"زید بن ثابت" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
م خودکار: درستی املا ← بنا، کیے، 0، ہو گئی، 3، 2، 4، ہو گیا، 1، 5، 6، امرا، 7، 8، لیے، کر دیا
سطر 21: سطر 21:
16 ھ اور 17ھ میں دو مرتبہ عمرکے حج کے موقع پر تیسری مرتبہ ان کے شام کے سفر کے زمانہ میں شام پہنچ کر زیدکو آپ نے جب خط لکھا تو اس میں زید کا نام اپنے نام سے پہلے تحریر کیا یعنی "الی زید بن ثابت من عمر بن الخطاب" ہر دفعہ زید نے خلافت کی ذمہ داریوں کو نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیا، عمران کے انتظام سے بہت خوش ہوتے اور واپس آکر ان کو کچھ جاگیر دیاکرتے تھے۔
16 ھ اور 17ھ میں دو مرتبہ عمرکے حج کے موقع پر تیسری مرتبہ ان کے شام کے سفر کے زمانہ میں شام پہنچ کر زیدکو آپ نے جب خط لکھا تو اس میں زید کا نام اپنے نام سے پہلے تحریر کیا یعنی "الی زید بن ثابت من عمر بن الخطاب" ہر دفعہ زید نے خلافت کی ذمہ داریوں کو نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیا، عمران کے انتظام سے بہت خوش ہوتے اور واپس آکر ان کو کچھ جاگیر دیاکرتے تھے۔
== اصلاح امت ==
== اصلاح امت ==
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے ساتھ ہی انصار میں خلافت کا مسئلہ پیش ہوگیا،سقیفہ بنی ساعدہ میں تمام انصار جمع تھے اور رئیس انصار سعد بن عبادہ مجلس کے صدر نشین تھے، انہی کے انتخاب پر لوگوں کی تقریریں ہورہی تھیں، انصار کی بڑی جماعت ان کی تائید میں تھی، حضرت زید بن ثابتؓ بھی جلسہ میں موجود تھے،مگر رجحان عام کے خلاف آواز بلند کرنا اس وقت کوئی آسان کام نہ تھا،اس لئے خاموش تھے۔
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے ساتھ ہی انصار میں خلافت کا مسئلہ پیش ہو گیا،سقیفہ بنی ساعدہ میں تمام انصار جمع تھے اور رئیس انصار سعد بن عبادہ مجلس کے صدر نشین تھے، انہی کے انتخاب پر لوگوں کی تقریریں ہورہی تھیں، انصار کی بڑی جماعت ان کی تائید میں تھی، حضرت زید بن ثابتؓ بھی جلسہ میں موجود تھے،مگر رجحان عام کے خلاف آواز بلند کرنا اس وقت کوئی آسان کام نہ تھا،اس لیے خاموش تھے۔
اس کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت ابو عبیدہؓ، سقیفہ میں پہنچے اور مہاجرین کی طرف سے حضرت عمرؓ نے خلافت کی بحث شروع کی تو سب سے پہلے جس انصاری نے ان کی تائید کی وہ حضرت زید بن ثابتؓ تھے، انصار کی تقریریں ختم ہونے کے بعد انہوں نے ایک مختصر مگر پر معنی تقریر کی جس کا ایک فقرہ یہ تھا:
اس کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت ابو عبیدہؓ، سقیفہ میں پہنچے اور مہاجرین کی طرف سے حضرت عمرؓ نے خلافت کی بحث شروع کی تو سب سے پہلے جس انصاری نے ان کی تائید کی وہ حضرت زید بن ثابتؓ تھے، انصار کی تقریریں ختم ہونے کے بعد انہوں نے ایک مختصر مگر پر معنی تقریر کی جس کا ایک فقرہ یہ تھا:
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَإِنَّمَا الْإِمَامُ يَكُونُ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَنَحْنُ أَنْصَارُهُ كَمَا كُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَإِنَّمَا الْإِمَامُ يَكُونُ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَنَحْنُ أَنْصَارُهُ كَمَا كُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
<ref>(مسند احمد،باب حدیث زید بن ثابت عن النبی ﷺ،حدیث نمبر:۲۰۶۳۱)</ref>
<ref>(مسند احمد،باب حدیث زید بن ثابت عن النبی ﷺ،حدیث نمبر:20631)</ref>
یعنی رسول اللہ ﷺ مہاجرین میں سے تھے اس لئے امام کا بھی مہاجرین میں سے انتخاب ہونا چاہیے اورہم اس کے انصار رہیں گے جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ کے انصار تھے۔
یعنی رسول اللہ ﷺ مہاجرین میں سے تھے اس لیے امام کا بھی مہاجرین میں سے انتخاب ہونا چاہیے اورہم اس کے انصار رہیں گے جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ کے انصار تھے۔
ان کی یہ صدا ان کی قوم کے خلاف تھی،تاہم کوئی اس کو دبانہ سکتا تھا، حضرت زیدؓ کی تقریر ختم ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے کھڑے ہوکر تحسین کی اورکہا خدا تم کو جزائے خیر دے اگر اس کے علاوہ کوئی بات پیش کی جاتی تو غالباً ہم لوگ ماننے کے لئے تیار نہ ہوتے۔
ان کی یہ صدا ان کی قوم کے خلاف تھی،تاہم کوئی اس کو دبانہ سکتا تھا، حضرت زیدؓ کی تقریر ختم ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے کھڑے ہوکر تحسین کی اورکہا خدا تم کو جزائے خیر دے اگر اس کے علاوہ کوئی بات پیش کی جاتی تو غالباً ہم لوگ ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے۔
