کوہاٹ
مذہبہندو

مرزا راجا جے سنگھ کچھواہا کا یہ بڑا بیٹا تھا۔ 5 ذی الحجہ 1050 ہجری کو باپ کے ساتھ دربار شاہجہانی میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے ایک ہاتھی مرحمت کیا۔ 1053 میں خلعت و اسپ مرحمت ہوا۔ 1056 میں پانچ سو سواروں کے آنبیر سے آ کر لاہور اور کابل کے درمیان میں بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور منصب ہزاری ذات، ہزار سوار پر سرفراز ہوا۔ اس کے بعد منصب میں متواتر اضافہ ہوتا گیا اور 27ویں جلوس تک منصب تین ہزاری تک جا پہنچا۔ جنگ سموگڑھ میں دارا شکوہ کے ساتھ تھا۔ جب باپ نے عالمگیر کی رفاقت اختیار کی تو یہ بھی دربار عالمگیری میں حاضر ہو گیا۔ تیسری جلوس عالمگیری میں سلیمان شکوہ کو لانے کے واسطے سری نگر بھیجا گیا اور وہاں سے سلیمان شکوہ کو لے کر دربار میں حاضر ہوا اور خلعت و انعام پایا۔

شیواجی کے فرار پر معطلی

8ویں جلوس میں شیواجی مرہٹہ نے صلح ہونے کے بعد اول اپنے بیٹے سنبھا جی کو دربار عالمگیری میں بھیج دیا۔ اس کے بعد مہاراجہ جسونت سنگھ کے ذریعے سے اپنی جان اور عزت کی حفاظت اور حسن سلوک کا وعدہ لے کر دربار جشن سالانہ کے موقع پر بادشاہ کو سلام کرنے کے لیے خود اکبرآباد چلا آیا۔ بادشاہ نے رام سنگھ اور مخلص خان کو اس استقبال کے واسطے روانہ کیا۔ دربار جشن میں کھڑے ہونے کو بھی معقول جگہ دی جو امرائے خاص کے لیے تھی۔ اسی دن کچھ اور اعزازواکرام بھی ہونے تھے مگر سیوا جی کو اپنے کھڑے ہونے کی جگہ اور درباری رسوم ناگوار اور عزت کے منافی معلوم ہوئے ، اس نے رام سنگھ کو علاحدہ لے جا کر سخت شکایت کی۔ بادشاہ کو یہ حرکت ناگوار گزری اور بغیر کسی اعزاز و عنایت رخصت کے اسے حکم دیا کہ ڈیرہ کو چلا جائے۔ رام سنگھ کو حکم ملا کہ اس کی نگرانی کرے۔ راجا جے سنگھ نے درگزر کی سفارش کی جس پر پہرے اٹھا لیے گئے۔ سیوا جی پہرے اٹھتے ہی بھیس بدل کر آگرہ سے ایسا بھاگا کہ پھر قابو نہ آیا اور راج گڑھ جا پہنچا۔ عالمگیر نے سیوا جی کے بھاگ جانے پر رام سنگھ کو منصب سے معطل کرکے دربار میں آنے کی ممانعت کر دی۔

منصب پر بحالی

10ویں جلوس میں راجا جے سنگھ ب رہان پور میں انتقال کر گیا جس پر رام سنگھ کا قصور معاف کرکے اسے خلعت معہ جمدھر مرصع ، شمشیر معہ ساز مرصع ، اسپ عربی معہ ساز طلا، فیل معہ جل زربفت و ساز نقرہ مرحمت کیا اور خطاب راجگی سے موصوف کرکے منصب چار ہزاری ذات، چار ہزار سوار پر سرفراز کیا اور باپ کی کل جاگیر اس کو عطا کی۔ اسی سال بنگال کی سرحد پر گواہٹی میں آسامیوں نے فساد برپا کیا۔ بادشاہ نے راجا کو منصب پانچ ہزار ذات ، پانچ ہزار سوار سے سربلند کرکے مہم پر روانہ کیا۔ 13ویں جلوس  منصب پانچ ہزار ذات ، پانچ ہزار سوار، دو اسپہ تین اسپہ پر ترقی ہوئی۔

وفات

19ویں جلوس می1086 ہجری میں خلعت و اسپ کے ساتھ بیش قیمت جواہرات انعام مں مرحمت ہوئے اور اسی سال وفات پائی۔ راجا رام سنگھ کا بیٹا کشن سنگھ باپ کی زندگی میں ہی ملازمت شاہی میں داخل اور صوبہ کابل میں تعینات تھا۔حھ

حوالہ جات

  1. عہد مغلیہ میں ہندو امرا ، منشی محمد سعید احمد مارہروی
  2. Sarkar Jadunath (1984, reprint 1994)۔ A History of Jaipur، New Delhi: Orient Longman, ISBN 81-250-0333-9۔