"آیا صوفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

متناسقات: 41°00′31″N 28°58′48″E / 41.008548°N 28.979938°E / 41.008548; 28.979938
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
سطر 68: سطر 68:


== مسجد بحالی ==
== مسجد بحالی ==
31 مئی 2014ء کو ترکی کی "نوجوانان اناطولیہ" نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی جو ایا صوفیہ کو مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی۔<ref>[http://www.almokhtsar.com/news/رفع-الأذان-وأداء-صلاة-الفجر-بمسجد-آيا-صوفيا-في-تركيا-بعد-غياب-78-عامًا-وأصوات-التكبير-تعلو رفع الأذان وأداء صلاة الفجر بمسجد "آيا صوفيا" في تركيا بعد غياب 78 عامًا۔۔ وأصوات التكبير تعلو فرحًا "فيديو"]، مختصر الأخبار، نر في 31 مايو 2014، دخل في 13 سبتمبر 2014 {{Webarchive|url=https://web.archive.org/web/20141019113703/http://www.almokhtsar.com:80/news/رفع-الأذان-وأداء-صلاة-الفجر-بمسجد-آيا-صوفيا-في-تركيا-بعد-غياب-78-عامًا-وأصوات-التكبير-تعلو |date=19 أكتوبر 2014}}</ref> اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے دیڑھ کروڑ لوگوں کی تائیدی دستخطوں کو جمع کیا ہے۔<ref>[http://www.aljazeera.net/news/cultureandart/2014/5/31/آمال-تركية-بإعادة-متحف-أيا-صوفيا-لمسجد آمال تركية بإعادة متحف أيا صوفيا لمسجد]، الجزيرة۔نت، نشر في 31 مايو 2014، دخل في 13 سبتمبر 2014 {{Webarchive|url=https://web.archive.org/web/20181025044247/http://www.aljazeera.net:80/news/cultureandart/2014/5/31/آمال-تركية-بإعادة-متحف-أيا-صوفيا-لمسجد |date=25 أكتوبر 2018}}</ref> لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر نے بیان دیا تھا کہ ابھی ایا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
31 مئی 2014ء کو ترکی کی "نوجوانان اناطولیہ" نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی جو ایا صوفیہ کو مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی۔<ref>[http://www.almokhtsar.com/news/رفع-الأذان-وأداء-صلاة-الفجر-بمسجد-آيا-صوفيا-في-تركيا-بعد-غياب-78-عامًا-وأصوات-التكبير-تعلو رفع الأذان وأداء صلاة الفجر بمسجد "آيا صوفيا" في تركيا بعد غياب 78 عامًا۔۔ وأصوات التكبير تعلو فرحًا "فيديو"]، مختصر الأخبار، نر في 31 مايو 2014، دخل في 13 سبتمبر 2014 {{Webarchive|url=https://web.archive.org/web/20141019113703/http://www.almokhtsar.com:80/news/رفع-الأذان-وأداء-صلاة-الفجر-بمسجد-آيا-صوفيا-في-تركيا-بعد-غياب-78-عامًا-وأصوات-التكبير-تعلو |date=19 أكتوبر 2014}}</ref> اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی تائیدی دستخطوں کو جمع کیا ہے۔<ref>[http://www.aljazeera.net/news/cultureandart/2014/5/31/آمال-تركية-بإعادة-متحف-أيا-صوفيا-لمسجد آمال تركية بإعادة متحف أيا صوفيا لمسجد]، الجزيرة۔نت، نشر في 31 مايو 2014، دخل في 13 سبتمبر 2014 {{Webarchive|url=https://web.archive.org/web/20181025044247/http://www.aljazeera.net:80/news/cultureandart/2014/5/31/آمال-تركية-بإعادة-متحف-أيا-صوفيا-لمسجد |date=25 أكتوبر 2018}}</ref> لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر نے بیان دیا تھا کہ ابھی ایا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔


10 جولائی 2020ء کو ترکی کی عدالت عظمیٰ نے ایا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی قراد کو منظوری دے دی، اور میوزیم کو منسوخ کر کے باضابطہ سرکاری طور پر مسجد بحالی کا فیصلہ صادر کر دیا۔<ref>{{استشهاد ويب
10 جولائی 2020ء کو ترکی کی عدالت عظمیٰ نے ایا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی قراد کو منظوری دے دی، اور عجائب گھر کی حیثیت منسوخ کر کے سرکاری طور پر مسجد بحالی کا فیصلہ صادر کر دیا۔<ref>{{استشهاد ويب
| مسار = https://arabic.rt.com/world/1133103-%D8%A3%D8%B1%D8%AF%D9%88%D8%BA%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%B1%D8%B3%D9%88%D9%85-%D9%81%D8%AA%D8%AD-%D8%A2%D9%8A%D8%A7-%D8%B5%D9%88%D9%81%D9%8A%D8%A7-%D9%85%D8%B3%D8%AC%D8%AF/
| مسار = https://arabic.rt.com/world/1133103-%D8%A3%D8%B1%D8%AF%D9%88%D8%BA%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%B1%D8%B3%D9%88%D9%85-%D9%81%D8%AA%D8%AD-%D8%A2%D9%8A%D8%A7-%D8%B5%D9%88%D9%81%D9%8A%D8%A7-%D9%85%D8%B3%D8%AC%D8%AF/
| عنوان = اردوغان يوقع مرسوما يقضي بتحويل ايا صوفيا الي مسجد رسميا
| عنوان = اردوغان يوقع مرسوما يقضي بتحويل ايا صوفيا الي مسجد رسميا

نسخہ بمطابق 04:29، 11 جولائی 2020ء

ایا صوفیہ
Ayasofya (ترک)
Ἁγία Σοφία (یونانی)
Sancta Sophia (لاطینی)
ایا صوفیہ Ayasofya (ترک) Ἁγία Σοφία (یونانی) Sancta Sophia (لاطینی)
ایا صوفیہ، استنبول کا ایک منظر
مقام استنبول (تاریخی نام قسطنطنیہ) ترکی
نمونہ ساز ایسیدور ملیٹس
انتھیمیس ٹرالس
قسم
لمبائی 82 میٹر (269 فٹ)
چوڑائی 73 میٹر (240 فٹ)
بلندی 55 میٹر (180 فٹ)
تاریخِ آغاز 532
تاریخِ تکمیل 537؛ 1487 برس قبل (537)
[[Image:Turkey Istanbul ]]
متناسقہ 41°00′31″N 28°58′48″E / 41.008548°N 28.979938°E / 41.008548; 28.979938

ایا صوفیہ (یونانی: Ἁγία Σοφία یعنی حکمت خداوندی، لاطینی: Sancta Sophia یا Sancta Sapientia، ترکی: Ayasofya-yı Kebir Cami-i Şerifi) مشرقی آرتھوڈوکس کا سابقہ گرجا ہے جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ سنہ 1935ء میں مصطفٰی کمال پاشا نے ایا صوفیہ کے گرجے اور مسجد کی حیثیت کو ختم کرکے اسے عجائب گھر بنا دیا۔ ایا صوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور تاریخِ عالم کی عظیم ترین عمارتوں میں اسے شمار کیا جاتا ہے۔

تاریخی پس منظر

ایاصوفیہ کا ایک اندرونی منظر

ایا صوفیہ، سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ ہونے تک مسیحیوں کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز بنا رہا ہے، تقریباً پانچویں صدی عیسوی سے مسیحی دنیا دو بڑی سلطنتوں میں تقسیم ہو گئی تھی، ایک سلطنت مشرق میں تھی جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا، اور اس میں بلقان، یونان، ایشیائے کوچک، شام، مصر اور حبشہ وغیرہ کے علاقے شامل تھے، اور وہاں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا بطریرک (Patriarch) کہلاتا تھا۔ اور دوسری بڑی سلطنت مغرب میں تھی جس کا مرکز روم (اٹلی) تھا۔ یورپ کا بیشتر علاقہ اسی کے زیر نگیں تھا، اور یہاں کا مذہبی پیشوا پوپ یا پاپا کہلاتا تھا۔ ان دونوں سلطنتوں میں ہمیشہ سیاسی اختلافات کے علاوہ مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات جاری رہے۔ مغربی سلطنت جس کا مرکز روم تھا وہ رومن کیتھولک کلیسیا فرقے کی تھی۔ اور مشرقی سلطنت، آرتھوڈوکس کلیسیا فرقے کی تھی۔ ایا صوفیہ کا چرچ یہ آرتھوڈوکس کلیسیا کا عالمی مرکز تھا۔[1]

مسیحی اہمیت

ایا صوفیہ مسیحیوں کے گروہ آرتھوڈوکس کلیسیا کا عالمی مرکز تھا، اس چرچ کا سربراہ جو بطریرک یا "پیٹریارک" کہلاتا تھا، اسی میں مقیم تھا، لہذا نصف مسیحی دنیا اس کو کلیسا کو اپنی مقدس ترین عبادتگاہ سمجھا کرتی تھی۔

