"ٹھٹہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 150: سطر 150:
===[[دہلی سلطنت]]===
===[[دہلی سلطنت]]===
[[1183ء]] میں ٹھٹہ پر سے غزنوی اِقتدار ختم ہوا تو ٹھٹہ کی بدامنی کا دور شروع ہوگیا۔ یہ دور بہت ہی پرآشوب تھا۔ اِس دور کی بدامنی کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ ٹھٹہ کے حکام اور عوام‘ دونوں نے ہی [[سیاست]] میں حصہ لینا شروع کردیا تھا مثلاً [[تغلق خاندان]] کے عہدِ حکومت میں ہندو رعایا اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگی۔ [[1320ء]] میں جب[[سلطان]] [[غیاث الدین تغلق]] [[ملتان]] سے [[دہلی]] گیا تو اُسی وقت [[سومرہ|سومرہ قوم]] نے بغاوت کردی اور ٹھٹہ پر تسلط قائم کرلیا۔ اِس کے بعد [[مارچ]] [[1351ء]] کو جب [[سلطان]] [[محمد بن تغلق|محمد شاہ تغلق]] نے ٹھٹہ کے قریب وفات پائی تو گجرات کے حاکم ’’طَغِی‘‘ نے [[سومرہ|قوم سومرہ]] اور جاریجہ سے ساز باز کرکے [[سلطان]] [[فیروز شاہ تغلق]] کے خلاف بغاوت کردی اور [[سلطان]] [[فیروز شاہ تغلق]] سے ٹھٹہ کے قریب جنگ کی۔ [[1370ء]] میں حاکم ٹھٹہ جام خیر الدین نے بھی بغاوت کردی۔ چنانچہ پے در پے بغاوتوں کے نتیجے میں [[سلطان]] [[فیروز شاہ تغلق]] کو ٹھٹہ میں آنا ہی پڑا۔ جام خیر الدین قلعہ بند ہوگیا، چونکہ موسم لشکرکشی کے لئے سازگار نہ تھا۔اِس لئے سلطان گجرات کی جانب بڑھ گیا۔واپسی پر جب ٹھٹہ آیا تو جام خیر الدین نے معافی طلب کرلی۔ [[سلطان]] [[فیروز شاہ تغلق]] نے اُس کے فرزند جام جُونہ کو ٹھٹہ کا حاکم مقرر کردیا۔ یہ واقعہ [[1375ء]] کا ہے ۔<ref>[[اردو دائرہ معارف اسلامیہ]] : جلد 6، ص 974۔</ref>
[[1183ء]] میں ٹھٹہ پر سے غزنوی اِقتدار ختم ہوا تو ٹھٹہ کی بدامنی کا دور شروع ہوگیا۔ یہ دور بہت ہی پرآشوب تھا۔ اِس دور کی بدامنی کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ ٹھٹہ کے حکام اور عوام‘ دونوں نے ہی [[سیاست]] میں حصہ لینا شروع کردیا تھا مثلاً [[تغلق خاندان]] کے عہدِ حکومت میں ہندو رعایا اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگی۔ [[1320ء]] میں جب[[سلطان]] [[غیاث الدین تغلق]] [[ملتان]] سے [[دہلی]] گیا تو اُسی وقت [[سومرہ|سومرہ قوم]] نے بغاوت کردی اور ٹھٹہ پر تسلط قائم کرلیا۔ اِس کے بعد [[مارچ]] [[1351ء]] کو جب [[سلطان]] [[محمد بن تغلق|محمد شاہ تغلق]] نے ٹھٹہ کے قریب وفات پائی تو گجرات کے حاکم ’’طَغِی‘‘ نے [[سومرہ|قوم سومرہ]] اور جاریجہ سے ساز باز کرکے [[سلطان]] [[فیروز شاہ تغلق]] کے خلاف بغاوت کردی اور [[سلطان]] [[فیروز شاہ تغلق]] سے ٹھٹہ کے قریب جنگ کی۔ [[1370ء]] میں حاکم ٹھٹہ جام خیر الدین نے بھی بغاوت کردی۔ چنانچہ پے در پے بغاوتوں کے نتیجے میں [[سلطان]] [[فیروز شاہ تغلق]] کو ٹھٹہ میں آنا ہی پڑا۔ جام خیر الدین قلعہ بند ہوگیا، چونکہ موسم لشکرکشی کے لئے سازگار نہ تھا۔اِس لئے سلطان گجرات کی جانب بڑھ گیا۔واپسی پر جب ٹھٹہ آیا تو جام خیر الدین نے معافی طلب کرلی۔ [[سلطان]] [[فیروز شاہ تغلق]] نے اُس کے فرزند جام جُونہ کو ٹھٹہ کا حاکم مقرر کردیا۔ یہ واقعہ [[1375ء]] کا ہے ۔<ref>[[اردو دائرہ معارف اسلامیہ]] : جلد 6، ص 974۔</ref>
===[[سما سلطنت]] ===
[[خاندان تغلق]] کی حکمرانی کے دوران ہی [[سندھ]] میں [[سما سلطنت]] قائم ہوئی۔[[1336ء]] میں [[جام انار]] نے [[سما سلطنت]] کی داغ بیل ڈالی تو ٹھٹہ کے سیاسی و اخلاقی حالات بدستور ناگفتہ بہ تھے<ref>[[اردو دائرہ معارف اسلامیہ]] : جلد 6، ص 974۔</ref>۔ اِسی طرح [[1406ء]] میں جام علی شیر جو کہ دانا و بہادر حکمران تصور کیا جاتا تھا، کو اُس کے بھائیوں نے دغا سے قتل کروا دیا۔ اِس زمانہ میں سلطان علی شاہ میران خاں بن سلطان سکندر بت شکن([[813ھ]] ـ[[813ھ]]) نے ٹھٹہ فتح کرلیا۔<ref>سجان رائے: [[خلاصۃ التواریخ]]، ص398۔</ref>