<ref>(ایضاً:۱۸۶)</ref>
<ref>(ایضاً:186)</ref>
حضرت زیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور انصار سے کہا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔
حضرت زیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور انصار سے کہا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔
آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد سلاطین ووالیان ملک کے خطوط وقتاً فوقتاً موصول ہوتے تھے جو اکثر سریانی میں ہوتے تھے،مدینہ میں سریانی جاننے والے صرف یہود تھے،جن کو اسلام سے شدید بغض وعناد تھا، اس بناء پر مصلحت اوردور اندیشی کا تقاضا تھا کہ خود مسلمان اس زبان کو سیکھیں۔
آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد سلاطین ووالیان ملک کے خطوط وقتاً فوقتاً موصول ہوتے تھے جو اکثر سریانی میں ہوتے تھے،مدینہ میں سریانی جاننے والے صرف یہود تھے،جن کو اسلام سے شدید بغض وعناد تھا، اس بنا پر مصلحت اوردور اندیشی کا تقاضا تھا کہ خود مسلمان اس زبان کو سیکھیں۔
حضرت زیدؓ بن ثابت نہایت ذکی اورفطین تھے ۵ھ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس لوگوں کے خطوط آتے ہیں جن کو میں کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا اس کے سوا مجھے یہود پر اطمینان بھی نہیں اس لئے بہتر ہے کہ تم عبرانی سیکھ لو،چنانچہ حضرت زیدؓ نے ۱۵ دن میں عبرانی اورسریانی میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ خطوط پڑھ لیتے اورجواب لکھ دیتے تھے۔
حضرت زیدؓ بن ثابت نہایت ذکی اورفطین تھے میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس لوگوں کے خطوط آتے ہیں جن کو میں کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا اس کے سوا مجھے یہود پر اطمینان بھی نہیں اس لیے بہتر ہے کہ تم عبرانی سیکھ لو،چنانچہ حضرت زیدؓ نے 15 دن میں عبرانی اورسریانی میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ خطوط پڑھ لیتے اورجواب لکھ دیتے تھے۔
<ref>(مسند:۵/۱۸۶)</ref>
<ref>(مسند:5/186)</ref>
ان کی اسی ذہانت اور علم کی بناء پر آنحضرت ﷺ نے ان کو کتابت کے عہدہ پر سرفراز فرمایا تھا،جس پر وہ آنحضرت کی وفات تک فائز رہے۔
ان کی اسی ذہانت اور علم کی بنا پر آنحضرت ﷺ نے ان کو کتابت کے عہدہ پر سرفراز فرمایا تھا،جس پر وہ آنحضرت کی وفات تک فائز رہے۔
حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں بھی ان کا یہ منصب بحال رہا؛ لیکن اب کام کی کثرت ہوگئی تھی اس لئے معیقیب دوسی ان کے مددگار مقرر کئے گئے۔
حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں بھی ان کا یہ منصب بحال رہا؛ لیکن اب کام کی کثرت ہو گئی تھی اس لیے معیقیب دوسی ان کے مددگار مقرر کیے گئے۔
حکومت اسلامیہ کا ایک جلیل القدر منصب قضا ہے جو حضرت فاروقؓ کے عہدِ میں قائم ہوا، (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قضا حضرت عثمان ؓ کی ایجاد ہے لیکن یہ صحیح نہیں ،حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے درمیانی عہد میں محکمہ قضا کو وجود کا لباس پہنادیا تھا،چنانچہ یزید بن اخت المنر کو محکمۂ قضا کے چند چھوٹے چھوٹے کام سپرد کئے تھے(۷۵) <ref>کنزالعمال بحوالہ طبقات ابن سعد :۳)</ref> اس کے ما سوا بعض روایتوں کے بموجب حضرت علیؓ کو بھی قضا کا کاروبار سونپا گیا تھا،کنز <ref>بحوالہ جامع عبدالرزاق :۳/۱۷۵)</ref> آنحضرت ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کے زمانہ تک اس محکمہ کا مستقل وجود نہ تھا، حضرت عمرؓ نے اس کی بنیاد قائم کی اورحضرت زیدؓ کو مدینہ کا قاضی مقرر کیا ،طبقات ابن سعد اور اخبار القضاۃ میں ہے:
حکومت اسلامیہ کا ایک جلیل القدر منصب قضا ہے جو حضرت فاروقؓ کے عہدِ میں قائم ہوا، (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قضا حضرت عثمان ؓ کی ایجاد ہے لیکن یہ صحیح نہیں ،حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے درمیانی عہد میں محکمہ قضا کو وجود کا لباس پہنادیا تھا،چنانچہ یزید بن اخت المنر کو محکمۂ قضا کے چند چھوٹے چھوٹے کام سپرد کیے تھے(75) <ref>کنزالعمال بحوالہ طبقات ابن سعد :3)</ref> اس کے ما سوا بعض روایتوں کے بموجب حضرت علیؓ کو بھی قضا کا کاروبار سونپا گیا تھا،کنز <ref>بحوالہ جامع عبدالرزاق :3/175)</ref> آنحضرت ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کے زمانہ تک اس محکمہ کا مستقل وجود نہ تھا، حضرت عمرؓ نے اس کی بنیاد قائم کی اورحضرت زیدؓ کو مدینہ کا قاضی مقرر کیا ،طبقات ابن سعد اور اخبار القضاۃ میں ہے:
ان عمر استعمل زیدا علی القضاء وفرض لہ رزقاء
ان عمر استعمل زیدا علی القضاء وفرض لہ رزقاء
یعنی حضرت عمرؓ نے زید کو قاضی بنایا اوران کی تنخواہ مقرر کی۔
یعنی حضرت عمرؓ نے زید کو قاضی بنایا اوران کی تنخواہ مقرر کی۔
اس وقت تک قاضی کے لئے عدالت کی عمارت تعمیر نہیں ہوئی تھی اس لئے زیدؓ کا گھر دار القضا کا کام دیتا تھا،مکان فرش سے آراستہ تھا، اس کے صدر میں حضرت زیدؓ فیصلہ کے وقت متمکن ہوتے تھے ،دار الخلافت اور تمام قرب وجوار کے مقدمات حضرت زیدؓ کے پاس آتے تھے،یہاں تک کہ خود خلیفۂ وقت (حضرت عمرؓ) پر بھی یہاں دعوے داخل کئےجاتے تھے اوراس کا فیصلہ بھی یہیں ہوتا تھا۔
اس وقت تک قاضی کے لیے عدالت کی عمارت تعمیر نہیں ہوئی تھی اس لیے زیدؓ کا گھر دار القضا کا کام دیتا تھا،مکان فرش سے آراستہ تھا، اس کے صدر میں حضرت زیدؓ فیصلہ کے وقت متمکن ہوتے تھے ،دار الخلافت اور تمام قرب وجوار کے مقدمات حضرت زیدؓ کے پاس آتے تھے،یہاں تک کہ خود خلیفۂ وقت (حضرت عمرؓ) پر بھی یہاں دعوے داخل کئےجاتے تھے اوراس کا فیصلہ بھی یہیں ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ میں کچھ نزاع ہوئی، حضرت زیدؓ کی عدالت میں مقدمہ دائر ہوا، حضرت عمرؓ مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے،حضرت زیدؓ نے جیسا کہ آج بھی امراء و روساء کو کرسی دینے کا دستور ہے حضرت عمرؓ کے لئے اپنی جگہ خالی کردی،لیکن مساوات کا جو اصول اسلام نے قائم کیا تھا، صحابہؓ اس پر نہایت شدت سے عمل پیرا تھے،خصوصاً حضرت عمرؓ نےاس کو نہایت عام کردیا تھا، اس بناء پر حضرت عمرؓ نے زیدؓ سے فرمایا کہ یہ آپ کی پہلی نا انصافی ہے مجھ کو اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا ہے؛چنانچہ دونوں بزرگ عدالت کے سامنے بیٹھے،مقدمہ پیش ہوا، حضرت ابیؓ مدعی تھے اورحضرت عمرؓ کو انکار تھا، شرعاً منکر پر قسم واجب ہوتی ہے ؛لیکن حضرت زیدؓ نے خلافت کے ادب واحترام کی بنا پر مدعی سے درخواست کی کہ اگرچہ یہ قاعدہ نہیں تاہم آپ امیر المومنین کو قسم سے معاف کردیجئے۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ میں کچھ نزاع ہوئی، حضرت زیدؓ کی عدالت میں مقدمہ دائر ہوا، حضرت عمرؓ مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے،حضرت زیدؓ نے جیسا کہ آج بھی امرا و روساء کو کرسی دینے کا دستور ہے حضرت عمرؓ کے لیے اپنی جگہ خالی کردی،لیکن مساوات کا جو اصول اسلام نے قائم کیا تھا، صحابہؓ اس پر نہایت شدت سے عمل پیرا تھے،خصوصاً حضرت عمرؓ نےاس کو نہایت عام کر دیا تھا، اس بنا پر حضرت عمرؓ نے زیدؓ سے فرمایا کہ یہ آپ کی پہلی نا انصافی ہے مجھ کو اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا ہے؛چنانچہ دونوں بزرگ عدالت کے سامنے بیٹھے،مقدمہ پیش ہوا، حضرت ابیؓ مدعی تھے اورحضرت عمرؓ کو انکار تھا، شرعاً منکر پر قسم واجب ہوتی ہے ؛لیکن حضرت زیدؓ نے خلافت کے ادب واحترام کی بنا پر مدعی سے درخواست کی کہ اگرچہ یہ قاعدہ نہیں تاہم آپ امیر المومنین کو قسم سے معاف کردیجئے۔
حضرت عمرؓ نے کہا اس رعایت کی ضرورت نہیں،فیصلہ میں عمر اورایک عام مسلمان آپ کے نزدیک برابر ہونے چاہیے۔
حضرت عمرؓ نے کہا اس رعایت کی ضرورت نہیں،فیصلہ میں عمر اورایک عام مسلمان آپ کے نزدیک برابر ہونے چاہیے۔
<ref>(کنزالعمال:۳/۱۷۴،بحوالہ بخاری وشکم)</ref>
<ref>(کنزالعمال:3/174،بحوالہ بخاری وشکم)</ref>
== بیت المال کی افسری ==
== بیت المال کی افسری ==
ممالک اسلامیہ میں اگرچہ بہت سے مقامی بیت المال قائم تھے، حضرت زیدؓ اس کے افسر تھے، ۳۱ھ میں حضرت عثمانؓ نے یہ عہدہ ان کو تفویض فرمایا تھا،بیت المال کے عملہ میں زیدؓ کا ایک غلام وہیب بھی تھا وہ نہایت ہوشیارتھا اور بیت المال کے کاموں میں مدد دیتا تھا، ایک دن وہ بیت المال میں گنگنارہا تھا کہ حضرت عثمانؓ آگئے پوچھا یہ کون ہے، زیدؓ نے کہا میرا مملوک ہے،حضرت عثمانؓ نے فرمایا،اس کا ہم پر حق ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی مددکرتا ہے (بیت المال کے کام کی طرف اشارہ تھا) چنانچہ ۲ ہزار اس کا وظیفہ مقرر کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا،لیکن حضرت زیدؓ کے مزاج میں عصبیت تھی وحروعبد کو ایک نگاہ سے دیکھ نہ سکتے تھے حضرت عثمانؓ سے کہا دو ہزار نہیں ؛بلکہ ایک ہزار مقرر کیجئے،حضرت عثمانؓ نے ان کی درخواست منظور کرلی اوراس کا وظیفہ ایک ہزار مقرر کردیا۔
