"ملا عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:افغان سنی مسلم
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 39: سطر 39:


== سوچ میں تبدیلی ==
== سوچ میں تبدیلی ==
شاید ان کی عمر درس وتدریس اور ترغیب و تبلیغ میں گزر جاتی۔ اور تاریخ میں انکا نام کبھی ثبت نہ ہو پاتا مگر 1994ء کے موسمِ خزان میں ایک لرزہ خیز واقعے نے ان کی زندگی اور افغانستان ک تاریخ کا دھارہ بدل دیا۔ انہیں اطلاع ملی کہ ایک ظالم کمانڈر نے دو نو عمر لڑکیوں کو اغواہ کر لیا ہے، ان کے سر مونڈ دۓ ہیں اور انہیں مردانہ لباس پہنا کر اپنے فوجی کیمپ لے گیا ہے جہاں کٸی بار ان کی عصمت دری کی گٸی ہیں۔ یہ درد ناک واقعہ سن کر ملا محمد عمر سے برداشت نہ ہو سکا۔ انہوں نے اپنے مدرسے کے طلبہ کو جمع کیا جو تیس کے لگ بھگ تھے۔ ان میں سے صرف 16 کے پاس راٸفلیں تھیں۔ ملا عمر ان طلبہ کو لے کر اس ظالم کمانڈر کی چوکی پر ٹوٹ پڑے۔ لڑکیوں کو چھڑوا لیا گیا۔ کمانڈر کو توپ کے دہانے سے لٹکا کر پھانسی دی گٸی اور چوکی پر قبضہ کر لیا۔ طلبہ کی یہ چھوٹی سی جماعت بعد میں ”طالبان“ کہلاٸی۔
یہاں پر یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ [[1989ء]] میں روسی افواج کی واپسی سے [[1994ء]] تک ملا محمد عمر کی زندگی اپنے گا ؤں تک محدود رہتی ہے- لیکن 1994 میں ہونے والا ایک واقعہ محمد عمر کو افغانستان کی سیاست میں جھونک دیتا ہے۔ ان کو یہ خبر ملتی ہے کہ کچھ شر پسند عناصر نے گاؤں کی لڑکیوں کو اغوا کر لیا ہے- ان کی اجتماعی عصمت دری کی خبر سن کر ملا محمد عمر اپنے چند طالب علموں کو جمع کرتے ہوئے ان لڑکیوں کی جان بچاتے ہیں- ان کے یہی ساتھی بعد میں چل کر طالبان کہلاتے ہیں۔

دوسرا واقعہ جس نے شاید ملا محمد عمر کو طالبان کی سربراہی کے لیے مجبور کر دیا وہ یہ ہے کہ دو سابق جنگجوؤں نے قندھار کے مرکز میں ایک خوبصورت لڑکے کے لیے ٹینکوں سے جنگ لڑی- لاقانونیت کے اس ماحول کی وجہ سے ملا محمد عمر نے طالبان کو منظم کرنا شروع کیا- رفتہ رفتہ ان کی اہمیت بھی بڑھتی گئی- اور پہلی دفعہ ان کی ضرورت پاکستان کو اس وقت پڑی جب پاکستانی ٹرکوں کے ایک قافلے کو مقامی جنگجوؤں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ ٹرکوں کا یہ قافلہ افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا کے لیے ایک تجارتی راہ کی تلاش میں تھا- بعد میں ملا محمد عمر کی حمایت سے ان ٹرکوں کو چھڑایا گیا-


== کابل پر قبضہ ==
== کابل پر قبضہ ==

نسخہ بمطابق 05:13، 8 نومبر 2019ء

ملا عمر
(پشتو میں: محمد عمر ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تفصیل=
تفصیل=