==مرکز تجارت==
==مرکز تجارت==

نسخہ بمطابق 11:45، 15 اکتوبر 2021ء

شہر
ٺٽو
اوپر سے نیچے دائیں سے بائیں: مکلی قبرستان کا منظر، قبرستان میں عیسیٰ خان حسین کا مقبرہ، شاہجہاں مسجد کے بیرونی اور اندرونی مناظر
اوپر سے نیچے دائیں سے بائیں:
مکلی قبرستان کا منظر، قبرستان میں عیسیٰ خان حسین کا مقبرہ، شاہجہاں مسجد کے بیرونی اور اندرونی مناظر
عرفیت: The City of Silence
ٹھٹہ is located in سندھ
ٹھٹہ
ٹھٹہ
ٹھٹہ is located in پاکستان
ٹھٹہ
ٹھٹہ
ٹھٹہ کا محل وقوع
متناسقات: 24°44′46″N 67°55′28″E / 24.74611°N 67.92444°E / 24.74611; 67.92444متناسقات: 24°44′46″N 67°55′28″E / 24.74611°N 67.92444°E / 24.74611; 67.92444
ملکپاکستان
صوبہسندھ
ضلعٹھٹہ
آبادی
 • کل220,000
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
شاہراہیں این-5

ٹھٹہ شہر (سندھی: ٺٽو، انگریزی: Thatta) پاکستان کے صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کے کنارے آباد ایک قدیمی اور تاریخی شہر ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں ٹھٹہ سندھ کا دارالحکومت رہا ہے۔ 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی ہندوستان آمد اور ہندوستان پر لشکر کشی کے آثار یہاں ایک جزیرہ پر ملتے ہیں۔ٹھٹہ چونکہ تاریخی شہر ہے، اِسی لئےاقوام متحدہ کےادارہ یونیسکو نے ٹھٹہ کے متعدد تاریخی آثار و مقابر کو اپنے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ٹھٹہ شہر کے اطراف و اکناف میں متعدد مقامات پر قدیم تاریخی نوادرات دریافت ہوئے ہیں جن سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ ٹھٹہ شہر زمانہ قبل مسیح سے آباد رہا ہے۔ہندوستان میں مسلم حکومت کے قیام کے بعد ٹھٹہ شہر علم و ہنر کا مرکز بن گیا۔چودہویں صدی عیسوی میں سندھ میں سما سلطنت کے حکمرانوں نے سرکاری طور پر ٹھٹہ کو دوبارہ آباد کیا اور شہر کی حیثیت سے نئی طرز پر بسایا اور دارالحکومت قرار دیا۔ سلطنت مغلیہ کے عہد تک ٹھٹہ ترقی یافتہ اور متحرک شہر تھا مگر برطانوی راج کے دوران کراچی کی اُبھرتی ہوئی حیثیت نے اس شہر کو شدید نقصان پہنچایا اور بالآخر کراچی میں بندرگاہوں کے قیام کے بعد اِس شہر کی حیثیت محض تاریخ کے صفحات کی زینت بنتی چلی گئی ۔ٹھٹہ کا شاندار ماضی یہاں کی تاریخی و قدیمی عمارات، مقابراور مساجد ہیں جن میں سے شاہجہانی مسجد اور مکلی کا عظیم ترین قدیمی قبرستان نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ معلوم تاریخ و شواہد کے مطابق ٹھٹہ کی تاریخ دو ہزار قبل مسیح سے بھی قدیم ہے۔

