"ستی (رسم)" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ستی
م خودکار: درستی املا ← معما، مہاراجا، ہو سکا، راجا، کیے، کر لیا، ہو گیا، دکھائی، جو
سطر 1: سطر 1:
رسم
رسم


برصغیر میں انگریزوں کے دور تک ہندووَں میں رواج کسی شخص کے مرنے پر اس کی بیوی بھی اس کی چتا کے ساتھ جل جاتی تھی اور یہ رسم ستی کہلاتی تھی ۔ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ ستی کا کب رواج ہوا ۔ ویدوں میں اس ستی کا ذکر نہیں ملتا ہے ۔ اگرچہ بعض ہندووَں کا خیال ہے کہ رگ وید میں ستی کا جوالہ ہے ۔ لیکن رگ وید میں بیوہ سے کہا گیا اٹھ اور دوسرا شوہر چن لے ۔ یہ رسم کب سے جاری ہوئی اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا ہے ۔ یونانیوں نے بھی ستی کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ البتہ مسلمان سیاحوں نے ستی کا ذکر کیا ہے ۔ تاہم اندازہ ہے یہ رسم ساتویں صدی سے شروع ہوئی جب کہ راجپوتوں کا دور شروع ہوا ۔ جمیز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ یہ رسم راجپوت عورتوں میں اس لیے شروع ہوئی نہ انہیں فاتح کی لونڈیاں منظور نہیں تھا ۔
برصغیر میں انگریزوں کے دور تک ہندووَں میں رواج کسی شخص کے مرنے پر اس کی بیوی بھی اس کی چتا کے ساتھ جل جاتی تھی اور یہ رسم ستی کہلاتی تھی ۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ستی کا کب رواج ہوا ۔ ویدوں میں اس ستی کا ذکر نہیں ملتا ہے ۔ اگرچہ بعض ہندووَں کا خیال ہے کہ رگ وید میں ستی کا جوالہ ہے ۔ لیکن رگ وید میں بیوہ سے کہا گیا اٹھ اور دوسرا شوہر چن لے ۔ یہ رسم کب سے جاری ہوئی اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا ہے ۔ یونانیوں نے بھی ستی کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ البتہ مسلمان سیاحوں نے ستی کا ذکر کیا ہے ۔ تاہم اندازہ ہے یہ رسم ساتویں صدی سے شروع ہوئی جب کہ راجپوتوں کا دور شروع ہوا ۔ جمیز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ یہ رسم راجپوت عورتوں میں اس لیے شروع ہوئی نہ انہیں فاتح کی لونڈیاں منظور نہیں تھا ۔


ایک روایت کے مطابق مہابھارت کی جنگ میں کوروں کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہوئے اور ان کا اندھا باپ دہرتراشتر نے راج پانڈووَں کے حوالے کیا اور خود اپنی بیوی کے ساتھ ہمالیہ چلاگیا اور وہاں آگ میں جل کر مرگیا ۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی ساتھ جل گئی تھی ۔ اس کے بعد عورتوں میں یہ رسم شروع ہوئی کہ شوہر کی موت کے بیوی یا بیویاں شوہر کی چتا میں ساتھ جلنے لگیں ۔ اس لیے ہندووَں کے جن طبقات میں ستی کا دستور تھا وہاں عورتیں پوجا نہیں تھیں ۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں اور اس موت پر اس کے ساتھ ہی چتا میں جل کر مر جانے ہماری نجات ہے ۔ عورتوں کا یہ خیال تھا کہ ان کے ستی سے ان کے خاوند کی بھی نجات ہوجائے گی ۔
ایک روایت کے مطابق مہابھارت کی جنگ میں کوروں کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہوئے اور ان کا اندھا باپ دہرتراشتر نے راج پانڈووَں کے حوالے کیا اور خود اپنی بیوی کے ساتھ ہمالیہ چلاگیا اور وہاں آگ میں جل کر مرگیا ۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی ساتھ جل گئی تھی ۔ اس کے بعد عورتوں میں یہ رسم شروع ہوئی کہ شوہر کی موت کے بیوی یا بیویاں شوہر کی چتا میں ساتھ جلنے لگیں ۔ اس لیے ہندووَں کے جن طبقات میں ستی کا دستور تھا وہاں عورتیں پوجا نہیں تھیں ۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں اور اس موت پر اس کے ساتھ ہی چتا میں جل کر مر جانے ہماری نجات ہے ۔ عورتوں کا یہ خیال تھا کہ ان کے ستی سے ان کے خاوند کی بھی نجات ہوجائے گی ۔
سطر 19: سطر 19:
رواج
رواج


