"حملہ اولی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
« '''حملہ اولی''' 61 ھ میں کربلا کے مقام پر عاشور کے دن امام حسین کے مختصر قافلے پر ہزاروں یزیدی افواج کا نا جوانمردانہ دھاوا حملہ اولی کہلاتا ہے۔ حقیقتًا تاریخ کا یہ یادگار اور حیرت انگیز واقعہ ہے کہ تیس ہزار فوج کے مقابلہ پر بہتر یا زیا...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''حملہ اولی''' 61 ھ میں کربلا کے مقام پر [[عاشورا|عاشور]] کے دن [[امام حسین]] کے مختصر قافلے پر ہزاروں یزیدی افواج کا نا جوانمردانہ دھاوا حملہ اولی کہلاتا ہے۔
'''حملہ اولی''' 61 ھ میں کربلا کے مقام پر [[عاشورا|عاشور]] کے دن [[امام حسین]] کے مختصر قافلے پر ہزاروں یزیدی افواج کا نا جوانمردانہ دھاوا حملہ اولی کہلاتا ہے۔


حقیقتًا تاریخ کا یہ یادگار اور حیرت انگیز واقعہ ہے کہ تیس ہزار فوج کے مقابلہ پر بہتر یا زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو نفوس ہوں اور وہ بھی تین دن کے بھوکے پیاسے اور اس کے باوجود وہ فوجِ کثیر اس جماعتِ قلیل سے نقصان پر نقصان اور شکست پر شکست اٹھائے اور اس کے بنائے کچھ نہ بنے۔صبح سے دوپہر کے قریب تک کا وقت آجائے اور حسینی جماعت کی صف مثل ایک مضبوط و محکم آھنی دیوار کے سامنے موجود رھے۔اس کے برخلاف افواجِ یزید میں اضطراب و بدنظمی کے آثار نمایاں ہوں اور وہ کسی ایک طریقہ جنگ پر قائم نہ رہ سکیں۔راوی کا بیان ہے کہ اصحابِ حسین علیہ السلام نے سخت جنگ کی اور ان میں کے سواروں نے جو تعداد میں صرف بتیس (32) تھے لشکرِ یزید پر تابڑ توڑ حملے کیے اور وہ جس صف پر حملہ کرتے تھے اسکو منتشر کردیتے تھے۔چنانچہ جب عزرہ بن قیس نے جو لشکریزید کے سواروں کی فوج کا افسر تھا یہ دیکھا تو اس نے عمر بن سعد کے پاس عبدالرحمٰن بن حصین کو یہ پیغام دیکر بھیجا کہ 'آپ دیکھتے ہیں کہ آج صبح سے اس چھوٹی سی جماعت کے ہاتھوں میری فوج کی کیا حالت ہے؟اب آپ پیادوں کی فوج اور تیراندازوں کے دستوں کو بھیجئے کہ وہ مقابلہ کریں' لشکریزید کےلیے کس درجہ شرم کا مقام تھا کہ اس کے سواروں کا افسر ہمت ہار چکا تھا اور کھلے ہوئے الفاظ میں اقرارِ شکست کرلیا۔اس کے بعد پیادوں کی طرف رجوع کیا گیا اور شبث بن ربعی کو پیادہ فوج کا افسر تھا عمر سعد کا یہ تہدیدی پیغام پہنچا کہ تم آگے کیوں نہیں بڑھتے مگر اس نے حقارت آمیز جواب دیا کہ 'افسوس ہے اس مہم کو سر کرنے کےلیے سواروں کی اتنی بڑی فوج ناکافی سمجھی جائے اور میرے ایسے بڑے سردار کو زحمت دی جائے اور پھر تیراندازوں کی بھی ضرورت محسوس ہورھی ہو کیا میرے سوا کوئی اور اس مہم کو سر کرنے کےلیے نہیں ملتا؟یہ سنکر مجبورًا عمر سعد نے حصین بن تمیم کو اسی فوج کے ساتھ جو قادسیہ کی سرحد میں ناکہ بندی کی غرض سے تعینات رہ چکی تھی پانچ سو تیراندازوں کے اضافہ کے ساتھ مامور کیا کہ وہ آگے بڑھے اور خیمہ حسینی کے نزدیک جاکر پاس سے ان پر تیروں کا مینہ برسائے۔