شاہجہانی مسجد کا گنبد(اندرونی جانب سے)

وجہ تسمیہ

مقبرہ نواب عیسیٰ خان ترخان (مکلی قبرستان، ٹھٹہ)
مرزا غازی بیگ ترخان اور جانی بیگ ترخان کا مقبرہ (مکلی قبرستان، ٹھٹہ)
مقبرہ شہزادہ سلطان ابراہیم بن نواب عیسیٰ خان ترخان ، (مکلی قبرستان، ٹھٹہ)

فارسی اور عربی کتب میں اِس شہر کا نام تھتہ یا تتہ لکھا ہوا ملتا ہے جو کہ البتہ کا ہم قافیہ ہے۔ مصنف بستان السیاحۃ نے اِسے ’’البتہ‘‘ کا ہم قافیہ ہی مراد لیا ہے[1]۔ لیکن اِس ہم قافیہ بے معنی لفظ سے ٹھٹہ کی وجہ تسمیہ ناقابل فہم ہے بلکہ مصنف تحفۃ الکرام کی رائے متذکرہ بالا رائے سے کہیں بہتر ہے ۔ سندھ کے نامور محقق اور کثیر الجہت شخصیت میر علی شیر قانع ٹھٹوی نے اپنی تصنیف تحفۃ الکرام(سالِ تصنیف: 1767ء) میں ٹھٹہ کے نام کی وجہ یوں بیان کی ہے کہ: ’’اِس وقت (1181ھ مطابق 1767ء) ٹھٹے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دو باتیں مشہور ہیں: کچھ کہتے ہیں کہ یہ ’’تہ تہ‘‘ یعنی ’’ نشیبی نشیبی‘‘ کی خصوصیت سے منسوب ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ’’ٹھٹ‘‘ کے لفظ سے موسوم ہے جو سندھیوں کی اصطلاح میں ’’لوگوں کے جمع ہونے کے مقام‘‘ کے معنی رکھتا ہے۔ مخفی نہ رہے کہ یہ سرزمین جیسا کہ تواریخ سے معلوم ہوتا ہے، قدیم زمانے میں بھی ٹھٹے کے نام سے پکاری جاتی تھی اور چونکہ سندھ کے بالائی حصہ کو عام لوگ ’’سیرو‘‘ کہتے ہیں اور اِس نشیبی حصہ کو ’’لاڑ‘‘ (یعنی نشیب یا ڈھال) کہا جاتا ہے، اِس لیے (یہی رعایت) ٹھٹے کی وجہ تسمیہ کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے۔[2] مصنف تحفۃ الکرام کے بیانِ مذکور سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ 1181ھ مطابق 1767ء تک اِس شہر کو ٹھٹہ کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ سلطنت مغلیہ کا عہدِ زوال ہے جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال میں اپنے قدم جماچکی تھی۔ ماہر آثارِ قدیمہ احمد حسن دانی (متوفی 2009ء) کے مطابق ٹھٹہ سندھی زبان کے دو اَلفاظ ٹھٹو یا ٹھٹ سے مشتق ہوا ہے جن کے معانی ہیں: ’’دریاء کے کنارے آباد ہونا‘‘[3] ۔ سندھ کی عوام اِس شہر کو عموماً ٹھٹہ نگر یا محض نگر کے نام سے بھی پکارتی ہے۔

