"سواد بن قارب" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 12: سطر 12:
== حلیہ ==
== حلیہ ==
<big>صورۃ نہایت حسین و جمیل تھے۔</big>
<big>صورۃ نہایت حسین و جمیل تھے۔</big>
== فضل وکمال ==
<big>مذہبی حیثیت سے ان کا کوئی پایہ نہ تھا لیکن زمانہ جاہلیت میں بہت ممتاز حیثیت رکھتے تھے،کہانت میں جو زمانہ جاہلیت کا بڑا معزز علم تھا، یدِ طولیٰ رکھتے تھے، شاعر بھی تھے؛چنانچہ حضرت عمرؓ کو خواب کی داستان نظم ہی میں سنائی تھی۔
<ref>(حاکم نے مستدرک میں یہ اشعار نقل کئے ہیں)</ref></big>

نسخہ بمطابق 00:42، 19 جون 2021ء

حضرت سواد ؓبن قارب
معلومات شخصیت

نام ونسب

سواد نام،باپ کا نام قارب تھا،یمن کے مشہور قبیلہ دوس سے نسبی تعلق تھا،زمانہ جاہلیت میں کہانت کا پیشہ کرتے تھے۔

اسلام

ہجرت مدینہ کے زمانہ میں خواب میں ظہور نبوی کی بشارت ملی ،رویائے صادقہ دل میں اثر کر گیا، فورا وطن سے مکہ روانہ ہوگئے،راستہ میں خبرملی کہ جس گو ہر مقصود کی تلاش میں نکلے ہیں وہ مدینہ جاچکا، یعنی آنحضرتﷺ ہجرت فرماچکے ،یہ خبر سن کر راستہ ہی سے مدینہ لوٹ پڑے، وہاں پہنچکر آنحضرتﷺ کو پوچھا،معلوم ہوا مسجد میں تشریف فرما ہیں، اونٹ بٹھا کر مسجد پہنچے، آنحضرتﷺ کے گرد صحابہ کا مجمع تھا عرض کیا یا رسول اللہ کچھ میری داستان بھی سنی جائے، حضرت ابوبکرؓ نے کہا قریب آکر بیان کرو، چنانچہ پاس جاکر انہوں نے پوری سرگذشت سنائی اوراسی وقت خلعتِ اسلام سے سرفراز ہوگئے،ان کے اسلام سے آنحضرتﷺ اورصحابہ کرام کو اتنی مسرت ہوئی کہ ان کےچہروں پر خوشی کا رنگ دوڑ گیا اس غیر معمولی مسرت کا سبب یہ تھا کہ عربوں میں کاہنوں کی بڑی وقعت تھی اورانہیں ایک طرح کی مذہبی سیادت حاصل تھے، اس لیے عوام پر ان کے اسلام کا اثر بہت اچھا پڑتا تھا۔ حضرت عمرؓ ان کاخواب ذوق و شوق سے سنا کرتے تھے، ایک مرتبہ یہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے، آپ نےپوچھا اب بھی تم کو کہانت میں کچھ دخل ہے، چونکہ اسلام کہانت کا مخالف تھا اور سواد کے زنگِ کہانت کو اسلام کے صیقل نے بالکل صاف کردیا تھا، اس لیے اس سوال سے قدرۃ سواد کو تکلیف ہوئی،برہم ہوکر جواب دیا، سبحان اللہ ! خدا کی قسم اس وقت جس طرح آپ نے میرا استقبال کیا ویسا میرے کسی ساتھی نے نہ کیا تھا، حضرت عمرؓ نے اس برہمی پر فرمایا سبحان اللہ ! جس کفر وشرک میں ہم مبتلا تھے وہ تمہارے کہانت سے کہیں بڑھ کر تھا( یعنی ہماری اسلام کے قبل کی حالت تم سے بھی بد تر تھی، اس لیے تم کو اس سوال پر بگڑنا نہ چاہیے) میں نے تمہارا واقعہ سناہے ،وہ مجھ کو بہت عجیب وغریب معلوم ہوا، اس لیے میں اس کو خود تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں، حضرت عمرؓ کی خواہش پر انہوں نے پورا واقعہ سنایا۔ [1]

وفات

وفات کے بارے میں ارباب سیر خاموش ہیں۔

حلیہ

صورۃ نہایت حسین و جمیل تھے۔

فضل وکمال

مذہبی حیثیت سے ان کا کوئی پایہ نہ تھا لیکن زمانہ جاہلیت میں بہت ممتاز حیثیت رکھتے تھے،کہانت میں جو زمانہ جاہلیت کا بڑا معزز علم تھا، یدِ طولیٰ رکھتے تھے، شاعر بھی تھے؛چنانچہ حضرت عمرؓ کو خواب کی داستان نظم ہی میں سنائی تھی۔ [2]

  1. (اسد الغابہ:۲/۳۷۵)
  2. (حاکم نے مستدرک میں یہ اشعار نقل کئے ہیں)