ستی کے معنیٰ صادقہ کے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ کلمہ ایسی عورت کو کہا جانے لگا جو شوہر کی وفادار ہو اور اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ستی ہوجائے ۔ ستی ہونا عورت کی پاکیزگی کا اعلیٰ معیار ہندووَں میں بن گیا تھا ۔ اس کے قصے اور مثالیں عام تھیں اور سیتا اور ساوتری کہانیاں مشہور تھین ۔ پرانوں کے قصوں میں دانستہ عورت کو ستی کرنے کی مثالیں ہیں ۔ مگر پھر بھی اس رسم کا رواج معمہ ہے اور اس نے ہندوستان کی تاریخ کو دھندلا دیا ہے ۔ ستی کا رواج ابتدا میں راجپوتوں کے علاوہ کسی اور قوم میں نہیں تھا ۔ جو کہ ان میں باہمی جنگ و جدل یا مسلمانوں کے حملے کی وجہ سے ہوا ہو ۔ مگر انیسویں صدی کی ابتدا میں بعض ستی کی ایسی وارداتیں ان قوموں میں بھی ہوئیں جو کے کھتری یا راجپوت نہیں تھے اور جلد ہی یہ رواج ہندوستان کے شمالی صوبوں جن میں بنگال بھی شامل تھا عام ہوگیا ۔ مگر ستی ہونے والی عورت کا ستی ہونے کا سبب صرف جوش یا وفاداری نہیں بلکہ اس میں اجتماعی اور جبر بھی کیا جاتا تھا ۔ مادی ہوس اور مذہبی جنون دونوں مل کر ان بے بس عورتوں اپنا شکار بناتے اور انہیں بے رحمی سے جلا دیتے تھے ۔ یہ رواج انسانیت کے برخلاف وحشیانہ انسانی قربانی کا ایک نفرت انگیز پہلو تھا ۔
ستی کے معنیٰ صادقہ کے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ کلمہ ایسی عورت کو کہا جانے لگا جو شوہر کی وفادار ہو اور اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ستی ہوجائے ۔ ستی ہونا عورت کی پاکیزگی کا اعلیٰ معیار ہندووَں میں بن گیا تھا ۔ اس کے قصے اور مثالیں عام تھیں اور سیتا اور ساوتری کہانیاں مشہور تھین ۔ پرانوں کے قصوں میں دانستہ عورت کو ستی کرنے کی مثالیں ہیں ۔ مگر پھر بھی اس رسم کا رواج معما ہے اور اس نے ہندوستان کی تاریخ کو دھندلا دیا ہے ۔ ستی کا رواج ابتدا میں راجپوتوں کے علاوہ کسی اور قوم میں نہیں تھا ۔ جو ان میں باہمی جنگ و جدل یا مسلمانوں کے حملے کی وجہ سے ہوا ہو ۔ مگر انیسویں صدی کی ابتدا میں بعض ستی کی ایسی وارداتیں ان قوموں میں بھی ہوئیں جو کے کھتری یا راجپوت نہیں تھے اور جلد ہی یہ رواج ہندوستان کے شمالی صوبوں جن میں بنگال بھی شامل تھا عام ہو گیا ۔ مگر ستی ہونے والی عورت کا ستی ہونے کا سبب صرف جوش یا وفاداری نہیں بلکہ اس میں اجتماعی اور جبر بھی کیا جاتا تھا ۔ مادی ہوس اور مذہبی جنون دونوں مل کر ان بے بس عورتوں اپنا شکار بناتے اور انہیں بے رحمی سے جلا دیتے تھے ۔ یہ رواج انسانیت کے برخلاف وحشیانہ انسانی قربانی کا ایک نفرت انگیز پہلو تھا ۔