جغرافیہ

موجودہ ٹھٹہ شہر کوہِ مکلی کے دامن میں قدیم شہر کے کھنڈرات پر آباد ہے ۔ موجودہ شہر سما سلطنت کے عہد میں سنہ 900ھ مطابق 1495ء میں دوبارہ آباد کیا گیا تھا۔ ٹھٹہ شہر پاکستان کے صوبہ سندھ میں ضلع ٹھٹہ میں واقع ہے۔ٹھٹہ شہر کا طول بلد 67 درجہ 55 دقیقہ 28 ثانیہ اور عرض بلد 24 درجہ 44 دقیقہ 46 ثانیہ ہے۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے ٹھٹہ شہر کا طول بلد 68 درجہ اور عرض بلد 24 درجہ 44 دقیقہ لکھا ہے۔ آج کل دریائے سندھ ٹھٹہ سے تقریباً چھ میل مشرق کی سمت میں بہتا ہے اور چار پانچ میل نیچے جا کر دو شاخوں میں منقسم ہوجاتا ہے، مگر 1758ء تک دریائے سندھ ٹھٹہ کے جنوب میں بہتا تھا اور اِس کی ایک شاخ ٹھٹہ کے مغرب میں بہتی تھی۔[4][5] ٹھٹہ کراچی سے 102 کلومیٹر مشرق ، بدین سے 110 کلومیٹر مغرب، سجاول سے 27 کلومیٹر مغرب، حیدرآباد سے 101 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔

تاریخ بنیاد

ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ٹھٹہ کا ذِکر شمس سراج عفیف نے اپنی تصنیف تاریخ فیروز شاہی میں کیا ہے۔ اِس سے قبل ٹھٹہ کا ذِکر کسی تاریخی کتاب میں نہیں ملتا۔تاریخ فیروز شاہی میں اِس شہر کا تذکرہ 747ھ اور 748ھ مطابق 1347ء کے وقائع میں آیا ہے [6] ۔ اِس تاریخی ثبوت کے پیش نظر میجر جنرل Malcolm Robert Haig نے قیاس کیا ہے کہ 1340ء کے لگ بھگ یہ شہر دوبارہ آباد ہوا ہوگا۔[7] ٹھٹہ کی تحریری تاریخ 1347ء سے قبل کی کتب میں موجود نہیں، البتہ قدیمی کھنڈرات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شہر دو ہزار قبل مسیح سے بھی قبل آباد تھا کیونکہ سکندر اعظم کی یہاں آمد سے متعلق تاریخی شہادت سے قطعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سنہ 326 قبل مسیح میں بھی یہ شہر آباد تھا تاہم حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا موجود ہ شہر ہی ٹھٹہ وہ مقام تھا یا وہ قدیمی کھنڈرات تھے جن پر دوبارہ شہر آباد ہوا۔ سکندر اعظم کے عہدِ حکمرانی میں موجودہ سندھ کا تمام علاقہ پاطالین(Patalene) کے نام سے پکارا جاتا تھا جس کا مصری جغرافیہ نگار بطلیموس نے اپنی ’’جغرافیہ‘‘ نامی کتاب اور یونانی مؤرخ اسٹرابو نے اپنی تصنیف ’’Geography‘‘ میں شامل بحث کیا ہے۔لیکن دونوں مؤرخین کے تذکرۂ سندھ میں ٹھٹہ نام کا کوئی شہر نہیں ملتا۔ اِس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اُن دِنوں ٹھٹہ کے موجودہ مقام پر اِتنی آبادی نہیں ہوگی جو کہ ایک شہر کی تعریف کے لیے ہو۔ بطلیموس اور اسٹرابو کے سندھ سے متعلق ٹھٹہ کا تذکرہ نہ کرنا اِس بات کا ہے کہ سکندر اعظم ٹھٹہ کبھی نہیں آیا۔ متذکرۂ بالا تاریخی شواہد سے سکندر اعظم کی ٹھٹہ میں آمد مشکوک ہوجاتی ہے کیونکہ بطلیموس کا زمانہ 100ء سے 170ء تک اور اسٹرابو کا زمانہ 64 قبل مسیح سے 24ء تک کا ہے جو کہ سکندر اعظم کے قریب تین سو برس بعد کا زمانہ ہے۔

