"سید علی ترمذی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م مکمل معلومات فراہم کر نا
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 50: سطر 50:


== اولاد و خلفاء ==
== اولاد و خلفاء ==
آپ کے دو بیٹے سید حبیب اور سید مصطفی تھے۔ اول الذکر جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ موخرالذکر سے آپ کا سلسلہ نسب چلا۔ ان کے ہاں فرزند سید حسن، سید قاسم اور سید عبد اللہ پیدا ہوئے۔ سید حسن وادی سوات میں مرغزار کے مقام پر ابدی نیند سو رہے ہیں اور سید عبد اللہ کا مزار ضلع بونیر کے گاؤں شل بانڈی کے مقام پر ہے۔ آپ کی اولاد کا سلسلہ صوبہ سرحد سے افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔
آپ کے دو بیٹے سید حبیب اور سید مصطفی تھے۔ اول الذکر جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ موخرالذکر سے آپ کا سلسلہ نسب چلا۔ ان کے ہاں فرزند سید حسن، سید قاسم اور سید عبد اللہ پیدا ہوئے۔ سید حسن وادی سوات میں مرغزار کے مقام پر ابدی نیند سو رہے ہیں اور سید قاسم کی اولاد کا سلسلہ سوات میں پھیلا ہوا ہے کچھ ان میں سے سید بہرام شاہ المعروف ( مٹئ بابا) کی أولاد ہے اب وہ شنکڈ،سورڈھيرے، شلتالو،ملم اور سر سرداری میں رہتے ھیں- اور سید عبداللہ کا مزار ضلع بونیر کے گاؤں شل بانڈی کے مقام پر ہے۔ آپ کی اولاد کا سلسلہ صوبہ سرحد سے افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔
پیر بابا کے بے شمار مریدین تھے۔ خلفاءمیں سے [[آخوند درویزہ]] کو جو فضیلت وعظمت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی تھی۔ ان کا اصلی نام عبد الرشید تھا اور ننگر ہار افغانستان کے رہنے والے تھے۔ لیکن عمر کا زیادہ حصہ پشاور، اطراف پشاور اور سوات وبندیل میں بسر کیا تھا۔ بچپن سے ہی ان پر خوف الہٰی طاری رہتا تھا۔ حصول علم کے بعد ہی پیر بابا سے وابستہ ہو گئے تھے۔
پیر بابا کے بے شمار مریدین تھے۔ خلفاءمیں سے [[آخوند درویزہ]] کو جو فضیلت وعظمت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی تھی۔ ان کا اصلی نام عبد الرشید تھا اور ننگر ہار افغانستان کے رہنے والے تھے۔ لیکن عمر کا زیادہ حصہ پشاور، اطراف پشاور اور سوات وبندیل میں بسر کیا تھا۔ بچپن سے ہی ان پر خوف الہٰی طاری رہتا تھا۔ حصول علم کے بعد ہی پیر بابا سے وابستہ ہو گئے تھے۔


سطر 59: سطر 59:


* ”اپنے ایمان اور بہت سے لوگوں کے ایمان کو زوال سے بچاؤ“۔
* ”اپنے ایمان اور بہت سے لوگوں کے ایمان کو زوال سے بچاؤ“۔
* ”عام مسلمانوں کو سیدھا سادا دین بتاؤ کیونکہ آج کل لوگ علم پر گھمنڈ کرتے ہوئے گمراہ ہو رہے ہیں۔ طریقت کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ اس لیے مختلف نظریات کے شکار ہوجاتے ہیں“۔
* ”عام مسلمانوں کو سیدھا سادا دین بتاؤ کیونکہ آج کل لوگ علم پر گھمنڈ کرتے ہوئے گمراہ ہو رہے ہیں۔ طریقت کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ اس لیے مختلف نظریات کے شکار ہوجاتے ہیں “۔
* ”میرے دوست اور مرید وہ ہیں جو مجھ سے روحانی فائدہ حاصل کرتے اور میرے احوال پر نظر رکھتے ہیں“۔
* ”میرے دوست اور مرید وہ ہیں جو مجھ سے روحانی فائدہ حاصل کرتے اور میرے احوال پر نظر رکھتے ہیں“۔



