"غزوہ بنی قریظہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 6: سطر 6:


== جنگ ==
== جنگ ==
ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کے دوران یہ جنگ ہوئی۔ 23 ذی القعدہ کو غزوہ خندق کے فوراً بعد حضور {{درود}} تین ہزار سپاہ کے ساتھ بنی قریظہ کے ساتھ جنگ کے لیے نکلے تاکہ انہیں ان کی عہد شکنی کی سزا دی جائے۔
ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کے دوران یہ جنگ ہوئی۔ 23 ذی القعدہ کو غزوہ خندق کے فوراً بعد حضور {{درود}} تین ہزار سپاہ کے ساتھ بنی قریظہ کے ساتھ جنگ کے لیے نکلے تاکہ انہیں ان کی عہد شکنی کی سزا دی جائے۔ نمازِ عصر قلعہ بنی قریظہ کے پاس پڑھی گئی اور قلعہ کا محاصرہ کر لیا گیا۔ اس دوران تیر اندازی کے علاوہ کوئی جنگ نہ ہوئی مگر بنی قریظہ سمجھ گئے کہ ان کی خیر نہیں ہے اور مسلمانوں سے مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اپنا نمائندہ حضور {{درود}} کے پاس بھیجا اور کہا کہ وہ اپنا مال لے کر مدینہ چھوڑ دیتے ہیں مگر وہ نہ مانے پھر بنی قریظہ نے پیشکش کی کہ وہ اپنا مال بھی چھوڑ دیتے ہیں لیکن ان کی جان بخشی کی جائے۔ مگر حضور درود کو یہ معلوم تھا کہ اگر بنی قریظہ مدینہ سے چلے گئے تو وہ بھی بنی نضیر جیسے دیگر یہودی قبائل کی طرح مسلمانوں کے خلاف سارشیں کرتے رہیں گے۔


== حوالے ==
<references/>


[[زمرہ:تاریخ اسلام]]
[[زمرہ:تاریخ عرب]]

[[ar:غزوة بني قريظة]]
[[ca:Bani Qurayza]]
[[de:Banu Quraiza]]
[[en:Banu Qurayza]]

نسخہ بمطابق 18:31، 10 جون 2007ء

مدینہ کے اندر ایک قبیلہ بنی قریظہ رہتا تھا جس کے ساتھ مسلمانوں نے امن کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ غزوہ خندق میں انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی جو خدا کے فضل سے ناکام ہو گئی۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے ان سے جنگ کی اور عہد شکنوں کو ھلاک کر دیا۔

پس منظر

غزوہ خندق کے دوران مشرکین و یہود نے مدینہ کے اندر رہنے والے ایک قبیلہ بنی قریظہ سے رابطہ کیا اور مسلمانوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی۔ یہودیوں نے مسلمانوں سے معاہدہ کر رکھا تھا اس لیے مسلمانوں نے ان کی طرف سے بے فکری اختیار کی ہوئی تھی۔ یہودیوں نے اپنی قدیم فطرت کے عین مطابق دغا کی اور نو سو افراد مسلمانوں پر حملہ کے لیے تیار ہو گئے۔ جب یہ افواہ پھیلی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو تحقیق کے لیے بنی قریظہ کی طرف بھیجا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اگر یہ بات ٹھیک نکلی تو اس کی اطلاع خفیہ طور پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی جائے تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست نہ ہوں۔ یہ بات درست نکلی[1]۔ بنو قریظہ کو شک تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کریں اور قریش پیٹھ پھیر کر چلے جائیں تو اچھا نہ ہوگا۔ اس لیے انہوں نے قریش سے کچھ ان کے کچھ لوگ بطور یرغمال مانگے جسے قریش نے اپنی توہین سمجھا۔ اس دوران مسلمان یہودی سازش سے آگاہ ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے راتوں کو پانچ سو سواروں کا گشت شروع کیا اور نعرہ تکبیر لگا کر بزدل یہودیوں کا جگر پانی کرتے رہے۔ انہی وجوہ سے بنی قریظہ عملی طور پر حملہ نہ کر سکے۔


جنگ

ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کے دوران یہ جنگ ہوئی۔ 23 ذی القعدہ کو غزوہ خندق کے فوراً بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تین ہزار سپاہ کے ساتھ بنی قریظہ کے ساتھ جنگ کے لیے نکلے تاکہ انہیں ان کی عہد شکنی کی سزا دی جائے۔ نمازِ عصر قلعہ بنی قریظہ کے پاس پڑھی گئی اور قلعہ کا محاصرہ کر لیا گیا۔ اس دوران تیر اندازی کے علاوہ کوئی جنگ نہ ہوئی مگر بنی قریظہ سمجھ گئے کہ ان کی خیر نہیں ہے اور مسلمانوں سے مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اپنا نمائندہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بھیجا اور کہا کہ وہ اپنا مال لے کر مدینہ چھوڑ دیتے ہیں مگر وہ نہ مانے پھر بنی قریظہ نے پیشکش کی کہ وہ اپنا مال بھی چھوڑ دیتے ہیں لیکن ان کی جان بخشی کی جائے۔ مگر حضور درود کو یہ معلوم تھا کہ اگر بنی قریظہ مدینہ سے چلے گئے تو وہ بھی بنی نضیر جیسے دیگر یہودی قبائل کی طرح مسلمانوں کے خلاف سارشیں کرتے رہیں گے۔


حوالے

  1. المغازی جلد ۲ صفحہ ۴۵۴