"اسلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
BukhariSaeed (تبادلۂ خیال) کی 3881426ویں ترمیم کی جانب واپس پھیر دیا گیا۔ (پلک)
(ٹیگ: رد ترمیم)
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:ویکیپیڈیا مضامین مع LCCN شناخت کنندگان
سطر 4: سطر 4:
| تعليق = [[اللہ]] کا خطاطی نام، اللہ مسلمانوں کا [[توحید|واحد خدا]] ہے
| تعليق = [[اللہ]] کا خطاطی نام، اللہ مسلمانوں کا [[توحید|واحد خدا]] ہے
| مؤسس = [[محمد|محمد بن عبد اللہ]]
| مؤسس = [[محمد|محمد بن عبد اللہ]]
| زعيم = موجودہ: کوئی نہیں <br /> '''اول [[خلافت|خلیفہ]]''': [[ابو بکر صدیق]]/[[علی بن ابی طالب]]<br />'''آخر [[خلافت|خلیفہ]]''': [[عبد المجید ثانی]] <small>(بمطابق اہل سنت)</small>
| زعيم = موجودہ: کوئی نہیں <br/> '''اول [[خلافت|خلیفہ]]''': [[ابو بکر صدیق]]/[[علی بن ابی طالب]]<br/>'''آخر [[خلافت|خلیفہ]]''': [[عبد المجید ثانی]] <small>(بمطابق اہل سنت)</small>
| تاريخ ظهور = اوائل [[ساتویں صدی]]۔
| تاريخ ظهور = اوائل [[ساتویں صدی]]۔
| مكان ظهور = [[مکہ]]، [[حجاز]]، غرب [[جزیرہ نما عرب]]۔
| مكان ظهور = [[مکہ]]، [[حجاز]]، غرب [[جزیرہ نما عرب]]۔
| مميزات = [[شہادت]] و[[نماز]] و[[زکوۃ]] و[[روزہ (اسلام)|صوم]] و[[حج]]
| مميزات = [[شہادت]] و[[نماز]] و[[زکوۃ]] و[[روزہ (اسلام)|صوم]] و[[حج]]
| تفرعت =
| تفرعت =
| تفرع = '''مُتفق علیہا''': [[اہل سنت|سنیت]]، [[شیعیت]]، [[اباضیہ|اباضیت]]<br />'''غیر مُتفق علیہا''': [[احمدیہ|احمدیت]]، [[دروز]]، [[نصیریہ|نصیریت]]۔
| تفرع = '''مُتفق علیہا''': [[اہل سنت|سنیت]]، [[شیعیت]]، [[اباضیہ|اباضیت]]<br/>'''غیر مُتفق علیہا''': [[احمدیہ|احمدیت]]، [[دروز]]، [[نصیریہ|نصیریت]]۔
| منطقة = [[جنوب مشرقی ایشیا]]، [[وسط ایشیا]]، [[مشرق وسطی|مشرق وسطیٰ]]، [[شمالی افریقا]]، [[بلقان|بلاد البلقان]]، اور باقی عالم میں مسلمان اقلیت ہیں۔
| منطقة = [[جنوب مشرقی ایشیا]]، [[وسط ایشیا]]، [[مشرق وسطی|مشرق وسطیٰ]]، [[شمالی افریقا]]، [[بلقان|بلاد البلقان]]، اور باقی عالم میں مسلمان اقلیت ہیں۔
| تعداد = 1.8 بلین (2015ء) <ref>[http://www.pewresearch.org/fact-tank/2017/04/06/why-muslims-are-the-worlds-fastest-growing-religious-group/ آخر اسلام کیوں دنیا کا تیزی سے ترقی پاتا ہوا مذہب ہے] – Pew Research Center</ref>
| تعداد = 1.8 بلین (2015ء) <ref>[http://www.pewresearch.org/fact-tank/2017/04/06/why-muslims-are-the-worlds-fastest-growing-religious-group/ آخر اسلام کیوں دنیا کا تیزی سے ترقی پاتا ہوا مذہب ہے] – Pew Research Center</ref>
سطر 17: سطر 17:
}}
}}
{{اسلام}}
{{اسلام}}
اسلام ایک {{ٹ}} [[توحیدیت|توحیدی]] {{ن}} مذہب ہے جو [[اللہ]] کی طرف سے آخری [[رسول]] و [[پیغمبر|نبی]]، [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب]] {{درود}} کے ذریعے [[انسان]]وں تک پہنچائی گئی آخری الہامی [[کتاب]] ([[قرآن]] مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، [[610ء]] تا [[632ء]] تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد {{درود}} پر اللہ کی طرف سے اترنے والے [[الہام]] (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں [[نازل]] ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن)<ref name=mawdudi>Is the Qur'an for Arabs Only? By Abul A'la Mawdudi [http://www.islamonline.net/english/Quran/2005/05/article01.shtml آن لائن موقع]</ref> اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی {{د2}}24%{{دخ2}} حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 [[ارب]] افراد<ref>مسلم آبادی [http://dimension.ucsd.edu/CEIMSA-IN-EXILE/archives/bull-345.html 1.6 ارب] اور [http://www.islamicpopulation.com/ 1.82 ارب کا بیان]</ref> اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریبا{{دوزبر}} 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 [[کروڑ]]، [[عجم|غیر عرب]] یا عجمی<ref>Learning Arabic at Berkeley By Sonia S'hiri [http://ls.berkeley.edu/new/02/arabic.html اسی کروڑ]</ref> ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فرد{{زیر}} واحد (محمد {{درود}}) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی [[شریعت]]<ref name=mawdudi /> ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
اسلام ایک {{ٹ}} [[توحیدیت|توحیدی]] {{ن}} مذہب ہے جو [[اللہ]] کی طرف سے آخری [[رسول]] و [[پیغمبر|نبی]]، [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب]] {{درود}} کے ذریعے [[انسان]]وں تک پہنچائی گئی آخری الہامی [[کتاب]] ([[قرآن]] مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، [[610ء]] تا [[632ء]] تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد {{درود}} پر اللہ کی طرف سے اترنے والے [[الہام]] (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں [[نازل]] ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن)<ref name=mawdudi>Is the Qur'an for Arabs Only? By Abul A'la Mawdudi [http://www.islamonline.net/english/Quran/2005/05/article01.shtml آن لائن موقع]</ref> اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی {{د2}}24%{{دخ2}} حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 [[ارب]] افراد<ref>مسلم آبادی [http://dimension.ucsd.edu/CEIMSA-IN-EXILE/archives/bull-345.html 1.6 ارب] اور [http://www.islamicpopulation.com/ 1.82 ارب کا بیان]</ref> اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریبا{{دوزبر}} 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 [[کروڑ]]، [[عجم|غیر عرب]] یا عجمی<ref>Learning Arabic at Berkeley By Sonia S'hiri [http://ls.berkeley.edu/new/02/arabic.html اسی کروڑ]</ref> ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فرد{{زیر}} واحد (محمد {{درود}}) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی [[شریعت]]<ref name=mawdudi/> ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔


== لغوی مطلب ==
== لغوی مطلب ==
سطر 95: سطر 95:


=== 661ء تا 1258ء ===
=== 661ء تا 1258ء ===
حسن بن علی کی دستبرداری پر معاویہ بن ابو سفیان نے [[661ء]] میں [[خلافت امویہ|خلافت بنو امیہ]] کی بنیاد ڈالی اور ایک بار پھر قبل از اسلام کے امرائی و اعیانی عربوں کا سا انداز{{زیر}} حکمرانی لوٹ آیا۔<ref>the first dynasty of islam by G.R. Hawting [http://www.bartleby.com/65/um/Umayyad.html آن لائن اقتباس]</ref> پھر ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے، [[یزید بن معاویہ]] ([[679ء]]) نے [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کے نواسے [[حسین ابن علی]] کو [[680ء]] میں [[سانحۂ کربلا|جنگ کربلا]] میں شہید کر دیا اور سنی، شیعہ تفرقوں کی واضح بنیاد ڈالی۔ [[699ء]] میں [[:زمرہ:فقہی ائمہ|فقہی امام]] [[امام ابو حنیفہ|ابو حنیفہ]] کی پیدائش ہوئی۔ بنو امیہ کو [[710ء]] میں [[محمد بن قاسم]] کی فتح [[سندھ]] اور [[711ء]] میں [[طارق بن زیاد]] کی فتح [[اندلس]] (یہی [[امام مالک]] کی پیدائش کا سال بھی ہے) کے بعد [[750ء]] میں [[خلافت عباسیہ|عباسی خلافت]] کے قیام نے گو ختم تو کر دیا لیکن بنو امیہ کا ایک شہزادہ [[عبدالرحمٰن الداخل]] فرار ہو کر [[756ء]] میں [[اندلس]] جا پہنچا اور وہاں [[خلافت قرطبہ]] کی بنیاد رکھی، یوں بنو امیہ کی خلافت [[1031ء]] تک قائم رہی۔ ادھر عباسی خلافت میں [[کاغذ]] کی صنعت، [[بغداد]] کے [[بیت الحکمت|بیت الحکمۃ]] ([[762ء]]) جیسے شاہکار نظر آئے تو ادھر اندلس میں بچی ہوئی خلافت امیہ میں [[جامع مسجد قرطبہ]] جیسی عمارات تعمیر ہوئیں۔ [[767ء]] میں [[:زمرہ:فقہی ائمہ|فقہی امام]] [[شافعی]] اور [[780ء]] [[امام احمد بن حنبل|امام حنبل]] کی پیدائش ہوئی۔ [[1258ء]] میں شیعیوں کی حمایت سے <ref name=invaders>invaders by ian frazier: the new yourker [http://www.newyorker.com/archive/2005/04/25/050425fa_fact4?currentPage=3 آن لائن مضمون]</ref> [[ہلاکو خان|ہلاکو]] کے بغداد پر حملے سے آخری خلیفہ، [[موسیقی]] و [[شاعری]] کے دلدادہ، معتصم باللہ کو قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں سے روندا گیا اور [[خلیفۃ المسلمین]] و [[امیرالمومنین]] کی صاحبزادی کو [[منگولیا]]، [[چنگیز خان]] کے پوتے [[مونکو خان]] کے حرم بھیج دیا گیا، مصلحت اندیشی سے کام لیتے ہوئے ہلاکو نے اہم شیعہ عبادت گاہوں کو اپنے سپاہیوں سے بچانے کی خاطر پہرے دار مقرر کر دیے تھے ؛ یوں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا۔ عباسیہ عہد ہی میں اسلامی تاریخ کو کوئی [[700ء]] سے شروع ہونے والے<ref>Matthew E. Falagas, Effie A. Zarkadoulia, George Samonis (2006)۔ "Arab science in the golden age (750–1258 C.E.) and today"، ''[[Federation of American Societies for Experimental Biology|The FASEB Journal]]'' '''20'''، p. 1581–1586.</ref> [[اسلامی عہدِ زریں]] کا دیکھنا نصیب ہوا اور [[مسلم سائنسدانوں کی فہرست|مسلم سائنسدانوں]] کی متعدد عظیم کتب اسی زمانے میں تخلیق ہوئیں اور اسی زمانے میں ان کی سیاہی کو دجلہ کا پانی کالا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا<ref name=invaders />۔
حسن بن علی کی دستبرداری پر معاویہ بن ابو سفیان نے [[661ء]] میں [[خلافت امویہ|خلافت بنو امیہ]] کی بنیاد ڈالی اور ایک بار پھر قبل از اسلام کے امرائی و اعیانی عربوں کا سا انداز{{زیر}} حکمرانی لوٹ آیا۔<ref>the first dynasty of islam by G.R. Hawting [http://www.bartleby.com/65/um/Umayyad.html آن لائن اقتباس]</ref> پھر ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے، [[یزید بن معاویہ]] ([[679ء]]) نے [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کے نواسے [[حسین ابن علی]] کو [[680ء]] میں [[سانحۂ کربلا|جنگ کربلا]] میں شہید کر دیا اور سنی، شیعہ تفرقوں کی واضح بنیاد ڈالی۔ [[699ء]] میں [[:زمرہ:فقہی ائمہ|فقہی امام]] [[امام ابو حنیفہ|ابو حنیفہ]] کی پیدائش ہوئی۔ بنو امیہ کو [[710ء]] میں [[محمد بن قاسم]] کی فتح [[سندھ]] اور [[711ء]] میں [[طارق بن زیاد]] کی فتح [[اندلس]] (یہی [[امام مالک]] کی پیدائش کا سال بھی ہے) کے بعد [[750ء]] میں [[خلافت عباسیہ|عباسی خلافت]] کے قیام نے گو ختم تو کر دیا لیکن بنو امیہ کا ایک شہزادہ [[عبدالرحمٰن الداخل]] فرار ہو کر [[756ء]] میں [[اندلس]] جا پہنچا اور وہاں [[خلافت قرطبہ]] کی بنیاد رکھی، یوں بنو امیہ کی خلافت [[1031ء]] تک قائم رہی۔ ادھر عباسی خلافت میں [[کاغذ]] کی صنعت، [[بغداد]] کے [[بیت الحکمت|بیت الحکمۃ]] ([[762ء]]) جیسے شاہکار نظر آئے تو ادھر اندلس میں بچی ہوئی خلافت امیہ میں [[جامع مسجد قرطبہ]] جیسی عمارات تعمیر ہوئیں۔ [[767ء]] میں [[:زمرہ:فقہی ائمہ|فقہی امام]] [[شافعی]] اور [[780ء]] [[امام احمد بن حنبل|امام حنبل]] کی پیدائش ہوئی۔ [[1258ء]] میں شیعیوں کی حمایت سے <ref name=invaders>invaders by ian frazier: the new yourker [http://www.newyorker.com/archive/2005/04/25/050425fa_fact4?currentPage=3 آن لائن مضمون]</ref> [[ہلاکو خان|ہلاکو]] کے بغداد پر حملے سے آخری خلیفہ، [[موسیقی]] و [[شاعری]] کے دلدادہ، معتصم باللہ کو قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں سے روندا گیا اور [[خلیفۃ المسلمین]] و [[امیرالمومنین]] کی صاحبزادی کو [[منگولیا]]، [[چنگیز خان]] کے پوتے [[مونکو خان]] کے حرم بھیج دیا گیا، مصلحت اندیشی سے کام لیتے ہوئے ہلاکو نے اہم شیعہ عبادت گاہوں کو اپنے سپاہیوں سے بچانے کی خاطر پہرے دار مقرر کر دیے تھے ؛ یوں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا۔ عباسیہ عہد ہی میں اسلامی تاریخ کو کوئی [[700ء]] سے شروع ہونے والے<ref>Matthew E. Falagas, Effie A. Zarkadoulia, George Samonis (2006)۔ "Arab science in the golden age (750–1258 C.E.) and today"، ''[[Federation of American Societies for Experimental Biology|The FASEB Journal]]'' '''20'''، p. 1581–1586.</ref> [[اسلامی عہدِ زریں]] کا دیکھنا نصیب ہوا اور [[مسلم سائنسدانوں کی فہرست|مسلم سائنسدانوں]] کی متعدد عظیم کتب اسی زمانے میں تخلیق ہوئیں اور اسی زمانے میں ان کی سیاہی کو دجلہ کا پانی کالا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا<ref name=invaders/>۔


=== خلافت تا خلافتیں ===
=== خلافت تا خلافتیں ===
کہنے کو [[1924ء]] تک گھسٹنے والی خلافت، لغوی معنوں میں [[632ء]] تا [[1258ء]] تک ہی قائم سمجھی جاسکتی ہے۔<ref>caliphate at student britannica [http://student.britannica.com/comptons/article-9273461/caliphate صفحہ آن لائن]</ref> جبکہ فی الحقیقت اس کا عملی طور پر خاتمہ [[945ء]] میں [[بنی بویہ]] کے ہاتھوں ہو چکا تھا<ref name=britannica>caliphate at encyclopedia britannica [http://www.britannica.com/EBchecked/topic/89739/Caliphate صفحہ آن لائن]</ref> ادھر ایران میں [[دولت سامانیہ|سامانیان]] ([[819ء]] تا [[999ء]]) والے اور ایران کے متعدد حصوں سمیت [[ماوراء النہر]] و موجودہ [[ہندوستان]] کے علاقوں پر پھیلی [[سلطنت غزنویہ|غزنوی سلطنت]] ([[963ء]] تا [[1187ء]]) والے، عباسی خلافت کو دکھاوے کے طور برائے نام ہی نمائندگی دیتے تھے۔ [[سلطنت فاطمیہ|فاطمیون]] ([[909ء]] تا [[1171ء]])، [[تونس|تیونس]] میں عباسی خلافت کو غاصب قرار دے کر اپنی الگ خلافت ([[920ء]]) کا [[دعویٰ]] کر چکے تھے<ref name=history.com>caliphate at history.com [http://www.history.com/encyclopedia.do?vendorId=FWNE.fw.ca011700.a آن لائن مضمون]</ref> اور [[ہسپانیہ|اسپین]] میں [[عبد الرحمن سوم]]، [[928ء]] میں اپنے لیے خلیفہ کا لقب استعمال کر رہا تھا<ref name=britannica />۔ یہ وہ سماں تھا کہ ایک ہی وقت میں دنیا میں کم از کم تین بڑی خلافتیں موجود تھیں اور ہر جانب سے خلیفہ بازی اپنے زوروں پر تھی، یہ بیک وقت موجود خلافتیں ؛ خلافت عباسیہ، خلافت فاطمیہ اور خلافت قرطبہ (اندلسی امیہ) کی تھیں۔ [[1169ء]] میں [[نور الدین زنگی]] نے [[شیر کوہ]] کے ذریعے مصر اپنے تسلط میں لے کر فاطمیہ خلافت کا خاتمہ کیا۔ [[صلاح الدین ایوبی]] ([[1138ء]] تا [[1193ء]]) نے [[1174ء]] میں [[ایوبی سلطنت]] کی بنیاد ڈالی۔<ref>medieval crusades [http://www.medievalcrusades.com/foes.htm آن لائن مضمون]</ref> اور [[1187ء]] میں [[مسیحیت|مسیحیوں]] کی قائم کردہ [[مملکت بیت المقدس]] سے [[بیت المقدس]] کو آزاد کروا لیا۔ [[1342ء]] میں ایوبی سلطنت کے خاتمے اور [[مملوک]] ([[1250ء]] تا [[1517ء]]) حکومت کے قیام سے قبل اس سلطنت میں ایک خاتون سلطانہ، [[شجر الدر]] ([[1249ء]] تا [[1250ء]]) نے بھی ساتویں [[صلیبی جنگیں|صلیبی جنگوں]] کے دوران میں قیادت کی<ref>Female Heroes from the Time of the Crusades [http://www.womeninworldhistory.com/heroine1.html آن لائن مضمون]</ref>
کہنے کو [[1924ء]] تک گھسٹنے والی خلافت، لغوی معنوں میں [[632ء]] تا [[1258ء]] تک ہی قائم سمجھی جاسکتی ہے۔<ref>caliphate at student britannica [http://student.britannica.com/comptons/article-9273461/caliphate صفحہ آن لائن]</ref> جبکہ فی الحقیقت اس کا عملی طور پر خاتمہ [[945ء]] میں [[بنی بویہ]] کے ہاتھوں ہو چکا تھا<ref name=britannica>caliphate at encyclopedia britannica [http://www.britannica.com/EBchecked/topic/89739/Caliphate صفحہ آن لائن]</ref> ادھر ایران میں [[دولت سامانیہ|سامانیان]] ([[819ء]] تا [[999ء]]) والے اور ایران کے متعدد حصوں سمیت [[ماوراء النہر]] و موجودہ [[ہندوستان]] کے علاقوں پر پھیلی [[سلطنت غزنویہ|غزنوی سلطنت]] ([[963ء]] تا [[1187ء]]) والے، عباسی خلافت کو دکھاوے کے طور برائے نام ہی نمائندگی دیتے تھے۔ [[سلطنت فاطمیہ|فاطمیون]] ([[909ء]] تا [[1171ء]])، [[تونس|تیونس]] میں عباسی خلافت کو غاصب قرار دے کر اپنی الگ خلافت ([[920ء]]) کا [[دعویٰ]] کر چکے تھے<ref name=history.com>caliphate at history.com [http://www.history.com/encyclopedia.do?vendorId=FWNE.fw.ca011700.a آن لائن مضمون]</ref> اور [[ہسپانیہ|اسپین]] میں [[عبد الرحمن سوم]]، [[928ء]] میں اپنے لیے خلیفہ کا لقب استعمال کر رہا تھا<ref name=britannica/>۔ یہ وہ سماں تھا کہ ایک ہی وقت میں دنیا میں کم از کم تین بڑی خلافتیں موجود تھیں اور ہر جانب سے خلیفہ بازی اپنے زوروں پر تھی، یہ بیک وقت موجود خلافتیں ؛ خلافت عباسیہ، خلافت فاطمیہ اور خلافت قرطبہ (اندلسی امیہ) کی تھیں۔ [[1169ء]] میں [[نور الدین زنگی]] نے [[شیر کوہ]] کے ذریعے مصر اپنے تسلط میں لے کر فاطمیہ خلافت کا خاتمہ کیا۔ [[صلاح الدین ایوبی]] ([[1138ء]] تا [[1193ء]]) نے [[1174ء]] میں [[ایوبی سلطنت]] کی بنیاد ڈالی۔<ref>medieval crusades [http://www.medievalcrusades.com/foes.htm آن لائن مضمون]</ref> اور [[1187ء]] میں [[مسیحیت|مسیحیوں]] کی قائم کردہ [[مملکت بیت المقدس]] سے [[بیت المقدس]] کو آزاد کروا لیا۔ [[1342ء]] میں ایوبی سلطنت کے خاتمے اور [[مملوک]] ([[1250ء]] تا [[1517ء]]) حکومت کے قیام سے قبل اس سلطنت میں ایک خاتون سلطانہ، [[شجر الدر]] ([[1249ء]] تا [[1250ء]]) نے بھی ساتویں [[صلیبی جنگیں|صلیبی جنگوں]] کے دوران میں قیادت کی<ref>Female Heroes from the Time of the Crusades [http://www.womeninworldhistory.com/heroine1.html آن لائن مضمون]</ref>


