مندرجات کا رخ کریں

خانساماں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خانساماں ایک فارسی مرکب لفظ ہے جو "خان" (گھر) اور "سامان" سے مل کر بنا ہے اور اس کا مطلب ہے گھر کے سامان کا منتظم۔ اردو میں خانساماں سے مراد وہ شخص ہے جو کھانے کا انتظام کرتا ہے، باورچی یا رسوئیے کے طور پر خدمات انجام دیتا ہے۔[1] اس کی تانیث خانسامن ہے۔

نام کی اصل اور تاریخ

[ترمیم]

لفظ ’خان‘ سے ہی ترکیب ’خانساماں‘ وجود میں آئی ہے، جس کی اصل ’خانِ سامان‘ ہے۔ یہ ترکیب بنیادی طور پر ’میرِ سامان‘ یا ’صاحبِ سامان‘ کے مترادف تھی اور اس کا تعلق خور و نوش اور دیگر ضروریات کے انتظام سے ہوتا تھا۔ فارسی زبان میں ’خانِ سامان‘ کے معنی میں صاحبِ ثروت اور دولت مند شامل ہیں، تاہم اردو میں یہ لفظ محدود ہوکر محض ’باورچی‘ کے مترادف بن گیا ہے۔ اس تبدیلی کی ایک جھلک سید ضمیر جعفری کے شعر میں نظر آتی ہے: «خانساماں ہے مُصر ہر شب چکن بنوایے» یہ مصرع خانساماں کے محدود اور جدید معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو شاہی عہد کے وسیع تر مفہوم کے مقابلے میں اب صرف باورچی کے کردار تک محدود ہو چکا ہے۔[2]

مغل دور میں ’خانساماں‘ کا لقب ’میرِ سامان‘ کے مترادف تھا، جو محل کے ساز و سامان کے انتظامات اور دیکھ بھال کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ یہ ایک اہم عہدہ تھا اور خانساماں کو محل کے وزیر یا داروغہ کی حیثیت حاصل تھی۔ تاہم، برطانوی استعمار کے دوران اس لفظ کے مفہوم میں بڑی تبدیلی آئی۔ انگریز حکمرانوں نے کھانا پیش کرنے والوں، خدمت گاروں اور میز لگانے والوں کو ’خانساماں‘ کہنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں، اس اصطلاح کا استعمال اردو زبان میں بھی باورچیوں کے لیے ہونے لگا۔ یوں، خانساماں کا مفہوم، جو کبھی محل کے اعلیٰ انتظامی عہدے کے لیے استعمال ہوتا تھا، وقت کے ساتھ محدود ہو کر صرف کھانے پکانے اور پیش کرنے والوں تک رہ گیا۔[3][4]

کام

[ترمیم]

تاریخی طور پر خانساماں کا کردار صرف کھانا پکانے تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ کھانے کی میز یا دسترخوان کا انتظام، کھانے کی منصوبہ بندی اور مہمانوں کی خدمت جیسے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ بعض اوقات، بڑے گھروں میں خانساماں کو "میرِ خانساماں" یعنی کھانے کا منتظم اعلیٰ بھی کہا جاتا تھا۔

مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب "چراغ تلے" میں خانساماں کے کردار اور اس سے متعلق معاشرتی تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خانساماں اور بٹلر رکھنے والا طبقہ، جو ستر قسم کے پلاؤ کھانے کا شوقین تھا، اب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ یوسفی کے مطابق یہ طبقہ اُڑد کی دال بھی ڈنر جیکٹ پہن کر کھاتا تھا، لیکن اب یہ روایات ختم ہو رہی ہیں۔[5]

آج کے دور میں، خانساماں کا روایتی کردار محدود ہو چکا ہے اور جدید معاشرت میں اس کی جگہ پیشہ ور باورچیوں یا کیٹرنگ سروسز نے لے لی ہے۔ تاہم، تاریخی اور ادبی متون میں خانساماں کا ذکر ہمیں اس پیشے کی اہمیت اور اس سے جڑی روایات کی یاد دلاتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "لاکھوں روپے کمانے والے نوکر"۔ ایکسپریس نیوز۔ 13 فروری 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-10
  2. عبد الخالق بٹ (27 ستمبر 2020)۔ "بیگم بھی ہیں کھڑی ہوئی میدان حشر میں"۔ اُردو نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-10
  3. "خبر لیجئے زبان بگڑی ۔ حصہ اول"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-10
  4. محمد اظہار الحق (23 جنوری 2014)۔ "توہین"۔ روزنامہ دنیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-10
  5. مشتاق احمد یوسفی (1997)۔ چراغ تلے۔ دہلی: کتاب والا۔ ص 89۔ ISBN:81-85738-31-9