آیا صوفیہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ وہ روم کے کیتھولک کلیسیا کے مقابلے میں زیادہ قدیم تھا۔ اس کی بنیاد تیسری صدی عیسوی میں اسی رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی تھی جو روم کا پہلا عیسائی بادشاہ تھا اور جس کے نام پر اس شہر کا نام بیزنطیہ سے قسطنطنیہ رکھا گیا تھا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یہ عمارت اور کلیسا پورے عالم عیسائیت کے مذہبی اور روحانی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ مسیحیوں کا عقیدہ بن چکا تھا کہ یہ کلیسا کبھی ان کے قبضے سے نہیں نکلے گا۔ اس سے ان کی مذہبی اور قلبی لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ اب بھی آرتھوڈوکس کلیسیا کا سربراہ اپنے نام کے ساتھ "سربراہِ کلیسائے قسطنطنیہ" (The Hear of the Church of the Constantinople) لکھتا آیا ہے۔ [2]

تعمیر

قسطنطین نہم کی جانب سے لگایا گیا یسوع مسیح کا ایک خاکہ

قسطنطین نے اس جگہ 360ء میں ایک لکڑی کا بنا ہوا کلیسا تعمیر کیا تھا۔ چھٹی صدی میں یہ کلیسا جل گیا تو اسی جگہ قیصر جسٹینین اول نے 532ء میں اسے پختہ تعمیر کرنا شروع کیا اور اس کی تعمیر پانچ سال دس مہینے میں مکمل ہوئی۔ دس ہزار معمار اس کی تعمیر میں مصروف رہے اور اس پر دس لاکھ پاؤنڈ خرچ آیا۔ اس کی تعمیر میں قیصر نے دنیا کے متنوع سنگ مرمر استعمال کیے، تعمیر میں دنیا کے خاص مسالے استعمال کیے گئے۔ دنیا بھر کے کلیساؤں نے اس کی تعمیر میں بہت سے نوادر نذرانے کے طور پر پیش کیے۔ اور روایت ہے کہ جب جسٹینین اول اس کی تکمیل کے بعد پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس نے کہا: "سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا"۔ (نبی سلیمان علیہ السلام کے ذریعہ بیت المقدس کی تعمیر پر تکبرانہ اور گستاخانہ جملہ تھا)۔

اسلامی فتح

جب 1453ء نے عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا، اور بازنطینیوں کو شکست ہو گئی تو اس شہر کے مذہبی رہنماؤں اور راسخ العقیدہ عیسائیوں نے اسی کلیسا میں اس خیال سے پناہ لے لی تھی کہ کم از کم اس عمارت پر دشمن کا قبضہ نہیں ہو سکے گا۔ مشہور انگریز مؤرخ ایڈورڈ گبن منظر کشی کرتے ہوئے لکھتا ہے:

گرجا کی تمام زمینی اور بالائی گیلریاں باپوں، شوہروں، عورتوں، بچوں، پادریوں، راہبوں اور کنواری ننوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھی، کلیسا کے دروازوں کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ ان میں داخلہ ممکن نہ رہا تھا۔ یہ سب لوگ اس مقدس گنبد کے سائے میں تحفظ تلاش کر رہے تھے جسے وہ زمانہ دراز سے ایک ملأ اعلیٰ کی لاہوتی عمارت سمجھتے آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب ایک افترا پرداز الہام کی وجہ سے تھا جس میں یہ جھوٹی بشارت تھی کہ جب ترک دشمن اس ستون (قسطنطین ستون) کے قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوگا اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔[3]

لیکن ترک عثمانی فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئے، نہ کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔ کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالآخر سلطان محمد فاتح اندر داخل ہوگئے، اور سب کے جان مال اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی۔

فتح کے دن فجر کی نماز کے بعد سلطان محمد فاتح نے یہ اعلان کیا تھا کہ "ان شاءاللہ ہم ظہر کی نماز ایا صوفیہ میں ادا کریں گے"۔ چنانچہ اسی دن فتح ہوا اور اس سر زمین پر پہلی نماز ظہر ادا کی گئی، اس کے بعد پہلا جمعہ بھی اسی میں پڑھا گیا۔

ایا صوفیہ مسجد

قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے، اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔ اس لیے سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اسے مال کے ذریعہ خریدا گیا، اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد "جامع ایا صوفیہ" کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنجوقتہ نماز ہوتی رہی۔[4][5]