=== طوائف الملوک تا استعماریت ===
=== طوائف الملوک تا استعماریت ===
سطر 105: سطر 105:
== اجمالی جائزہ ==
== اجمالی جائزہ ==
[[جغرافیہ|جغرافیائی]] اعتبار سے [[مسیحیت]] اور [[یہودیت]] کی طرح اسلام بھی ان ہی علاقوں سے دنیا میں آیا کہ جن کو [[مشرق وسطیٰ|مشرقی وسطٰی]] کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام میں حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} کے ساتھ دیگر تمام انبیا پر ایمان رکھا جاتا ہے اور ان میں [[قرآن]] ہی کی [[سورۃ|سورت]] [[فاطر|35 (فاطر)]] کی [[آیت]] 24 کے مطابق، قرآن میں درج [[سانچہ:انبیاء اسلام|25 انبیاء و مرسال]]<ref name="messengers">islam web: fatwa 84425; number of messengers in quran [http://www.islamweb.net/ver2/Fatwa/ShowFatwa.php?lang=e&Id=84425&Option=FatwaId آن لائن مضمون]</ref> کے علاوہ ان میں وہ تمام بھی شامل ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، مثال کے طور پر [[گوتم بدھ|سدھارتھ گوتم بدھ مت]] اور دیگر مذاہب کی ابتدا کرنے والے<ref name="آن لائن مضمون">islam and buddhism by harun yahya [http://www.harunyahya.com/buddhism05.php آن لائن مضمون]</ref>، قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لائے تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہو گئی۔
[[جغرافیہ|جغرافیائی]] اعتبار سے [[مسیحیت]] اور [[یہودیت]] کی طرح اسلام بھی ان ہی علاقوں سے دنیا میں آیا کہ جن کو [[مشرق وسطیٰ|مشرقی وسطٰی]] کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام میں حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} کے ساتھ دیگر تمام انبیا پر ایمان رکھا جاتا ہے اور ان میں [[قرآن]] ہی کی [[سورۃ|سورت]] [[فاطر|35 (فاطر)]] کی [[آیت]] 24 کے مطابق، قرآن میں درج [[سانچہ:انبیاء اسلام|25 انبیاء و مرسال]]<ref name="messengers">islam web: fatwa 84425; number of messengers in quran [http://www.islamweb.net/ver2/Fatwa/ShowFatwa.php?lang=e&Id=84425&Option=FatwaId آن لائن مضمون]</ref> کے علاوہ ان میں وہ تمام بھی شامل ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، مثال کے طور پر [[گوتم بدھ|سدھارتھ گوتم بدھ مت]] اور دیگر مذاہب کی ابتدا کرنے والے<ref name="آن لائن مضمون">islam and buddhism by harun yahya [http://www.harunyahya.com/buddhism05.php آن لائن مضمون]</ref>، قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لائے تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہو گئی۔
* یقیناً ہم نے بھیجا ہے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ <br />اور نہیں ہے کوئی امت مگر ضرور آیا ہے اس میں کوئی منتبہ کرنے والا۔ <small>(قرآن؛ 35:24)</small>
* یقیناً ہم نے بھیجا ہے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ <br/>اور نہیں ہے کوئی امت مگر ضرور آیا ہے اس میں کوئی منتبہ کرنے والا۔ <small>(قرآن؛ 35:24)</small>
تقدم{{زیر}} زمانی کے لحاظ سے تمام توحیدیہ مذاہب میں جدید ترین کتاب ہونے کے باوجود عقیدے کے لحاظ سے قرآن قدیم ترین الہامی کتاب سمجھی جاتی ہے اور عرب و عجم سمیت تمام دنیا کے مسلمانوں میں عربی ہی میں اسے پڑھا جاتا ہے، جبکہ اس کے متعدد لسانی تراجم کو (ساتھ درج عربی کے لیے) محض تشریح کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔<ref>what everyone needs to know about islam by John Esposito</ref> اسلام میں جن باتوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے انکا ذکر [[اسلام#اجزائے ایمان|اجزائے ایمان]] کے قطعے میں آچکا ہے، ان کے علاوہ [[توحید]] ([[شرک]] سے پ رہی ز) اور [[تخلیق]] بھی ان اجزاء میں بیان کیے جاسکتے ہیں۔ عبادات میں [[نماز]]ِ پنجگانہ و نمازِ [[جمعہ]] کے علاوہ [[عید]] و [[بقرعید]] وغیرہ کی نمازیں قابلِ ذکر ہیں ؛ نمازوں کے علاوہ تمام [[اسلام#ارکانِ اسلام|ارکانِ اسلام]] عبادات میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ اہم تہواروں میں [[عید]]الفطر و [[بقرعید|عید الاضحٰی]] شامل ہیں۔ روزمرہ زندگی میں اسلامی آداب{{زیر}} زندگی پر قائم رہنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں معاشرے کے مختلف افراد کے حقوق، مناسب لباس، بے پردگی سے بچاؤ اور [[اسلامی آداب|آداب و القاب]] کا خیال رکھا جاتا ہے ؛ خرد و نوش میں [[حلال]] و [[حرام]] کی تمیز ضروری ہے۔ ایمان، سچائی اور دیانت ہر شعبۂ زندگی میں ملحوظ خاطر رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے ؛ کام کاج اور فرائض منصبی کو درست طور پر ادا کرنا اور محنت کی عظمت کے بارے میں متعدد احادیث بیان کی جاتی ہیں
تقدم{{زیر}} زمانی کے لحاظ سے تمام توحیدیہ مذاہب میں جدید ترین کتاب ہونے کے باوجود عقیدے کے لحاظ سے قرآن قدیم ترین الہامی کتاب سمجھی جاتی ہے اور عرب و عجم سمیت تمام دنیا کے مسلمانوں میں عربی ہی میں اسے پڑھا جاتا ہے، جبکہ اس کے متعدد لسانی تراجم کو (ساتھ درج عربی کے لیے) محض تشریح کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔<ref>what everyone needs to know about islam by John Esposito</ref> اسلام میں جن باتوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے انکا ذکر [[اسلام#اجزائے ایمان|اجزائے ایمان]] کے قطعے میں آچکا ہے، ان کے علاوہ [[توحید]] ([[شرک]] سے پ رہی ز) اور [[تخلیق]] بھی ان اجزاء میں بیان کیے جاسکتے ہیں۔ عبادات میں [[نماز]]ِ پنجگانہ و نمازِ [[جمعہ]] کے علاوہ [[عید]] و [[بقرعید]] وغیرہ کی نمازیں قابلِ ذکر ہیں ؛ نمازوں کے علاوہ تمام [[اسلام#ارکانِ اسلام|ارکانِ اسلام]] عبادات میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ اہم تہواروں میں [[عید]]الفطر و [[بقرعید|عید الاضحٰی]] شامل ہیں۔ روزمرہ زندگی میں اسلامی آداب{{زیر}} زندگی پر قائم رہنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں معاشرے کے مختلف افراد کے حقوق، مناسب لباس، بے پردگی سے بچاؤ اور [[اسلامی آداب|آداب و القاب]] کا خیال رکھا جاتا ہے ؛ خرد و نوش میں [[حلال]] و [[حرام]] کی تمیز ضروری ہے۔ ایمان، سچائی اور دیانت ہر شعبۂ زندگی میں ملحوظ خاطر رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے ؛ کام کاج اور فرائض منصبی کو درست طور پر ادا کرنا اور محنت کی عظمت کے بارے میں متعدد احادیث بیان کی جاتی ہیں