کسی عورت کو ستی ہوتے ہوئے دیکھنا طبعیت پر سخت گراں گزرتا ہے اور دیکھنے والوں کے دل پر گہرا صدمہ کے ساتھ ستی ہونے والی عورت کی عظمت ، استقلال اور تحمل پر حیرت ہوتی تھی ۔ ستی سے پہلے عورت اپنی ذاتی اشیاء اپنے عزیزوں تقسیم کرنے اور لوگوں سے الوداعی سلام و دعا اور اس کی تعظم و احترام کرنے کا منظر ۔ ستی ہونے والی عورت کا طرار پن دیکھ کر دیکھنے والوں کی عجیب حالت ہوجاتی تھی کہ ایک نرم مزاج عورت ایک فرسودہ رسم کی بدولت اپنی جان جس طرح دیتی تھی اس سے بڑے بڑے حب الوطن لڑائیوں میں مرنے والے بھی اس کے آگے ہیچ ہیں ۔
کسی عورت کو ستی ہوتے ہوئے دیکھنا طبعیت پر سخت گراں گزرتا ہے اور دیکھنے والوں کے دل پر گہرا صدمہ کے ساتھ ستی ہونے والی عورت کی عظمت ، استقلال اور تحمل پر حیرت ہوتی تھی ۔ ستی سے پہلے عورت اپنی ذاتی اشیاء اپنے عزیزوں تقسیم کرنے اور لوگوں سے الوداعی سلام و دعا اور اس کی تعظم و احترام کرنے کا منظر ۔ ستی ہونے والی عورت کا طرار پن دیکھ کر دیکھنے والوں کی عجیب حالت ہوجاتی تھی کہ ایک نرم مزاج عورت ایک فرسودہ رسم کی بدولت اپنی جان جس طرح دیتی تھی اس سے بڑے بڑے حب الوطن لڑائیوں میں مرنے والے بھی اس کے آگے ہیچ ہیں ۔
سطر 25: سطر 25:
انگریزوں کا کہنا ہے کہ شوہر کی موت کے بعد بیوہ کو جو ذلت آمیز زندگی گزانی پڑتی تھی اسی لیے بھی عورتیں ستی ہونا پسند کرتی تھیں ۔ عورتوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھائی جاتی تھی کہ ان کے ستی ہونے سے شوہر کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ سرگ میں شوہر کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزارے گی ۔ وہ اسی امید پر کہ اسے اور اس کے شوہر کو سرگ کی لذتین عیش و آرام نصیب ہوں گے خوشی خوشی جل جاتی تھی ۔ بنگال میں ایک ستی کے موقع پر ایک عورت ڈر کر بھاگی تو لوگ پکڑ کر چتا میں ڈالنے لگے تو ایک انگریز نے اس عورت کو دوبارہ چتا میں نہیں ڈالنے دیا اور اس کی جان بچ گئی ۔ لیکن دوسرے دن اس عورت نے آکر اس انگریز سخت برا بھلا کہا کہ تم نے مجھے ذلیل کر دیا ۔ اگر جل جانے دیا ہوتا تو آج بیکٹھ (جنت) میں شوہر کے ساتھ عیش کر رہی ہوتی ۔ اب میرے لواحقین مجھے برا بھلا اور بدعائیں دیتے ہیں ۔ مشہور یہ بھی تھا کہ مرنے والے کے رشتہ دار اس کی بیوی کو ستی ہونے کے لیے اس لیے بھی مجبور کرتے تھے کہ مرنے والے کی مال اور دولت ان کے ہاتھ لگ جائے ۔ مگر ہندو مذہب میں عورت کو اس طرح کا استقاق نہیں ہے کہ وہ مال و دولت اپنے پاس رکھے یا آزادانہ زندگی بسر کرے ۔ منو کے قانون کے مطابق عورت شادی سے پہلے باپ و بھائیوں اور شادی کے بعد شوہر اور بیٹوں کی محتاج ہوتی ہے ۔ اگرچہ بہت سی عورتیں شوہر سے محبت کے اظہار میں جوش و جذبات میں ستی ہوتی تھیں ۔
انگریزوں کا کہنا ہے کہ شوہر کی موت کے بعد بیوہ کو جو ذلت آمیز زندگی گزانی پڑتی تھی اسی لیے بھی عورتیں ستی ہونا پسند کرتی تھیں ۔ عورتوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھائی جاتی تھی کہ ان کے ستی ہونے سے شوہر کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ سرگ میں شوہر کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزارے گی ۔ وہ اسی امید پر کہ اسے اور اس کے شوہر کو سرگ کی لذتین عیش و آرام نصیب ہوں گے خوشی خوشی جل جاتی تھی ۔ بنگال میں ایک ستی کے موقع پر ایک عورت ڈر کر بھاگی تو لوگ پکڑ کر چتا میں ڈالنے لگے تو ایک انگریز نے اس عورت کو دوبارہ چتا میں نہیں ڈالنے دیا اور اس کی جان بچ گئی ۔ لیکن دوسرے دن اس عورت نے آکر اس انگریز سخت برا بھلا کہا کہ تم نے مجھے ذلیل کر دیا ۔ اگر جل جانے دیا ہوتا تو آج بیکٹھ (جنت) میں شوہر کے ساتھ عیش کر رہی ہوتی ۔ اب میرے لواحقین مجھے برا بھلا اور بدعائیں دیتے ہیں ۔ مشہور یہ بھی تھا کہ مرنے والے کے رشتہ دار اس کی بیوی کو ستی ہونے کے لیے اس لیے بھی مجبور کرتے تھے کہ مرنے والے کی مال اور دولت ان کے ہاتھ لگ جائے ۔ مگر ہندو مذہب میں عورت کو اس طرح کا استقاق نہیں ہے کہ وہ مال و دولت اپنے پاس رکھے یا آزادانہ زندگی بسر کرے ۔ منو کے قانون کے مطابق عورت شادی سے پہلے باپ و بھائیوں اور شادی کے بعد شوہر اور بیٹوں کی محتاج ہوتی ہے ۔ اگرچہ بہت سی عورتیں شوہر سے محبت کے اظہار میں جوش و جذبات میں ستی ہوتی تھیں ۔


اگر متوفی کی کئی بیویاں ہوں تو عمر جو بڑی ہو اسے ستی ہونے کا پہلا حق ہوتا تھا ۔ اس طرح حاملہ عورت بچے کی پیدائش کے ہونے کے بعد بھی ستی کرلیتی تھی ۔ بہت سی عورتیں ستی کے راضی نہیں بھی ہوتی ہیں اور انہیں زبردستی ستی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے کھرک سنگھ کی موت کے بعد اس کی بیوہ ایسر کور نے ستی ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔ مگر راجہ دہیان سنگھ سے اسے زبردستی کھرک سنگھ کی چتا کے ساتھ جلا دیا ۔
اگر متوفی کی کئی بیویاں ہوں تو عمر جو بڑی ہو اسے ستی ہونے کا پہلا حق ہوتا تھا ۔ اس طرح حاملہ عورت بچے کی پیدائش کے ہونے کے بعد بھی ستی کرلیتی تھی ۔ بہت سی عورتیں ستی کے راضی نہیں بھی ہوتی ہیں اور انہیں زبردستی ستی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بیٹے کھرک سنگھ کی موت کے بعد اس کی بیوہ ایسر کور نے ستی ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔ مگر راجا دہیان سنگھ سے اسے زبردستی کھرک سنگھ کی چتا کے ساتھ جلا دیا ۔