نسخہ بمطابق 15:46، 29 نومبر 2019ء

پیر بابا
علی الترمزی
لقبپیر بابا
دیگر نامپیربابا
ذاتی
پیدائش
سیدعلی شاہ

908ھ
وفات991ھ
مدفنپاچہ کلےِ ضلع بونیر
مذہباسلام
نسلیتترمزی
قابل ذکر کاماسلام کی تبلیغ
دیگر نامپیربابا
سلسلہکبرویہ سلسلہ
مرتبہ
استاذسیداحمدنورؒ(دادا)، شیخ سالار رومیؒ
دور900–1000 ھ، مغلیہ سلطنت بابر اور ہمایوں کا دور
جانشیناکھوندبابا
شاگرد
  • اکھوندبابا؛ ان کےبیٹے سیدمصطفٰی شاہ ؛ اکھون بابا ؛ دیوانہ بابا
ویب سائٹhttp://www.pirbaba.org/
پیر بابا مزار

آپ کا اصل نام"سید علی ترمذی" تھا۔ معروف نام پیر بابا ہے۔ آپ سادات ترمذ میں سے تھے۔ آپ کی پیدائش 908ھ میں بمقام قندس ہوئی۔ آپ کا نسبی تعلق اکتیسویں واسطوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد بزرگوار سید قنبر علی باوجود اس کے کہ ہمایوں بادشاہ کی فوج میں کمانڈر تھے۔ پیربابا کی ابتدائی تربیت آپ کے دادا جناب سیداحمد نور یوسف نے فرمائی ۔ آپ ایک صوفی باصفا اور ولی الله تھے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے متوسلین کو شریعت مطہره کی پابندی کا درس دیا۔[1]

القابات

غواص بحر حقیقت، غوث خراساں پیربابا

سلسلہ تصوف

آپ نے شیخ سالار رومی سے بیعت فرمائی تھی۔ انھوں نے مجاہده کے بعد آپ کو سلسلہ چشتیہ، سہروردیہ، شطاریہ اور جلاجیہ میں اجازت عطا فرمائی۔ سلسلہ کبرویہ میں آپ کو اپنے دادا جان سے اجازت حاصل تھی۔ آپ خود فرماتے ہیں: اذن سلسلہ کبرویہ فقیر از نجاست یہ سلسلہ کبرویہ نسل در نسل جنا ب شیخ جمال الدین کبریٰ سے چلا آ رہا ہے۔ تکمیل علوم کے بعد روحانی فیوض و برکات کے حصول کے لیے آپ پانی پت میں شاہ شرف الدین قلند ر کے مزار پر حاضرہوئے ،اور فیض باطنی سے شرف الدین قلندرنے آپ کو نواز ا ۔

سخاوت

آپ کی طبیعت مبارکہ میں اتنی سخاوت تھی کہ کوئی سائل بھی آپ کے دروازہ سے خالی نہیں لوٹا ، مسافروں کو زاد راہ مہیا کرتے۔ بیماروں کی عیادت کے ساتھ مالی امداد بھی کرتے۔ آپ کا لنگر ہر وقت جاری رہتا اور ان گنت لوگ آکر روٹی اور کپڑا حاصل کرتے. حضرت اخوند درویزہ فرماتے ہیں کہ کسی وجہ سے کچھ عرصہ میں آپ سے ملاقات نہ کرسکا ۔ آپ نے سبب پوچھا میں نے عرض کیا کہ حضورخالی ہاتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہونا مناسب نہیں سمجھتا، آپ نے اعراض کرتے ہوئے فرمایا ۔ وہ لوگ جو اونٹ ،گائے اور گھوڑے لنگر میں پیش کرتے ہیں ان کو میں دوست یا مرید نہیں خیال کرتا ۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانتا ہوں۔ مگر ہاں میرے دوست اور مرید وہ ہیں جو مجھ سے روحانی فائدہ حاصل کرتے ہیں اور میرے احوال پر نظر رکھتے ہیں۔[2]