حقیقتًا تاریخ کا یہ یادگار اور حیرت انگیز واقعہ ہے کہ تیس ہزار فوج کے مقابلہ پر بہتر یا زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو نفوس ہوں اور وہ بھی تین دن کے بھوکے پیاسے اور اس کے باوجود وہ فوجِ کثیر اس جماعتِ قلیل سے نقصان پر نقصان اور شکست پر شکست اٹھائے اور اس کے بنائے کچھ نہ بنے۔صبح سے دوپہر کے قریب تک کا وقت آجائے اور حسینی جماعت کی صف مثل ایک مضبوط و محکم آھنی دیوار کے سامنے موجود رھے۔اس کے برخلاف افواجِ یزید میں اضطراب و بدنظمی کے آثار نمایاں ہوں اور وہ کسی ایک طریقہ جنگ پر قائم نہ رہ سکیں۔راوی کا بیان ہے کہ اصحابِ حسین علیہ السلام نے سخت جنگ کی اور ان میں کے سواروں نے جو تعداد میں صرف بتیس (32) تھے لشکرِ یزید پر تابڑ توڑ حملے کیے اور وہ جس صف پر حملہ کرتے تھے اسکو منتشر کردیتے تھے۔چنانچہ جب عزرہ بن قیس نے جو لشکریزید کے سواروں کی فوج کا افسر تھا یہ دیکھا تو اس نے عمر بن سعد کے پاس عبدالرحمٰن بن حصین کو یہ پیغام دیکر بھیجا کہ 'آپ دیکھتے ہیں کہ آج صبح سے اس چھوٹی سی جماعت کے ہاتھوں میری فوج کی کیا حالت ہے؟اب آپ پیادوں کی فوج اور تیراندازوں کے دستوں کو بھیجئے کہ وہ مقابلہ کریں' لشکریزید کےلیے کس درجہ شرم کا مقام تھا کہ اس کے سواروں کا افسر ہمت ہار چکا تھا اور کھلے ہوئے الفاظ میں اقرارِ شکست کرلیا۔اس کے بعد پیادوں کی طرف رجوع کیا گیا اور شبث بن ربعی کو پیادہ فوج کا افسر تھا عمر سعد کا یہ تہدیدی پیغام پہنچا کہ تم آگے کیوں نہیں بڑھتے مگر اس نے حقارت آمیز جواب دیا کہ 'افسوس ہے اس مہم کو سر کرنے کےلیے سواروں کی اتنی بڑی فوج ناکافی سمجھی جائے اور میرے ایسے بڑے سردار کو زحمت دی جائے اور پھر تیراندازوں کی بھی ضرورت محسوس ہورھی ہو کیا میرے سوا کوئی اور اس مہم کو سر کرنے کےلیے نہیں ملتا؟یہ سنکر مجبورًا عمر سعد نے حصین بن تمیم کو اسی فوج کے ساتھ جو قادسیہ کی سرحد میں ناکہ بندی کی غرض سے تعینات رہ چکی تھی پانچ سو تیراندازوں کے اضافہ کے ساتھ مامور کیا کہ وہ آگے بڑھے اور خیمہ حسینی کے نزدیک جاکر پاس سے ان پر تیروں کا مینہ برسائے۔

نسخہ بمطابق 11:43، 23 ستمبر 2021ء

حملہ اولی 61 ھ میں کربلا کے مقام پر عاشور کے دن امام حسین کے مختصر قافلے پر ہزاروں یزیدی افواج کا نا جوانمردانہ دھاوا حملہ اولی کہلاتا ہے۔

