"حیدرآبادی روپیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
املا
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ آئی فون ایپ ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم ماخذ 2017ء)
سطر 35: سطر 35:
== بنک نوٹ ==
== بنک نوٹ ==
[[File:Hyderabad - One Rupee - Mahboob Ali Khan - 1329 AH Silver - Kolkata 2016-06-28 5271-5272.png|thumb|میر محبوب علی خان، آصف جاہ ششم کا جاری کردہ ایک روپے کا سکہ،(1329ھ- 1911ء)۔]]
[[File:Hyderabad - One Rupee - Mahboob Ali Khan - 1329 AH Silver - Kolkata 2016-06-28 5271-5272.png|thumb|میر محبوب علی خان، آصف جاہ ششم کا جاری کردہ ایک روپے کا سکہ،(1329ھ- 1911ء)۔]]
حیدرآباد کے [[کرنسی]] نوٹ 1918ی سے 1953ء تک جاری ہوتے رہے۔ اس وقت ریاست حیدرآباد کے حکمران یعنی [[نظام حیدرآباد|نظام آف حیدرآباد]] [[میر عثمان علی خان]] تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حیدرآباد کا روپیہ 1916ء میں جاری ہو چکا تھا۔ یہ نوٹ [[فصلی تقویم]] کے حساب سے جاری کیے گئے تھے، فصلی تقویم میں 589 سال جمع کریں تو [[عیسوی تقویم]] کی تاریخ حاصل ہوتی ہے۔ یہ نوٹ اردو زبان میں طبع ہوتے تھے جن پر نوٹ کی مالیت [[اردو|اردو،]] [[مراٹھی زبان|مراٹھی،]] [[تیلگو زبان|تیلگو،]][[کنڑ زبان|کنڑ]] اور [[انگریزی زبان|انگریزی]] زبان میں درج ہوتی تھی۔
حیدرآباد کے [[کرنسی]] نوٹ 1918ء سے 1953ء تک جاری ہوتے رہے۔ اس وقت ریاست حیدرآباد کے حکمران یعنی [[نظام حیدرآباد|نظام آف حیدرآباد]] [[میر عثمان علی خان]] تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حیدرآباد کا روپیہ 1916ء میں جاری ہو چکا تھا۔ یہ نوٹ [[فصلی تقویم]] کے حساب سے جاری کیے گئے تھے، فصلی تقویم میں 589 سال جمع کریں تو [[عیسوی تقویم]] کی تاریخ حاصل ہوتی ہے۔ یہ نوٹ اردو زبان میں طبع ہوتے تھے جن پر نوٹ کی مالیت [[اردو|اردو،]] [[مراٹھی زبان|مراٹھی،]] [[تیلگو زبان|تیلگو،]][[کنڑ زبان|کنڑ]] اور [[انگریزی زبان|انگریزی]] زبان میں درج ہوتی تھی۔


ایس ایس ایجیپٹ نامی بحری جہاز 1922ء میں [[فرانس]] کے علاقے [[بریسٹ، فرانس|بریسٹ]] کے نزدیک جزیرہ یوشانت کے ساحلوں کے نواح میں غرق ہوگیا تھا۔ جب 1932ء میں وہ دریافت ہوا تو اس کی باقیات میں سے 100,10,5 روپے کی مالیت کے سیلن زدہ غیر جاری شدہ حیدرآبادی نوٹ برآمد ہوئے تھے۔ان نوٹوں میں سے اکثر پر خصوصی خاتم ضرب کی گئی اور انہیں خصوصی یادگار کے طور پر فروخت کیا گیا تھا۔ یہ نوٹ دراصل برطانیہ سے حیدرآباد لے جائے جا رہے تھے کیونکہ ان کی طباعت برطانیہ میں ہوا کرتی تھی۔ یہ نوٹ نوٹافلسٹس (کاغذ کے نوٹوں پر تحقیق اور جمع کرنے والے) کے لیے انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے کچھ نوٹ ان پر درج تواریخ سے قدرے بعد میں طبع کیے گئے تھے۔
ایس ایس ایجیپٹ نامی بحری جہاز 1922ء میں [[فرانس]] کے علاقے [[بریسٹ، فرانس|بریسٹ]] کے نزدیک جزیرہ یوشانت کے ساحلوں کے نواح میں غرق ہوگیا تھا۔ جب 1932ء میں وہ دریافت ہوا تو اس کی باقیات میں سے 100,10,5 روپے کی مالیت کے سیلن زدہ غیر جاری شدہ حیدرآبادی نوٹ برآمد ہوئے تھے۔ان نوٹوں میں سے اکثر پر خصوصی خاتم ضرب کی گئی اور انہیں خصوصی یادگار کے طور پر فروخت کیا گیا تھا۔ یہ نوٹ دراصل برطانیہ سے حیدرآباد لے جائے جا رہے تھے کیونکہ ان کی طباعت برطانیہ میں ہوا کرتی تھی۔ یہ نوٹ نوٹافلسٹس (کاغذ کے نوٹوں پر تحقیق اور جمع کرنے والے) کے لیے انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے کچھ نوٹ ان پر درج تواریخ سے قدرے بعد میں طبع کیے گئے تھے۔

