"آیت اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 3: سطر 3:
== تاریخ ==
== تاریخ ==
[[اہل تشیع]] میں خصوصاً تاریخ کے ہر دور میں فقہاء اور اہل علم حضرات کو مختلف قسم کے خطابات اور القابات دئیے جاتے رہے ہیں جیسے کہ: مفید، صدوق، شیخ الطائفہ، شیخ الاسلام، حجۃ اللہ، حجۃ الاسلام اور ملا وغیرہ۔ اِن اعزازی خطابات کا مقصد متعلقہ اشخاص کی خصوصی تعظیم و تکری کے علاوہ اُن کے علمی و فکری پائے کا اِظہار کرنا ہوتا تھا۔ اِنہی القابات میں آیت اللہ بھی شامل ہے۔ بعض ماخذوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ خطاب جمال الدین حسن بن یوسف بن مطہر حلّی المعروف بہ [[علامہ حلی]] (متوفی 27 دسمبر 1325 ء) کو دِیا گیا۔ [[ابن حجر عسقلانی]] اُنہیں ’’'''آیۃ فی الزکاء'''‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔<ref>[[ابن حجر عسقلانی]]: لسان المیزان، جلد 2، صفحہ 317۔ مطبوعہ [[بیروت]]، [[لبنان]]، [[1390ھ]]</ref> چنانچہ شرف الدین شولستانی، شیخ بہاء الدین عاملی اور [[محمد باقر مجلسی]] نے اپنے شاگردوں کو جو اِجازت نامے لکھ کر دئیے، اُن میں وہ [[علامہ حلی]] کو ’’آیۃ اللہ فی العالمین‘‘ لکھتے ہیں۔<ref>[[محمد باقر مجلسی]]: [[بحار الانوار]]، جلد 1، صفحہ 104 تا 107۔ مطبوعہ [[بیروت]]، [[لبنان]]، [[1303ھ]]</ref>
[[اہل تشیع]] میں خصوصاً تاریخ کے ہر دور میں فقہاء اور اہل علم حضرات کو مختلف قسم کے خطابات اور القابات دئیے جاتے رہے ہیں جیسے کہ: مفید، صدوق، شیخ الطائفہ، شیخ الاسلام، حجۃ اللہ، حجۃ الاسلام اور ملا وغیرہ۔ اِن اعزازی خطابات کا مقصد متعلقہ اشخاص کی خصوصی تعظیم و تکری کے علاوہ اُن کے علمی و فکری پائے کا اِظہار کرنا ہوتا تھا۔ اِنہی القابات میں آیت اللہ بھی شامل ہے۔ بعض ماخذوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ خطاب جمال الدین حسن بن یوسف بن مطہر حلّی المعروف بہ [[علامہ حلی]] (متوفی 27 دسمبر 1325 ء) کو دِیا گیا۔ [[ابن حجر عسقلانی]] اُنہیں ’’'''آیۃ فی الزکاء'''‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔<ref>[[ابن حجر عسقلانی]]: لسان المیزان، جلد 2، صفحہ 317۔ مطبوعہ [[بیروت]]، [[لبنان]]، [[1390ھ]]</ref> چنانچہ شرف الدین شولستانی، شیخ بہاء الدین عاملی اور [[محمد باقر مجلسی]] نے اپنے شاگردوں کو جو اِجازت نامے لکھ کر دئیے، اُن میں وہ [[علامہ حلی]] کو ’’آیۃ اللہ فی العالمین‘‘ لکھتے ہیں۔<ref>[[محمد باقر مجلسی]]: [[بحار الانوار]]، جلد 1، صفحہ 104 تا 107۔ مطبوعہ [[بیروت]]، [[لبنان]]، [[1303ھ]]</ref>

[[محمد باقر مجلسی]] نے اپنے مشائخ میں سے شمس الدین محمد بن مکی کے لیے بھی یہ لقب اِستعمال کیا ہے۔ تاہم اِس کے بعد سے چودہویں صدی ہجری کی ابتدا تک کسی اور کے لیے یہ لقب اِستعمال نہیں کیا گیا۔ چودہویں صدی ہجری کی ابتدا میں سب سے پہلے یہ لقب [[مرزا حسین نوری طبرسی]] نے [[سید محمد مہدی بحر العلوم]] کے لیے اِستعمال کیا۔ اِس کے کچھ عرصہ بعد [[شیخ عباس قمی]] نے یہی لقب [[مرتضیٰ انصاری]] ، شیخ حسین نجفی اور [[سید محمد حسن شیرازی]] کے لیے اِستعمال کیا۔<ref>[[مرزا حسین نوری طبرسی]] : مستدرک الوسائل، جلد 2، صفحہ 397۔ جلد 3، صفحہ 222۔</ref>


== مشہور آیت اللہ ==
== مشہور آیت اللہ ==

نسخہ بمطابق 04:49، 3 اکتوبر 2018ء

آیت اللہ ایک اعزازی لقب ہے جو اہل تشیع میں درجہ اول اور درجہ دؤم کے فقہاء و علما کو دِیا جاتا ہے۔اِس اعزازی لقب کو فقہاء اور علما کے علمی مقام اور منزلت کی خاطر اطلاق کیا جاتا ہے۔

اس کا لفظی مطلب ہے اللہ کی نشانی۔ یہ صرف ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اصولِ دین اور فقہ اور شریعت میں مسلمہ علم رکھتے ہوں۔ شیعہ مسلمان اپنے مسائل کے شریعت کے مطابق حل کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں۔

تاریخ

اہل تشیع میں خصوصاً تاریخ کے ہر دور میں فقہاء اور اہل علم حضرات کو مختلف قسم کے خطابات اور القابات دئیے جاتے رہے ہیں جیسے کہ: مفید، صدوق، شیخ الطائفہ، شیخ الاسلام، حجۃ اللہ، حجۃ الاسلام اور ملا وغیرہ۔ اِن اعزازی خطابات کا مقصد متعلقہ اشخاص کی خصوصی تعظیم و تکری کے علاوہ اُن کے علمی و فکری پائے کا اِظہار کرنا ہوتا تھا۔ اِنہی القابات میں آیت اللہ بھی شامل ہے۔ بعض ماخذوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ خطاب جمال الدین حسن بن یوسف بن مطہر حلّی المعروف بہ علامہ حلی (متوفی 27 دسمبر 1325 ء) کو دِیا گیا۔ ابن حجر عسقلانی اُنہیں ’’آیۃ فی الزکاء‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔[1] چنانچہ شرف الدین شولستانی، شیخ بہاء الدین عاملی اور محمد باقر مجلسی نے اپنے شاگردوں کو جو اِجازت نامے لکھ کر دئیے، اُن میں وہ علامہ حلی کو ’’آیۃ اللہ فی العالمین‘‘ لکھتے ہیں۔[2]

محمد باقر مجلسی نے اپنے مشائخ میں سے شمس الدین محمد بن مکی کے لیے بھی یہ لقب اِستعمال کیا ہے۔ تاہم اِس کے بعد سے چودہویں صدی ہجری کی ابتدا تک کسی اور کے لیے یہ لقب اِستعمال نہیں کیا گیا۔ چودہویں صدی ہجری کی ابتدا میں سب سے پہلے یہ لقب مرزا حسین نوری طبرسی نے سید محمد مہدی بحر العلوم کے لیے اِستعمال کیا۔ اِس کے کچھ عرصہ بعد شیخ عباس قمی نے یہی لقب مرتضیٰ انصاری ، شیخ حسین نجفی اور سید محمد حسن شیرازی کے لیے اِستعمال کیا۔[3]

مشہور آیت اللہ

حوالہ جات

  1. ابن حجر عسقلانی: لسان المیزان، جلد 2، صفحہ 317۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1390ھ
  2. محمد باقر مجلسی: بحار الانوار، جلد 1، صفحہ 104 تا 107۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1303ھ
  3. مرزا حسین نوری طبرسی : مستدرک الوسائل، جلد 2، صفحہ 397۔ جلد 3، صفحہ 222۔