حقیقتًا تاریخ کا یہ یادگار اور حیرت انگیز واقعہ ہے کہ تیس ہزار فوج کے مقابلہ پر بہتر یا زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو نفوس ہوں اور وہ بھی تین دن کے بھوکے پیاسے اور اس کے باوجود وہ فوجِ کثیر اس جماعتِ قلیل سے نقصان پر نقصان اور شکست پر شکست اٹھائے اور اس کے بنائے کچھ نہ بنے۔صبح سے دوپہر کے قریب تک کا وقت آجائے اور حسینی جماعت کی صف مثل ایک مضبوط و محکم آھنی دیوار کے سامنے موجود رھے۔اس کے برخلاف افواجِ یزید میں اضطراب و بدنظمی کے آثار نمایاں ہوں اور وہ کسی ایک طریقہ جنگ پر قائم نہ رہ سکیں۔راوی کا بیان ہے کہ اصحابِ حسین علیہ السلام نے سخت جنگ کی اور ان میں کے سواروں نے جو تعداد میں صرف بتیس (32) تھے لشکرِ یزید پر تابڑ توڑ حملے کیے اور وہ جس صف پر حملہ کرتے تھے اسکو منتشر کردیتے تھے۔چنانچہ جب عزرہ بن قیس نے جو لشکریزید کے سواروں کی فوج کا افسر تھا یہ دیکھا تو اس نے عمر بن سعد کے پاس عبدالرحمٰن بن حصین کو یہ پیغام دیکر بھیجا کہ 'آپ دیکھتے ہیں کہ آج صبح سے اس چھوٹی سی جماعت کے ہاتھوں میری فوج کی کیا حالت ہے؟اب آپ پیادوں کی فوج اور تیراندازوں کے دستوں کو بھیجئے کہ وہ مقابلہ کریں' لشکریزید کےلیے کس درجہ شرم کا مقام تھا کہ اس کے سواروں کا افسر ہمت ہار چکا تھا اور کھلے ہوئے الفاظ میں اقرارِ شکست کرلیا۔اس کے بعد پیادوں کی طرف رجوع کیا گیا اور شبث بن ربعی کو پیادہ فوج کا افسر تھا عمر سعد کا یہ تہدیدی پیغام پہنچا کہ تم آگے کیوں نہیں بڑھتے مگر اس نے حقارت آمیز جواب دیا کہ 'افسوس ہے اس مہم کو سر کرنے کےلیے سواروں کی اتنی بڑی فوج ناکافی سمجھی جائے اور میرے ایسے بڑے سردار کو زحمت دی جائے اور پھر تیراندازوں کی بھی ضرورت محسوس ہورھی ہو کیا میرے سوا کوئی اور اس مہم کو سر کرنے کےلیے نہیں ملتا؟یہ سنکر مجبورًا عمر سعد نے حصین بن تمیم کو اسی فوج کے ساتھ جو قادسیہ کی سرحد میں ناکہ بندی کی غرض سے تعینات رہ چکی تھی پانچ سو تیراندازوں کے اضافہ کے ساتھ مامور کیا کہ وہ آگے بڑھے اور خیمہ حسینی کے نزدیک جاکر پاس سے ان پر تیروں کا مینہ برسائے۔

فنِ جنگ کے واقف کار اچھی طرح جانتے ہیں کہ تیروں کی زد کےلیے ایک محدود فاصلہ درمیان میں ہونا ضروری ہے۔مقررہ فاصلہ سے زیادہ تیراندازی ایک طرح سے ہوئی فائروں کی حیثیت رکھتی ہے جس سے گزند نہ پہنچنے کا قوی امکان ہوتا ہے مگر تھوڑی مسافت سے تیروں کی ہنگامہ خیز بارش ایک بےپناہ حملہ ہے۔جس سے محفوظ رھنے کےلیے نہ فنونِ جنگ کام دے سکتے ہیں نہ شجاعت و جراءت۔ اسی لیے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ بزدلانہ طریقہ جنگ ہے اور شجاعانِ روزگار کےلیے ننگ۔یہ ظاھر ہے کہ اصلی لشکر گاھ دو متخاصم فریقوں کے ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر ہوتے ہیں یقینًا اسی صورت پر کربلا میں بھی تھے۔