نسخہ بمطابق 03:25، 28 مئی 2020ء

حیدرآبادی روپیہ
ریاست حیدرآباد کا دس روپے کا نوٹ( سکہ عثمانیہ
نام اور قیمت
ذیلی اکائی
 1/16آنہ
 1/192پائی
بینک نوٹ1, 5, 10, 100, 1000 روپے
سکے1,2 پائی، ½، 1, 2, 4, 8 آنے، 1 روپیہ
آبادیات
صارفین حیدر آباد
This infobox shows the latest status before this currency was rendered obsolete.

حیدرآبادی روپیہ ریاست حیدرآباد کی کرنسی تھی جو 1918ء سے 1959ء تک رائج رہی۔ یہ روپیہ 1950ء سے بھارتی روپے کے ساتھ موجود رہا۔ ہندوستانی روپے کی طرح اس میں بھی 16 آنے ہوا کرتے تھے اور ہر آنہ میں 12 پائی ہوتی تھیں۔ 1 پائی، 2 پائی اور ½ آنہ کے سکے تانبے کے جاری کیے گئے تھے جو بعد ازاں کانسی سے بنائے جاتے تھے۔ 1 آنہ کا سکہ تانبے اور نکل کا مرکب تھا تاہم بعد میں وہ بھی کانسی کا کردیا گیا تھا جبکہ 2، 4، 8 آنے اور 1 روپے کا سکہ چاندی کا ہوا کرتا تھا۔

ریاست حیدرآباد واحد نوابی ریاست تھی جو 1948ء میں بھارتی ڈومینین اور 1950ء میں بھارتی جمہوریہ میں انضمام کے بعد بھی اپنے کرنسی نوٹ جاری کرنے مجاز تھی۔

تاریخ

سرکار حیدرآباد نے بارہا یہ کوششیں کیں کہ نجی بنک ایک ایسی کمپنی تشکیل دیں جو ریاست کے کاغذی نوٹ جاری کر سکے۔ لیکن برطانوی ہمیشہ سے بھارت کی نوابی ریاستوں کے کاغذ کی کرنسی کے اجراء میں رکاوٹ رہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران میں پیدا ہونے والی چاندی کی قلت اور جنگ میں ریاست حیدرآباد کی برطانیہ کے لیے خدمات نے تاج برطانیہ کو اپنا ذہن تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے مزاحمت ترک کرتے ہوئے اس کی اجازت دے دی اور یوں 1918ء میں حیدرآباد کرنسی ایکٹ کے تحت 10 اور 100 روپے کے کاغذی نوٹ ریاست نے جاری کر دیے۔

اس کرنسی کو ‘سکہ عثمانیہ’ کا نام دیا گیا۔ 1روپیہ اور 5 روپے کے نوٹ 1919ء جبکہ ایک ہزار روپے کے نوٹ 1926ء میں جاری کیے گئے۔ بھارتی کرنسی کے اجراء اور ناسک میں اس کی طباعت کے بعد حیدرآبادی نوٹ بھی یہیں طبع ہونے لگے۔

ریاست حیدرآباد کی سرکار نے 1942ء میں حیدرآباد اسٹیٹ بنک قائم کیا جس کی ذمہ داریاں بشمول دیگر سکہ عثمانیہ کا نظم نسق تھیں۔ ریاست کے سکے 1948ء تک ڈھلتے رہے تاوقتیکہ نظام حیدرآباد نے جمہوریہ بھارت میں انضمام سے انکار کردیا اور بھارت نے ریاست پر قبضہ کرلیا۔

سال 1950ء میں مقامی کرنسی کے ساتھ بھارتی روپیہ متعارف کروایا گیا، 7 حیدرآبادی روپے 6 بھارتی روپوں کے برابر ہوتے تھے۔ 1951ء میں حیدرآبادی روپے کا اجراء بند کردیا گیا اور بھارتی روپیہ ریاست کی مرکزی کرنسی کے طور پر گردش کرنے لگا تاہم 1959ء میں مکمل ساقط ہونے تک حیدرآبادی روپیہ بھی گردش میں رہا۔[1][2]