ٹھٹہ کی ازسر نو بنیاد

قدیم زمانے میں یہاں (ٹھٹہ) کی زمین سمندر کے پانی سے چھپی ہوئی تھی ۔ایک مدت گذرنےپر سمندر کا پانی واپس ہوگیا اور خشک میدان نکل آیا۔ اِس کے بعد شہر اروڑ کے برباد ہونے اور دریائے سندھ کے سیہون (سیوستان) کی طرف رخ بدلنے کی وجہ سے یہ زمین پھر غرقاب ہوگئی۔ پھر جب شہر محمد طور سومرہ سرداروں سمیت ویران ہوگیا تو سما سلطنت کے حکمران نظام الدین جام نندو نے دوبارہ ٹھٹہ شہر کی ازسر نو تعمیر کروائی۔ 1336ء میں سندھ کے سما حکمرانوں کے زوال کے بعد سما خاندان کی حکمرانی شروع ہوئی تو اُنہوں نے کوہِ مکلی کے دامن میں ایک شہر بسایا جس کا نام ’’ساموئی‘‘ رکھا۔ یہ سما سلطنت کے حکمرانوں کا پہلا دارالحکومت تھا۔ بعد ازاں اُنہوں نے کوہِ مکلی سے چھ میل جنوب کی سمت میں کوہِ مکلی کے پشتے پر قلعہ تغلق آباد تعمیر کیا (یا غالباً کسی قدیمی قلعہ کی مرمت و تجدید کی)، جسے اب کَلا کوٹ کہتے ہیں۔ اِسی قلعہ کو اُنہوں نے پایہ تخت بنالیا۔ تقریباً 900ھ مطابق 1495ءکے لگ بھگ سما سلطنت کے حکمران نظام الدین المعروف بہ جام نندو نے ساموئی اور کلا کوٹ کے درمیانی علاقہ میں ٹھٹہ کے نام سے دوبارہ آباد کیا اور دارالحکومت یہیں منتقل کرلیا۔[8]
صاحب تحفۃ الکرام کے بیان کے مطابق ٹھٹہ کی ازسر نو تعمیر و بنیاد میں نظام الدین جام نندو نے نجومیوں سے مدد لی تھی اور کہا تھا کہ:’’ ایک نیا شہر (بطور دارالحکومت) آباد کرنے کے لیے ایک ایسا قطعہ اراضی منتخب کیا جائے جو مسرت بخش ہو، جس کے باشندے کم و بیش آرام پسند ہوں، ہمیشہ سیر و تفریح میں زندگی گذاریں اور اُن کی فطرت میں کمال و لیاقت کی خوبی شامل ہو۔ چنانچہ اِنہی اوصاف و خصوصیات کے پیش نظر سرزمین ٹھٹہ کا اِنتخاب عمل میں لایا گیا ۔ جس کے مشرق میں کچھ باغات تھے اور وسط شہر میں میر بحر (ملاح) رہا کرتے تھے‘‘۔[9] موجودہ ٹھٹہ شہر کوہِ مکلی کے دامن میں قدیم شہر کے کھنڈرات پر آباد ہے ۔

تاریخ

سندھ کی سیاسی تاریخ میں ٹھٹہ کا تذکرہ بارہا آیا ہے۔ ٹھٹہ اور اِس کے نواح میں عرب فاتحین پہلی بار اُموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور میں وارد ہوئے اور محمد بن قاسم نے اَروڑ کی مہم کے لیے ٹھٹہ ہی کے قریب دریائے سندھ کو پار کیا۔ یہ علاقہ پہلے اُموی خلافت اور بعد ازاں خلافت عباسیہ کے عاملین کے ماتحت رہا۔

سلطنت غزنویہ

سلطنت غزنویہ کے نامور حکمران سلطان محمود غزنوی نے 1026ء میں عباسی خلیفہ القادر باللہ العباسی کے عاملوں کو ملتان اور اُچ سے نکال باہر کیا۔ 1026ء میں غزنوی وزیر عبدالرزّاق نے سلطان محمود غزنوی کے حکم کے مطابق ٹھٹہ اور سیوستان کے نواحی علاقوں اور اقوام کو زیر کرلیا اور عربوں کو سندھ سے مار بھگایا۔ ٹھٹہ پر غزنوی خاندان کا قبضہ 1183ء تک رہا جو کہ مجموعی طور پر157 سال کا عرصہ ہے۔ [10]