عمارت

ایا صوفیہ کے سامنے ایک خوبصورت چمن ہے، اس کے بعد اس کا مرکزی دروازہ ہے، دورازے کے دونوں طرف وہ پتھر نصب ہیں جہاں پہرہ دار کھڑے ہوتے تھے۔ اندر وسیع ہال ہے جو مربع شکل کا ہے، اس کی وسعت غلام گردش اور محراب کو چھوڑ کر جنوباً شمالاً 235 فٹ ہے، بیچ کے گنبد کا قطر 107 فٹ اور چھت کی اونچائی 185 فٹ ہے۔ پوری عمارت میں 170 ستون ہیں۔ چاروں کونوں پر مسلمانوں نے چھ ڈھالوں پر اللہ، محمد، ابو بکر، عمر، عثمان اور علی نہایت خوشخط لکھ کر لگایا ہوا ہے۔ اوپر چھت کی طرف بڑے بڑے خوبصورت روشندان بنے ہوئے ہیں۔ عمارت میں سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے، بیشمار تختیاں لگی ہوئی ہیں جن پر عربی خط میں لکھا اور نقش ونگار کیا گیا ہے۔

ایا صوفیہ عجائب گھر

ایا صوفیہ کی عمارت فتح قسطنطنیہ کے بعد سے 481 سال تک مسجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی۔ لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مصطفٰی کمال اتاترک ترکی کا سربراہ بنا، تو اس نے، مسجد میں نماز بند کر کے اسے عجائب گھر (نمائش گاہ) بنا دیا۔ جولائی 2020ء میں اسے دوبارہ 1935ء سے قبل والی حیثیت دے دی گئی۔

مسجد بحالی

31 مئی 2014ء کو ترکی کی "نوجوانان اناطولیہ" نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی جو ایا صوفیہ کو مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی۔[6] اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی تائیدی دستخطوں کو جمع کیا ہے۔[7] لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر نے بیان دیا تھا کہ ابھی ایا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

10 جولائی 2020ء کو ترکی کی عدالت عظمیٰ نے ایا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی قراد کو منظوری دے دی، اور عجائب گھر کی حیثیت منسوخ کر کے سرکاری طور پر مسجد بحالی کا فیصلہ صادر کر دیا۔[8] ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ایا صوفیہ کی مسجد بحالی کے فیصلے پر دستخط کر دیا ہے۔[9]

نگار خانہ

حوالہ جات

  1. جہان دیدہ، از؛ مفتی محمد تقی عثمانی، مطبع؛ مکتبہ معارف القرآن کراچی، طبع جولائی 2010۔ صفحات؛ 343، 344.
  2. جہان دیدہ، از؛ مفتی محمد تقی عثمانی، مطبع؛ مکتبہ معارف القرآن کراچی، طبع جولائی 2010۔ صفحات؛ 344، 345.
  3. The Decline and Fall of the Roman Empire. 697, 696
  4. http://www.islamdevleti.org/content/view/20218/102#۔UWs4r3wuiSO آرکائیو شدہ 2013-04-06 بذریعہ وے بیک مشین
  5. الوثيقة موجود في دائرة المديرية العامة للسجل العقاري في أنقرة، وهناك نسخة أخرى منها في متحف الآثار التركية الإسلامية في إسطنبول تحمل رقم تصنفي: 2182.
  6. رفع الأذان وأداء صلاة الفجر بمسجد "آيا صوفيا" في تركيا بعد غياب 78 عامًا۔۔ وأصوات التكبير تعلو فرحًا "فيديو"، مختصر الأخبار، نر في 31 مايو 2014، دخل في 13 سبتمبر 2014 آرکائیو شدہ 2014-10-19 بذریعہ وے بیک مشین
  7. آمال تركية بإعادة متحف أيا صوفيا لمسجد، الجزيرة۔نت، نشر في 31 مايو 2014، دخل في 13 سبتمبر 2014 آرکائیو شدہ 2018-10-25 بذریعہ وے بیک مشین
  8. "اردوغان يوقع مرسوما يقضي بتحويل ايا صوفيا الي مسجد رسميا"۔ روسيا اليوم۔ 10 يوليو 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  9. "أردوغان يوقع مرسوما يقضي بفتح معلم آيا صوفيا التاريخي كمسجد"۔ RT Arabic (بزبان عربی)۔ 10 يوليو 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جولا‎ئی 2020