دونوں لشکروں کی صف آرائی بھی اس طریقہ پر ہوتی ہے کہ درمیان میں کافی وسیع مصاف باقی رھے اور یہ مسافت بھی کچھ کم نہیں ہوتی ہے۔پہلی مرتبہ کے تیروں کی بارش کا عنوان یہ تھا کہ عمر سعد نے اپنے لشکر ہی سے جسکی صف آرائی ہوچکی تھی تیر چلایا اور اسی کے ساتھ اس کے لشکر والوں نے بھی تیر رھا کیے لہذا ان تیروں سے جماعتِ حسینی کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا اور نہ ہونا چاھیئے تھا سوا اس کے کہ ان کے ذریعہ سے اعلانِ جنگ ہوگیا۔اور عملی طور سے حرب و ضرب شروع ہوگئی۔مگر اس وقت جس طریقہ سے تیراندازی مقصود تھی اسکی نوعیت بالکل مختلف تھی اس لیے کہ اس مرتبہ پورے طور سے جماعتِ حسینی کو زد پر لاکر تیر برسائے جارھے تھے۔ظاھر ہے کہ تیر کی زد سے ڈھل یا نیز و شمشیر کے ذریعہ تحفظ ممکن نہیں ہے۔البتہ تیر کو خالی دیکر اس سے بچا سکتا ہے مگر یہ اسی وقت کارگر ہوسکتا ہے جب اِدھر اُدھر تیروں کی زَد سے خالی جگہ موجود ہو لیکن تصور میں اس منظر کو سامنے لایا جائے کہ صرف سو ڈیڑھ سو نفوس پر مشتمل جماعتِ حسینی صف باندھے ایستادہ ہے اور ان کے مقابلہ میں ہزاروں کی تعداد میں ایک فوج آکر کھڑی ہوجاتی ہے اور تیر برسانا شروع کرتی ہے تو وہ کتنی دیر زیادہ دور تک پھیلی ہوئی ہوگی اور جب اسکی طرف سے ایک مرتبہ مجموعی طور پر یک جہت اور ہم آھنگ ہوکر ایک نشانہ پر ایک ہی مرکز کو سامنے رکھے ہوئے بہت دور سے نہیں بلکہ قریب سے تیر برسائے جارھے ہیں تو کیا اس میں کوئی شک ہوسکتا ہے کہ ان تیروں نے ایک عظیم سیلاب ایک بڑے طوفان ، ایک تیز آندھی یا لوھے کی ایک چادر کی طرح چپ و راست ہر طرف سے اس مختصر جماعت کو ڈھانپ لیا ہوگا اور اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا باقی نہ ہوگا جو ان تیروں کی زَد میں نہ آتا ہو۔مگر انصارِ حسین علیہ السلام نے اس بے پناہ تیروں کے سیلاب کا یوں مقابلہ کیا کہ تلواریں سونت لیں اور لوھے کی ان چادروں کو اپنے سینوں سے ریلتے ہوئے دشمن کی فوج پر جا پڑے اور اس میں در آکر شمشیرزنی کرنے لگے۔

یہی وہ عظیم الشان حملہ اور گھمسان کی جنگ ہے جو تاریخوں میں "حملہ اولٰی" کے نام سے مذکور ہے اور یہ ظُہر سے ایک دو گھنٹہ قبل کا واقعہ ہے۔

اصحابِ حسین علیہ السلام نے پھر دشمن کو شکست دی اور فوج کو پسپا کیا مگر اس حملہ کا نتیجہ خود جماعتِ حسینی کےلیے بھی بہت دردانگیز ثابت ہوا چنانچہ جس وقت میدان صاف ہوا اور گرد و غبار دور ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ مختصر تعداد اور زیادہ مختصر ہوچکی تھی اس لیے کہ پچاس آدمی انصارِ حسین علیہ السلام میں سے درجہ شہادت پر فائز ہوئے تھے جن میں سے بعض تیروں کا نشانہ بنائے گئے تھے اور بعض جنگِ مغلوبہ میں شہید کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ جتنے گھوڑے اصحابِ حسین علیہ السلام کی سواری میں تھے وہ سب ختم کردیئے گئے تھے اور چند اصحابِ حسین علیہ السلام بھی جو سوار تھے اب پیادہ ہوگئے تھے۔چنانچہ حُر بن یزید ریاحی بھی جنکا گھوڑا اس سے پہلے ہی زخمی ہو چکا تھا اب پیادہ ہوگئے جسکا تذکرہ ان کے دشمن ایوب بن مشرح خیوانی نے اس طرح کیا ہے کہ میں ہی وہ شخص تھا جس نے حُر کے گھوڑے کو پے کیا۔بس میں نے ایک تیر ایسا لگایا کہ فرس تھرا کر زمین پر گرگیا اور حُر شیر کی مانند جست کرکے اسکی پشت سے علیحدہ ہوئے۔تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے اور اس مضمون کا شعر پڑھ رھے تھے کہ