امیرالمؤمنین
مدت منصب
27 ستمبر 1996ء – 13 نومبر 2001ء
وزیر اعظم محمد ربانی
عبدالکبیر (قائم مقام)
برہان الدین ربانی (صدر)
برہان الدین ربانی (صدر)
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1960ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاکریز  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 23 اپریل 2013ء (52–53 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زابل پراونس  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سل  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن زابل پراونس[1]  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت افغانستان
جمہوریہ افغانستان
جمہوری جمہوریہ افغانستان
دولت اسلامی افغانستان
افغانستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب سنی
اولاد محمد یعقوب  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم حقانیہ
جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ قاضی حمید اللہ خان  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پشتو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ امیرالمومنین  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں جنگ افغانستان
افغانستان میں سوویت جنگ
جنگ افغانستان
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ملا محمد عمر افغانستان کی طالبان تحریک کے رہنماء تھے۔ وہ 1996ء سے 2001ء تک افغانستان کے حکمران رہے۔ پھر امریکی و نیٹو افواج نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ 2015ء میں ان کے مرنے کی تصدیق ہوئی۔

ابتدائی زندگی

ملا محمد عمر 1960ء میں  افغانستان کے جنوبی شہر قندھار کے ایک نواحی گاؤں ”نودیہہ“ میں پیدا ہوئے تهے۔ ان کے والد مولوی غلام نبی اس گاؤں کی مسجد کے امام تھے۔ ان کا نسبی تعلق پختونوں کے قبیلے ”غلزئی“ کی شاخ ”ہوتک“ سے تھا۔ آپ نے دینی مدرسوں سے تعلیم پائی۔ آپ دیوبند مکتب فکر سے تعلق رکھتے تهے۔ آپ ایک اسلام پسند پشتون تهے۔ پہلے آپ روسی فوجوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہتے تهے۔ ایک معرکے میں آپ زخمی ہوئے تهے اور ان کی ایک آنکھ ختم ہو گئی تهی۔ ملا عمر ابھی تین سال کے تھے کہ ان ان کے والد مولوی غلام نبی چل بسے ان کے بڑے چچا مولوی محمد انور نے انہیں اپنی کفالت میں لے لیا اور اپنے پچوں کی طرح ان کی پرورش کی۔ انہوں نے مرحوم بھاٸی کی بیوہ سے نکاح کر لیا۔ اس طرح وہ عمر کے سوتیلے باپ بھی بن گٸے۔

ذاتی زندگی

بحیثیت حکمران انھوں نے افغانستان میں امن ‍ قائم کیا۔ اور منشیات کا خاتمہ کیا۔ یہ وہ کام ہیں جو ان کے علاوہ اور کوئی نہ کر سکا۔ یاد رہے کہ طالبان کابل پر قبضے کے ایک سال بعد بامیان پر قبضہ کر پائے تھے۔

ملا عمر نے بہت کم انٹرویو دیے۔ اور ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتہ ہے۔

ملا محمد عمر کی زندگی اور افغانستان کی سیاست میں 1979ء کا سن کافی اہمیت رکھتا ہے- اسی برس ایک طرف تو افغانستان کے پڑوسی ملک ایران میں خمینی انقلاب آتا ہے اور مغربی ذرائغ ابلاغ میں لفظ فنڈامینٹلزم یعنی قدامت پرستی پہلی دفعہ سنائی دیتا ہے- دوسری طرف روسی افواج افغانستان میں داخل ہوتی ہیں- یہ سرد جنگ کا دور تھا- مغربی ممالک بالخصوص امریکا پاکستان کے سہارے کمیونسٹ افواج کے خلاف افغانستان میں جنگجوؤں کی امداد کرتے ہیں- یہ جنگجوؤں کو اس وقت مجاہدین کہا جانے لگا تھا- انہیں میں بیس برس کا ایک نوجوان شامل تھا جس کا نام محمد عمر تھا-

روس کی واپسی

1989ء میں روسی افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد ملامحمد عمر اپنے گا ؤں واپس چلے جاتے ہیں- جہاں وہ مدرسے میں تعلیم و تربیت میں مصروف ہو جاتے ہیں اور مقامی مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں- بظاہر وہ سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ روسی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں لاقانونیت کا دور شروع ہوجاتاہے- کل کے مجاہدین اب شرپسندی پر اتر آتے ہیں- جن کے ہاتھ میں طاقت ہے ان کی من مانی ہے- کہیں عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے تو کہیں مسافروں کو لوٹ لیا جاتا ہے- افغانستان کی سڑکوں پر ظلم و ستم کرنیوالوں نے چیک پوسٹیں بنا رکھی ہیں۔