بنک نوٹ

میر محبوب علی خان، آصف جاہ ششم کا جاری کردہ ایک روپے کا سکہ،(1329ھ- 1911ء)۔

حیدرآباد کے کرنسی نوٹ 1918ء سے 1953ء تک جاری ہوتے رہے۔ اس وقت ریاست حیدرآباد کے حکمران یعنی نظام آف حیدرآباد میر عثمان علی خان تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حیدرآباد کا روپیہ 1916ء میں جاری ہو چکا تھا۔ یہ نوٹ فصلی تقویم کے حساب سے جاری کیے گئے تھے، فصلی تقویم میں 589 سال جمع کریں تو عیسوی تقویم کی تاریخ حاصل ہوتی ہے۔ یہ نوٹ اردو زبان میں طبع ہوتے تھے جن پر نوٹ کی مالیت اردو، مراٹھی، تیلگو،کنڑ اور انگریزی زبان میں درج ہوتی تھی۔

ایس ایس ایجیپٹ نامی بحری جہاز 1922ء میں فرانس کے علاقے بریسٹ کے نزدیک جزیرہ یوشانت کے ساحلوں کے نواح میں غرق ہوگیا تھا۔ جب 1932ء میں وہ دریافت ہوا تو اس کی باقیات میں سے 100,10,5 روپے کی مالیت کے سیلن زدہ غیر جاری شدہ حیدرآبادی نوٹ برآمد ہوئے تھے۔ان نوٹوں میں سے اکثر پر خصوصی خاتم ضرب کی گئی اور انہیں خصوصی یادگار کے طور پر فروخت کیا گیا تھا۔ یہ نوٹ دراصل برطانیہ سے حیدرآباد لے جائے جا رہے تھے کیونکہ ان کی طباعت برطانیہ میں ہوا کرتی تھی۔ یہ نوٹ نوٹافلسٹس (کاغذ کے نوٹوں پر تحقیق اور جمع کرنے والے) کے لیے انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے کچھ نوٹ ان پر درج تواریخ سے قدرے بعد میں طبع کیے گئے تھے۔

دہرے ہندسوں کے سلسلہ نمبر کا سابقہ رکھنے والے نوٹ ان کی اصل سلسلہ وار لڑی سے تعلق کا اشاریہ تھا۔ 1939ء تا 53ء کچھ نوٹ مفرد سلسلہ نمبر سے بھی جاری ہوئے تھے۔

یکم جولائی 1953ء سے 31 اکتوبر 1953ء تک ریاست حیدر آباد کے خزانے میں جو کاغذی کرنسی واپس جمع ہوئی وہ بالترتیب 8.05 کروڑ سکہ عثمانی جن میں ایک روپے کے نوٹ بھی تھے اور 18.42 کروڑ سکہ عثمانی جن میں ایک روپے اور اس سے چھوٹے سکے بھی شامل تھے یہ اعداد و شمار 28 نومبر 1953 کے ہیں۔ [3]

خریطہ دستخط

کرنسی نوٹوں پر ثبت دستخط بھی ان کے اجراء کے عہد کا تعین کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ریاست حیدر آباد کے افسر مجاز دستخط کرنسی نوٹ کے عہدے کا تعین تو نہیں لیکن دستخط اردو اور انگریزی زبانوں میں ملتے ہیں۔

نام مع ادوار جن کے دستخط حیدرآبادی روپے پر موجود ہیں۔

  • سر ریجینالڈ آر کلینسے (1918–19)
  • فخرالدین احمد(1919–20)
  • حیدر نواز جنگ (1921–36 اور 1940–41)
  • مہدی یار جنگ (1939)
  • غلام محمد (1941–45)
  • لیاقت جنگ(1945 اور 1946–47)
  • زاہد حسین (1945–46)
  • زاہد جنگ (1946)
  • معین نواز جنگ (1947–48)
  • ڈی آر پرادھن (1948–49)
  • سی وی ایس راؤ (1950)
  • ڈاکٹر جی ایس ملکوٹے (1950–53)

اجرائے اوّل

اجرائے اوّل (1916-18-19) سر ریجینالڈ آر کلینسے کا دور

  • پی ایس 261۔ ایک روپیہ، این ڈی۔ 1919

حوالہ جات

  1. Rezwan Razack and Kishore Jhunjhunwalla (2012)۔ The Revised Standard Reference Guide to Indian Paper Money۔ Coins & Currencies۔ ISBN 978-81-89752-15-6 
  2. [1]
  3. https://eparlib.nic.in/bitstream/123456789/55653/1/lsd_01_05_14-12-1953.pdf Page no. 25