"مزار بہاء اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
Replacing Shrine_of_Bahá’u’lláh.jpg with File:Shrine_of_Bahá'u'lláh.jpg (by CommonsDelinker because: File renamed: maintenance easier w ASCII).
سطر 44: سطر 44:
[[زمرہ:بہائی زیارتیں]]
[[زمرہ:بہائی زیارتیں]]
[[زمرہ:مزارات]]
[[زمرہ:مزارات]]
[[زمرہ:بہائیت سے متعلق نامکمل مضامین]]

نسخہ بمطابق 08:27، 20 دسمبر 2019ء

متناسقات32°56′36″N 35°05′32″E / 32.94333°N 35.09222°E / 32.94333; 35.09222
مقامبہجی
قسمبہائیت
مزار بہاء اللہ
مزار کا کونا جہاں بہاء اللہ مدفون ہیں۔

مزار بہاء اللہ عکہ کے قریب بہجی میں واقع ہے۔ بہائیوں کے لیے یہ ایک بہت مقدس مقام ہے۔ بہائی نماز پڑھنے کے لیے اسی مزار کی طرف منہ کرتے ہیں اور اسے ہی اپنا قبلہ مانتے ہیں۔ اس مزار میں بہاء اللہ دفن ہے اور یہ قصر بہجی کی جگہ کے قریب واقع ہے جہاں بہاء اللہ کی وفات ہوئی تھی۔

مزارِ بہاء اللہ درمیانی علاقہ میں موجود ہے اور مزار کے چاروں جانب شجرات کے باغ ہیں، باغ کے راستوں پر ایرانی قالین بھچی ہے۔[1][2] مزار میں موجود شیشے کی چھت بہاء اللہ کی وفات کے بعد ”غلام علی نجار“ نامی شخص نے تعمیر کروائی تھی۔[3] مزار کے درمیانی علاقے کے شمال مغربی کونے میں ایک چھوٹا کمرہ موجود ہے جہاں بہاء اللہ مدفون ہے۔[4][5] درمیانی علاقے میں دیگر کمرے بھی موجود ہیں اور ان کمروں کے دروازے ہیں جو حالیہ برسوں میں یاتریوں اور زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کھولے گئے ہیں۔

عبد البہاء کی وفات کے بعد مرزا محمد علی اور اس کے حمایتی مزار پر قابض ہو گئے، انہوں جنوری 1922ء میں جبراً مزار کی چابیاں چھین لیں۔[6] گورنرِ عکہ نے چابیوں کو صاحبان اختیار اور مزار پر تعینات گارڈ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔[6] ابتدائی 1923ء میں چابیاں شوقی آفندی کو واپس مل گئیں۔[6] 1950ء کی دہائی میں شوقی آفندی مزار کی مستقبل کی بالائی تعمیر (superstructure) کے منصوبے بنا چکا تھا، جس میں پورے علاقے کی تعمیر اور اس میں 95 ماربل کالموں (ہر ماربل کالم 6 میٹر بلند) کے ساتھ ایک چبوترا شامل کرنا تھا۔[7] شوقی آفندی نے مزار کو ”دریائے نور“ (روشنی کا سمندر) کا نام دیا جو ”کوہِ نور“ (روشنی کا پہاڑ، مزار باب) کے سائے تلے تھا۔[8]

مزار اور اس کے آس پاس کے باغات کے ساتھ ساتھ قصر بہجی کو جولائی 2008ء میں عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا۔[9][10]

نگار خانہ

حوالہ جات

  1. نیشنل اپریچیول اسمبلی آف دی یونائٹڈ اسٹیڈس (جنوری 1966)۔ "شرائن آف بہاء اللہ"۔ بہائی نیوز (418): 4۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2006 
  2. جی۔ ایم۔ وشوناتھن (1994-07-24)۔ "بہائی اتھسٹکس آف دی سیکریڈ"۔ bahai-library.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2006 
  3. عبد البہاء (1915)۔ میموریلز آف دی فیتھ فُل۔ Wilmette, Illinois، USA: بہائی بپلشنگ ٹرسٹ (شائع 1997)۔ صفحہ: 144۔ ISBN 0-87743-242-2  |archive-url= is malformed: timestamp (معاونت)
  4. کرئسٹ مان ول (November 1996)۔ "Visits to the Shrine of Bahá'u'lláh and Meeting with the members of the Universal House of Justice"۔ bahai-library.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2006 
  5. مزار کے درمیانی کمرے اور اندرونی حصوں کو دیکھنے کے لیے دیکھیے: The Bahá'í World, Vol III, p. 5 and 11.
  6. ^ ا ب پ ہیلین ٹی۔ ولسن (April 2000)۔ "The Dispensation of Baha'u'llah: Its Continuing Place In History"۔ bahai-library.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2006 
  7. اگو گیاچری (1973)۔ شوقی آفندی — ری کلکشنز۔ آکسفورڈ، برطانیہ: جارج رونالڈ۔ صفحہ: 132–134, 137۔ ISBN 0-85398-050-0 
  8. ذکر اللہ خادم (مارچ 1976)۔ "بہاء اللہ اور اس کا مقدس مزار"۔ بہائی نیوز (540): 15۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  9. یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ مرکز (2008-07-08)۔ "Three new sites inscribed on UNESCO's World Heritage List"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2008 
  10. یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی (2007-07-02)۔ "Convention concerning the protection of the world cultural and natural heritage" (PDF)۔ صفحہ: 34۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2008