سوچ میں تبدیلی

شاید ان کی عمر درس وتدریس اور ترغیب و تبلیغ میں گزر جاتی۔ اور تاریخ میں انکا نام کبھی ثبت نہ ہو پاتا مگر 1994ء کے موسمِ خزان میں ایک لرزہ خیز واقعے نے ان کی زندگی اور افغانستان ک تاریخ کا دھارہ بدل دیا۔ انہیں اطلاع ملی کہ ایک ظالم کمانڈر نے دو نو عمر لڑکیوں کو اغواہ کر لیا ہے، ان کے سر مونڈ دۓ ہیں اور انہیں مردانہ لباس پہنا کر اپنے فوجی کیمپ لے گیا ہے جہاں کٸی بار ان کی عصمت دری کی گٸی ہیں۔ یہ درد ناک واقعہ سن کر ملا محمد عمر سے برداشت نہ ہو سکا۔ انہوں نے اپنے مدرسے کے طلبہ کو جمع کیا جو تیس کے لگ بھگ تھے۔ ان میں سے صرف 16 کے پاس راٸفلیں تھیں۔ ملا عمر ان طلبہ کو لے کر اس ظالم کمانڈر کی چوکی پر ٹوٹ پڑے۔ لڑکیوں کو چھڑوا لیا گیا۔ کمانڈر کو توپ کے دہانے سے لٹکا کر پھانسی دی گٸی اور چوکی پر قبضہ کر لیا۔ طلبہ کی یہ چھوٹی سی جماعت بعد میں ”طالبان“ کہلاٸی۔

کابل پر قبضہ

ملا محمد عمر کی قیادت میں پاکستان اور عربوں کی مدد سے طالبان نے 1996ء میں کابل پر قبضہ کر لیا۔ اور افغانستان کو اسلامی امارات قرار دیکر ملا محمد عمر کو امیرالمومنین کے خطاب سے نوازا گیا- جلد ہی طالبان نے افغانستان کے نوے فیصدی حصے پر قبضہ کر لیا- افغانستان پر گزشتہ بائیس برسوں میں سے پانچ برس طالبان کا قبضہ رہا۔ تقریبًا سات برس لاقانونیت کی نظر تھے اور دس برس روسی افواج قابض تھیں۔

حلیہ اور شخصیت

ملا محمد عمر مقامی کسانوں کی بولی بولتے تهے- وہ پانچ فٹ گیارہ انچ لمبے تهے- کبھی کبھی چشمہ لگاتے تھے- اور تفریح کے لیے اپنے دوست اسامہ بن لادن کے ساتھ مچھلی پکڑنے جاتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق ان کی دو بیویاں اور آٹھ یا نو بچے ہیں- ان کے گھر پر 1999ء میں بم سے ایک حملہ کیا گیا جس میں ان کا گھر تباہ ہو گیا اور ان کے دو بھائی اور ان کی پہلی بیوی سے تین بچے ہلاک ہو گئے۔ افغانستان میں سوویت جنگ کے دوران روسیوں کے خلاف لڑتے ہوئے کہیں بار ملا عمر زخمی بھی ہوئے تھے جس میں انہوں نے اپنی دائیں آنکھ بھی کھودی تھی۔ معروف پاکستانی صحافی اوریا مقبول جان کا ملا عمر کی شخصیت کے متعلق کہنا ہے کہ میں 1988ء میں چمن میں ہوتا تھا وہاں اکثر قبائلی لڑائیاں ہوا کرتی تھی، ایک مرتبہ جب نورزئی اور اچکزئی قبیلے کے درمیان لڑائی ہو رہی تھی تو میں نے ملا عمر کو دیکھا کہ بہت پریشان تھے، وہ ہمیشہ اس بات سے دکھی ہوتے تھے کہ میری قوم آپس میں کیوں ایک دوسرے سے لڑ رہی ہے۔ ملا عمر نے جب ابتدا میں افغانستان پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے صوبہ کندہار سے شروع کیا۔

