"دوحہ معاہدہ (2020)" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار:تبدیلی ربط V3.4
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 35: سطر 35:




'''دوحہ معاہدہ''' یا '''افغانستان میں معاہدہ برائے امن'''([[پشتو]]:افغانستان ته د سولې راوستلو تړون) اس معاہدے کا نام ہے جو [[ریاستہائے امریکا]] اور [[طالبان]] کے مابین چلا۔ معاہدے کا مقصد افغانستان میں 20 سال سے چلنے والی جنگ کا خاتمہ اور دونوں فریق کے مابین امن کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو کچھ اصول اور مطالبات کا پابند کرنا تھا۔
'''دوحہ معاہدہ''' یا '''افغانستان میں معاہدہ برائے امن'''([[پشتو]]:افغانستان ته د سولې راوستلو تړون) اس معاہدے کا نام ہے جو [[ریاستہائے متحدہ امریکا]] اور [[طالبان]] کے مابین چلا۔ معاہدے کا مقصد افغانستان میں 20 سال سے چلنے والی جنگ کا خاتمہ اور دونوں فریق کے مابین امن کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو کچھ اصول اور مطالبات کا پابند کرنا تھا۔


معاہدے کا ہی نتیجہ تھا جس کی وجہ سے مغربی طاقتوں نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنے پر اتفاق کیا۔اس کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک نے طالبان کو اس بات کا پبند بنایا کہ وہ کسی صورت [[القاعدہ]] کو پنپنے نہیں دے گا۔امریکا نے ابتدائی میں اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ افواج کی تعداد کو 13 ہزار فوجیوں سے کم کر کے 8000 پر لے آئے گی اور وہ بحی جولائی 2020 تک جس کے بعد 14 ماہ میں امریکا مرحلہ وار مکمل انخلا کرے گا بشرطیکہ طالبان اپنی باتوں پر عمل کرتے ہوئے معاہدے کے نکات پر عمل درآمد یقینی بنائے۔
معاہدے کا ہی نتیجہ تھا جس کی وجہ سے مغربی طاقتوں نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنے پر اتفاق کیا۔اس کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک نے طالبان کو اس بات کا پبند بنایا کہ وہ کسی صورت [[القاعدہ]] کو پنپنے نہیں دے گا۔امریکا نے ابتدائی میں اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ افواج کی تعداد کو 13 ہزار فوجیوں سے کم کر کے 8000 پر لے آئے گی اور وہ بحی جولائی 2020 تک جس کے بعد 14 ماہ میں امریکا مرحلہ وار مکمل انخلا کرے گا بشرطیکہ طالبان اپنی باتوں پر عمل کرتے ہوئے معاہدے کے نکات پر عمل درآمد یقینی بنائے۔
معاہدے میں [[چین]]،[[روس]] اور [[پاکستان]] نے تعاون کی اور اسے اقوامی متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے مشترکہ طور پر تسلیم کیا تاہم اس میں اس وقت کے افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا جس کی صدارت [[اشرف غنی]] کر رہے تھے۔معاہدے کے باوجود ملک کی اندرونی حالات ابتدائی ایام میں خراب تر ہوئے جس میں طالبان اور افغان فورسز کے مابین جنگ جدل شدت اختیار کرگئی۔ ان حالات کی پیش نظر اس وقت کی افغان حکومت اور ان کی فورسز سخت ناکامی سے دوچار ہوئے اور طالبان یک کی بعد دیگر شہروں اور صوبے کو قبضہ کرتے رہے۔ حتی کہ امریکی اور دیگر انٹلجنس اداروں نے یہ پیشنگوئی کی کہ افغان حکومت چند ماہ میں منہدم ہوجائے گی اور افغانستان پر ایک بار پھر طالبان اپنا اقتدار قائم کرلیں گے مگر وہ پیشنگوئیاں غلط ثابت ہوئی اور طالبان نے مہینوں کی بجائے چند دونوں میں اکثریتی صوبے قبضہ کرلئے یہاں تک کہ 15 اگست کو اشرف غنی حکموت مکمل طور پر گرگئی جسے [[سقوط کابل 2020|سقوط کابل]] کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ساری صورتحال کے لئے زمین دوحہ معاہدے نے ہموار کی۔

The Agreement was supported by China, Russia, and Pakistan[3] and unanimously endorsed by the UN Security Council,[4] but did not involve the government of Afghanistan.[3] India welcomed the pact.[5][6]

Despite the peace agreement, insurgent attacks against Afghan security forces surged in the aftermath, with thousands killed. However, withdrawals per the agreement continued. By January 2021, just 2,500 US troops remained in the country, and NATO forces fully evacuated by the end of that summer. The US completed its full evacuation on August 30, 2021, as the Taliban took control of the country by force.