طریقے
طریقے
سطر 31: سطر 31:
ستی ہونے کے ہر علاقہ میں مختلف طریقے راءج تھے ۔ مثلاً بنگال میں بیوہ کو مردے کے ساتھ چتا میں رسیوں اور بانسوں سے باندھ دیا جاتا تھا کہ عورت اٹھ کر بھاگ نہ سکے اور پھر چتا کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ اوڑیسہ میں ایک گڈھا کھود کر اس میں مردے کو آگ دیکھاتے تھے اور جب شعلے بلند ہوتے تو اس کی بیوہ اس میں کود پڑتی تھی یا دھکا دے دیا جاتا تھا ۔ دکن میں ستی کا دستور اس طرح تھا کہ چتا میں عورت مردہ شوہر کا سر زانو پر لے بیٹھ جاتی تھی اور چتا کے چاروں طرف لکڑیاں لگا اوپر چھت بناکر اندر مردے اور عورت کے پاس لکڑیاں چن دی جاتی تھیں اور چتا کی چھت کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ عورت یا تو دھویں سے دم گھٹنے سے مرجاتی تھی یا چتا کی چھت اس پر گر جاتی تھی ۔
ستی ہونے کے ہر علاقہ میں مختلف طریقے راءج تھے ۔ مثلاً بنگال میں بیوہ کو مردے کے ساتھ چتا میں رسیوں اور بانسوں سے باندھ دیا جاتا تھا کہ عورت اٹھ کر بھاگ نہ سکے اور پھر چتا کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ اوڑیسہ میں ایک گڈھا کھود کر اس میں مردے کو آگ دیکھاتے تھے اور جب شعلے بلند ہوتے تو اس کی بیوہ اس میں کود پڑتی تھی یا دھکا دے دیا جاتا تھا ۔ دکن میں ستی کا دستور اس طرح تھا کہ چتا میں عورت مردہ شوہر کا سر زانو پر لے بیٹھ جاتی تھی اور چتا کے چاروں طرف لکڑیاں لگا اوپر چھت بناکر اندر مردے اور عورت کے پاس لکڑیاں چن دی جاتی تھیں اور چتا کی چھت کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ عورت یا تو دھویں سے دم گھٹنے سے مرجاتی تھی یا چتا کی چھت اس پر گر جاتی تھی ۔


ستی ہونے والی عورتیں عموماً ستی کے لیے مختلف رسومات برد باری اور صبر و استقلال سے ادا کرتی تھیں کہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ موت کو گلے لگا رہی ہیں ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ستی ہونے والی عورت شعلوں کے درمیان سر کو جھکا کر دونوں ہاتھ جوڑ کر دعائیں مانگتی مانگی جل گئی ۔ یہ بھی ہوتا تھا کہ چتا کو آگ دیکھائی تو عورت ڈر کر بھاگی اور لوگوں نے اسے پکڑ کر دوبارہ چتا میں ڈلا اور اس کے اوپر لکڑی کے بھاری تنے دال دیے کہ وہ دوبارہ نکل نہیں سے ۔ بعض اوقات یا بعض مقامات پر ستی ہونے والی عورتوں کو نشہ آور دے دی جاتی تھی کہ وہ کہ انہیں ہوش نہ رہے ۔ مثلاً گجرات میں ستی ہونے والی عورتیں کو عموماً افین کھلادی جاتی تھی جس سے وہ مدہوش ہوجاتی تھیں ۔
ستی ہونے والی عورتیں عموماً ستی کے لیے مختلف رسومات برد باری اور صبر و استقلال سے ادا کرتی تھیں کہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ موت کو گلے لگا رہی ہیں ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ستی ہونے والی عورت شعلوں کے درمیان سر کو جھکا کر دونوں ہاتھ جوڑ کر دعائیں مانگتی مانگی جل گئی ۔ یہ بھی ہوتا تھا کہ چتا کو آگ دکھائی تو عورت ڈر کر بھاگی اور لوگوں نے اسے پکڑ کر دوبارہ چتا میں ڈلا اور اس کے اوپر لکڑی کے بھاری تنے دال دیے کہ وہ دوبارہ نکل نہیں سے ۔ بعض اوقات یا بعض مقامات پر ستی ہونے والی عورتوں کو نشہ آور دے دی جاتی تھی کہ وہ کہ انہیں ہوش نہ رہے ۔ مثلاً گجرات میں ستی ہونے والی عورتیں کو عموماً افین کھلادی جاتی تھی جس سے وہ مدہوش ہوجاتی تھیں ۔