سطر 114: سطر 114:
مذکورہ بالا [[آیت]] سے دوسرے مذاہب کے بارے میں اسلام کے نظریے کی وضاحت سامنے آجاتی ہے۔
مذکورہ بالا [[آیت]] سے دوسرے مذاہب کے بارے میں اسلام کے نظریے کی وضاحت سامنے آجاتی ہے۔
=== اسلام میں انبیا ===
=== اسلام میں انبیا ===
[[قرآن]] ہی کی [[سورۃ|سورت]] [[فاطر|35 (فاطر)]] کی [[آیت]] 24 کے مطابق، قرآن میں درج [[سانچہ:انبیاء اسلام|25 انبیاء و مرسال]]<ref name="messengers" /> کے علاوہ اسلامی عقائد کے مطابق ایسے انبیا اکرام بھی ہیں کہ جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، [[اسلام#اجمالی جائزہ|قطعہ بنام اجمالی جائزہ]] میں درج آیت سے یہ بات عیاں ہے کہ ہر امت میں نبی (یا انبیا) بھیجے گئے، اس سلسلے میں ایک [[حدیث]] بھی [[مسند]] [[احمد بن حنبل]] اور [[فتح الباری بشرح صحیح البخاری]] میں آتی ہے جس میں پیغمبران کی تعداد 124000 بیان ہوئی ہے۔<ref>فتح الباری بشرح صحیح البخاری [http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?hnum=1&doc=0 آن لائن]</ref><ref>پاکستان لنک نامی ایک موقع [http://www.pakistanlink.com/Religion/2005/09232005.htm آن لائن بیان]</ref><ref>دارالافتاء پر ایک بیان [http://www.askimam.org/fatwa/fatwa.php?askid=2275f3a4dd6e2da72db0f8a0232ac702 آن لائن موقع]</ref>؛ ظاہر ہے کہ ان میں ان مذاہب کے وہ اشخاص منطقی طور پر شامل ہو جاتے ہیں کہ جن کو آج ان مذاہب کی ابتدا کرنے والا یا ان مذاہب کا خدا مانا جاتا ہے ؛ مثال کے طور پر [[گوتم بدھ|سدھارتھ گوتم بدھ مت]] اور دیگر مذاہب کی ابتدا کرنے والے<ref name="آن لائن مضمون" />، گوتم بدھ کے بارے میں بعض علما کا خیال ہے کہ یہ پیغمبر [[ذو الکفل علیہ السلام]] ([[الانبیاء]] آیت 85) کی جانب اشارہ ہے اور ''kifl'' اصل میں [[سنسکرت]] کے لفظ ''(Kapilavastu)'' کو تشبیہ ہے،<ref name=tanzeem>تنظیم اسلامی کی ویب سائٹ پر بیان القرآن؛ [http://www.tanzeem.org/online/Dorah/ Surah An-Nisa (Ayat 158-176)] (پیڈی ایف فائل)</ref> گو یہ خیال [[اہل سنت|سنی]]<ref name=tanzeem /> اور [[اہل تشیع|شیعہ]] <ref>ایک شیعہ موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار کے عدد کا ذکر [http://www26.brinkster.com/sdolshah1/udfd.html آن لائن مضمون]</ref> کے علاوہ خود [[بدھ]] مذہب والوں میں بھی پایا جاتا ہے<ref>قرآن میں گوتم بدھ کے بارے میں بدھ موقع [http://www.buddhistchannel.tv/index.php?id=6,6867,0,0,1,0 آن لائن]</ref> لیکن چونکہ گوتم بدھ کا نام براہ راست قرآن میں نہیں آتا اس لیے متعدد علما اس وضاحت کو تسلیم نہیں کرتے۔ قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لائے تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہو گئی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد کے بارے میں متعدد نظریات دیکھنے میں آتے ہیں اور بہت سے علما کے نزدیک یہ عدد کوئی معین یا ناقابل ترمیم نہیں ہے<ref>darul ifta; question [http://www.darulifta-deoband.org/viewfatwa.jsp?ID=12813 آن لائن ربط]</ref>
[[قرآن]] ہی کی [[سورۃ|سورت]] [[فاطر|35 (فاطر)]] کی [[آیت]] 24 کے مطابق، قرآن میں درج [[سانچہ:انبیاء اسلام|25 انبیاء و مرسال]]<ref name="messengers"/> کے علاوہ اسلامی عقائد کے مطابق ایسے انبیا اکرام بھی ہیں کہ جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، [[اسلام#اجمالی جائزہ|قطعہ بنام اجمالی جائزہ]] میں درج آیت سے یہ بات عیاں ہے کہ ہر امت میں نبی (یا انبیا) بھیجے گئے، اس سلسلے میں ایک [[حدیث]] بھی [[مسند]] [[احمد بن حنبل]] اور [[فتح الباری بشرح صحیح البخاری]] میں آتی ہے جس میں پیغمبران کی تعداد 124000 بیان ہوئی ہے۔<ref>فتح الباری بشرح صحیح البخاری [http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?hnum=1&doc=0 آن لائن]</ref><ref>پاکستان لنک نامی ایک موقع [http://www.pakistanlink.com/Religion/2005/09232005.htm آن لائن بیان]</ref><ref>دارالافتاء پر ایک بیان [http://www.askimam.org/fatwa/fatwa.php?askid=2275f3a4dd6e2da72db0f8a0232ac702 آن لائن موقع]</ref>؛ ظاہر ہے کہ ان میں ان مذاہب کے وہ اشخاص منطقی طور پر شامل ہو جاتے ہیں کہ جن کو آج ان مذاہب کی ابتدا کرنے والا یا ان مذاہب کا خدا مانا جاتا ہے ؛ مثال کے طور پر [[گوتم بدھ|سدھارتھ گوتم بدھ مت]] اور دیگر مذاہب کی ابتدا کرنے والے<ref name="آن لائن مضمون"/>، گوتم بدھ کے بارے میں بعض علما کا خیال ہے کہ یہ پیغمبر [[ذو الکفل علیہ السلام]] ([[الانبیاء]] آیت 85) کی جانب اشارہ ہے اور ''kifl'' اصل میں [[سنسکرت]] کے لفظ ''(Kapilavastu)'' کو تشبیہ ہے،<ref name=tanzeem>تنظیم اسلامی کی ویب سائٹ پر بیان القرآن؛ [http://www.tanzeem.org/online/Dorah/ Surah An-Nisa (Ayat 158-176)] (پیڈی ایف فائل)</ref> گو یہ خیال [[اہل سنت|سنی]]<ref name=tanzeem/> اور [[اہل تشیع|شیعہ]] <ref>ایک شیعہ موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار کے عدد کا ذکر [http://www26.brinkster.com/sdolshah1/udfd.html آن لائن مضمون]</ref> کے علاوہ خود [[بدھ]] مذہب والوں میں بھی پایا جاتا ہے<ref>قرآن میں گوتم بدھ کے بارے میں بدھ موقع [http://www.buddhistchannel.tv/index.php?id=6,6867,0,0,1,0 آن لائن]</ref> لیکن چونکہ گوتم بدھ کا نام براہ راست قرآن میں نہیں آتا اس لیے متعدد علما اس وضاحت کو تسلیم نہیں کرتے۔ قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لائے تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہو گئی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد کے بارے میں متعدد نظریات دیکھنے میں آتے ہیں اور بہت سے علما کے نزدیک یہ عدد کوئی معین یا ناقابل ترمیم نہیں ہے<ref>darul ifta; question [http://www.darulifta-deoband.org/viewfatwa.jsp?ID=12813 آن لائن ربط]</ref>


== اسلام پر انتقاد ==
== اسلام پر انتقاد ==
سطر 280: سطر 280:
{{اسماء وشخصیات قرآن}}
{{اسماء وشخصیات قرآن}}


[[زمرہ:اسلام| ]]
[[زمرہ:اسلام|اسلام]]
[[زمرہ:610ء کی تاسیسات]]
[[زمرہ:610ء کی تاسیسات]]
[[زمرہ:ابراہیمی مذاہب]]
[[زمرہ:ابراہیمی مذاہب]]
[[زمرہ:توحیدی مذاہب]]
[[زمرہ:توحیدی مذاہب]]
[[زمرہ:ویکیپیڈیا مضامین مع LCCN شناخت کنندگان]]

نسخہ بمطابق 22:55، 14 جون 2019ء

اسلام
اللہ کا خطاطی نام، اللہ مسلمانوں کا واحد خدا ہے
اللہ کا خطاطی نام، اللہ مسلمانوں کا واحد خدا ہے
اللہ کا خطاطی نام، اللہ مسلمانوں کا واحد خدا ہے

رہنما موجودہ: کوئی نہیں
اول خلیفہ: ابو بکر صدیق/علی بن ابی طالب
آخر خلیفہ: عبد المجید ثانی (بمطابق اہل سنت)
بانی محمد بن عبد اللہ
مقام ابتدا مکہ، حجاز، غرب جزیرہ نما عرب۔
تاریخ ابتدا اوائل ساتویں صدی۔
ارکان شہادت ونماز وزکوۃ وصوم وحج
فرقے مُتفق علیہا: سنیت، شیعیت، اباضیت
غیر مُتفق علیہا: احمدیت، دروز، نصیریت۔
مقدس مقامات مسجد حرام، مکہ،  سعودی عرب
مسجد نبوی، مدینہ منورہ،  سعودی عرب
مسجد اقصیٰ، یروشلم،  فلسطین
قریبی عقائد والے مذاہب یہودیت، مسیحیت، مندائیت، بہائیت، سکھ مت
مذہبی خاندان ابراہیمی مذہب
پیروکاروں کی تعداد 1.8 بلین (2015ء) [1]
دنیا میں جنوب مشرقی ایشیا، وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقا، بلاد البلقان، اور باقی عالم میں مسلمان اقلیت ہیں۔

170PX

بسلسلہ مضامین:
اسلام

اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن)[2] اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد[3] اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی[4] ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت[2] ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔

لغوی مطلب

لفظ اسلام لغوی اعتبار سے سلم سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اطاعت اور امن، دونوں کے ہوتے ہیں۔ ایسا در حقیقت عربی زبان میں اعراب کے نہایت حساس استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں کہ اردو و فارسی کے برعکس اعراب کے معمولی رد و بدل سے معنی میں نہایت فرق آجاتا ہے۔ اصل لفظ جس سے اسلام کا لفظ ماخوذ ہے، یعنی سلم، س پر زبر اور یا پھر زیر لگا کر دو انداز میں پڑھا جاتا ہے۔

  • سَلم (salm) جس کے معنی امن و سلامتی کے آتے ہیں۔
  • سِلم (silm) جس کے معنی اطاعت، داخل ہو جانے اور بندگی کے آتے ہیں۔

قرآنی حوالہ

  • اسلام کا ماخذ سلم (salm) اپنے امن و صلح کے معنوں میں قرآن کی سورت الانفال کی آیت 61 میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (ترجمہ: اور اگر جھکیں وہ صلح (امن) کی طرف تو تم بھی جھک جاؤ اس کی طرف اور بھروسا کرو اللہ پر۔ بے شک وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے)۔[5]
  • سلم (silm) کا لفظ اپنے اطاعت کے معنوں میں قرآن کی سورت البقرہ کی آیت 208 میں ان الفاظ میں آیا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (ترجمہ: اے ایمان والو! داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے پورے اور نہ چلو شیطان کے نقشِ قدم پر بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے)۔ حوالے کے لیے دیکھیے حوالہ برائے امن و صلح۔