ممالک اسلامیہ میں اگرچہ بہت سے مقامی بیت المال قائم تھے، حضرت زیدؓ اس کے افسر تھے، 31ھ میں حضرت عثمانؓ نے یہ عہدہ ان کو تفویض فرمایا تھا،بیت المال کے عملہ میں زیدؓ کا ایک غلام وہیب بھی تھا وہ نہایت ہوشیارتھا اور بیت المال کے کاموں میں مدد دیتا تھا، ایک دن وہ بیت المال میں گنگنارہا تھا کہ حضرت عثمانؓ آگئے پوچھا یہ کون ہے، زیدؓ نے کہا میرا مملوک ہے،حضرت عثمانؓ نے فرمایا،اس کا ہم پر حق ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی مددکرتا ہے (بیت المال کے کام کی طرف اشارہ تھا) چنانچہ 2 ہزار اس کا وظیفہ مقرر کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا،لیکن حضرت زیدؓ کے مزاج میں عصبیت تھی وحروعبد کو ایک نگاہ سے دیکھ نہ سکتے تھے حضرت عثمانؓ سے کہا دو ہزار نہیں ؛بلکہ ایک ہزار مقرر کیجئے،حضرت عثمانؓ نے ان کی درخواست منظور کرلی اوراس کا وظیفہ ایک ہزار مقرر کر دیا۔
== مجلس شوریٰ کی رکنیت ==
== مجلس شوریٰ کی رکنیت ==
حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں انصار ومہاجرین کے ممتاز اصحاب کی جو مجلسِ شوریٰ تھی،حضرت زیدؓ بھی اس کے ایک رکن تھے، حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اسی جماعت کو باضابطہ کونسل قراردیا تھا،حضرت زیدؓ اس کے بھی ممبر تھے۔
حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں انصار ومہاجرین کے ممتاز اصحاب کی جو مجلسِ شوریٰ تھی،حضرت زیدؓ بھی اس کے ایک رکن تھے، حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اسی جماعت کو باضابطہ کونسل قراردیا تھا،حضرت زیدؓ اس کے بھی ممبر تھے۔
سطر 48: سطر 48:
حضرت زیدؓ میں علمی و دینی کمالات کے ساتھ انتظامی قابلیت بھی تھی اوران پر اتنا اعتماد تھا کہ حضرت عمرؓ نے جب مدینہ سے سفر کیا تو اپنا جانشین انہی کو مقرر کیا،حضرت عثمانؓ کا بھی یہی طرز عمل رہا، وہ جب حج کو مکہ معظمہ روانہ ہوتے تو زیدؓ کو کاروبار خلافت سپرد کرجاتے تھے۔
حضرت زیدؓ میں علمی و دینی کمالات کے ساتھ انتظامی قابلیت بھی تھی اوران پر اتنا اعتماد تھا کہ حضرت عمرؓ نے جب مدینہ سے سفر کیا تو اپنا جانشین انہی کو مقرر کیا،حضرت عثمانؓ کا بھی یہی طرز عمل رہا، وہ جب حج کو مکہ معظمہ روانہ ہوتے تو زیدؓ کو کاروبار خلافت سپرد کرجاتے تھے۔
خلافت فاروقی میں زیدؓ کو تین مرتبہ حضرت عمرؓ کی ہم نشینی کا فخر حاصل ہوا۔
خلافت فاروقی میں زیدؓ کو تین مرتبہ حضرت عمرؓ کی ہم نشینی کا فخر حاصل ہوا۔
۱۶ ھ اور ۱۷ھ میں دو مرتبہ حضرت عمرؓ کے حج کے موقع پر تیسری مرتبہ ان کے شام کے سفر کے زمانہ میں شام پہنچ کر زیدؓ کو آپ نے جب خط لکھا تو اس میں زید کا نام اپنے نام سے پہلے تحریر کیا یعنی "الی زید بن ثابت من عمر بن الخطاب" ہر دفعہ حضرت زیدؓ نے خلافت کی ذمہ داریوں کو نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیا، حضرت عمرؓ ان کے انتظام سےبہت خوش ہوتے اور واپس آکر ان کو کچھ جاگیر دیاکرتے تھے۔
16 ھ اور 17ھ میں دو مرتبہ حضرت عمرؓ کے حج کے موقع پر تیسری مرتبہ ان کے شام کے سفر کے زمانہ میں شام پہنچ کر زیدؓ کو آپ نے جب خط لکھا تو اس میں زید کا نام اپنے نام سے پہلے تحریر کیا یعنی "الی زید بن ثابت من عمر بن الخطاب" ہر دفعہ حضرت زیدؓ نے خلافت کی ذمہ داریوں کو نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیا، حضرت عمرؓ ان کے انتظام سےبہت خوش ہوتے اور واپس آکر ان کو کچھ جاگیر دیاکرتے تھے۔
== وفات ==
== وفات ==
پچپن،چھپن سال کا سن مبارک تھا کہ پیام اجل آگیا اور 45ھ میں وفات پائی اس وقت تخت حکومت پر امیر معاویہ متمکن تھے اور مروان بن حکم مدینہ منورہ کا امیر تھا وہ زید سے دوستانہ تعلقات رکھتا تھا، چنانچہ اسی نے نماز جنازہ پڑھائی تمام لوگ سخت غمگین تھے، ابوہریرہ نے موت کی خبر سن کر کہا آج حبرالامۃ اٹھ گیا۔
پچپن،چھپن سال کا سن مبارک تھا کہ پیام اجل آگیا اور 45ھ میں وفات پائی اس وقت تخت حکومت پر امیر معاویہ متمکن تھے اور مروان بن حکم مدینہ منورہ کا امیر تھا وہ زید سے دوستانہ تعلقات رکھتا تھا، چنانچہ اسی نے نماز جنازہ پڑھائی تمام لوگ سخت غمگین تھے، ابوہریرہ نے موت کی خبر سن کر کہا آج حبرالامۃ اٹھ گیا۔