برنیر عہد اورنگ زیب میں لکھتا ہے کہ میں نے چند ایسی بدنصیف بیواؤں کو دیکھا تھا جو چتا کی شکل دیکھتے کر بھاگتی تھیں ۔ ان کو دیکھ کر مجھے یقین تھا کہ اگر یہ ظالم اور بے درد برہمن انہیں ستی سے منع کریں تو یہ خوشی خوشی رک جائیں گیں ۔ مگر یہ ان خوف زدہ اور اجل گرفتہ عورتوں کو ستی کی ترغیبیں اور بڑھاوے دیتے رہے اور جب انہوں نے مزاحمت کی تو زبردستی انہیں آگ میں ڈال دیا کرتے تھے ۔ میرے سامنے ایک غریب جوان عورت اس طرح زبردستی آگ میں ڈال دی گئی تھی ۔ اس طرح میں نے ایک اور بدنصیب عورت کو دیکھا کہ اس کے اردگرد جب آگ بھرکنے لگی تو اس نے بھاگنا چاہا مگر ان جلاد صفتوں انہیں لمبے لمبے بانسوں سے دبا دیا کہ وہ نکل نہیں نہ سکیں ۔
برنیر عہد اورنگ زیب میں لکھتا ہے کہ میں نے چند ایسی بدنصیف بیواؤں کو دیکھا تھا جو چتا کی شکل دیکھتے کر بھاگتی تھیں ۔ ان کو دیکھ کر مجھے یقین تھا کہ اگر یہ ظالم اور بے درد برہمن انہیں ستی سے منع کریں تو یہ خوشی خوشی رک جائیں گیں ۔ مگر یہ ان خوف زدہ اور اجل گرفتہ عورتوں کو ستی کی ترغیبیں اور بڑھاوے دیتے رہے اور جب انہوں نے مزاحمت کی تو زبردستی انہیں آگ میں ڈال دیا کرتے تھے ۔ میرے سامنے ایک غریب جوان عورت اس طرح زبردستی آگ میں ڈال دی گئی تھی ۔ اس طرح میں نے ایک اور بدنصیب عورت کو دیکھا کہ اس کے اردگرد جب آگ بھرکنے لگی تو اس نے بھاگنا چاہا مگر ان جلاد صفتوں انہیں لمبے لمبے بانسوں سے دبا دیا کہ وہ نکل نہیں نہ سکیں ۔


لیڈی اہمرسٹ نے اکتوبر 1825ء میں ایک دلخراش واقعہ کو اپنے روزنامچہ میں درج کیا ہے کہ ایک نوجوان ہیضے سے مر گیا اور اس کی بیوہ نے اس کے ساتھ چٹا پر جلنے کا ارادہ کرلیا ۔ ضروری تیاریاں ہوگئیں اور مجسٹریٹ سے اجازت نامہ حاصل کرلیا گیا ۔ چتا کو متوفی کے رشتہ داروں نے آگ لگادی ۔ آگ کے شعلے جب بیوہ تک پہنچے تو اس کا حوصلہ جواب دے گیا اور وہ دھویں کے بادلوں ، ہجوم کی چیخ پکار اور ڈھول نقاروں کی سمع خراش شور و غوغا کے درمیان کسی نہ کسی طرح لوگوں کی نظر بچا کر جنگل میں جاپہنچی اور کسی کی نظر پر نہ پڑی ۔ پہلے تو کسی نے توجہ نہ دی لیکن دھواں کم ہوا تو چتا میں عورت نظر نہیں آئی ۔ اس پر لوگ غصہ میں آگئے اور بدنصیب لڑکی جنگل ملی اور اس بدنصیب لڑکی کو ایک ڈنگی میں بیٹھا کر دریا میں لے گئے اور بیچ منجھدار لڑکی کو دریا میں پھینک دیا اور جب وہ لڑکی اوپر آئی تو چپو سے اسے سر پر وار کئے جس سے وہ دریا میں ڈوپ گئی ۔[[فائل:Hindu Suttee.jpg|تصغیر|350px|بائیں|"ہندو ستی کرتے ہوئے"۔ ایک خیالی تصویر]]
لیڈی اہمرسٹ نے اکتوبر 1825ء میں ایک دلخراش واقعہ کو اپنے روزنامچہ میں درج کیا ہے کہ ایک نوجوان ہیضے سے مر گیا اور اس کی بیوہ نے اس کے ساتھ چٹا پر جلنے کا ارادہ کر لیا ۔ ضروری تیاریاں ہوگئیں اور مجسٹریٹ سے اجازت نامہ حاصل کر لیا گیا ۔ چتا کو متوفی کے رشتہ داروں نے آگ لگادی ۔ آگ کے شعلے جب بیوہ تک پہنچے تو اس کا حوصلہ جواب دے گیا اور وہ دھویں کے بادلوں ، ہجوم کی چیخ پکار اور ڈھول نقاروں کی سمع خراش شور و غوغا کے درمیان کسی نہ کسی طرح لوگوں کی نظر بچا کر جنگل میں جاپہنچی اور کسی کی نظر پر نہ پڑی ۔ پہلے تو کسی نے توجہ نہ دی لیکن دھواں کم ہوا تو چتا میں عورت نظر نہیں آئی ۔ اس پر لوگ غصہ میں آگئے اور بدنصیب لڑکی جنگل ملی اور اس بدنصیب لڑکی کو ایک ڈنگی میں بیٹھا کر دریا میں لے گئے اور بیچ منجھدار لڑکی کو دریا میں پھینک دیا اور جب وہ لڑکی اوپر آئی تو چپو سے اسے سر پر وار کیے جس سے وہ دریا میں ڈوپ گئی ۔[[فائل:Hindu Suttee.jpg|تصغیر|350px|بائیں|"ہندو ستی کرتے ہوئے"۔ ایک خیالی تصویر]]
[[فائل:Suttee by James Atkinson.jpg|تصغیر|480px|ایک بیوہ ستی ہو رہی ہے۔]]
[[فائل:Suttee by James Atkinson.jpg|تصغیر|480px|ایک بیوہ ستی ہو رہی ہے۔]]
<br />
<br />