شادی

علاقه یوسف زئ کے ایک بڑے خان نے جس کا نام ملک دولت ملی زئ تھا اور قبیله بارکشازئ سے تعلق رکھتاتھا, آپ کو اپنی همشیره بی بی مریم حباله عقد میں دے دی, اور آپ اس علاقه میں مستقل سکونت پزیر هوئے اور الله تعالی نے آپ کو اولاد دی. [3]

بونیر میں قیام

آپ مقام بونیر میں مستقل قیام پزیر ہو گئے۔ اپنے شیخ کے حکم کے مطابق کو ہستانی علاقہ میں خانقاہ قائم کر کے سلسلہ کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ لنگر جاری کر دیا۔ درس تدریس کا انتظام کیا۔ بڑے بڑے علما اور صلحاء آپ کے دست حق پرست پر بیعت کر کے سلسلہ چشتیہ میں داخل ہوئے ۔[4]

اولاد و خلفاء

آپ کے دو بیٹے سید حبیب اور سید مصطفی تھے۔ اول الذکر جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ موخرالذکر سے آپ کا سلسلہ نسب چلا۔ ان کے ہاں فرزند سید حسن، سید قاسم اور سید عبد اللہ پیدا ہوئے۔ سید حسن وادی سوات میں مرغزار کے مقام پر ابدی نیند سو رہے ہیں اور سید قاسم کی اولاد کا سلسلہ سوات میں پھیلا ہوا ہے کچھ ان میں سے سید بہرام شاہ المعروف ( مٹئ بابا) کی أولاد ہے اب وہ شنکڈ،سورڈھيرے، شلتالو،ملم اور سر سرداری میں رہتے ھیں- اور سید عبداللہ کا مزار ضلع بونیر کے گاؤں شل بانڈی کے مقام پر ہے۔ آپ کی اولاد کا سلسلہ صوبہ سرحد سے افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔ پیر بابا کے بے شمار مریدین تھے۔ خلفاءمیں سے آخوند درویزہ کو جو فضیلت وعظمت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی تھی۔ ان کا اصلی نام عبد الرشید تھا اور ننگر ہار افغانستان کے رہنے والے تھے۔ لیکن عمر کا زیادہ حصہ پشاور، اطراف پشاور اور سوات وبندیل میں بسر کیا تھا۔ بچپن سے ہی ان پر خوف الہٰی طاری رہتا تھا۔ حصول علم کے بعد ہی پیر بابا سے وابستہ ہو گئے تھے۔

وفات

آپ نے 991ھ میں وفات پائی۔ آپ کا مزار شریف مینگورہ (سوات) سے چالیس میل کے فاصلے پر ضلع بونیر کے موضع پاچہ کلے میں ہے۔[5]

ملفوظات

  • ”اپنے ایمان اور بہت سے لوگوں کے ایمان کو زوال سے بچاؤ“۔
  • ”عام مسلمانوں کو سیدھا سادا دین بتاؤ کیونکہ آج کل لوگ علم پر گھمنڈ کرتے ہوئے گمراہ ہو رہے ہیں۔ طریقت کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ اس لیے مختلف نظریات کے شکار ہوجاتے ہیں “۔
  • ”میرے دوست اور مرید وہ ہیں جو مجھ سے روحانی فائدہ حاصل کرتے اور میرے احوال پر نظر رکھتے ہیں“۔

حوالہ جات

  1. Hazrat Pir Baba (Rahmatullahi Allaih)
  2. تذکره علما و مشائخ سرحد جلد اول,مصنف: محمد امیر شاه قادری, ناشر: عظیم پبلشنگ هاؤس, خیبر بازار پشاور
  3. تذکره علما و مشائخ سرحد جلد اول صفحه نمبر 10,مصنف: محمد امیر شاه قادری, ناشر: عظیم پبلشنگ هاؤس, خیبر بازار پشاور
  4. تذکره علما و مشائخ سرحد جلد اول,مصنف: محمد امیر شاه قادری, ناشر: عظیم پبلشنگ هاؤس, خیبر بازار پشاور
  5. تذکرہ علما ومشائخ سرحد ،جلد اول،صفحہ 1 تا15 محمد امیر شاہ قادری،مکتبہ الحسن یکہ توت پشاور
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