"زبور" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ جمع: ru:Забур (книга)
م روبالہ: منتقلی 15 بین الویکی روابط، اب ویکی ڈیٹا میں d:q1369122 پر موجود ہیں
سطر 24: سطر 24:
[[زمرہ:تاریخ یمن]]
[[زمرہ:تاریخ یمن]]
[[زمرہ:اسلامی متون]]
[[زمرہ:اسلامی متون]]
[[ar:زبور]]
[[fa:زبور]]
[[en:Zabur]]
[[bn:যাবুর]]
[[de:Zabur]]
[[fr:Zabur]]
[[id:Zabur]]
[[kk:Забур]]
[[ml:സബൂർ]]
[[ms:Zabur]]
[[nl:Zaboer]]
[[no:Zabur]]
[[ru:Забур (книга)]]
[[te:జబూర్]]
[[tr:Zebur]]
[[tr:Zebur]]
[[uk:Забур]]

نسخہ بمطابق 16:18، 12 مارچ 2013ء

زبور (عبرانی תהילים، تلفظ تہیلیم) عبرانی صحائف (عہد عتیق) میں سے ایک کتاب ہے۔قرآن میں مذکور کتب آسمانی میں سے سب سے پہلے زبور کا ذکر آتا ہے۔ زبور کو عام طور پر حضرت داؤد سے منسوب کیا جاتا ہے۔

زبور کی کتاب ۱۵۰ مزامیر پر مشتمل ہے۔ عبرانی روایات میں زبور کو پانچ حصص میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا حصہ ۴۱ مزامیر پر مستمل ہے، دوسرا حصہ ۳۱ مزامیر پر مشتمل ہے، تیسرااور چوتھا حصہ۱۷، ۱۷ مزامیر، اور پانچواں حصہ ۴۴ مزامیر پر مشتمل ہے۔

مزامیر ۱۲۰ تا ۱۳۴ اناشیدِ صعود کہلاتے ہیں۔ کہا جانا ہے کہ یہ مزامیر تب پڑھے جاتے تھے جب زائرین ہیکلِ سلیمانی کی طرف بڑھا کرتے تھے۔ مزمور ۱۱۹ طویل ترین مزمور ہے جو کہ ۱۷۶ آیات اور ۸ حصص پر مشتمل ہے، ہر حصے میں ۲۲ آیات ہیں، ہر حصہ عبرانی حروفِ تہجی کے بالترتیب حروف سے شروع ہوتا ہے۔ مزمور ۱۱۷، جوکہ ۲ آیات پر مشتمل ہے سب سے چھوٹا مزمور ہے۔

مفسرین اور ماہرین مزامیر کو کئ اقسام میں بانٹتے ہیں جن میں حمدیہ، مرثیا ئی، شکر گذاری، حکمت، لطوریائی مزامیر شامل ہیں۔

مسيحیت میں

مسيحیت میں زبور کے مزامیر کو داؤد علیہ السلام کے گیت سمجھا جاتا ہے جو انہوں نے خدا کی شان میں بنائےـ یہ پرانے عہد نامہ کا حصہ ہیں اور اکثر مواقع پر پرھے جاتے ہیں ـ زبور کو خدا کا کلام سمجھا جاتا ہے لیکن ان کو خدا کی قدرت سے داؤد علیہ السلام نے خود بنایا ـ

یہودیت میں

یہودیت میں زبور تناخ کا حصہ ہےـ اس کے کئی مزامیر داؤد کے بنائے گئے سمجھے جاتے ہیں اور کئی حضرت سليمان علیہ السلام کے بنائے ہوئے ـ حمدیہ مزامیر کو عبادت میں پرھا جاتا ہےـ

بیرونی روابط

Theological Wordbook of the Old Testament, vol. 1, pg. 245.
K. Ahrens, Christliches im Qoran, in ZDMG , lxxxiv (1930), 29
C. G. Pfander, The Balance of Truth, pg. 51