اسلام کیا ہے؟

یہاں وضاحت، اسلام کیا ہے؟ کو دوبارہ درج کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اس کا جواب مضمون کے ابتدائیہ میں آچکا ہے۔ جہاں تک رہی بات اس سوال کی کہ اسلام ہے کیا؟ یعنی وہ کیا اجزاء ہیں کہ جو اسلام کی تشکیل کرتے ہیں؟ تو اس وضاحت کی الگ سے ضرورت مختلف خود ساختہ فرقوں کے باعث پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ایک درکارِ لازم حیثیت رکھتی ہے۔ ماسوائے چند (جیسے اھل القرآن)[6] تمام فرقے قرآن اور سیرت النبی (سنت) ہی کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد قرار دینے پر نا صرف اجتماع رکھتے ہیں بلکہ اپنے اپنے طور اس پر قائم ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں جیسے اھل سنت۔[7] اور اھل حدیث[8] وغیرہ۔ یہی دعویٰءِ اصلِ اسلام، اھل تصوف سے متعلق کتب و دستاویزات میں بھی دیکھا جاتا ہے[9] اھل تشیع فرقے والے سنت پر ایک خاص اور محتاط نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں اور سنیوں کے برعکس ان کے نزدیک جو سنت (حدیث)، اھل بیت سے منحرف ہوتی ہو وہ مستند نہیں، مزید یہ کہ اس فرقے میں قرآن اور سنت کی بجائے قرآن اور اھل بیت کا تصور بھی ملتا ہے۔[10]

قرآن

مذکورہ بالا قطعے میں متعدد الانواع --- اھلوں --- کے تذکرے کے بعد یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اسلام ایک کتابی مذہب ہے یعنی اس پر عمل کرنے والے اھل کتاب کہلائے جاتے ہیں۔ قرآن خود اپنی حیثیت کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ یہ انسانوں کے لیے ایک راہنما (النساء 174)، ایک ہدایت (البقرہ 2) اور اچھے برے کی تمیز بتانے والی (البقرہ 185) کتاب ہے[11]۔ محمد پر وحی (610ء) کی صورت میں نازل ہونے سے لیکر عثمان کے زمانے میں کتاب کی شکل اختیار کرنے (653ء) سے قبل بھی قرآن اپنے لیے کتاب کا لفظ ہی استعمال کرتا ہے۔ قرآن کے ناقابلِ تحریف و فسخ ہونے اور اس کی ابتدائی زمانے میں کامل ترین طور پر حفاظت کیے جانے کے تاریخی شواہد موجود ہیں ؛ مسلمانوں کا یہ غیر متزلزل ایمان ہے کہ قرآن کے ایک نقطے میں نا تو آج تک تحریف ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔[12]

سنت

سنت، عربی کا لفظ ہے اور اس کے بنیادی معنی، روش یا راہ کے ساتھ دیگر معنی بھی ہوتے ہیں لیکن اسلامی دستاویزات میں اس سے عام طور پر مراد حضرت محمد کی اختیار کردہ روشِ حیات یا طریقۂ زندگی کی ہی لی جاتی ہے۔ 569ء سے 632ء تک جو عرصہ محمد نے اس دنیا میں انسانوں کے سامنے کتاب کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے گزارہ وہ سنت کہلاتا ہے۔ خاتم الانبیا ہونے کی وجہ سے محمد کی وفات نے آخری کتاب کے بعد، اسلام کی تکمیل کرنے والے دوسرے منبع پر بھی اختتام کی مہر ثبت کردی۔ اس وقت سے لیکر آج تک مسلمان اسلام کے ان دو بنیادی ماخذ، قرآن اور سنت، کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اجزائے ایمان

اجزائے ایمان سے مراد ان عقائد کی ہوتی ہے کہ جن پر کامل اعتقاد اسلام میں ایمان (اللہ پر یقین) کی تکمیل کے لیے ضروری ہوتا ہے، عام طور ان میں چھ اجزا کا ذکر زیادہ ہوتا ہے[13] جن پر اھل سنی اور اھل تشیع اقرار رکھتے ہیں۔

بالائی جدول میں بیان کردہ ان اجزا کے لیے چھ کا عدد ناقابلِ تحریف نہیں ہے یعنی اجزائے ایمان میں وہ تمام اجزا شامل ہو سکتے ہیں جو کسی شخص کو دل اور زبان سے اللہ کا اقرار کرنے میں معاون ہوں ۔[14] مثال کے طور پر مشہور کلمہ، ایمان مفصل (عکس 1) میں ان کی تعداد چھ کی بجائے سات ہو جاتی ہے۔

عکس 1۔ ایمان کے اجزا (بالائی سرخ لکیر) کو بیان کرنے والا ایک مشہور کلمہ جسے ایمان مفصل کہا جاتا ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کلمۂِ طیّب سمیت چھ بنیادی کلمات کی طرح ایمان مفصل اور ایمان مجمل[15] بھی ایسے کلمات ہیں کہ جو ایمان کے بنیادی اجزائے ترکیبی کو آسانی سے یاد رکھنے میں مدد دے سکیں اور یہ کسی ایک عبارت کی صورت میں قرآن یا حدیث میں نہیں ملتے۔

ارکانِ اسلام

ارکان اسلام کو اعتقاداتِ دین یا دیانہ (creed) سمجھا جاسکتا ہے، یعنی وہ اطوار کہ جو عملی زندگی میں ظاہر ہوں ؛ بعض اوقات ان کو دین کے پانچ ستون بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بشری شماریات (demography) کے اندازوں کے مطابق 85 فیصد[16] (اور بعض ذرائع کے مطابق اس سے بھی زیادہ)[17] مسلم افراد، پانچ (5) ارکانِ اسلام پر ہی یقین رکھتے ہیں [18] جبکہ 15% (اور بعض ذرائع کے مطابق اس سے بھی کم) ایسے ہیں جو اس 5 کے عدد سے انحراف کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا سطور میں شماریاتی تناسب سے حوالۂ مقصود بالترتیب، سنی اور شیعہ تفرقوں کی جانب ہے۔

پانچ_ارکانِ_اسلام: تعارفی_کلمات
کلمۂ شہادت مسلمان کی جانب سے بنیادی اقرار؛ خالق اور رسول پر یقین کی گواہی دینا شہادت کہلاتا ہے۔
نماز معینہ اوقات پر دن میں پانچ بار عبادت (نماز) فرض ہے ؛ جو انفرادی یا اجتماعی طور پر ادا کی جاسکتی ہے۔
روزہ ماہ رمضان میں طلوع تا غروبِ آفتاب، خرد و نوش سے پ رہی ز رکھنا۔ بعض حالتوں میں غیر لازم یا ملتوی ہو جاتا ہے۔
زکوۃ اپنی ضروریات پوری ہوجانے کے بعد مفلسوں کی امداد میں اپنے مال سے چالیسواں حصہ ادا کرنا۔
حج اگر استطاعت اور اہلِ خانہ کی کفالت کا سامان ہو تو زندگی میں ایک بار، مکہ (کعبہ) کی جانب سفر و عبادت کرنا۔

شیعہ فرقے والوں میں پھر ان ارکان کی مختلف تعداد اور تعریفیں ذیلی تفرقات الشعیہ میں ملتی ہیں۔ اثنا عشریہ والے، فروع دین، کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جن کی تعداد 5 ارکان سے کلمۂ شہادت نکال کر اور خمس، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تولّى و تبَرّا شامل کرنے پر 10 ہوجاتی ہے۔ جبکہ ان لوگوں میں توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت کو اصول الدین کی اصطلاح کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔[19] اسماعیلی شیعاؤں میں ان کی تعداد 5 ارکان میں سے شہادت نکال کر اور ولایۃ (اماموں کی جانثاری و سرپرستی) اور طھارت جمع کر کہ 7 اپنا لی جاتی ہے۔[20] شیعوں ہی سے نکلنے والا ایک اور فرقے، دروز، والے اسماعیلیوں کی ولایۃ کو تسلیم کہتے ہیں جبکہ نماز کو صدق اللسان کہہ کر عام مسلمانوں کی طرح نماز اور روزے کو ترک عبادت الاثوان قرار دے کر عام مسلمانوں کی طرح روزہ ادا نہیں کرتے، ان لوگوں میں زکوت بھی مختلف اور انفرادی طور پر ہوتی ہے جبکہ حج نہیں ہوتا۔[21]

تاریخِ اسلام

610ء میں قرآن کی پہلی صدا کی بازگشت ایک صدی سے کم عرصے میں بحر اوقیانوس سے وسط ایشیا تک سنائی دینے لگی تھی اور پیغمبرِ اسلام کی وفات (632ء) کے عین سو سال بعد ہی اسلام 732ء میں فرانس کے شہر تور (tours) کی حدود تک پہنچ چکا تھا۔

