فرقہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

فرقہ کے معنی جماعت یا گروہ کے ہیں۔ یہ لفظ "فرق" سے مشتق ہے، جس کے معنی الگ کرنا/جدا ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں فرقہ کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ کسی بھی مذہب، جماعت (سیاسی یا مذہبی) یا گروپ کا ذیلی حصہ ہوتا ہے جو اپنے الگ خیالات و نظریات کی وجہ سے الگ جانا جاتا ہے۔

قرآن مجید میں فرقہ کا ذکر[ترمیم]

القرآن : فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ ٱلضَّلَٰلَةُ ۗ إِنَّهُمُ ٱتَّخَذُوا۟ ٱلشَّيَٰطِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ {7:30} ترجمہ : ایک فرقہ کو ہدایت کی اور ایک فرقہ پر مقرر ہو چکی گمراہی انھوں نے بنایا شیطانوں کو رفیق اللہ کو چھوڑ کر اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں۔

لوگ آج کل اتفاق اتفاق تو پکارتے ہیں مگر اس کی حدود کی رعایت نہیں کرتے، بس اتنا یاد کر لیا ہے کہ قرآن میں حکم ہے” افتراق نہ کرو“۔(٣/١٠٣) مگر پوری آیت بیان کرتے اس سے پہلا جملہ نہیں دیکھتے کہ ” الله کی رسی کو "سب مل کر" پکڑو اور (پھر فرمایا کہ اس سے ) تفرقہ (علیحدگی) اختیار نہ کرو“ تو اب مجرم وہ ہے جو حبل الله ( ا لله کی رسی) سے الگ ہو اور جو حبل الله (الله کی رسی) پر قائم ہے۔ وہ ہر گز مجرم نہیں، گو اہل باطل سے اس کو ضرور اختلاف ہو گا۔اسی بنیاد پر ہر اسلامی فرقہ دوسرے کو الله کی رسی چھوڑنے والا سمجھتا ہے۔

حدیث میں لفظ فرقہ کا ذکر[ترمیم]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا : وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ : مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي "[1]

ترجمہ : حضرت عبد للہ بن عمرو (رضی الله عنہ) سے روایت ہے کہ رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ”میری امّت تہتر (٧٣) فرقوں میں تقسیم ہوگی، ان میں سے ایک کے علاوہ سب جہنمی ہوں گے۔ صحابہ (رضی الله عنھم) نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول (صلے الله علیہ وسلم) وہ (نجات پانے والے) کون ہوں گے؟ (آپ صل الله علیہ وسلم نے) فرمایا: جس (طریقے) پر میں اور میرے صحابہ ہیں"۔

آپ(ص)کے وصال کے بعد صحابہ میں اختلافات ہوئے،یہاں تک کہ حضرت سعد ابن عبادہ (رض)کو حضرات ابوبکرو عمر (رض) کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے ان سے صحابہ رضی الل عنہ نے قطع تعلق کیااوربصری چلے گئے جہاں انھیں کسی نا معلوم ذرائع نے قتل فرمایا۔ بعد ازاں تو اختلافات کے نتیجے میں خونریز جنگیں ہوئیں جن میں دونوں طرف صحابہ تھے۔یوں اسلام میں فرقہ واریت اور غلط فہمیوں کا آغاز ہوا۔ اور لوگوں نے اسلام کے دشمنوں کو اسلام کے نگہبان بنا لیا ۔ جس کی ایک مثال کربلا ہے۔ لوگوں نے یزید کو اپنا امام و رہنما بنا لیا اور امام حسین علیہ السلام سے جنگ کر بیٹھے۔

بعض مسلمانوں کے خیال میں قیامت کے دن الله سب مسلمانوں کے دلوں سے کدورتیں خارج فرما کر جنت میں آمنے سامنے بٹھا دے گا۔

حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما کہ ," میں تم لوگوں کے درمیان دو چیزیں چھوڑرہا ہوں,ایک قرآن اور دوسری میری سنت۔اس پر عمل کرونگے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ " تمام مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو یاد رکھیں اور عمل کریں تو آپسی اتقاق قائم ہو سکتا ہے۔ئ

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ترمذی: ابواب الایمان، افتراق هذه الأمة, 2585 (2641)