نسخہ بمطابق 23:05، 15 اکتوبر 2019ء

رسم

برصغیر میں انگریزوں کے دور تک ہندووَں میں رواج کسی شخص کے مرنے پر اس کی بیوی بھی اس کی چتا کے ساتھ جل جاتی تھی اور یہ رسم ستی کہلاتی تھی ۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ستی کا کب رواج ہوا ۔ ویدوں میں اس ستی کا ذکر نہیں ملتا ہے ۔ اگرچہ بعض ہندووَں کا خیال ہے کہ رگ وید میں ستی کا جوالہ ہے ۔ لیکن رگ وید میں بیوہ سے کہا گیا اٹھ اور دوسرا شوہر چن لے ۔ یہ رسم کب سے جاری ہوئی اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا ہے ۔ یونانیوں نے بھی ستی کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ البتہ مسلمان سیاحوں نے ستی کا ذکر کیا ہے ۔ تاہم اندازہ ہے یہ رسم ساتویں صدی سے شروع ہوئی جب کہ راجپوتوں کا دور شروع ہوا ۔ جمیز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ یہ رسم راجپوت عورتوں میں اس لیے شروع ہوئی نہ انہیں فاتح کی لونڈیاں منظور نہیں تھا ۔

ایک روایت کے مطابق مہابھارت کی جنگ میں کوروں کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہوئے اور ان کا اندھا باپ دہرتراشتر نے راج پانڈووَں کے حوالے کیا اور خود اپنی بیوی کے ساتھ ہمالیہ چلاگیا اور وہاں آگ میں جل کر مرگیا ۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی ساتھ جل گئی تھی ۔ اس کے بعد عورتوں میں یہ رسم شروع ہوئی کہ شوہر کی موت کے بیوی یا بیویاں شوہر کی چتا میں ساتھ جلنے لگیں ۔ اس لیے ہندووَں کے جن طبقات میں ستی کا دستور تھا وہاں عورتیں پوجا نہیں تھیں ۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں اور اس موت پر اس کے ساتھ ہی چتا میں جل کر مر جانے ہماری نجات ہے ۔ عورتوں کا یہ خیال تھا کہ ان کے ستی سے ان کے خاوند کی بھی نجات ہوجائے گی ۔

ستی کے بارے میں اعتقاد

ان کا خیال تھا کہ ستی ہونے والی عورت کو تائید غیبی حاصل ہوتا ہے اور مشہور تھا کہ یہ سب بھگوان کی طرف سے ہوتا ہے ۔ ستی ہونے والی عورت سے ڈرتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ اس کی زبان سے جو نکلے گا وہ ضرور پورا ہوگا ۔ اس لیے بھی وہ عورت کو ستی سے منع نہیں کرتے تھے ۔

منو کا حکوم

منو دھرم شاستر میں لکھا ہے کہ برہمن ، چھتری ، ویش اور شورد قوم کی عورتیں ستی کرسکتی ہیں ۔ مگر جس عورت کا لڑکا چھوٹا ہو یا حاملہ اور حیض والی کو ستی نہ ہونا چاہیے اور منونے زبردستی ستی سے منع کیا ہے ۔

ستی کا طریقہ

ستی ہونے والی عورت سرخ رنگ کی پوشاک پہنتی تھی اور اس کا دلہن کی طرح سنگھار کیا جاتا تھا ۔ اس خبر کو سن کر گرد و نواح سے لوگ تماشا دیکھنے آتے تھے اور ہزاروں کا ہجوم جمع ہو جاتا تھا ۔ وہ عورت چتا کی طرف جاتے ہوئے بظاہر خوش خوش ناریل کو ہاتھ میں اچھالتے جاتی تھی ۔ چتا میں روغن زرد (گھی) اور روئی ہوتی تھی ۔ عورت اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ لکڑیوں پر بیٹھ جاتی تھی اور اس کے اقربا لاش اور عورت کے گرد لکڑیاں چن کر اس کے اوپر روئی اور روغن اس کے اوپر ڈال دیتے تھے تاکہ آگ تیز ہو اور عورت اور لاش دونوں جلدی بھسم ہوجائے ۔ اس عورت کی جو ستی کہلاتی تھی چند پشت تک خاندان کے لوگ پوجا کرتے تھے ۔

