خواتین کا فٹ بال

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خواتین کا فٹ بال در حقیقت فٹ بال کے کھیل کی وہ نوعیت ہے جسے خواتین کھیلتی ہیں، جیسے کہ خواتین کا ٹینس یا پھر ان کی جنس سے مخصوص کیا جانے والا کرکٹ کا کھیل۔ حالاں کہ بیش تر ممالک میں جہاں مردوں کی فٹ بال ٹیمیں موجود ہیں، وہیں پر خواتین کی فٹ بال ٹیمیں بھی موجود ہیں، تاہم کچھ ملکوں میں یا تو اس کھیل میں خواتین کی حصے داری پر روک ہے یا ایسی کچھ رکاوٹیں ماضی میں رہ چکی ہیں۔

جرمنی[ترمیم]

2007ء میں جرمنی اور چیک جمہوریہ کی خواتین فٹ بال ٹیمیں مقابلے سے پہلے آمنے سامنے دیکھی جا سکتی ہیں۔

1971ء تک جرمن فٹ بال فیڈریشن ( ڈی ایف بی) نے ٹورنامنٹس میں خواتین کے حصہ لینے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اگر اُس دور میں کوئی فٹ بال کلب خواتین کو تربیت دینے یا کھیلنے کی اجازت دیتا تھا تو اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ 1955ء کے ڈی ایف بی کے ایک فرمان کے مطابق، ’’یہ جارحانہ کھیل خواتین کی فطرت کے مطابق نہیں۔ بال کے حصول کی لڑائی میں خواتین کا نسوانی وقار مجروح ہوتا ہے، روح اور جسم کو ناگزیر طور پر نقصان پہنچتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ خواتین کا نیکر پہن کر فٹ بال کھلینا بھی جرمن فٹ بال فیڈریشن کے لیے ایک مسئلہ تھا، یہ دعوٰی کیا گیا کہ یہ لباس کا لزوم ’’جسم کی نمائش سلیقے اور حیا کو ٹھیس پہنچاتی ہے‘‘۔[1]

تاہم جدید طور پر جرمنی میں فٹ بال بھی خواتین کا ایک پسندیدہ کھیل ہے اور اس پر ماضی کی سوچ حاوی نہیں ہے۔

جرمنی[ترمیم]

جرمنی سے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر کچھ ممالک جیسے کہ ایران میں خواتین کے فٹ بال برسر عام فٹ بال کھیلنے کے ساتھ ساتھ کے اسٹیڈیم میں اس کھیل کے دیکھنے پر بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔ ایرانی خواتین نے کئی دہائیوں کے بعد تہران کے اسٹیڈیم میں مردوں کا ایک فٹ بال میچ پہلی بار 2019ء دیکھا تھا۔ حکومت کی جانب سے انھیں یہ میچ دیکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ سنہ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد خواتین پر اسٹیڈیم میں جا کر مردوں کے میچ دیکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ایرانی میں فٹ بال کے کھیل میں جنسی امتیاز کا معاملہ اس وقت عالمی سطح پر منظر عام پر آیا جب سحر خدایاری نامی لڑکی نے اس عدالت کے باہر خود کو آگ لگا لی جہاں ان کے خلاف مرد کے بھیس میں ایک فٹ بال میچ دیکھنے کی کوشش کرنے پر مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ایک ہفتے کہ بعد 29 سالہ سحر خدایاری کا انتقال ہو گیا تھا۔اس واقعے کے بعد ایرانی حکومت پر عوام کی جانب سے بہت تنقید کی گئی اور خواتین کو اجازت دینے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا۔ فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے بھی ایران پر دباؤ ڈالا کہ وہ خواتین کو میچ دیکھنے کی اجازت دے۔ جس کے بعد حکومت کی محدود اجازت سے خواتین اب خود کھیلنے کی بجائے مردوں کے مقابلے دیکھ سکتی ہیں۔[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]