اسامہ اور عمر

اگرچہ مغربی میڈیا اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر کی سیاست میں زیادہ تفریق نہیں کرتے تھے لیکن یہ بات اہم ہے کہ اسامہ بن لادن ذاتی طور پر مغربی ممالک کے خلاف لڑ رہے چاہتے تھے جبکہ ملا محمد عمر نے عالمی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی- انہوں نے اپنا پہلا غیر ملکی ریڈیو انٹرویو بی بی سی کی پشتو سروس کو 25 فروری 1998 کو دیا۔ ملا محمد عمر صرف ایک دفعہ افغانستان سے باہر گئے تھے- اور یہ واقعہ تب پیش آیا جب روسی افواج کے خلاف لڑتے وقت ان کی ایک آنکھ میں چوٹ لگی تھی- اور انہیں پاکستان آنا پڑا جہاں عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس کے ڈاکٹروں نے ان کی آنکھ کا آپریشن کیا- وہ آخر تک صرف ایک آنکھ سے ہی دیکھ سکتے تھے۔

افغانستان پر امریکا قبضے اور طالبان کے خاتمے کے بعد ملا عمر آخر تک روپوش رہے ان کے آڈیو بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کے متعلق آخر تک کوئی نہیں جان سکا کہ وہ کہاں رہتے تھے۔

امریکا کا مطالبہ اور افغانستان پر جنگ

1979ء جب سوویت اتحاد یا عام طور پر جسے روس کہا جاتا تھا، روس نے افغانستان پر اپنا قبضہ چاہا جس کے لیے روس ایک خود مختار ملک افغانستان میں کود پڑا، اسی بات نے پوری اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسی کے نتیجے میں روسیوں سے نمٹنے کے لیے مجاہدین کی تنظیم وجود میں آئی جس کو پاکستان، سعودی عرب، امریکا سمیت بیشتر اسلامی ممالک نے امداد فراہم کی۔ ایک طویل عرصے کے بعد مجاہدین کامیاب ہو گئے اور سوویت اتحاد کو ایک زبردست شکست دی جس کی نتیجے میں نہ صرف سوویت اتحاد کو افغانستان سے بھاگنا پڑا بلکہ سویت اتحاد جو ایک عظیم ملک تھا اور جو ایشیا اور یورپ کے ایک بڑے حصے پر پھیلا ہوا تھا، شکست کے بعد سوویت اتحاد بھی نہ بچ سکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جس سے نئے ممالک وجود میں آئے جن میں روس، ازبکستان، ترکمنستان، تاجکستان، آرمینیا، یوکرین اور جارجیا وغیرہ شامل ہیں۔ ایک طویل لڑائی اور خون ریزی کے بعد افغان مجاہدین جب فتح یاب ہوئے تو افغانستان میں اسلامی امارت افغانستان قائم ہوا جس کو پاکستان اور سعودی عرب نے کھل کر تسلیم کیا۔

اس کے بعد سانحہ گیارہ ستمبر (نائن الیون) پیش آیا جس کا الزام امریکا نے اسامہ بن لادن پر لگایا۔ اسامہ نے جا کر افغانستان میں پناہ لی، یاد رہے کہ اس وقت اسلامی امارت افغانستان کی حکومت مجاہدین یا افغان طالبان کے ہاتھوں میں تھی جس کی قیادت ملا محمد عمر کر رہے تھے۔ امریکا نے ملا محمد عمر سے مطالبہ کیا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرے ورنہ انجام برا ہوگا۔ اس کے جواب میں ملا عمر نے کہا کہ اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اگر تمہارے گھر میں کوئی پناہ لے تو اس کی حفاظت کرو۔ ملا عمر نے اسلامی اور پشتون روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو حوالہ کرنے سے واضح طور پر انکار کر دیا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملا عمر نے ہزاروں علما کو دعوت پر بلایا کہ کیا اسلام ہمیں اس بات کا اجازت دیتا ہے کہ ہم اسامہ جیسے افراد کو کسی اور کے حوالے کرے تو علما نے ان کو کہا کہ اسلام کے مطابق اگر کوئی آپ کے گھر پناہ لے تو ہرگز اس کو دشمن کے حوالے مت کرنا۔