رواج

ستی کے معنیٰ صادقہ کے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ کلمہ ایسی عورت کو کہا جانے لگا جو شوہر کی وفادار ہو اور اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ستی ہوجائے ۔ ستی ہونا عورت کی پاکیزگی کا اعلیٰ معیار ہندووَں میں بن گیا تھا ۔ اس کے قصے اور مثالیں عام تھیں اور سیتا اور ساوتری کہانیاں مشہور تھین ۔ پرانوں کے قصوں میں دانستہ عورت کو ستی کرنے کی مثالیں ہیں ۔ مگر پھر بھی اس رسم کا رواج معما ہے اور اس نے ہندوستان کی تاریخ کو دھندلا دیا ہے ۔ ستی کا رواج ابتدا میں راجپوتوں کے علاوہ کسی اور قوم میں نہیں تھا ۔ جو ان میں باہمی جنگ و جدل یا مسلمانوں کے حملے کی وجہ سے ہوا ہو ۔ مگر انیسویں صدی کی ابتدا میں بعض ستی کی ایسی وارداتیں ان قوموں میں بھی ہوئیں جو کے کھتری یا راجپوت نہیں تھے اور جلد ہی یہ رواج ہندوستان کے شمالی صوبوں جن میں بنگال بھی شامل تھا عام ہو گیا ۔ مگر ستی ہونے والی عورت کا ستی ہونے کا سبب صرف جوش یا وفاداری نہیں بلکہ اس میں اجتماعی اور جبر بھی کیا جاتا تھا ۔ مادی ہوس اور مذہبی جنون دونوں مل کر ان بے بس عورتوں اپنا شکار بناتے اور انہیں بے رحمی سے جلا دیتے تھے ۔ یہ رواج انسانیت کے برخلاف وحشیانہ انسانی قربانی کا ایک نفرت انگیز پہلو تھا ۔

کسی عورت کو ستی ہوتے ہوئے دیکھنا طبعیت پر سخت گراں گزرتا ہے اور دیکھنے والوں کے دل پر گہرا صدمہ کے ساتھ ستی ہونے والی عورت کی عظمت ، استقلال اور تحمل پر حیرت ہوتی تھی ۔ ستی سے پہلے عورت اپنی ذاتی اشیاء اپنے عزیزوں تقسیم کرنے اور لوگوں سے الوداعی سلام و دعا اور اس کی تعظم و احترام کرنے کا منظر ۔ ستی ہونے والی عورت کا طرار پن دیکھ کر دیکھنے والوں کی عجیب حالت ہوجاتی تھی کہ ایک نرم مزاج عورت ایک فرسودہ رسم کی بدولت اپنی جان جس طرح دیتی تھی اس سے بڑے بڑے حب الوطن لڑائیوں میں مرنے والے بھی اس کے آگے ہیچ ہیں ۔

انگریزوں کا کہنا ہے کہ شوہر کی موت کے بعد بیوہ کو جو ذلت آمیز زندگی گزانی پڑتی تھی اسی لیے بھی عورتیں ستی ہونا پسند کرتی تھیں ۔ عورتوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھائی جاتی تھی کہ ان کے ستی ہونے سے شوہر کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ سرگ میں شوہر کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزارے گی ۔ وہ اسی امید پر کہ اسے اور اس کے شوہر کو سرگ کی لذتین عیش و آرام نصیب ہوں گے خوشی خوشی جل جاتی تھی ۔ بنگال میں ایک ستی کے موقع پر ایک عورت ڈر کر بھاگی تو لوگ پکڑ کر چتا میں ڈالنے لگے تو ایک انگریز نے اس عورت کو دوبارہ چتا میں نہیں ڈالنے دیا اور اس کی جان بچ گئی ۔ لیکن دوسرے دن اس عورت نے آکر اس انگریز سخت برا بھلا کہا کہ تم نے مجھے ذلیل کر دیا ۔ اگر جل جانے دیا ہوتا تو آج بیکٹھ (جنت) میں شوہر کے ساتھ عیش کر رہی ہوتی ۔ اب میرے لواحقین مجھے برا بھلا اور بدعائیں دیتے ہیں ۔ مشہور یہ بھی تھا کہ مرنے والے کے رشتہ دار اس کی بیوی کو ستی ہونے کے لیے اس لیے بھی مجبور کرتے تھے کہ مرنے والے کی مال اور دولت ان کے ہاتھ لگ جائے ۔ مگر ہندو مذہب میں عورت کو اس طرح کا استقاق نہیں ہے کہ وہ مال و دولت اپنے پاس رکھے یا آزادانہ زندگی بسر کرے ۔ منو کے قانون کے مطابق عورت شادی سے پہلے باپ و بھائیوں اور شادی کے بعد شوہر اور بیٹوں کی محتاج ہوتی ہے ۔ اگرچہ بہت سی عورتیں شوہر سے محبت کے اظہار میں جوش و جذبات میں ستی ہوتی تھیں ۔

اگر متوفی کی کئی بیویاں ہوں تو عمر جو بڑی ہو اسے ستی ہونے کا پہلا حق ہوتا تھا ۔ اس طرح حاملہ عورت بچے کی پیدائش کے ہونے کے بعد بھی ستی کرلیتی تھی ۔ بہت سی عورتیں ستی کے راضی نہیں بھی ہوتی ہیں اور انہیں زبردستی ستی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بیٹے کھرک سنگھ کی موت کے بعد اس کی بیوہ ایسر کور نے ستی ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔ مگر راجا دہیان سنگھ سے اسے زبردستی کھرک سنگھ کی چتا کے ساتھ جلا دیا ۔