"اگر تم نے میرا گھوڑا پے کرڈالا تو کوئی حرج نہیں

میں ایک شریف انسان کا فرزند ہوں اور شیر سے زیادہ شجاعت کا مالک ھوں"

دوسرے مشاھد کا بیان ہے کہ انکا سا میں نے دوسرا شمشیرزنی کرنے والا نہیں دیکھا۔

اس حملہ کے ذیل میں جو پچاس انصارِ حسین علیہ السلام شہید ہوئے ان میں نہیں کہا جاسکتا کہ کون پہلے شہید ہوا اور کون بعد میں ، اس لیے ان کے حالات و واقعات حروفِ تہجی کی ترتیب سے درج کیے جاتے ہیں۔

  • ادھم بن امیہ عبدی بصری

قبیلہ عبد قیس سے بصرہ کے باشندہ تھے۔بصرہ میں ایک خاتون تھیں ماریہ بنت منقذ عبدیہ جو شیعہ علی علیہ السلام اور محبِ اھلبیت نبوت علیھم السلام تھیں اور ان کے مکان پر اکثر شیعان علی علیہ السلام کا اجتماع ہوتا رھتا تھا۔جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ معظمہ سے کوفہ کی روانگی کا قصد کیا اور ابن زیاد بصرہ سے کوفہ کی گورنری پر مامور ہوا اور بصرہ کے نئے گورنر کی جانب سے ناکہ بندی کا انتظام ہوا تاکہ کوئی شخص نصرتِ حسین علیہ السلام کےلیے بصرہ سے نہ جانے پائے تو ماریہ عبدیہ کے مکان پر یزید بن ثبیط قیسی نے نصرتِ حسین علیہ السلام کی غرض سے کوفہ کی طرف جانے کا عزم ظاھر کیا۔چونکہ صریحی طور پر انکا یہ مقصد خطرے سے خالی نہ تھا کچھ زیادہ اشخاص ان کے اس عزم سے ہم آھنگ نہ ہوئے پھر بھی یزید بن ثبیط کے دو فرزند اور چار دوسرے افراد وہ تھے جنہوں نے ان کے ساتھ اتحادِ عمل کیا۔چنانچہ ان سب نے اپنی جانوں پر کھیل کر مقام ابطح پر جو کہ مکہ معظمہ ہی کی حدود میں تھا امام (ع) کی ہمراھی اختیار کی۔ان ہی چار اشخاص میں ایک ادھم بن امیہ عبدی بھی تھے جو روزِعاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔


  • امیہ بن سعد بن زید طائی

قبیلہ طے کے بہادر ، جنگ آزما اور شہسوار تھے۔حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے اصحاب میں محسوب ہوتے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ جنگِ صفین میں شرکت بھی کی تھی اور کارِ نمایاں انجام دیا تھا۔اس کے بعد انکا کوفہ میں قیام رھا۔جب امام حسین علیہ السلام کے کربلا میں پہنچنے کی خبر ہوئی تو گفتگوئے صلح کے دوران میں کسی عنوان سے کوفہ سے کربلا پہنچے اور امام (ع) کی ہمراھی اختیار کی یہاں تک کہ حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔


  • جابر بن حجاج تیمی

قبیلہ تیم اللہ بن ثعلبہ میں سے عامر بن نہشل تیمی کے آزاد کردہ غلام تھے۔کوفہ کے باشندہ اور شہسوار تھے۔پہلے جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی حمایت کےلیے کمر بستہ ہوئے تھے مگر حالات کے ناسازگار ثابت ہونے کے بعد مثل دوسرے بہت سے افراد کے وہ بھی اپنے قبیلہ میں روپوش ہوگئے تھے۔جب امام (ع) کے کربلا میں وارد ہونے کی اطلاع ہوئی تو وہ عمر سعد کی فوج کے ساتھ کربلا پہنچے اور خفیہ طریقہ پر اس سے علیحدہ ہوکر انصارِ امام حسین علیہ السلام میں شامل ہوگئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