دہلی سلطنت

1183ء میں ٹھٹہ پر سے غزنوی اِقتدار ختم ہوا تو ٹھٹہ کی بدامنی کا دور شروع ہوگیا۔ یہ دور بہت ہی پرآشوب تھا۔ اِس دور کی بدامنی کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ ٹھٹہ کے حکام اور عوام‘ دونوں نے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا مثلاً تغلق خاندان کے عہدِ حکومت میں ہندو رعایا اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگی۔ 1320ء میں جبسلطان غیاث الدین تغلق ملتان سے دہلی گیا تو اُسی وقت سومرہ قوم نے بغاوت کردی اور ٹھٹہ پر تسلط قائم کرلیا۔ اِس کے بعد مارچ 1351ء کو جب سلطان محمد شاہ تغلق نے ٹھٹہ کے قریب وفات پائی تو گجرات کے حاکم ’’طَغِی‘‘ نے قوم سومرہ اور جاریجہ سے ساز باز کرکے سلطان فیروز شاہ تغلق کے خلاف بغاوت کردی اور سلطان فیروز شاہ تغلق سے ٹھٹہ کے قریب جنگ کی۔ 1370ء میں حاکم ٹھٹہ جام خیر الدین نے بھی بغاوت کردی۔ چنانچہ پے در پے بغاوتوں کے نتیجے میں سلطان فیروز شاہ تغلق کو ٹھٹہ میں آنا ہی پڑا۔ جام خیر الدین قلعہ بند ہوگیا، چونکہ موسم لشکرکشی کے لئے سازگار نہ تھا۔اِس لئے سلطان گجرات کی جانب بڑھ گیا۔واپسی پر جب ٹھٹہ آیا تو جام خیر الدین نے معافی طلب کرلی۔ سلطان فیروز شاہ تغلق نے اُس کے فرزند جام جُونہ کو ٹھٹہ کا حاکم مقرر کردیا۔ یہ واقعہ 1375ء کا ہے ۔[11]

سما سلطنت

خاندان تغلق کی حکمرانی کے دوران ہی سندھ میں سما سلطنت قائم ہوئی۔1336ء میں جام انار نے سما سلطنت کی داغ بیل ڈالی تو ٹھٹہ کے سیاسی و اخلاقی حالات بدستور ناگفتہ بہ تھے[12]۔ اِسی طرح 1406ء میں جام علی شیر جو کہ دانا و بہادر حکمران تصور کیا جاتا تھا، کو اُس کے بھائیوں نے دغا سے قتل کروا دیا۔ اِس زمانہ میں سلطان علی شاہ میران خاں بن سلطان سکندر بت شکن(813ھ ـ813ھ) نے ٹھٹہ فتح کرلیا۔[13]

مرکز تجارت

ٹھٹہ مدتِ دراز سے تجارت کا اہم مرکز رہا ہے۔ سلطنت مغلیہ کے زمانہ میں تجارت میں ٹھٹہ کی برابری ہندوستان کا کوئی شہر نہ کرسکتا تھا۔ اُس زمانے میں ملتان اور بھکر سے اَموال و اثقال براہِ دریائے سندھ کشتیوں میں ٹھٹہ لاتے تھے اور مسافر بلکہ لشکر بھی خشکی کے راستے پر، جہاں جنگل اور پانی کی دستیابی کی دشواری تھی، وہاں دریائے سندھ کے راستے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ 1758ء تک ٹھٹہ تجارت کا مرکز بن چکا تھا۔ ٹھٹہ سے بھکر تک کشتیوں کی آمد و رفت کا تانتا بندھا رہتا تھا[14]۔ 1591ء میں جب خانِ خاناں نے ٹھٹہ پر لشکر کشی کی تو بار بار لشکر کو غلہ کشتیوں کے ذریعہ لاہور سے وہاں تک پہنچایا گیا۔[15] 1614ء کے قریب قریب پرتگیزی لاہور سے کشتیوں میں سواریاں اور مال بھر کر ٹھٹہ لاتے تھے اور وہاں سے مال کو ایران بھیجتے تھے[16]۔ سیاح فوسٹر نے لکھا ہے کہ لاہور سے براہِ دریائے سندھ تک ایک مہینہ کا سفر تھا اور بالعکس دو مہینے کا؛ مگر بقول سیاح فنچ نے لکھا ہے کہ لاہور سے ٹھٹہ براہِ دریائے سندھ چالیس دن کی راہ پر ہے، بہت سی کشتیاں ساٹھ ٹن اور اُس سے زائد وزن کی برسات کے بعد ملتان، سیت پور (ضلع مظفر گڑھ) اور بھکر اور روہڑی کے راستے چلتی تھیں۔ کوہستانِ چنبہ سے لکڑی براستہ دریائے سندھ وزیر آباد اور وہاں سے کشتی ہائے چوب میں اُسے بھکر اور ٹھٹہ پہنچاتے تھے۔[17][18]