نسخہ بمطابق 18:05، 14 جون 2021ء

زید بن ثابت
(عربی میں: زيد بن ثابت ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 611ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 665ء (53–54 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ فاطمہ بنت مجلل   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاد محمد بن عبداللہ   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگرد محمد بن سیرین   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مفسر قرآن ،  قاضی ،  فوجی افسر ،  کاتب   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  عبرانی ،  سریانی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تفسیر قرآن ،  فقہ ،  اسلامی قانون وراثت   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ فوجی   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ خندق   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

زید بن ثابت انصاری صحابی بڑے فقیہ ہیں، کاتب وحی ہیں۔

نام ونسب اور ابتدائی حالات

زید نام،ابو سعید، ابوخارجہ،ابو عبد الرحمن کنیت، مقری، فرضی کاتب الوحی، جرالامت القاب،قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے زید بن ثابت بن ضحاک بن زید بن لوذان بن عمرو بن عبد بن عوف بن غنم بن مالک بن نجار، والدہ کا نام نوار بنت مالک بن معاویہ بن عدی تھا، جوانس بن مالک کے خاندان سے تھیں۔ انصار میں اسلام سے پہلے جو لڑائیاں ہوئی تھیں ان میں یوم بعاث سب سے زیادہ مشہور ہے،زید کے والد اسی لڑائی میں قتل ہوئے،یہ واقعہ ہجرت سے 5 سال قبل کا ہے اس وقت ان کی عمر کل6 برس کی تھی۔

اسلام

اسلام مدینہ میں مسافر کی حیثیت سے تھا مصعب بن عمیر مبلغ اسلام، توحید ورسالت کا وعظ کہہ رہے تھے،زیدنے اسی صغر سنی میں اسلام قبول کیا، کسی انسان کا اگر بلوغ سے قبل ایمان لانا باعث فخر و مباہات ہو سکتا ہے، توزیدنے گیارہ سال کی عمر میں یہ فخر حاصل کیا اور ابتدا ہی سے ان کا دامن شرک کے داغ سے پاک رہا۔

غزوات میں شرکت

زیدؓ کا سن 13سال کا تھا کہ غزوہ بدر پیش آیا، انصار ومہاجرین کا مجمع جب میدان جنگ کو روانہ ہوا تو 13برس کے اس بچہ نے بھی لڑائی کا عزم بالجزم کیا اور رسول اللہﷺ کے روبروبچوں کی ایک جماعت کے ساتھ پیش ہوئے،آپﷺ نے ان کی کم سنی پر نظر فرماکر واپس کر دیا۔ غزوۂ احد کی شرکت کے متعلق بھی اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ غزوۂ خندق جو 5ھ میں واقع ہوا تھا، زیدؓ کا پہلا غزوہ تھا، اس وقت ان کا سن 16 سال کا تھا اور وہ شرکت جہاد کی عمر کے مطابق ہوچکے تھے۔ غزوۂ خندق میں وہ آنحضرتﷺ کے ہمراہ معرکہ کارزار میں موجود تھے اورخندق کھودنے والی جماعت میں شامل تھے اورمٹی نکال کر باہر لاتے تھے آنحضرتﷺ کی نظر پڑی تو فرمایا کیسا اچھا لڑکا ہے؟ اتفاق سے ان کو نیند آگئی،عمارہ بن حزم نے دیکھا تو مذاق سے ان کے ہتھیار اتار لیے،زید کو خبر نہ ہوئی، آنحضرتﷺ پاس تھے مزاحاً فرمایا"یا ابارقاد"یعنی اے نیند کے باپ اٹھ اور لوگوں کو منع فرمایا کہ اس قسم کا مذاق نہ کیا کریں۔ غزوۂ تبوک میں ان کے قبیلہ مالک بن نجارہ کا علم عمارہ بن حزم کے ہاتھ میں تھا، بعد میں آنحضرت ﷺ نے ان سے لے کر زیدکو عطا فرمایا، عمارہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے کون سی خطا ہوئی ،فرمایا کچھ نہیں مجھے قرآن کا لحاظ مد نظر ہے،زید تم سے زیادہ قرآن پڑھ چکے ہیں۔ جنگ یمامہ میں جو ابوبکرکے عہدِ مبارک میں مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی زید شامل تھے اس میں ان کو ایک تیر لگا، لیکن جس کا کوئی صدمہ نہیں پہنچا۔

قرآن کا علم

زید نے مسلمان ہوتے ہی قرآن پڑھنا شروع کیا،اس بنا پر لوگ ان کو نہایت عزت کی نظر سے دیکھتے تھے،جب آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے،تویہ 17سورتوں کے حافظ ہوچکے تھے،لوگ ان کو آپ کی خدمت میں لے گئے اورکہا کہ یہ بنی نجار سے ہیں اور 17 سورتیں پڑھ چکے ہیں،آنحضرتﷺ سن کر بہت خوش ہوئے ،زیدؓ نے قرآن سنایا تو آپ کو بڑا تعجب ہوا۔ ، علم میراث کے امام ہیں، قرآن مجید جمع کرنے والی جماعت کے امیر ہیں کہ آپ نے اپنی جماعت کے ساتھ خلافت صدیقی میں قرآن مجید جمع کیا اور عہد عثمانی میں اسے مصاحف میں نقل فرمایا، آپ سے بڑی مخلوق نے احادیث روایت کیں، پچپن سال عمر پائی 45ہجری میں وفات ہوئی۔[2]

امارت مدینہ منورہ

زیدمیں علمی و دینی کمالات کے ساتھ انتظامی قابلیت بھی تھی اوران پر اتنا اعتماد تھا کہ عمر نے جب مدینہ سے سفر کیا تو اپنا جانشین انہی کو مقرر کیا،حضرت عثمانؓ کا بھی یہی طرز عمل رہا، وہ جب حج کو مکہ معظمہ روانہ ہوتے تو زیدؓ کو کاروبار خلافت سپرد کرجاتے تھے۔ خلافت فاروقی میں زید کو تین مرتبہ عمر کی ہم نشینی کا فخر حاصل ہوا۔ 16 ھ اور 17ھ میں دو مرتبہ عمرکے حج کے موقع پر تیسری مرتبہ ان کے شام کے سفر کے زمانہ میں شام پہنچ کر زیدکو آپ نے جب خط لکھا تو اس میں زید کا نام اپنے نام سے پہلے تحریر کیا یعنی "الی زید بن ثابت من عمر بن الخطاب" ہر دفعہ زید نے خلافت کی ذمہ داریوں کو نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیا، عمران کے انتظام سے بہت خوش ہوتے اور واپس آکر ان کو کچھ جاگیر دیاکرتے تھے۔