طریقے

ستی ہونے کے ہر علاقہ میں مختلف طریقے راءج تھے ۔ مثلاً بنگال میں بیوہ کو مردے کے ساتھ چتا میں رسیوں اور بانسوں سے باندھ دیا جاتا تھا کہ عورت اٹھ کر بھاگ نہ سکے اور پھر چتا کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ اوڑیسہ میں ایک گڈھا کھود کر اس میں مردے کو آگ دیکھاتے تھے اور جب شعلے بلند ہوتے تو اس کی بیوہ اس میں کود پڑتی تھی یا دھکا دے دیا جاتا تھا ۔ دکن میں ستی کا دستور اس طرح تھا کہ چتا میں عورت مردہ شوہر کا سر زانو پر لے بیٹھ جاتی تھی اور چتا کے چاروں طرف لکڑیاں لگا اوپر چھت بناکر اندر مردے اور عورت کے پاس لکڑیاں چن دی جاتی تھیں اور چتا کی چھت کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ عورت یا تو دھویں سے دم گھٹنے سے مرجاتی تھی یا چتا کی چھت اس پر گر جاتی تھی ۔

ستی ہونے والی عورتیں عموماً ستی کے لیے مختلف رسومات برد باری اور صبر و استقلال سے ادا کرتی تھیں کہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ موت کو گلے لگا رہی ہیں ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ستی ہونے والی عورت شعلوں کے درمیان سر کو جھکا کر دونوں ہاتھ جوڑ کر دعائیں مانگتی مانگی جل گئی ۔ یہ بھی ہوتا تھا کہ چتا کو آگ دکھائی تو عورت ڈر کر بھاگی اور لوگوں نے اسے پکڑ کر دوبارہ چتا میں ڈلا اور اس کے اوپر لکڑی کے بھاری تنے دال دیے کہ وہ دوبارہ نکل نہیں سے ۔ بعض اوقات یا بعض مقامات پر ستی ہونے والی عورتوں کو نشہ آور دے دی جاتی تھی کہ وہ کہ انہیں ہوش نہ رہے ۔ مثلاً گجرات میں ستی ہونے والی عورتیں کو عموماً افین کھلادی جاتی تھی جس سے وہ مدہوش ہوجاتی تھیں ۔

برنیر عہد اورنگ زیب میں لکھتا ہے کہ میں نے چند ایسی بدنصیف بیواؤں کو دیکھا تھا جو چتا کی شکل دیکھتے کر بھاگتی تھیں ۔ ان کو دیکھ کر مجھے یقین تھا کہ اگر یہ ظالم اور بے درد برہمن انہیں ستی سے منع کریں تو یہ خوشی خوشی رک جائیں گیں ۔ مگر یہ ان خوف زدہ اور اجل گرفتہ عورتوں کو ستی کی ترغیبیں اور بڑھاوے دیتے رہے اور جب انہوں نے مزاحمت کی تو زبردستی انہیں آگ میں ڈال دیا کرتے تھے ۔ میرے سامنے ایک غریب جوان عورت اس طرح زبردستی آگ میں ڈال دی گئی تھی ۔ اس طرح میں نے ایک اور بدنصیب عورت کو دیکھا کہ اس کے اردگرد جب آگ بھرکنے لگی تو اس نے بھاگنا چاہا مگر ان جلاد صفتوں انہیں لمبے لمبے بانسوں سے دبا دیا کہ وہ نکل نہیں نہ سکیں ۔

لیڈی اہمرسٹ نے اکتوبر 1825ء میں ایک دلخراش واقعہ کو اپنے روزنامچہ میں درج کیا ہے کہ ایک نوجوان ہیضے سے مر گیا اور اس کی بیوہ نے اس کے ساتھ چٹا پر جلنے کا ارادہ کر لیا ۔ ضروری تیاریاں ہوگئیں اور مجسٹریٹ سے اجازت نامہ حاصل کر لیا گیا ۔ چتا کو متوفی کے رشتہ داروں نے آگ لگادی ۔ آگ کے شعلے جب بیوہ تک پہنچے تو اس کا حوصلہ جواب دے گیا اور وہ دھویں کے بادلوں ، ہجوم کی چیخ پکار اور ڈھول نقاروں کی سمع خراش شور و غوغا کے درمیان کسی نہ کسی طرح لوگوں کی نظر بچا کر جنگل میں جاپہنچی اور کسی کی نظر پر نہ پڑی ۔ پہلے تو کسی نے توجہ نہ دی لیکن دھواں کم ہوا تو چتا میں عورت نظر نہیں آئی ۔ اس پر لوگ غصہ میں آگئے اور بدنصیب لڑکی جنگل ملی اور اس بدنصیب لڑکی کو ایک ڈنگی میں بیٹھا کر دریا میں لے گئے اور بیچ منجھدار لڑکی کو دریا میں پھینک دیا اور جب وہ لڑکی اوپر آئی تو چپو سے اسے سر پر وار کیے جس سے وہ دریا میں ڈوپ گئی ۔

"ہندو ستی کرتے ہوئے"۔ ایک خیالی تصویر
ایک بیوہ ستی ہو رہی ہے۔


مزید دیکھیے

حوالہ جات