اہم مقامات

ٹھٹہ کے نوادرات میں جامع مسجد (جسے شاہجہانی مسجد اوربادشاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے) جو مغل بادشاہ شاہجہان نے 49-1647ء کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 93 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی آلہ کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ مقبروں میں یہاں سب سے بڑا اور قابلِ دید مقبرہ عیسیٰ خان ترخان کا ہے جو 1644ء میں انتقال کر گیا تھا۔ عیسیٰ خان ترخان نے یہ مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروا لیا تھا۔ مقبرے کی تعمیر مکمل ہوتے ہیں، عیسٰی خان نے مقبرے کو بنانے والے ہنرمند کے ہاتھ کٹوا دیے تھے تاکہ کوئی دوسرا بادشاہ اس طرح کا مقبرہ نہ بنوا سکے۔[19] عیسیٰ خان کے مقبرے کے علاوہ یہاں مرزا جانی بیگ، مرزا تغرل بیگ اور دیوان شرفاء خان کے مقبرے بھی نہایت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا اور قدیم قبرستان مکلی بھی ٹھٹہ کے قریب واقع ہے۔ یہ قبرستان جس میں لاکھوں قبو رہیں تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علما، فلسفی اور جرنیل ابدی نیند سو رہے ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہلِ قبر کے زمانے کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں موجود قبریں تاریخی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پہلا سما بادشاہوں کا دور جو (1520ء - 1352ء) تک رہا اور دوسرا ترخان بادشاہوں کا دور جو (1592ء - 1556ء) تک رہا۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں پر کی گئی نقاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قبرستان تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد بھی اُن کی عظمت و ہنر کا پتہ دیتا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔

کتابیات

مزید دیکھیں

حوالہ جات

  1. بستان السیاحۃ، ص 188، اشاعت دؤم
  2. میر علی شیر قانع ٹھٹوی : تحفۃ الکرام، 24 واں باب،ص 569
  3. احمد حسن دانی: Thatta: Islamic Architecture، ص 6
  4. Major General Malcolm Robert Haig: The Indus Delta Country, A Memoir, London, 1894, p. 77
  5. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 9، ص 973۔
  6. اردو دائرہ معارف اسلامیہ : جلد 9، ص 973۔
  7. Major General Malcolm Robert Haig: The Indus Delta Country, A Memoir, London, 1894, p. 77
  8. اردو دائرہ معارف اسلامیہ : جلد 9، ص 973۔
  9. میر علی شیر قانع ٹھٹوی: تحفۃ الکرام، ص 569۔
  10. اردو دائرہ معارف اسلامیہ : جلد 6، ص 974۔
  11. اردو دائرہ معارف اسلامیہ : جلد 6، ص 974۔
  12. اردو دائرہ معارف اسلامیہ : جلد 6، ص 974۔
  13. سجان رائے: خلاصۃ التواریخ، ص398۔
  14. اردو دائرہ معارف اسلامیہ : جلد 6، ص 973۔
  15. خلاصۃ التواریخ: صفحہ60، 415۔
  16. Major General Malcolm Robert Haig: The Indus Delta Country, A Memoir, London, 1894, p. 78
  17. سجان رائے: خلاصۃ التواریخ، ص77 ۔
  18. اردو دائرہ معارف اسلامیہ : جلد 6، ص 974۔