"گوئٹے" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.1) (روبالہ جمع: ckb:یۆهان ڤوڵفگانگ گۆتە
سطر 133: سطر 133:
[[sl:Johann Wolfgang von Goethe]]
[[sl:Johann Wolfgang von Goethe]]
[[szl:Johann Wolfgang von Goethe]]
[[szl:Johann Wolfgang von Goethe]]
[[ckb:یۆهان ڤوڵفگانگ گۆتە]]
[[sr:Јохан Волфганг Гете]]
[[sr:Јохан Волфганг Гете]]
[[sh:Johann Wolfgang von Goethe]]
[[sh:Johann Wolfgang von Goethe]]

نسخہ بمطابق 18:08، 10 اکتوبر 2012ء

گوئٹے 38 سال کی عمر میں

گوئٹے (آلمانی زبان میں Johann Wolfgang von Goethe ) آلمان یعنی جرمنی کا مشہور شاعر اور فلسفی تھا۔ وہ 28 اگست 1749ء کو پیدا ہوا اور 22 مارچ 1832ء کو انتقال کیا۔ شاعری، ڈرامہ، ادب، فلسفہ، الٰہیات، عرض بے شمار اصناف میں لکھتا رہا۔ گوئٹے اگرچہ جرمن ادیب تھا لیکن وہ عالمی ادب کے گنے چنے قافلہ سالاروں میں شمار ہوتا ہے- وہ بیک وقت شاعر، ناول نویس، ڈراما نگار اور فلسفی تسلیم کیا جاتا ہے- وہ متنوع اور ہمہ گیر طبعیت کا مالک تھا اور اسکی دلچسپیاں بھی لامحدود تھیں- ادب کے علاوہ اس نے قانون، طب، علم کیمیا اور علم برق کی تعلیم بھی حاصل کی- وہ سیاستدان، تھیٹر ڈائریکڑ، نقاد اور سائنس دان بھی تھا- ان تمام صفات نے مل جل کر اسے عالمی ادب کی دیوقامت شخصیات کی صف میں لاکھڑا کیا- بین الاقوامی شہرت و مقبولیت میں وہ ہومر، شیکسپیئر اور دانتے کا ہم پلہ نظر آتا ہے۔[1]۔

گوئٹے،اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

گوئٹے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔[2]

گوئٹے ایک اور جگہ لکھتا ھے:

”سالہا سال خدا سے نا آشنا پوپ ہمیں قرآن اور اس کے لانے والے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت سے دور رکھے رھے مگر علم و دانش کی شاھراہ پر جتنا ہم نے قدم آگے بڑھایاتو جہالت و تعصب کے ناروا پردے ہٹتے گئے اور بہت جلد اس کتاب نے جس کی تعریف و توصیف نہیں ھوسکتی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس نے دنیا کے علم و دانش پر گھرا اثر کیا ھے او رآخر کار یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں کے افکار کا محور قرار پائے گی“۔ مزید لکھتا ھے: ”ہم ابتدا میں قرآن سے روگرداں تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس کتاب نے ھماری توجہ اپنی طرف جذب کرلی اور ہمیں حیران کردیا یھاں تک کہ اس کے اصول اور عظیم علمی قوانین کے سامنے ہم نے سرِتسلیم خم کردیا۔[3]

قرآن کے بارے میں لکھتا ہے کہ ”قرآن ایسی کتاب ھے کہ ابتدا میں قاری اس کی وزنی عبارت کی وجہ سے روگردانی کرنے لگتا ھے لیکن اس کے بعد اس کی کشش کا فریفتہ ھوجاتا ھے او ربے اختیار اس کی متعدد خوبیوں کا عاشق ہوجاتا ھے“۔ [4]

گوئٹے Goethe (1749-1832) جرمن شاعر، ڈرامہ نگار، ناول نویس اور سائنس دان جوہان ولف کانگ وون گوئٹےJohann Wolfgang von Goethe 28 اگست 1749ء میں فرینکفرٹ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ جوہان کیسپر گوئٹے ( 1710ء ۔1782)ایک وکیل تھا لیکن گوئٹے کی پیدائش کے وقت وہ اپنے چار منزلہ مکان میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا ۔ اس کی اپنی لائبریری بہت بڑی تھی اور مصوری کے بہت سے نمونے بھی اس کے پاس تھے ۔ مزاجاً سخت ، مغرور اور سنکی کتابوں کا رسیا گوئٹے کی ماں کیتھرین ایلزبیتھ ( 1731۔1808)فرینکفرٹ کے میئر کی بیٹی تھی ۔ خوش مزاج ، ہنس مکھ ، نیک سیرت ، شاعری اور تھیٹر کی رسیا ۔ اس نے ایک چھوٹا سا تھیٹر بھی اپنے گھر میں بنا رکھا تھا ۔ اپنے بچپن کا ذکر گوئٹے نے بہت محبت سے کیا ہے ۔ ماں کی خوش مزاج شخصیت نے گوئٹے کی شخصیت کو وہ دلآویزی عطا کی کہ وہ جہاں جاتا پسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا ۔ ابتدائی تعلیم اپنے باپ سے حاصل کی اور بعد میں مختلف اتالیق سے مختلف علوم کی تعلیم حاصل کی ۔ گوئٹے لاطینی ، یونانی اورانگریزی پڑھ سکتا تھا ۔ عبرانی سے بھی شدید تھی ۔ فرانسیسی اور اطالوی روانی سے بول سکتا تھا ۔ وائلن بجانا ۔ اسکیچ بنانا ، مصوری کرنا ، گھوڑ سواری ، رقص اور تیرا کی اس نے اسی زمانے میں سیکھے ۔ 1765میں وہ قانون کی تعلیم کے لیے لیئپ زگ گیا 1768ء میں وہ بیمار پڑ گیا اور فراینکفرٹ واپس آگیا ۔ چھ بچوں میں سے صرف گوئٹے اور اس کی بہن بچے تھے اس لیے ان کی تعلیم و تربیت پر والدین نے پوری توجہ دی ۔ 1771ء میں اسٹراس برگ میں اس نے قانون کی تعلیم مکمل کی ۔ وہیں اس کی ملاقات ہر ڈر سے ہوئی ۔ ہر ڈر گوئٹے سے پانچ سال بڑا تھا ۔ یہیں اس کی ملاقات ان نوجوانوں سے بھی ہوئی جو درباروں کی تصنع پسندی ، مبلغوں کے کھوکھلے لفظوں اور تاجروں کے استحصال کے خلاف تھے اور اس بات پر افسردہ اور شاکی تھے کہ نوجوانوں کو جرمن معاشرہ میں وہ مقام نہیں مل رہا ہے جس کے وہ اپنی اہلیت وصلاحیت کے لحاظ سے ، مستحق ہیں ۔ احساس محرومی ان پر چھایا ہوا تھا ۔ وہ آزادی فکر وہ اظہار کے حامی اور سارے معاشرے میں ذہنی بیداری پیدا کرنے کے خواہش مند تھے ۔ نوجوانوں کی اس تحریک کا نام اسٹرم انڈڈرینگ Sturm Und Drang تھا۔اس تحریک سے متاثر ہو کر گوئٹے نے غنائیہ نظمیں لکھیں ۔ اسی زمانے میں گوئٹے رومو اور اسپنوزا سے بھی متاثر ہوا ۔ اسی دور میں اسے جانوروں اور پودوں کے مطالعے کا شوق بھی پیدا ہوا ، جو ساری عمر جاری رہا اور اس نے علم حیاتیات اور نباتات کی بھی اہم خدمت انجام دی ۔1772ء میں اس نے وکالت شروع کی ۔ اس وقت گوئٹے کی عمر صرف 23سال تھی ۔ خوبصورت نوجوان ، کشادہ پیشانی ، بڑی بڑی روشن آنکھیں ، عاشق مزاج اور جذباتی۔ اس کے بارے میں یہ خیال عام تھا کہ ا س شخص کے دماغ کے کچھ پیچ ڈھیلے ہیں ۔ یہاں اس کے بہت سے معاشقے چلے نوکا ذکر اس نے خود کیا ہے فریڈیرک براؤن کا ذکر سب سے اہم اس لیے ہے کہ خود گوئٹے نے بڑی محبت اور جذبے کے ساتھ اس کا ذکر کیاہے ۔ جب وہ اسے حاصل ہو گئی تو گوئٹے نے اپنے ایک دوست کو لکھا کہ ” انسان اپنی مطلوبہ چیز حاصل کرکے ذرہ برابر بھی زیادہ خوش نہیں ہو جاتا “ ۔ قانون کی ڈگری لینے کے بعد اس نے فریڈیرک براؤن کو الوداع کہا لیکن بے چاری براؤن نے ساری عمر شادی نہیں کی اور 1813ء میں مر گئی ۔ گوئٹے کو اپنی بے وفائی کا شدید احساس تھا ۔ اسی سال اس نے اپنا ڈراما Gotz Von Berlichingenلکھا اور اس کی کاپی فریڈیرک کو یہ کہہ کر بھجوائی کہ بے چاری فریڈیرک کو کسی حد تک اس بات سے تسلی ہوگی کہ ڈرامے میں بے وفا عاشق کو زہر دے دیا گیا ہے ۔ اس ڈرامے پر نوجوانوں کی تحریک کا گہرا اثر ہے ۔ مئی 1772ء میں وہ وکالت کے سلسے میں ویٹنرلر چلا آیا ۔یہیں اس کی ملاقات جیرو سلم اور کیسنر سے ہوئی جس کی منگیتر پر وہ عاشق ہوگیا اور جب ناکام ہوا تو دوسرے ہی دن اس شہر کوچھوڑ دیا ۔ راستے میں وہ ایک دوست کے گھر ٹھہرا جس کے دو بیٹیاں تھیں ۔ بڑی بیٹی ماکس ملیانی ( Maximiliane) کودیکھ کر اس کے جذبات میں ہیجان برپا ہوگیا ۔ گوئٹے نے اپی سوانح میں لکھا ہے کہ ” یہ احساس بہت خوشگوار ہوتا ہے جب کوئی نیا جذبہ ہمارے اندر ہلچل مچا دیتا ہے جب کہ پرانا ابھی پورے طور سے معدوم نہ ہوا ہو ۔ جب سورج غروب ہورہا ہوتا ہے تو انسان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ دوسری طرف چاند طلوع ہونا شروع ہو ماکس ملیانی کی شادی پیٹر برنیٹانو سے ہوگئی اور اس کے بطن سے وہ لڑکی پیدا ہوئی 35سال بعد جس کے عشق میں گوئٹے گرفتار ہوا ۔ اسی سال اسے اطلاع ملی کہ جیرو سلم نے اپنے کسی دوست کی بیوی کے عشق میں گرفتاری و ناکامی کے بعد کیسنر کے پستول سے خود کشی کر لی ہے ۔ 1774ء میں اسی واقعہ سے متاثر ہو کر اس نے ” ورتھر کی داستان غم “ لکھی ۔ یہ ناول اتنا مقبول ہوا کہ اس کی شہرت سارے یورپ میں پھیل گئی یورپ کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا ۔ چینی اور اردو میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے ۔ اس ناول میں گوئٹے نے شارولیٹ بف سے اپنے عشق کی ناکامی کے تجربے کو شدت اظہار کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ 1775ء میں گوئٹے و یمر آگیا اور ڈیوک کے دربار سے وابستہ ہو گیا ۔ ڈیوک نے گوئٹے کو اس قدر پسند کیا کہ وہ تین سال تک ہمہ وقت ڈیوک کے ساتھ رہا ۔ ڈیوک نے تو اپنا دربار سجانے کے لیے ایک شاعر کو وابستہ کیا تھا لیکن صلاحیتوں کو دیکھ کر اسے وزیر مقرر کر دیا اور بعد میں اپنی ریاست کی انتظامیہ کا رکن اعلی بنا دیا ۔ دس سال تک وہ ریاست کے کاموں میں لگا رہا اور عزت و دولت کے ساتھ زندگی بسر کی ۔ 1786ء میں وہ بغیر کہے اٹلی چلا گیااور دو سال وہاں رہا ۔ اٹلی کے سفر و قیام نے گوئٹے کے رومانی انداز فکر کو بدل دیا اور اس پر کلاسیکل انداز نظر چھا گیا ۔ 1787ء اور 1817ء کے درمیان اس نے کئی ڈرامے ناول لکھے سفر نامہ اور تنقید بھی اسی زمانے میں لکھے ۔ اٹلی کے دوران قیام میں ڈیوک نے گوئٹے کی مرضی سے دوسرا وزیر اعلی مقررکر دیا ۔ واپسی پر اس نے امور تعلیم کا عہدہ سنبھال لیا ۔ اٹلی سے واپسی پر اس نے انقلاب فرانس کے خلاف لکھنا شروع کیا ۔ اس کا نقطہ نظریہ تھا کہ انصاف پسندی اور مساوات و اخوت کے اصول نہایت اچھے ہیں لیکن وہ طریقہ کار ، جس میں بربریت ، قتل و غارتگری اورانتہا پسندی شامل ہو ، غلط ہے ۔ 1788 ء میں 23سالہ کرسٹیانے اس کی زندگی میں داخل ہوئی وہ کسی مصنوعی پھول بنانے والے کارخانے میں ملازم تھی اور اپنے بھائی کے کسی کام سے آئی تھی ۔ وہ ان پڑھ اور جاہل تھی لیکن گوئٹے اس کی سادگی ، تازگی اور چمچماتی ہوئی جوانی کو دیکھ کر لہلوٹ ہو گیا ۔ پہلے اپنے پائیں باغ کی نگرانی کے لیے اسے رکھ لیا ۔ پھر وہ داشتہ کی حیثیت سے رہنے لگی ۔ 1789ء میں وہ حاملہ ہو گئی تو اسے ویمر والے گھر میں لے آیا ۔ 1806ء میں اس سے شادی کی۔ 1794ء میں شلر سے گوئٹے کی ملاقات ہوئی ۔ شلر نے گوئٹے پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان کی دوستی شلر کے مرنے 1805ء تک قائم رہی ۔ 1790ء ۔94کا زمانہ گوئٹے کی بے یقینی اور تذبذب کا زمانہ تھا جس سے شلر ہی نے اسے نکالا ۔ 1808میں گوئٹے نے فاؤسٹ کا پہلا حصہ شائع کیا جس کے لکھنے میں وہ نوجوانی سے اب تک کسی نہ کسی طرح مصروف رہا تھا ۔ گوئٹے کا نام ” فاؤسٹ “ کی وجہ سے امر ہے گوئٹے نے فاؤسٹ کی داستان کو ازسر نو تشکیل دیا اور اسے دنیا کی ایک عظیم ترین شاعرانہ و فلسفیانہ تخلیق بنا دیا ۔ 1811ء میں اس نے اپنی خود نوشت سوانح عمری ” شاعری اور سچائی “ لکھنی شروع کی جو 1833ء تک مسلسل شائع ہوتی رہی 1819ء میں ” دیوان مغرب “ شائع کیا جس پر فارسی شاعری اور حافظ کی غزل کا گہرا اثر ہے یہ زمانہ گوئٹے کی شاعرانہ تخلیقات کا بہترین زمانہ ہے ۔ 1831ء کے آخری دنو ں میں اس نے فاؤسٹ کے دوسرے حصے کی آخری سطریں لکھیں اور طنزیہ بے نیازی سے کہا کہ یہ آنے والی نسلوں کے ان نقادوں کی میراث ہے جو اس کے نقائص اور کمزوریاں دریافت کریں گے ۔ فاؤسٹ کا دوسرا حصہ اس کے مرنے کے بعد شائع ہوا ۔ 22مارچ 1832ء میں 82سال اور سات ماہ کی عمر میں یہ لافانی مصنف فانی انسانوں کی طرح مر گیا ۔ اس نے جو کچھ لکھا وہ ایک انسان کا کام نہیں تھا ۔ صرف سائنس کے بارے میں اس کی تحقیقات چودہ جلدوں میں شائع ہوئی ہیں اس کی کل تصانیف ” ویمرایڈیشن “ کے نام سے 140جلدوں میں شائع ہو چکی ہیں ۔ گوئٹے کا تخلیقی عمل آخر عمر تک زندہ و جاری رہا ۔ وہ ارتقا کرتا رہا ، بدلتا رہا اور تخلیق کرتا رہا ۔ گوئٹے کو میتھیو آرنلڈ ہر دور کا سب سے بڑا نقاد کہتا ہے گوئٹے کا رجحان کلاسیکی ہے مگر کلاسیکیت کو بھی وہ اپنے اعلی ذوق اور زندگی کے تعلق سے دیکھنے پر زور دیتا ہے اور اسی زاویہ نظر سے گوئٹے کو ہم میتھیو آرنلڈ کا پیشرو کہہ سکتے ہیں ۔ گوئٹے کے بارے میں میتھو آرنلڈ لکھتا ہے کہ ” اب جب کہ زندگی اور دنیا بہت پیچیدہ چیزبن گئی ہے جدید شاعری کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ تنقیدی شعور اور تنقیدی کاوش اس کے اندر موجود ہو ورنہ وہ تخلیق بذات خود سطحی اور بے وقعت ہوگی اسی لیے بائرن کی شاعری میں ہمیشہ زندہ رہنے کی قوت کم نظر آتی ہے اور اس کی برخلاف گوئٹے کی شاعری میں یہ قوت اسی وجہ سے زیادہ ہے ۔ بائرن اور گوئٹے دونوں میں تخلیقی صلاحیت بہت اعلی درجے کی تھی لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ گوئٹے کی ذہنی تربیت تنقیدی کاوش اور تنقیدی شعور کے ذریعے ہوئی اور اس شعور نے اس کے سامنے نئے آسمان اور نئے افق کھول دیئے ۔ یہ چیزیں شاعری کے بنیادی لوازمات اور شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں اور گوئٹے بائرن سے کہیں زیادہ ان کا گہرا شعور رکھتا ہے “ گوئٹے کے اسی گہرے تنقیدی شعور کی وجہ سے اس کا تخلیقی عمل آخر عمر تک ترقی کرتا رہا ۔

حوالہ جات