نسخہ بمطابق 07:13، 3 دسمبر 2021ء

دوحہ معاہدہ
معاہدہ برائے امن در افغانستان
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیلزاد اور ملا عبدالغنی برادر معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔
قسمامن معاہدہ
سیاق و سباقافغان جنگ (2001–2021)
دستخط29 فروری 2020؛ 4 سال قبل (2020-02-29)
مقامشیراتون ہوٹل، دوحہ، قطر
دستخط کنندگان زلمے خلیلزاد
سانچہ:Country data امارت اسلامی افغانستان عبدالغنی برادر
فریق ریاستہائے متحدہ
طالبان
زبانیں
Agreement for Bringing Peace to Afghanistan at Wikisource


دوحہ معاہدہ یا افغانستان میں معاہدہ برائے امن(پشتو:افغانستان ته د سولې راوستلو تړون) اس معاہدے کا نام ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکا اور طالبان کے مابین چلا۔ معاہدے کا مقصد افغانستان میں 20 سال سے چلنے والی جنگ کا خاتمہ اور دونوں فریق کے مابین امن کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو کچھ اصول اور مطالبات کا پابند کرنا تھا۔

معاہدے کا ہی نتیجہ تھا جس کی وجہ سے مغربی طاقتوں نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنے پر اتفاق کیا۔اس کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک نے طالبان کو اس بات کا پبند بنایا کہ وہ کسی صورت القاعدہ کو پنپنے نہیں دے گا۔امریکا نے ابتدائی میں اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ افواج کی تعداد کو 13 ہزار فوجیوں سے کم کر کے 8000 پر لے آئے گی اور وہ بحی جولائی 2020 تک جس کے بعد 14 ماہ میں امریکا مرحلہ وار مکمل انخلا کرے گا بشرطیکہ طالبان اپنی باتوں پر عمل کرتے ہوئے معاہدے کے نکات پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ معاہدے میں چین،روس اور پاکستان نے تعاون کی اور اسے اقوامی متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے مشترکہ طور پر تسلیم کیا تاہم اس میں اس وقت کے افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا جس کی صدارت اشرف غنی کر رہے تھے۔معاہدے کے باوجود ملک کی اندرونی حالات ابتدائی ایام میں خراب تر ہوئے جس میں طالبان اور افغان فورسز کے مابین جنگ جدل شدت اختیار کرگئی۔ ان حالات کی پیش نظر اس وقت کی افغان حکومت اور ان کی فورسز سخت ناکامی سے دوچار ہوئے اور طالبان یک کی بعد دیگر شہروں اور صوبے کو قبضہ کرتے رہے۔ حتی کہ امریکی اور دیگر انٹلجنس اداروں نے یہ پیشنگوئی کی کہ افغان حکومت چند ماہ میں منہدم ہوجائے گی اور افغانستان پر ایک بار پھر طالبان اپنا اقتدار قائم کرلیں گے مگر وہ پیشنگوئیاں غلط ثابت ہوئی اور طالبان نے مہینوں کی بجائے چند دونوں میں اکثریتی صوبے قبضہ کرلئے یہاں تک کہ 15 اگست کو اشرف غنی حکموت مکمل طور پر گرگئی جسے سقوط کابل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ساری صورتحال کے لئے زمین دوحہ معاہدے نے ہموار کی۔

The Agreement was supported by China, Russia, and Pakistan[3] and unanimously endorsed by the UN Security Council,[4] but did not involve the government of Afghanistan.[3] India welcomed the pact.[5][6]

Despite the peace agreement, insurgent attacks against Afghan security forces surged in the aftermath, with thousands killed. However, withdrawals per the agreement continued. By January 2021, just 2,500 US troops remained in the country, and NATO forces fully evacuated by the end of that summer. The US completed its full evacuation on August 30, 2021, as the Taliban took control of the country by force.