اصلاح امت

رسول اللہ ﷺ کے وصال کے ساتھ ہی انصار میں خلافت کا مسئلہ پیش ہو گیا،سقیفہ بنی ساعدہ میں تمام انصار جمع تھے اور رئیس انصار سعد بن عبادہ مجلس کے صدر نشین تھے، انہی کے انتخاب پر لوگوں کی تقریریں ہورہی تھیں، انصار کی بڑی جماعت ان کی تائید میں تھی، حضرت زید بن ثابتؓ بھی جلسہ میں موجود تھے،مگر رجحان عام کے خلاف آواز بلند کرنا اس وقت کوئی آسان کام نہ تھا،اس لیے خاموش تھے۔ اس کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت ابو عبیدہؓ، سقیفہ میں پہنچے اور مہاجرین کی طرف سے حضرت عمرؓ نے خلافت کی بحث شروع کی تو سب سے پہلے جس انصاری نے ان کی تائید کی وہ حضرت زید بن ثابتؓ تھے، انصار کی تقریریں ختم ہونے کے بعد انہوں نے ایک مختصر مگر پر معنی تقریر کی جس کا ایک فقرہ یہ تھا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَإِنَّمَا الْإِمَامُ يَكُونُ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَنَحْنُ أَنْصَارُهُ كَمَا كُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [3] یعنی رسول اللہ ﷺ مہاجرین میں سے تھے اس لیے امام کا بھی مہاجرین میں سے انتخاب ہونا چاہیے اورہم اس کے انصار رہیں گے جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ کے انصار تھے۔ ان کی یہ صدا ان کی قوم کے خلاف تھی،تاہم کوئی اس کو دبانہ سکتا تھا، حضرت زیدؓ کی تقریر ختم ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے کھڑے ہوکر تحسین کی اورکہا خدا تم کو جزائے خیر دے اگر اس کے علاوہ کوئی بات پیش کی جاتی تو غالباً ہم لوگ ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ [4] حضرت زیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور انصار سے کہا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد سلاطین ووالیان ملک کے خطوط وقتاً فوقتاً موصول ہوتے تھے جو اکثر سریانی میں ہوتے تھے،مدینہ میں سریانی جاننے والے صرف یہود تھے،جن کو اسلام سے شدید بغض وعناد تھا، اس بنا پر مصلحت اوردور اندیشی کا تقاضا تھا کہ خود مسلمان اس زبان کو سیکھیں۔ حضرت زیدؓ بن ثابت نہایت ذکی اورفطین تھے 5ھ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس لوگوں کے خطوط آتے ہیں جن کو میں کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا اس کے سوا مجھے یہود پر اطمینان بھی نہیں اس لیے بہتر ہے کہ تم عبرانی سیکھ لو،چنانچہ حضرت زیدؓ نے 15 دن میں عبرانی اورسریانی میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ خطوط پڑھ لیتے اورجواب لکھ دیتے تھے۔ [5] ان کی اسی ذہانت اور علم کی بنا پر آنحضرت ﷺ نے ان کو کتابت کے عہدہ پر سرفراز فرمایا تھا،جس پر وہ آنحضرت کی وفات تک فائز رہے۔ حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں بھی ان کا یہ منصب بحال رہا؛ لیکن اب کام کی کثرت ہو گئی تھی اس لیے معیقیب دوسی ان کے مددگار مقرر کیے گئے۔ حکومت اسلامیہ کا ایک جلیل القدر منصب قضا ہے جو حضرت فاروقؓ کے عہدِ میں قائم ہوا، (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قضا حضرت عثمان ؓ کی ایجاد ہے لیکن یہ صحیح نہیں ،حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے درمیانی عہد میں محکمہ قضا کو وجود کا لباس پہنادیا تھا،چنانچہ یزید بن اخت المنر کو محکمۂ قضا کے چند چھوٹے چھوٹے کام سپرد کیے تھے(75) [6] اس کے ما سوا بعض روایتوں کے بموجب حضرت علیؓ کو بھی قضا کا کاروبار سونپا گیا تھا،کنز [7] آنحضرت ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کے زمانہ تک اس محکمہ کا مستقل وجود نہ تھا، حضرت عمرؓ نے اس کی بنیاد قائم کی اورحضرت زیدؓ کو مدینہ کا قاضی مقرر کیا ،طبقات ابن سعد اور اخبار القضاۃ میں ہے: ان عمر استعمل زیدا علی القضاء وفرض لہ رزقاء یعنی حضرت عمرؓ نے زید کو قاضی بنایا اوران کی تنخواہ مقرر کی۔ اس وقت تک قاضی کے لیے عدالت کی عمارت تعمیر نہیں ہوئی تھی اس لیے زیدؓ کا گھر دار القضا کا کام دیتا تھا،مکان فرش سے آراستہ تھا، اس کے صدر میں حضرت زیدؓ فیصلہ کے وقت متمکن ہوتے تھے ،دار الخلافت اور تمام قرب وجوار کے مقدمات حضرت زیدؓ کے پاس آتے تھے،یہاں تک کہ خود خلیفۂ وقت (حضرت عمرؓ) پر بھی یہاں دعوے داخل کئےجاتے تھے اوراس کا فیصلہ بھی یہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ میں کچھ نزاع ہوئی، حضرت زیدؓ کی عدالت میں مقدمہ دائر ہوا، حضرت عمرؓ مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے،حضرت زیدؓ نے جیسا کہ آج بھی امرا و روساء کو کرسی دینے کا دستور ہے حضرت عمرؓ کے لیے اپنی جگہ خالی کردی،لیکن مساوات کا جو اصول اسلام نے قائم کیا تھا، صحابہؓ اس پر نہایت شدت سے عمل پیرا تھے،خصوصاً حضرت عمرؓ نےاس کو نہایت عام کر دیا تھا، اس بنا پر حضرت عمرؓ نے زیدؓ سے فرمایا کہ یہ آپ کی پہلی نا انصافی ہے مجھ کو اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا ہے؛چنانچہ دونوں بزرگ عدالت کے سامنے بیٹھے،مقدمہ پیش ہوا، حضرت ابیؓ مدعی تھے اورحضرت عمرؓ کو انکار تھا، شرعاً منکر پر قسم واجب ہوتی ہے ؛لیکن حضرت زیدؓ نے خلافت کے ادب واحترام کی بنا پر مدعی سے درخواست کی کہ اگرچہ یہ قاعدہ نہیں تاہم آپ امیر المومنین کو قسم سے معاف کردیجئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا اس رعایت کی ضرورت نہیں،فیصلہ میں عمر اورایک عام مسلمان آپ کے نزدیک برابر ہونے چاہیے۔ [8]