اس کے بعد جب ملا عمر نے پھر واضح طور پر اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو امریکا نے افغانستان میں افواج اتارے اور ایک اور جنگ شروع ہو گئی۔ امریکا کے پاس وسائل تھے جبکہ دوسری طرف اسلامی امارت افغانستان کے پاس اتنے وسائل اس لیے نہیں تھے کیونکہ امریکا کے بہ نسبت افغانستان ایک چھوٹا اور کمزور ملک تھا اور اس سے پہلے وہ سوویت اتحاد سے ایک عظیم جنگ کرچکا تھا جس سے افغانستان کمزور ہوا تھا۔ پاکستان بھی امریکا کے خلاف اسلامی امارت افغانستان کی مدد کرتا رہا لیکن آخر کار اسلامی امارت ختم ہو گئی اور ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھ سے افغانستان کی حکومت چلی گئی۔ امریکہ اور طالبان کے مابین جنگ 2001ء میں شروع ہوئی تھی اور تا حال جاری ہے۔

جنگ سے قبل خطاب

عجیب بات ہے کہ میں نہ حواس باختہ ہوتا ہوں اور نہ ہی بے دینوں کے ساتھ اسلام کے خلاف راستہ اختیار کرتا ہوں، باوجود یہ کہ میرا اقتدار بھی خطرے میں ہے، میری سربراہی اور کرسی بھی خطرے میں ہے۔ میری زندگی بھی خطرے میں ہے، پھر بھی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، اگر میں کافروں کے مطالبے پر ایسی راہ اختیار کرلوں جو اسلام کے خلاف ہو ان کے ساتھ موافقت کروں اور ان کے ساتھ معاملات ٹھیک رکھوں تو میری ہر چیز مستحکم ہوگی، میری بادشاہی اور سلطنت بھی برقرار رہے گی اور اسی طرح طاقت، پیسہ اور جاہ و جلال بھی خوب ہوگا، جس طرح دیگر ممالک کے سربراہوں کا ہے، لیکن اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لیے حاضر ہوں، سب کچھ کرنے کے لیے حاضر ہوں، جان قربان کرتا ہوں، سب کچھ سے بے پرواہ ہو چکا ہوں، سلطنت، اقتدار، طاقت اور ہر چیز کی قربانی کا عزم کر چکا ہوں ، اسلامی غیرت کرتا ہوں، اسلام پر فخر کرتا ہوں، اس پاک وطن پر غیرت کرتا ہوں۔

[6]

وفات

29 جولائی 2015 کو افغان مخابرات نے یہ خبر دی تھی کہ ملا محمد عمر کا کراچی میں انتقال ہو گیا ہے، کچھ طالبان نے اس بات کی تردید کردی تھی کیونکہ مری میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے، لیکن جب اس خبر نے زور پکڑ لیا تو افغان طالبان نے 30 جولائی 2015 کو اس بات کی تائید کردی کہ ملا عمر کا صوبہ ہلمند میں انتقال ہوا تھا طالبان کے مطابق اُن کی وفات دل کے دورے کے باعث ہوئی۔ وفات کے وقت اُن کے ساتھ ان کے اہم کمانڈر عبد الجبار تھے۔ کمانڈر عبد الجبار نے ہی طالبان کے پانچ اہم کمانڈروں کو ملا عمر کی موت کی اطلاع دی۔ طالبان نے یہ بھی بتایا کہ نائب امیر ملا اختر منصور افغان طالبان کے نئے امیر ہوں گے۔[7]

حوالہ جات

  1. https://www.france24.com/en/live-news/20221106-taliban-reveal-burial-place-of-founder-mullah-omar-nine-years-after-death
  2. ^ ا ب Nikhil Kumar (29 July 2015)۔ "Mullah Omar Taliban Death"۔ Time۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولا‎ئی 2015 
  3. "#Taizeni"۔ Twitter۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ  سانچہ:RS
  4. افغانستان پر امریکی حملوں سے قبل ملا عمر کا اپنی قوم سے خطاب
  5. افضان طالبان کی ملا عمر کی وفات کی تصدیق

سانچہ:افغانستان صدر