خلافت راشدہ

632ء میں عبداللہ ابن ابی قحافہ کے انتخاب پر خلافت راشدہ کا آغاز ہوا، انہوں نے حروب الردہ کے بعد سلطنت ساسانیان اور سلطنت بازنطینی کی جانب پیشقدمیاں کیں۔ 634ء میں ابوبکر کے انتقال کے بعد عمر بن الخطاب خلیفۂ دوم ہوئے، کچھ لوگ اس انتخاب پر علی بن ابی طالب کے حق میں تھے۔ عمر فاروق نے ساسانیوں سے عراق (بین النہرینایران کے علاقے اور رومیوں سے مصر، فلسطین، سوریا اور آرمینیا کے علاقے لیکر اسلامی خلافت میں داخل کیے اور عملی طور پر دونوں بڑی سلطنتوں کا خاتمہ ہوا۔ 638ء میں مسلمان بیت المقدس میں داخل ہو چکے تھے۔ 644ء میں ابولولو فیروز کے خنجر سے عمر فاروق کی شہادت کے بعد عثمان ابن عفان خلیفۂ سوم منتخب ہوئے اور 652ء تک اسلامی خلافت، مغرب کی حدوں (جزیرۃ الاندلس) میں پہنچ گئی۔ اگر تفصیل سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ وہ عرصہ تھا کہ گو ابھی شیعہ و سنی تفرقے بازی کھل کر تو سامنے نہیں آئی تھی لیکن تیسرے خلیفہ عثمان ابن عفان کے انتخاب (644ء تا 656ء) پر بہرحال ایک جماعت اپنی وضع قطع اختیار کر چکی تھی جس کا خیال تھا کہ علی بن ابی طالب کو ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس جماعت سے ہی اس تفرقے نے جنم لیا جسے شيعة علی اور مختصراً شیعہ کہا جاتا ہے۔ عثمان غنی کی شہادت کے بعد اب خلافت راشدہ کا اختتام قریب قریب تھا کہ جب علی المرتضیٰ خلیفہ کے منصب پر آئے (656ء تا 661ء)۔ لوگ فتنۂ مقتلِ عثمان بن عفان پر نالاں تھے اور علی بن ابی طالب پر شدید دباؤ ان کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ڈال رہے تھے جس میں ناکامی کا ایک خمیازہ امت کو 656ء کے اواخر میں جنگ جمل کی صورت میں دیکھا نصیب ہوا؛ پھر عائشہ بنت ابی بکر کے حامیوں کی شکست کے بعد دمشق کے حاکم، معاویہ بن ابو سفیان نے علی بن ابی طالب کی بیت سے انکار اور عثمان بن عفان کے قصاص کا مطالبہ کر دیا، فیصلے کے لیے میدان جنگ چنا گیا اور 657ء میں جنگ صفین کا واقعہ ہوا جس میں علی المرتضیٰ کو فتح نہیں ہوئی۔ معاویہ بن ابو سفیان کی حاکمیت (660ء) مصر، حجاز اور یمن کے علاقوں پر قائم رہی۔ 661ء میں عبد الرحمن بن ملجم کی تلوار سے حملے میں علی بن ابی طالب شہید ہوئے۔ یہاں سے، علی بن ابی طالب کے حامیوں اور ابتدائی سنی تاریخدانوں کے مطابق، خلافت راشدہ کے بعد خلیفۂ پنجم حسن ابن علی کا عہد شروع ہوا۔

661ء تا 1258ء

حسن بن علی کی دستبرداری پر معاویہ بن ابو سفیان نے 661ء میں خلافت بنو امیہ کی بنیاد ڈالی اور ایک بار پھر قبل از اسلام کے امرائی و اعیانی عربوں کا سا اندازِ حکمرانی لوٹ آیا۔[22] پھر ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے، یزید بن معاویہ (679ء) نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے حسین ابن علی کو 680ء میں جنگ کربلا میں شہید کر دیا اور سنی، شیعہ تفرقوں کی واضح بنیاد ڈالی۔ 699ء میں فقہی امام ابو حنیفہ کی پیدائش ہوئی۔ بنو امیہ کو 710ء میں محمد بن قاسم کی فتح سندھ اور 711ء میں طارق بن زیاد کی فتح اندلس (یہی امام مالک کی پیدائش کا سال بھی ہے) کے بعد 750ء میں عباسی خلافت کے قیام نے گو ختم تو کر دیا لیکن بنو امیہ کا ایک شہزادہ عبدالرحمٰن الداخل فرار ہو کر 756ء میں اندلس جا پہنچا اور وہاں خلافت قرطبہ کی بنیاد رکھی، یوں بنو امیہ کی خلافت 1031ء تک قائم رہی۔ ادھر عباسی خلافت میں کاغذ کی صنعت، بغداد کے بیت الحکمۃ (762ء) جیسے شاہکار نظر آئے تو ادھر اندلس میں بچی ہوئی خلافت امیہ میں جامع مسجد قرطبہ جیسی عمارات تعمیر ہوئیں۔ 767ء میں فقہی امام شافعی اور 780ء امام حنبل کی پیدائش ہوئی۔ 1258ء میں شیعیوں کی حمایت سے [23] ہلاکو کے بغداد پر حملے سے آخری خلیفہ، موسیقی و شاعری کے دلدادہ، معتصم باللہ کو قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں سے روندا گیا اور خلیفۃ المسلمین و امیرالمومنین کی صاحبزادی کو منگولیا، چنگیز خان کے پوتے مونکو خان کے حرم بھیج دیا گیا، مصلحت اندیشی سے کام لیتے ہوئے ہلاکو نے اہم شیعہ عبادت گاہوں کو اپنے سپاہیوں سے بچانے کی خاطر پہرے دار مقرر کر دیے تھے ؛ یوں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا۔ عباسیہ عہد ہی میں اسلامی تاریخ کو کوئی 700ء سے شروع ہونے والے[24] اسلامی عہدِ زریں کا دیکھنا نصیب ہوا اور مسلم سائنسدانوں کی متعدد عظیم کتب اسی زمانے میں تخلیق ہوئیں اور اسی زمانے میں ان کی سیاہی کو دجلہ کا پانی کالا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا[23]۔

خلافت تا خلافتیں

کہنے کو 1924ء تک گھسٹنے والی خلافت، لغوی معنوں میں 632ء تا 1258ء تک ہی قائم سمجھی جاسکتی ہے۔[25] جبکہ فی الحقیقت اس کا عملی طور پر خاتمہ 945ء میں بنی بویہ کے ہاتھوں ہو چکا تھا[26] ادھر ایران میں سامانیان (819ء تا 999ء) والے اور ایران کے متعدد حصوں سمیت ماوراء النہر و موجودہ ہندوستان کے علاقوں پر پھیلی غزنوی سلطنت (963ء تا 1187ء) والے، عباسی خلافت کو دکھاوے کے طور برائے نام ہی نمائندگی دیتے تھے۔ فاطمیون (909ء تا 1171ءتیونس میں عباسی خلافت کو غاصب قرار دے کر اپنی الگ خلافت (920ء) کا دعویٰ کر چکے تھے[27] اور اسپین میں عبد الرحمن سوم، 928ء میں اپنے لیے خلیفہ کا لقب استعمال کر رہا تھا[26]۔ یہ وہ سماں تھا کہ ایک ہی وقت میں دنیا میں کم از کم تین بڑی خلافتیں موجود تھیں اور ہر جانب سے خلیفہ بازی اپنے زوروں پر تھی، یہ بیک وقت موجود خلافتیں ؛ خلافت عباسیہ، خلافت فاطمیہ اور خلافت قرطبہ (اندلسی امیہ) کی تھیں۔ 1169ء میں نور الدین زنگی نے شیر کوہ کے ذریعے مصر اپنے تسلط میں لے کر فاطمیہ خلافت کا خاتمہ کیا۔ صلاح الدین ایوبی (1138ء تا 1193ء) نے 1174ء میں ایوبی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔[28] اور 1187ء میں مسیحیوں کی قائم کردہ مملکت بیت المقدس سے بیت المقدس کو آزاد کروا لیا۔ 1342ء میں ایوبی سلطنت کے خاتمے اور مملوک (1250ء تا 1517ء) حکومت کے قیام سے قبل اس سلطنت میں ایک خاتون سلطانہ، شجر الدر (1249ء تا 1250ء) نے بھی ساتویں صلیبی جنگوں کے دوران میں قیادت کی[29]

طوائف الملوک تا استعماریت

1258ء میں چنگیز کے پوتے سے بچ نکلنے والے عباسیوں نے مصر میں مملوکوں کی سلطنت (1250ء تا 1517ء) میں خلفیہ کا لقب اختیار کر کے عباسی (فرار ہوجانے والی) خلافت کو مملوکوں کی عثمانیوں کے سلیم اول کے ہاتھوں شکست ہونے تک (1517ء) نام دکھاوے کی طرح قائم رکھا اور پھر سلیم اول نے آخری مصری عباسی خلیفہ، محمد المتوکل ثانی (1509ء تا 1517ء) کے بعد خلیفہ کا لقب اس سے اپنے لیے حاصل کر لیا۔ ھاشم ثانی کے بعد خلافت قرطبہ (756ء تا 1031ء) ختم ہوئی اور الاندلس چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا۔ دولت مرابطین کے یوسف بن تاشفین نے 1094ء میں اسے پھر متحد کیا لیکن اس کے بعد دولت موحدون آئی اور معرکہ العقاب (1212ء) میں ان کی شکست پر دوبارہ اندلس کا شیرازہ بکھر گیا اور 1492ء میں ابو عبد اللہ اندلس کو مسیحیوں کے حوالے کر کہ مراکش آگیا۔ ادھر مشرق کی جانب مملوکوں سے سلطنت غزنویہ (986ء تا 1186ء) اور سلطنت غوریہ (1148ء تا 1215ء) نے خلافت کو طوائف بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، اس کے بعد خلجی خاندان اور تغلق خاندان آئے اور 1526ء میں سلطنت دہلی، سلطنت مغلیہ بن گئی۔

اجمالی جائزہ

جغرافیائی اعتبار سے مسیحیت اور یہودیت کی طرح اسلام بھی ان ہی علاقوں سے دنیا میں آیا کہ جن کو مشرقی وسطٰی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام میں حضرت محمد کے ساتھ دیگر تمام انبیا پر ایمان رکھا جاتا ہے اور ان میں قرآن ہی کی سورت 35 (فاطر) کی آیت 24 کے مطابق، قرآن میں درج 25 انبیاء و مرسال[30] کے علاوہ ان میں وہ تمام بھی شامل ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، مثال کے طور پر سدھارتھ گوتم بدھ مت اور دیگر مذاہب کی ابتدا کرنے والے[31]، قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لائے تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہو گئی۔

  • یقیناً ہم نے بھیجا ہے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔
    اور نہیں ہے کوئی امت مگر ضرور آیا ہے اس میں کوئی منتبہ کرنے والا۔ (قرآن؛ 35:24)

تقدمِ زمانی کے لحاظ سے تمام توحیدیہ مذاہب میں جدید ترین کتاب ہونے کے باوجود عقیدے کے لحاظ سے قرآن قدیم ترین الہامی کتاب سمجھی جاتی ہے اور عرب و عجم سمیت تمام دنیا کے مسلمانوں میں عربی ہی میں اسے پڑھا جاتا ہے، جبکہ اس کے متعدد لسانی تراجم کو (ساتھ درج عربی کے لیے) محض تشریح کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔[32] اسلام میں جن باتوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے انکا ذکر اجزائے ایمان کے قطعے میں آچکا ہے، ان کے علاوہ توحید (شرک سے پ رہی ز) اور تخلیق بھی ان اجزاء میں بیان کیے جاسکتے ہیں۔ عبادات میں نمازِ پنجگانہ و نمازِ جمعہ کے علاوہ عید و بقرعید وغیرہ کی نمازیں قابلِ ذکر ہیں ؛ نمازوں کے علاوہ تمام ارکانِ اسلام عبادات میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ اہم تہواروں میں عیدالفطر و عید الاضحٰی شامل ہیں۔ روزمرہ زندگی میں اسلامی آدابِ زندگی پر قائم رہنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں معاشرے کے مختلف افراد کے حقوق، مناسب لباس، بے پردگی سے بچاؤ اور آداب و القاب کا خیال رکھا جاتا ہے ؛ خرد و نوش میں حلال و حرام کی تمیز ضروری ہے۔ ایمان، سچائی اور دیانت ہر شعبۂ زندگی میں ملحوظ خاطر رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے ؛ کام کاج اور فرائض منصبی کو درست طور پر ادا کرنا اور محنت کی عظمت کے بارے میں متعدد احادیث بیان کی جاتی ہیں

اسلام و دیگر مذاہب

از روئے قرآن، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ محمد صل للہ علیہ والہ وسلم سے قبل جتنے بھی مذاہب اس دنیا میں آئے وہ فی الحقیقت اسلام تھے اور جو عقائد محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے انسانوں کو سکھائے گئے محمد صل للہ علیہ والہ وسلم سے گذشتہ تمام انبیا نے بھی ان ہی عقائد کی تبلیغ کی تھی۔ سورت النساء میں درج ہے ؛

مذکورہ بالا آیت سے دوسرے مذاہب کے بارے میں اسلام کے نظریے کی وضاحت سامنے آجاتی ہے۔

اسلام میں انبیا

قرآن ہی کی سورت 35 (فاطر) کی آیت 24 کے مطابق، قرآن میں درج 25 انبیاء و مرسال[30] کے علاوہ اسلامی عقائد کے مطابق ایسے انبیا اکرام بھی ہیں کہ جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، قطعہ بنام اجمالی جائزہ میں درج آیت سے یہ بات عیاں ہے کہ ہر امت میں نبی (یا انبیا) بھیجے گئے، اس سلسلے میں ایک حدیث بھی مسند احمد بن حنبل اور فتح الباری بشرح صحیح البخاری میں آتی ہے جس میں پیغمبران کی تعداد 124000 بیان ہوئی ہے۔[33][34][35]؛ ظاہر ہے کہ ان میں ان مذاہب کے وہ اشخاص منطقی طور پر شامل ہو جاتے ہیں کہ جن کو آج ان مذاہب کی ابتدا کرنے والا یا ان مذاہب کا خدا مانا جاتا ہے ؛ مثال کے طور پر سدھارتھ گوتم بدھ مت اور دیگر مذاہب کی ابتدا کرنے والے[31]، گوتم بدھ کے بارے میں بعض علما کا خیال ہے کہ یہ پیغمبر ذو الکفل علیہ السلام (الانبیاء آیت 85) کی جانب اشارہ ہے اور kifl اصل میں سنسکرت کے لفظ (Kapilavastu) کو تشبیہ ہے،[36] گو یہ خیال سنی[36] اور شیعہ [37] کے علاوہ خود بدھ مذہب والوں میں بھی پایا جاتا ہے[38] لیکن چونکہ گوتم بدھ کا نام براہ راست قرآن میں نہیں آتا اس لیے متعدد علما اس وضاحت کو تسلیم نہیں کرتے۔ قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لائے تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہو گئی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد کے بارے میں متعدد نظریات دیکھنے میں آتے ہیں اور بہت سے علما کے نزدیک یہ عدد کوئی معین یا ناقابل ترمیم نہیں ہے[39]

اسلام پر انتقاد

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. آخر اسلام کیوں دنیا کا تیزی سے ترقی پاتا ہوا مذہب ہے – Pew Research Center
  2. ^ ا ب Is the Qur'an for Arabs Only? By Abul A'la Mawdudi آن لائن موقع
  3. مسلم آبادی 1.6 ارب اور 1.82 ارب کا بیان
  4. Learning Arabic at Berkeley By Sonia S'hiri اسی کروڑ
  5. اردو ترجمے کے ساتھ ایک موقع بنام آسان قرآن
  6. ahl al-quran at oxford islamic studies online آن لائن صفحہ
  7. the ahle sunnat wal jamaat آن لائن صفحہ
  8. Ahl-i Hadith آن لائن بیان
  9. see: sachal sarmast at dargahs of india and the world آن لائن صفحہ
  10. shia encyclopedia at scribd آن لائن صفحہ
  11. آسان قرآن
  12. preservation of quran آن لائن مضمون
  13. basic articles of faith صفحہ آن لائن
  14. fundamental articles of faith صفحہ آن لائن
  15. islamic academy نامی موقع پر ایمان مفصل و مجمل کا بیان
  16. اسلام کی آبادیات آن لائن صفحہ
  17. کتنے شیعہ موجود ہیں؟ آن لائن صفحہ
  18. islamicity میں اسلام کے پانچ ارکان آن لائن صفحہ
  19. شیعہ فرقے میں اسلام کے پانچ ارکان آن لائن صفحہ
  20. ارکان اسلام: (da'a'im al-islam of al-qadi al nu'man oxford univ. press 780195684353 کتب فروش موقع
  21. انسائکلوپیڈیا looklex پر دروز آن لائن صفحہ
  22. the first dynasty of islam by G.R. Hawting آن لائن اقتباس
  23. ^ ا ب invaders by ian frazier: the new yourker آن لائن مضمون
  24. Matthew E. Falagas, Effie A. Zarkadoulia, George Samonis (2006)۔ "Arab science in the golden age (750–1258 C.E.) and today"، The FASEB Journal 20، p. 1581–1586.
  25. caliphate at student britannica صفحہ آن لائن
  26. ^ ا ب caliphate at encyclopedia britannica صفحہ آن لائن
  27. caliphate at history.com آن لائن مضمون
  28. medieval crusades آن لائن مضمون
  29. Female Heroes from the Time of the Crusades آن لائن مضمون
  30. ^ ا ب islam web: fatwa 84425; number of messengers in quran آن لائن مضمون
  31. ^ ا ب islam and buddhism by harun yahya آن لائن مضمون
  32. what everyone needs to know about islam by John Esposito
  33. فتح الباری بشرح صحیح البخاری آن لائن
  34. پاکستان لنک نامی ایک موقع آن لائن بیان
  35. دارالافتاء پر ایک بیان آن لائن موقع
  36. ^ ا ب تنظیم اسلامی کی ویب سائٹ پر بیان القرآن؛ Surah An-Nisa (Ayat 158-176) (پیڈی ایف فائل)
  37. ایک شیعہ موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار کے عدد کا ذکر آن لائن مضمون
  38. قرآن میں گوتم بدھ کے بارے میں بدھ موقع آن لائن
  39. darul ifta; question آن لائن ربط

