مندرجات کا رخ کریں

خواجہ فخر جہاں دہلوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خواجہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کے مجدد اپنے وقت کے بہت بڑے عالم دین ، فاضل اور علوم ظاہری و باطنی کے جامع تھے۔

نام و خطابات

[ترمیم]

شاہ فخر الدین فخر جہاں دہلوی کا اسم گرامی ، فخر الدین، جب کہ محب النبی، فخرجہاں اوربرہان العارفین آپ کے القاب ہیں۔اس کے علاوہ قطب یگانہ، قطب منفرد، قطب وحدت، قطب حقیقت، قطب الاقطاب، پیشوائے محبوبیت و عشق،مقتدائے عارفاں، امام کاملاں، قطب الاولیاء، غوث وقت، فرد الافراد، قطب الافراد اور محبوب یزداں بھی آپؒ کے القابات وخطابات ہیں۔

ولادت

[ترمیم]

شاہ فخر الدین فخر جہاں دہلوی کی ولادت 1126ھ 1717ء کو اورنگ آباد(انڈیا) میں شاہ نظام الدین اورنگ آبادی چشتی نظامی کے دولت کدہ میں ہوئی۔ سلسلۂ نسب والد ماجد کی طرف سے شیخ شہاب الدین سہروردی کے واسطے سے سیدنا صدیق اکبر تک پہنچتا ہے اور آپ کی والدہ ماجدہ خواجہ سید محمد گیسو دراز کے خاندان سے تھیں، جن کا سلسلۂ نسب سیدنا امام زین العابدین سے ہوتا ہوا سیدناعلی المرتضیٰ شیر خدا تک جاملتاہے۔ آپؒ کی ولادت پرآپ کے دادا جان شاہ کلیم اللہ دہلوی نے بہت مسرت کا اظہار کیا اورآپ کا نام فخر الدین تجویز فرمایا اور ازراہ عنایت و کرم اپنا لباس خاص آپؒ کے لیے تحفہ ارسال کیا ۔

تعلیم و تربیت

[ترمیم]

شاہ نظام الدین اورنگ آبادی نے اپنے صاحبزادہ کی تعلیم و تربیت کا انتظام نہایت اعلیٰ پیمانہ پر کیا۔ شاہ کلیم اللہ دہلوی کے حکم پر انھوں نے وقت کے مشہور اور قابل ترین علما سے خواجہ فخر الدین فخر جہاں کی تعلیم کی تکمیل کرائی۔ شاہ فخر الدین فخر جہاں نے ابتدائی تعلیم کے علاوہ بہت سی کتب اپنے والدماجد سے پڑھیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے مشہور اور قابل ترین علما سے علوم متداولہ میں استفادہ کرنے کے علاوہ مکمل فوجی تربیت، طب پر عبوراور گھڑ سوار ی سمیت سپاہ گری میں بھی مہارت حاصل کی۔ شاہ فخر الدین نے فصوص الحکم، صدرا اور شمس بازغہ جیسی نابغہ روزگار کتابیں میاں محمد جان سے پڑھیں اور ہدایہ مولانا عبد الحکیم سے پڑھی اور حدیث کی سند انھوں نے دکن کے مشہور محدث مولانا حافظ اسعد الانصاری المکی سے حاصل کی

روحانی تربیت

[ترمیم]

آپ کوسلسلہ چشتیہ نظامیہ کا مجدد کہا جاتا ہے، کیونکہ آپ نے اور آپ کے مریدین بالخصوص خواجہ نور محمد مہاروی پنجاب میں، شاہ نیاز احمد نے یوپی میں، حاجی لعل احمد نے دہلی کے اطراف، مولانا جمال الدین نے رام پور میں، میر ضیاء الدین نے جے پور میں اور میر شمس الدین نے اجمیر شریف میں بہت محنت اور جدوجہد کی اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ کو ملک کے دور دراز حصوں تک پھیلایا

تصانیف

[ترمیم]

شاہ فخر الدین دہلوی نے تین کتب خود تصنیف کیں۔

  • نظام العقائد،
  • رسالہ مرجیہ
  • فخرالحسن ۔ یہ کتاب شاہ ولی اللہ کے ایک بیان کی تردید میں لکھی جو انھوں نے سلسلہ چشتیہ کے بارے میں دیا تھا کہ خواجہ حسن بصری کی سیدنا علی المرتضیٰ سے ملاقات ہی ثابت نہیں۔

وفات

[ترمیم]

خواجہ فخر الدین فخر جہاں دہلوی کا وصال مبارک تقریباً 73 برس کی عمر میں27 جمادی الثانی 1199ھ کوہوا۔ آپ کا مزار دہلی (انڈیا)میں مرجع خاص وعام ہے۔[1] [2]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. تذکرہ حضرت فخر جہاں دہلوی،میاں اخلاق احمد ،میاں اخلاق احمد اکیڈمی شاد باغ لاہور
  2. ملفوظات و حالات شاہ فخر دہلوی،میر نذر علی درد کاکوروی ،سلمان اکیڈمی حق نشان نیو کراچی
  1. https://sialsharif.org/golden-chain.html