بیت المال کی افسری

ممالک اسلامیہ میں اگرچہ بہت سے مقامی بیت المال قائم تھے، حضرت زیدؓ اس کے افسر تھے، 31ھ میں حضرت عثمانؓ نے یہ عہدہ ان کو تفویض فرمایا تھا،بیت المال کے عملہ میں زیدؓ کا ایک غلام وہیب بھی تھا وہ نہایت ہوشیارتھا اور بیت المال کے کاموں میں مدد دیتا تھا، ایک دن وہ بیت المال میں گنگنارہا تھا کہ حضرت عثمانؓ آگئے پوچھا یہ کون ہے، زیدؓ نے کہا میرا مملوک ہے،حضرت عثمانؓ نے فرمایا،اس کا ہم پر حق ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی مددکرتا ہے (بیت المال کے کام کی طرف اشارہ تھا) چنانچہ 2 ہزار اس کا وظیفہ مقرر کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا،لیکن حضرت زیدؓ کے مزاج میں عصبیت تھی وحروعبد کو ایک نگاہ سے دیکھ نہ سکتے تھے حضرت عثمانؓ سے کہا دو ہزار نہیں ؛بلکہ ایک ہزار مقرر کیجئے،حضرت عثمانؓ نے ان کی درخواست منظور کرلی اوراس کا وظیفہ ایک ہزار مقرر کر دیا۔

مجلس شوریٰ کی رکنیت

حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں انصار ومہاجرین کے ممتاز اصحاب کی جو مجلسِ شوریٰ تھی،حضرت زیدؓ بھی اس کے ایک رکن تھے، حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اسی جماعت کو باضابطہ کونسل قراردیا تھا،حضرت زیدؓ اس کے بھی ممبر تھے۔

امارت مدینہ منورہ

حضرت زیدؓ میں علمی و دینی کمالات کے ساتھ انتظامی قابلیت بھی تھی اوران پر اتنا اعتماد تھا کہ حضرت عمرؓ نے جب مدینہ سے سفر کیا تو اپنا جانشین انہی کو مقرر کیا،حضرت عثمانؓ کا بھی یہی طرز عمل رہا، وہ جب حج کو مکہ معظمہ روانہ ہوتے تو زیدؓ کو کاروبار خلافت سپرد کرجاتے تھے۔ خلافت فاروقی میں زیدؓ کو تین مرتبہ حضرت عمرؓ کی ہم نشینی کا فخر حاصل ہوا۔ 16 ھ اور 17ھ میں دو مرتبہ حضرت عمرؓ کے حج کے موقع پر تیسری مرتبہ ان کے شام کے سفر کے زمانہ میں شام پہنچ کر زیدؓ کو آپ نے جب خط لکھا تو اس میں زید کا نام اپنے نام سے پہلے تحریر کیا یعنی "الی زید بن ثابت من عمر بن الخطاب" ہر دفعہ حضرت زیدؓ نے خلافت کی ذمہ داریوں کو نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیا، حضرت عمرؓ ان کے انتظام سےبہت خوش ہوتے اور واپس آکر ان کو کچھ جاگیر دیاکرتے تھے۔

وفات

پچپن،چھپن سال کا سن مبارک تھا کہ پیام اجل آگیا اور 45ھ میں وفات پائی اس وقت تخت حکومت پر امیر معاویہ متمکن تھے اور مروان بن حکم مدینہ منورہ کا امیر تھا وہ زید سے دوستانہ تعلقات رکھتا تھا، چنانچہ اسی نے نماز جنازہ پڑھائی تمام لوگ سخت غمگین تھے، ابوہریرہ نے موت کی خبر سن کر کہا آج حبرالامۃ اٹھ گیا۔

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ عنوان : Зейд ибн Сабит
  2. مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، مفتی احمد یار خان، جلد 8، صفحہ605
  3. (مسند احمد،باب حدیث زید بن ثابت عن النبی ﷺ،حدیث نمبر:20631)
  4. (ایضاً:186)
  5. (مسند:5/186)
  6. کنزالعمال بحوالہ طبقات ابن سعد :3)
  7. بحوالہ جامع عبدالرزاق :3/175)
  8. (کنزالعمال:3/174،بحوالہ بخاری وشکم)