ملاحظات

کتابیات

  • Martin Accad (2003)۔ "The Gospels in the Muslim Discourse of the Ninth to the Fourteenth Centuries: An Exegetical Inventorial Table (Part I)"۔ Islam and Christian-Muslim Relations۔ 14 (1) 
  • Akbar Ahmed (1999)۔ Islam Today: A Short Introduction to the Muslim World (2.00 ایڈیشن)۔ I. B. Tauris۔ ISBN 978-1-86064-257-9 
  • Clinton Bennett (2010)۔ Interpreting the Qur'an: a guide for the uninitiated۔ Continuum International Publishing Group۔ صفحہ: 101۔ ISBN 978-0-8264-9944-8 
  • Jonathan E. Brockopp (2003)۔ Islamic Ethics of Life: abortion, war and euthanasia۔ University of South Carolina press۔ ISBN 1-57003-471-0 
  • Dalya Cohen-Mor (2001)۔ A Matter of Fate: The Concept of Fate in the Arab World as Reflected in Modern Arabic Literature۔ Oxford University Press۔ ISBN 0-19-513398-6 
  • Patricia A. Curtis (2005)۔ A Guide to Food Laws and Regulations۔ Blackwell Publishing Professional۔ ISBN 978-0-8138-1946-4 
  • John Esposito (2010)۔ Islam: The Straight Path (4th ایڈیشن)۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-539600-3 
  • John Esposito (1998)۔ Islam: The Straight Path (3rd ایڈیشن)۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-511234-4 
  • John Esposito، Yvonne Yazbeck Haddad (2000a)۔ Muslims on the Americanization Path?۔ Oxford University Press۔ ISBN 0-19-513526-1 
  • John Esposito (2000b)۔ Oxford History of Islam۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-510799-9 
  • John Esposito (2002a)۔ Unholy War: Terror in the Name of Islam۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-516886-0 
  • John Esposito (2002b)۔ What Everyone Needs to Know about Islam۔ Oxford University Press۔ ISBN 0-19-515713-3 
  • John Esposito (2003)۔ The Oxford Dictionary of Islam۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ISBN 0-19-512558-4 
  • John Esposito (2004)۔ Islam: The Straight Path (3rd Rev Upd ایڈیشن)۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-518266-8 
  • Caesar Farah (1994)۔ Islam: Beliefs and Observances (5th ایڈیشن)۔ Barron's Educational Series۔ ISBN 978-0-8120-1853-0 
  • Caesar Farah (2003)۔ Islam: Beliefs and Observances (7th ایڈیشن)۔ Barron's Educational Series۔ ISBN 978-0-7641-2226-2 
  • Reuven Firestone (1999)۔ Jihad: The Origin of Holy War in Islam۔ Oxford University Press۔ ISBN 0-19-512580-0 
  • Javed Ghamidi (2001)۔ Mizan۔ المورد۔ OCLC 52901690 
  • Arthur Goldschmidt, Jr.، Lawrence Davidson (2005)۔ A Concise History of the Middle East (8th ایڈیشن)۔ Westview Press۔ ISBN 978-0-8133-4275-7 
  • Ruth Marie Griffith، Barbara Dianne Savage (2006)۔ Women and Religion in the African Diaspora: Knowledge, Power, and Performance۔ Johns Hopkins University Press۔ ISBN 0-8018-8370-9 
  • Yvonne Yazbeck Haddad (2002)۔ Muslims in the West: from sojourners to citizens۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس 
  • G. R. Hawting (2000)۔ The First Dynasty of Islam: The Umayyad Caliphate AD 661–750۔ Routledge۔ ISBN 0-415-24073-5 
  • Muhammad Hedayetullah (2006)۔ Dynamics of Islam: An Exposition۔ Trafford Publishing۔ ISBN 978-1-55369-842-5 
  • Murad Hofmann (2007)۔ Islam and Qur'an۔ ISBN 978-1-59008-047-4 
  • P.M Holt، Bernard Lewis (1977a)۔ Cambridge History of Islam, Vol. 1۔ Cambridge University Press۔ ISBN 0-521-29136-4 
  • P. M. Holt، Ann K.S Lambton، Bernard Lewis (1977b)۔ Cambridge History of Islam, Vol. 2۔ Cambridge University Press۔ ISBN 0-521-29137-2 
  • Albert Hourani، Malise Ruthven (2003)۔ A History of the Arab Peoples۔ Belknap Press; Revised edition۔ ISBN 978-0-674-01017-8 
  • Ahmed Nezar Kobeisy (2004)۔ Counseling American Muslims: Understanding the Faith and Helping the People۔ Praeger Publishers۔ ISBN 978-0-313-32472-7 
  • Martin Kramer (1987)۔ Shi'Ism, Resistance, and Revolution۔ Westview Press۔ ISBN 978-0-8133-0453-3 
  • Ira Lapidus (2002)۔ A History of Islamic Societies (2nd ایڈیشن)۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-77933-3 
  • Bernard Lewis (1984)۔ The Jews of Islam۔ Routledge & Kegan Paul۔ ISBN 0-7102-0462-0 
  • Bernard Lewis (1993)۔ The Arabs in History۔ Oxford University Press۔ ISBN 0-19-285258-2 
  • Bernard Lewis (1997)۔ The Middle East۔ Scribner۔ ISBN 978-0-684-83280-7 
  • Bernard Lewis (2001)۔ Islam in History: Ideas, People, and Events in the Middle East (2nd ایڈیشن)۔ Open Court۔ ISBN 978-0-8126-9518-2 
  • Bernard Lewis (2003)۔ What Went Wrong?: The Clash Between Islam and Modernity in the Middle East (Reprint ایڈیشن)۔ Harper Perennial۔ ISBN 978-0-06-051605-5 
  • Bernard Lewis (2004)۔ The Crisis of Islam: Holy War and Unholy Terror۔ Random House, Inc.، New York۔ ISBN 978-0-8129-6785-2 
  • Wilferd Madelung (1996)۔ The Succession to Muhammad: A Study of the Early Caliphate۔ Cambridge University Press۔ ISBN 0-521-64696-0 
  • Jamal Malik، John R Hinnells (2006)۔ Sufism in the West۔ Routledge۔ ISBN 0-415-27408-7 
  • Werner F. Menski (2006)۔ Comparative Law in a Global Context: The Legal Systems of Asia and Africa۔ Cambridge University Press۔ ISBN 0-521-85859-3 
  • Tracy Miller، مدیر (اکتوبر 2009)۔ Mapping the Global Muslim Population: A Report on the Size and Distribution of the World's Muslim Population۔ پیو ریسرچ سینٹر۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2013 
  • Moojan Momen (1987)۔ An Introduction to Shi'i Islam: The History and Doctrines of Twelver Shi'ism۔ Yale University Press۔ ISBN 978-0-300-03531-5 
  • Seyed Muhammad Nasr (1994)۔ Our Religions: The Seven World Religions Introduced by Preeminent Scholars from Each Tradition (Chapter 7)۔ HarperCollins۔ ISBN 0-06-067700-7 
  • Solomon Alexander Nigosian (2004)۔ Islam: its history, teaching, and practices۔ Indiana University Press 
  • Walter M. Patton (اپریل 1900)۔ "The Doctrine of Freedom in the Korân"۔ The American Journal of Semitic Languages and Literatures۔ Brill Academic Publishers۔ 16 (3): 129۔ ISBN 90-04-10314-7۔ doi:10.1086/369367 
  • F. E. Peters (2003)۔ Islam: A Guide for Jews and Christians۔ Princeton University Press۔ ISBN 0-691-11553-2 
  • H. U. Rahman (1999)۔ Chronology of Islamic History, 570-1000 CE (3rd ایڈیشن)۔ Ta-Ha Publishers Ltd 
  • Andrew Rippin (2001)۔ Muslims: Their Religious Beliefs and Practices (2nd ایڈیشن)۔ Routledge۔ ISBN 978-0-415-21781-1 
  • Abdulaziz Sachedina (1998)۔ The Just Ruler in Shi'ite Islam: The Comprehensive Authority of the Jurist in Imamite Jurisprudence۔ Oxford University Press US۔ ISBN 0-19-511915-0 
  • Siljander, Mark D. and John David Mann. A Deadly Misunderstanding: a Congressman's Quest to Bridge the Muslim-Christian Divide۔ First ed. New York: Harper One, 2008. ISBN 978-0-06-143828-8
  • Jane I. Smith (2006)۔ The Islamic Understanding of Death and Resurrection۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-515649-2 
  • Sayyid Mohammad Hosayn Tabatabae، Seyyed Hossein Nasr (1979)۔ Shi'ite Islam۔ Suny press۔ ISBN 0-87395-272-3 
  • Geoff Teece (2003)۔ Religion in Focus: Islam۔ Franklin Watts Ltd۔ ISBN 978-0-7496-4796-4 
  • John Spencer Trimingham (1998)۔ The Sufi Orders in Islam۔ Oxford University Press۔ ISBN 0-19-512058-2 
  • Colin Turner (2006)۔ Islam: the Basics۔ Routledge (UK)۔ ISBN 0-415-34106-X 
  • Bryan S. Turner (1998)۔ Weber and Islam۔ Routledge (UK)۔ ISBN 0-415-17458-9 
  • David Waines (2003)۔ An Introduction to Islam۔ Cambridge University Press۔ ISBN 0-521-53906-4 
  • W. Montgomery Watt (1973)۔ The Formative Period of Islamic Thought۔ University Press Edinburgh۔ ISBN 0-85224-245-X 
  • W. Montgomery Watt (1974)۔ Muhammad: Prophet and Statesman (New ایڈیشن)۔ Oxford University Press۔ ISBN 0-19-881078-4 
  • Bernard G. Weiss (2002)۔ Studies in Islamic Legal Theory۔ Boston: Brill Academic publishers۔ ISBN 90-04-12066-1 

دائرۃ المعارف

مزید پڑھیے

  • Abdul-Haqq, Abdiyah Akbar (1980)۔ Sharing Your Faith with a Muslim۔ Minneapolis: Bethany House Publishers. N.B۔ Presents the genuine doctrines and concepts of Islam and of the Holy Qur'an, and this religion's affinities with Christianity and its Sacred Scriptures, in order to "dialogue" on the basis of what both faiths really teach. ISBN 0-87123-553-6
  • Mustafa Akyol (2011)۔ Islam Without Extremes (1st ایڈیشن)۔ W. W. Norton & Company۔ ISBN 978-0-393-07086-6 
  • A. J. Arberry (1996)۔ The Koran Interpreted: A Translation (1st ایڈیشن)۔ Touchstone۔ ISBN 978-0-684-82507-6 
  • Cragg, Kenneth (1975)۔ The House of Islam، in The Religious Life of Man Series۔ Second ed. Belmont, Calif.: Wadsworth Publishing Co.، 1975. xiii, 145 p. ISBN 0-8221-0139-4
  • Hourani, Albert (1991)۔ Islam in European Thought۔ First pbk. ed. Cambridge, Eng.: Cambridge University Press, 1992, cop. 1991. xi, 199 p. ISBN 0-521-42120-9; alternative ISBN on back cover, 0-521-42120-0
  • Muhammad Muhsin Khan، Al-Hilali Khan، Muhammad Taqi-ud-Din (1999)۔ Noble Quran (1st ایڈیشن)۔ Dar-us-Salam Publications۔ ISBN 978-9960-740-79-9 
  • A. Khanbaghi (2006)۔ The Fire, the Star and the Cross: Minority Religions in Medieval and Early Modern Iran۔ I. B. Tauris.
  • Khavari, Farid A. (1990)۔ Oil and Islam: the Ticking Bomb۔ First ed. Malibu, Calif.: Roundtable Publications. viii, 277 p.، ill. with maps and charts. ISBN 0-915677-55-5
  • Martin Kramer (ed.) (1999)۔ The Jewish Discovery of Islam: Studies in Honor of Bernard Lewis۔ Syracuse University۔ ISBN 978-965-224-040-8 
  • Dogan Kuban (1974)۔ Muslim Religious Architecture۔ Brill Academic Publishers۔ ISBN 90-04-03813-2 
  • Bernard Lewis (1994)۔ Islam and the West۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-509061-1 
  • Bernard Lewis (1996)۔ Cultures in Conflict: Christians, Muslims, and Jews in the Age of Discovery۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-510283-3 
  • Saifur-Rahman Mubarkpuri (2002)۔ صفی الرحمٰن مبارک پوری: Biography of the Prophet۔ Dar-us-Salam Publications۔ ISBN 978-1-59144-071-0 
  • Akbar Shah Najeebabadi (2001)۔ History of Islam۔ Dar-us-Salam Publications۔ ISBN 978-1-59144-034-5 
  • S. A. Nigosian (2004)۔ Islam: Its History, Teaching, and Practices (New ایڈیشن)۔ Indiana University Press۔ ISBN 978-0-253-21627-4 
  • Fazlur Rahman (1979)۔ Islam (2nd ایڈیشن)۔ University of Chicago Press۔ ISBN 0-226-70281-2 
  • Arno Tausch (2009)۔ What 1.3 Billion Muslims Really Think: An Answer to a Recent Gallup Study, Based on the "World Values Survey"۔ Foreword Mansoor Moaddel, Eastern Michigan University (1st ایڈیشن)۔ Nova Science Publishers, New York۔ ISBN 978-1-60692-731-1 
  • Arno Tausch (2015)۔ The political algebra of global value change. General models and implications for the Muslim world. With Almas Heshmati and Hichem Karoui. (1st ایڈیشن)۔ Nova Science Publishers, New York۔ ISBN 978-1-62948-899-8 
  • Benjamin Walker (1998)۔ Foundations of Islam: The Making of a World Faith۔ Peter Owen Publishers۔ ISBN 978-0-7206-1038-3 

بیرونی روابط

تعلیمی وسائل
آن لائن مآخذ
ڈائریکٹریاں