  • جبلۃ بن علی شیبانی *<

کوفہ کے باشندہ ، بہادر اور شجاع تھے۔جنگِ صفین میں حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے تھے۔حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی نصرت کےلیے کمر بستہ ہوئے تھے مگر حالات کی ناسازگاری کے بعد وہ بھی اپنے قبیلہ میں روپوش ہوگئے اور جب امام حسین علیہ السلام کربلا میں پہنچ چکے تو وہ بھی کسی نہ کسی صورت سے کوفہ سے آکر انصارِ حسین علیہ السلام میں شامل ہوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

  • جنادہ بن کعب بن حارث انصاری خزرجی

امام حسین علیہ السلام کی ہمراھی میں مکہ معظمہ سے متعلقین سمیت آئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔


  • جوین بن مالک بن قیس بن ثعلبہ تیمی

قبیلہ بنی تیم میں سکونت رکھتے تھے اس لیے اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتے تھے اور جب کوفہ کے تمام قبائل امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کرنے کےلیے بھیجے جارھے تھے تو وہ بھی قبیلہ بنی تیم کے ساتھ عمر سعد کی فوج میں شامل ہوکر میدانِ کربلا تک پہنچے اور جب امام حسین علیہ السلام کے پیش کردہ شرائطِ صلح نامنظور کردیئے گئے اور جنگ کا ہونا قطعی قرار پاگیا تو وہ اسی قبیلہ کے چند دوسرے افراد کے ساتھ شب کے وقت عمر سعد کی فوج سے جدا ہوکر رفقائے امام (ع) کی جانب آگئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔


  • حارث بن امراءالقیس بن عابس کندی

شجاعانِ روزگار میں سے عابد و زاھد تھے اکثر لڑائیوں میں کارِ نمایاں انجام دے چکے تھے۔ان کے مذھبی احساس اور ثبات و استقلال کا اس واقعہ سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ قلعہ بحبر کا محاصرہ کرنے والوں میں شامل تھے جب مرتدین کو اس قلعہ سے باھر نکال کر قتل کیا جانے لگا تو حارث نے اپنے حقیقی چچا پر حملہ کیا۔اس نے کہا 'میں تو تمہارا چچا ہوں' حارث نے جواب دیا کہ "مگر اللہ میرا پروردگار ہے اور اسکا حکم مقدم ہے" کربلا میں وہ بھی عمر سعد کی فوج میں داخل ہوکر پہنچے تھے لیکن شرائطِ صلح کے نامنظور ہونے کے بعد اس سے علیحدہ ہوکر اصحابِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ہوگئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

  • حارث بن بنہان

ان کے والد بنہان حضرت حمزہ بن عبدالمطلب علیھما السلام کے غلام ، بہادر اور شہسوار تھے۔جنگ اُحد میں جناب حمزہ علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی۔اس کے دو برس بعد بنہان نے دنیا سے رحلت کی۔اس سے بعد سے حارث نے جناب امیر علیہ السلام کی خدمت میں رھنا اختیار کیا اور پھر امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں رھے۔جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے ہجرت فرمائی تو حارث بھی ہمراہ رھے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

  • حباب بن حارث

ابن شہر آشوب نے حملہ اولٰی کے شہداء میں انکا بھی نام درج کیا ہے حالات بالکل معلوم نہیں ہوئے۔


  • حباب بن عامر بن کعب تیمی

قبیلہ تیم اللات بن ثعلبہ میں سے کوفہ کے باشندہ شیعہ علی علیہ السلام تھے اور جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کے بعد وہ اپنے قبیلہ میں روپوش ہوگئے۔جب امام حسین علیہ السلام کی کوفہ کی جانب روانگی کی اطلاع ان کو ہوئی تو وہ خفیہ طور پر کوفہ سے باھر نکلے اور راہ میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ کر ہمراہ رکاب ہوئے یہاں تک کہ روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔


  • حبشۃ بن قیس نہمی

پورا نام و نسب حبشۃ بن قیس بن سلمۃ بن طریف بن ابان بن سلمۃ بن حارثہ ہمدانی نہمی تھا۔حافظ ابن حجر کا بیان ہے کہ ان کے دادا سلمۃ بن طریف صحابہ پیغمبر (ص) میں سے تھے اور خود حبشۃ بن قیس راوی حدیث تھے۔روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔


  • حجاج بن زید سعدی تمیمی

قبیلہ بنی سعد بن تیم میں سے بصرہ کے باشندہ تھے۔امام حسین علیہ السلام نے مکہ معظمہ سے روانگی کے موقع پر چند خطوط رؤسائے بصرہ کے نام روانہ فرمائے تھے جن میں سے ایک مسعود بن عمرو ازدی کے نام تھا۔مسعود نے اپنے قبیلہ کے تمام اقوام بنی تمیم ، بنی حنظلہ ، بنی سعد اور بنی عامر کو مجتمع کرکے ایک تقریر کی جس میں ان کو نصرتِ امام حسین علیہ السلام پر آمادہ کرنا چاھا۔جس کے نتیجہ میں ایک جماعت نے نصرتِ امام (ع) کا وعدہ کیا۔مسعود نے ایک خط امام (ع) کے نام تحریر کیا جس میں حضرت کی تشریف آوری عراق پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ میں نے بنی تمیم اور بنی سعد کو تمام تر آپ (ع) کی نصرت پر آمادہ کرلیا ہے اور وہ سب آپ (ع) پر اپنی جان نثار کریں گے۔یہ خط حجاج بن زید سعدی کے ہاتھ روانہ کیا گیا تھا۔چنانچہ وہ کربلا میں آکر امام (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔


  • حلاس بن عمرو ازدی راسبی

اصحابِ حضرت علی علیہ السلام میں سے تھے اور حضرت امیر علیہ السلام کے زمانہ خلافت میں کوفہ میں پولیس کے افسر کی حیثیت رکھتے تھے وہ میدانِ کربلا میں عمر سعد کی فوج کے ساتھ آئے تھے مگر گفتگوئے مصالحت کے ناکام ہونے پر مخفی طریقہ سے شب کے وقت اصحابِ حسین علیہ السلام میں شامل ہوگئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

  • حنظلہ بن عمر شیبانی

ابن شہر آشوب نے انکا نام بھی حملہ اولٰی کے شہداء میں ذکر کیا ہے۔حالات معلوم نہیں!!

  • زاہر بن عمرو اسلمی کندی

اصحاب ِرسول (ص) میں سے راوئ حدیث تھے اور بیعتِ رضوان کے شرف سے بہرہ اندوز ہوئے تھے۔صلحِ حدیبیہ کے بعد جنگِ خیبر میں شریکِ جہاد بھی ہوئے تھے۔شجاعت انکی ممتاز صفت اور نمایاں جوھر تھا اور اھلبیتِ رسول علیھم السلام کی محبت ان کےلیے سرنامہ اعزاز۔جب زیاد بن ابیہ معاویہ کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا اور عمرو بن الحمق الخزاعی نے اسکی مخالفت کا عَلم بلند کیا تھا تو زاھر بھی ان کے ساتھ تھے۔جب معاویہ نے عمرو بن الحمق کی گرفتاری کا حکم بھیجا تو زاھر کے نام بھی وارنٹ جاری ہوا تھا مگر وہ روپوش ہوگئے اور قبضہ میں نہ آسکے۔ سنہ 60ھ میں حجِ بیت اللہ الحرام سے شرفیاب ہوئے۔اسی سلسلہ میں امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور وہ اصحابِ حسین علیہ السلام میں شامل ہوگئے۔یہاں تک کہ امام (ع) کی ہمراھی میں کربلا آئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔اصحابِ آئمہ میں سے محمد بن سنان زاھری متوفی سنہ 220ھ جو امام علی الرضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے رواة میں سے تھے انہی کی نسل سے تھے۔

  • زبیر بن بشر خثعمی

حملہ اولٰی کے شہداء میں انکا بھی شمار ہے۔حالات معلوم نہیں!!


  • زھیر بن سلیم بن عمروازدی

شبِ عاشور جب لشکرِ یزید نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا تو وہاں سے نکل کر اصحابِ حسین علیہ السلام کی طرف آگئے اور آپ (ع) کی نصرت کرتے ہوئے حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔


  • سالم مولٰی عامر بن مسلم العبدی

اپنے مالک کے ساتھ اسی قافلہ میں جو یزید بن ثبیط قیسی کے ساتھ بصرہ سے مقام ابطح میں پہنچا تھا امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔

  • سلیم

امام حسین علیہ السلام کے باوفا غلام تھے اور کربلا میں نصرتِ امام حسین علیہ السلام کا حق ادا کرتے ہوئے حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔

  • سوار بن ابی عمیر نہمی *<

سوار بن منعم بن حابس بن ابی عمیر بن نہم الھمدانی النہمی راویانِ حدیث میں سے تھے۔امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کے بعد گفتگوئے صلح کے دوران میں کربلا پہنچے تھے۔روزِ عاشور حملہ اولٰی میں نصرتِ حسین علیہ السلام میں جنگ کا شرف حاصل کیا یہاں تک کہ زخمی ہوکر گر گئے۔دشمن ان کو گرفتار کرکے عمر سعد کے پاس لے گئے۔اس نے چاھا کہ ان کو قتل کرادے مگر ان کے ہم قبیلہ سپاھی مانع ہوئے اور انہیں بچا کر اپنے ساتھ لے گئے لیکن وہ زخمی اتنے ہوچکے تھے کہ جانبر نہ ہوسکے اور چھ مہینے تک انہی زخموں کی تکالیف میں مبتلا رھنے کے بعد انتقال کیا۔


  • سیف بن مالک عبدی

قبیلہ عبد قیس میں سے بصرہ کے باشندہ اور ان شیعانِ علی علیہ السلام میں سے تھے جو ماریہ بنت منقذ عبدیہ کے مکان پر مجتمع ہوا کرتے تھے۔یزید بن ثبیط قیسی کے ساتھ نصرتِ امام حسین علیہ السلام کےلیے روانہ ہوئے اور مقام ابطح پر آپ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔


  • شبیب بن عبداللہ

حارث بن سریع ہمدانی جابری کے غلام ، صحابئ رسول (ص) اور حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے ساتھ جمل ، صفین اور نہروان تینوں لڑائیوں میں شرکت کا شرف حاصل کیے ہوئے تھے۔کوفہ کے باشندہ تھے اور کربلا میں سیف بن حارث بن سریع اور مالک بن عبد بن سریع دونوں آقازادوں کی معیت میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تھے۔روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔


  • شبیب بن عبداللہ نہشلی

طبقہ تابعین میں سے حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب محسوب ہوتے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ تینوں لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے۔پھر امام حسن علیہ السلام اور انکے بعد امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں اور آپ (ع) کے مخصوصین میں سمجھے جاتے تھے۔جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ چھوڑا اور سفرِ غربت اختیار کیا تو شبیب بن عبداللہ وھیں سے آپ (ع) کے ہمراہ رکاب رھے یہاں تک کہ کربلا میں حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔

  • ضرغامہ بن مالک تغلبی

انہوں نے کوفہ میں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی اور انکے شہیدہونے کے بعد وہ بھی روپوش ہوگئے۔پھر عمر سعد کی فوج کے ساتھ میدانِ کربلا پہنچے اور پوشیدہ طریقہ پر اصحابِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ملحق ہوگئے۔یہاں تک کہ کہ حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

  • عامر بن مسلم عبدی بصری

بصرہ کے باشندہ، انہی شیعانِ علی علیہ السلام میں سے تھے جو ماریہ بنت منقذ کے مکان پر جمع ہوا کرتے تھے۔یزید بن ثبیط قیسی کے ساتھ وہ بھی نصرتِ امام (ع) کےلیے روانہ ہوئے اور مقامِ ابطح پر آپ (ع) کی خدمت میں پہنچے۔پھر روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔۔