خوشاب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خوشاب
انتظامی تقسیم
ملک پاکستان (14 اگست 1947–)
برطانوی ہند (1858–14 اگست 1947)  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
دار الحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ تحصیل خوشاب  ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متناسقات 32°17′30″N 72°21′00″E / 32.291666666667°N 72.35°E / 32.291666666667; 72.35  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
کل آبادی
مزید معلومات
رمزِ ڈاک
41000  ویکی ڈیٹا پر (P281) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فون کوڈ 0454  ویکی ڈیٹا پر (P473) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
جیو رمز 1173687  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

خوشاب، دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر آباد صوبہ پنجاب کا ایک تاریخی قدیمی قطعہ ارض ہے۔ سرزمین خوشاب دریا، سرسبز میدان، کوہسار اورصحرا سے مزین ہے۔ صدیوں پرانے تاریخی شہر خوشاب کی تاریخ موہنجوڈرو اور ہڑپہ سے بھی پرانی ہے۔ خوشاب فارسی کے دو الفاظ ’’خوش‘‘ اور ’’ آب‘‘ کا مجموعہ ہے جس کے معنی ’’خوش یعنی تسکین خوشی مقامی لفظ اور آب کے معنی پانی کے ہیں ۔ سینہ بہ سینہ چلتی روایات کے مطابق یہاں پانچ ہزار سال پرانی انڈس ویلی تہذیب، گندھارا، ٹیکسلا جیسی تہذیب و تمدن کی آباد شدہ دیہاتوں میں سے ایک دیہات جہاں ویدک سنسکرت اور ہند آریائی زبان کے لہجے بولے جاتے تھے۔ مقدونی حملہ آور سکندر اعظم، عرب ہون، تاتاری حملہ آور اور کئی بادشاہ وارد ہوئے اور جس نے بھی یہاں کا پانی پیا اس کے شیریں پن کی تعریف کی۔ یہ روایات امیر تیمور، محمود غزنوی، بابر اور شیر شاہ سوری کے ساتھ بالخصوص منسوب ہیں۔ تاہم شیر شاہ سوری کے حوالے سے منسوب روایت کافی مستند اور مضبوط سمجھی جاتی ہے کہ جب اس مشہور مسلم فاتح کا اس علاقہ سے گذر ہوا اور پڑاؤ کے دوران جب اس نے دریا ئے جہلم کا پانی پیا تو بے اختیار کہہ اٹھا ۔۔۔’ خوش آب‘‘ ۔۔۔۔ اوریوں یہ الفا ظ زبان زدِعام ہو کر اس علاقے کو ایک خوب صورت نام دے گئے۔

خوشاب کی تاریخ[ترمیم]

تاریخی شہر ہونے کے حوالے سے صحیح معنوں میں اس کی تاریخ بیان کرنا مشکل ہے شہنشائے ہیں مغل بادشاہ بابر میں اپنی سوانح حیات میں تزک بابری مین اس ح سے پندروی صدی عیسوی میں اس کا ذکر کیا ہے

شیر شاہ سوری نے اس شہر کو سنوارنے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ مرکزی عید گاہ، جامع مسجد مین بازار، شہر پناہ کے دروازے اور فصیل اس زمانے کی اہم تعمیرات میں سے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق شہر خوشاب1503عیسوی میں آباد ہوا جبکہ اس کے گرد فصیل 1593میں مکمل ہوئی۔ 1809میں راجا رنجیت سنگھ نے خوشاب پر قبضہ کر لیا۔محمد شاہ کے زمانے میں خوشاب کا گورنر نواب احمد یارتھا جس کا مقبرہ خوشاب میں موجود ہے۔ دریائے جہلم کے کنارے آباد یہ شہر لا تعداد مرتبہ سیلابوں کی زد میں آکر تباہ ہوا۔ بالخصوص 1849اور1893میں دریائے جہلم میں آنے والی طغیانیوں میں سردار جعفر خان کا قلعہ، تارا چند اور نواب احمد خان کے باغات، فصیل اور دروازوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ شہرپناہ کی فصیل کو سہ بارتعمیر کیا گیا۔ اول مرتبہ شیر شاہ سوری نے، دوسری مرتبہ سردار لعل خان بلوچ نے 1761میں کچی فصیل کو پختہ بنا دیا جبکہ تیسری مرتبہ 1866میں انگریز ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے از سر نو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ شہر کا نقشہ بنوا کر فصیل کو مکمل کیا۔ اس باردیوار شہر میں چار بڑے دروازے، مشرق کی جانب کابلی گیٹ، مغرب کی جانب لاہوری گیٹ،شمال کی جانب جہلمی گیٹ اور جنوب کی جانب ملتانی گیٹ تعمیر کیے گئے۔1865میں ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے تیس فٹ چوڑا اور تقریباََ ڈیڑھ کلومیٹر لمبا بازار بنوایا۔ اسی بازار خوشاب کے عین آغاز پر موجود کابلی گیٹ اپنی قدیمی شان و شوکت کا پرشکوہ منظر کچھ اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ جیسے آپ صدیوں پرانے شہر خوشاب میں داخل ہو رہے ہوں۔ حکومت انگلشیہ نے اس شہر کا نقشہ صلیب کی طرز پر بنایا۔1866میں کابلی گیٹ مکمل ہوا جس میں ڈاکخانہ اور پولیس چوکی قائم کی گئی۔ اور یہ شہر کی آخری حد تھی، جبکہ دوسرے سرے پر لاہوری گیٹ تھا جہاں پر ایک بڑا پتن بھی تھا۔1945تک دریائے جہلم شہر کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بہتا تھا لیکن فی زمانہ دریا شہر سے دور ہوتا چلا گیا اور اب تقریباََ ڈیڑھ میل دور مشرق کی جانب بہہ رہا ہے۔1700 ؁ء میں خوشاب جہلم کمشنری کے تحت تھا اور اس کا صدر مقام شاہ پور تھا۔ تزک بابری میں بابر نے خوشاب کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے کہ: ’’جمعہ کا دن تھا اور خوشاب کے باسیوں نے میری خدمت میں ایک وفد بھیجا جس کے جواب میں میں نے شاہ حسین بن شاہ شجاع ارغوان کا انتخاب کیا کہ وہ خوشاب جا کر وہاں کے لوگوں سے بات چیت کرے۔...‘‘ ترک جہانگیری میں بھی خوشاب کا ذکر کچھ اس طرح سے ہے : ’’یہ سر سبز و شاداب سرزمین ہے جس کی آمدن 30لاکھ دام ہے۔ ‘‘ خوشاب سے ضلع خوشاب تک 1857کی جنگ آزادی سے صرف چار سال قبل1853میں تاج برطانیہ کے تحت اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا۔ بعد ازاں اسے میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا۔1867ء میں خوشاب کو تحصیل کا درجہ دیا گیا، 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت خوشاب ضلع سرگو دھا کی تحصیل تھا،اور 1982میں خوشاب کو الگ ضلع کا درجہ دے دیا گیا جب اسے ضلع کا درجہ ملاتو یہ دو تحصیلوں خوشاب اور نور پور تھل پر مشتمل تھا۔ اب اس میں تحصیل قائدآ بادکا اضافہ ہو چکا ہے یو ں ضلع خوشاب چار تحصیلوں خوشاب ،نور پور تھل، قائد آباد اور ایک تحصیل نو شہرہ پر مشتمل ہے۔

اس کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ یہاں سرسبز میدان، پہاڑ اور صحرائی علاقے ہیں۔ ضلع خوشاب کے لوگ محنتی اور زراعت پیشہ ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر آبادیاعوان،جوئیہ اور بلوچ قبائل سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں کے اکثر لوگ فوج میں شمولیت کو باقی پیشوں پر ترجیح دیتے ہیں۔

خوشاب میں آباد قومیں[ترمیم]

  کھوکھر

مشاہیر ضلع خوشاب[ترمیم]

اہم ادبی شخصیات[ترمیم]

  1. احمد ندیم قاسمی
  2. واصف علی واصف
  3. سہیل وڑائچ
  4. عبدالقادر حسن
  5. ڈاکٹر سیدامیر کھوکھر
  6. توصیف قاسم اقبال
# ملک شاہ سوار علی ناصر
  1. طارق مجتبیٰ لُڑکا
  2. خوشونت سنگھ
  3. اسلم شہزاد
  4. ملک خدا بخش ساجد اعوان
  5. امتیاز حسین امتیاز
  6. ملک عدنان عالم اعوان
  7. محمد شہزاد اسلم
  8. چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال
  9. عتیق اختر افغانی
  10. ْ الطاف آزاد
  11. محمد اقبال شاہد مدیر حرب قلم
  12. ارسلان اختر افغانی، مدیر ضرغام
  13. شوکت محمود اعوان
  14. ملک خدا بخش مسافر
  15. ایوب اختر اعوان
  16. علامہ محمد یوسف جبریل آف کھبیکی
  17. شکیل احمد اعوان پرنسپل وقاص ماڈرن اسکول خوشاب
  18. ملک نذر حیات خان لیوی
  19. ڈاکٹر عتیق الرحمن فاروقی
  20. اسسٹنٹ وارنٹ آفیسر ارشد محمود بلوچ

اہم سیاسی شخصیات[ترمیم]

  1. ملک نعیم خان
  2. ملک کرم بخش اعوان
  3. ملک صالح محمد گنجیال
  4. ملک محمد علی سانول اعوان
  5. ملک شاکر بشیر
  6. جویریہ ظفر آہیر
  7. ملک آصف بھا
  8. ملک غلام رسول سنگھا (موجودہ ایم پی اے)
  9. ملک عمر اسلم (موجودہ ایم این اے)
  10. ملک احسان ٹوانہ (موجودہ ایم این اے)
  11. ملک خدا بخش ٹوانہ
  12. محترمہ سمیرا ملک
  13. ملک وارث کلو ایڈووکیٹ مرحوم (سابقہ ایم پی اے)
  14. محمد شریف بلوچ
  15. کرم الہی بندیال
  16. فتح خالق بندیال (موجودہ ایم پی اے)
  17. ملک جاوید اعوان
  18. امیر حیدر سنگھا
  19. ڈاکٹر کیپٹن رفیق سردار شجاع خان بلوچ
  20. ملک طارق مجتبیٰ لُڑکا
  21. ٹیچر حکیم محمد رمضان لُڑکا
  22. ملک نعیم آہیر
  23. ملک محمد بشیر اعوان
  24. انجینئر ملک گل اصغر خان بگھیو
  25. علامہ فتح الدین ازبر
  26. مہر خان جوئیہ
  27. جہانگیر محمد جوئیہ ایڈو وکیٹ
  28. بیرسٹر ملک محمد معظم شیر کلو (موجودہ ایم پی اے)
  29. پیرزادہ بہاول شیر گیلانی
  30. نور حسین انگوی (خطاط)
  31. شعیب حسن نہالکہ جوئیہ

تفریحی مقامات /میلہ جات[ترمیم]

وادی سون ، اچھالی جھیل ، کھبیکی جھیل ، کنٹی گارڈن ، میلہ منڈی خوشاب ، میلہ نور پور تھل، میلہ سید المعروف ،میلہ بابا چورا فقیر رح اوکھلی موہلہ،عرس بانی اوکھلی موہلہ بابا شیخ مہر علی رح،عرس بابا میاں نانگہ رح اوکھلی موہلہ،قبر اصحابی رسول اوکھلی موہلہ،اوکھلی موہلہ کا تاریخی قبرستان، عرس بابا فقیر اصحاب اوکھلی موہلہ،جامع مسجد گلزار مدینہ (ککڑانوالی) اوکھلی موہلہ،مرکزی جامع مسجد بلال اوکھلی موہلہ

دفاعی تنصیبات[ترمیم]

سکیسر بیس ، پاکستان اٹامک انرجی کمشن پلانٹ گروٹ

مزارات[ترمیم]

خوشاب بزرگوں کی سر زمین ہے ، سب سے زیادہ مشہور مزارات میں دربار بادشاہوں اور دربار سیدالمعروف شامل ہیں،دربار بانی اوکھلی موہلہ بابا شیخ مہر علی رح،دربار بابا میاں نانگہ رح اوکھلی موہلہ،قبر اصحابی رسول اوکھلی موہلہ شامل ہیں۔

طبعی خدوخال[ترمیم]

ہمہ جہت جغرافیائی خدوخال: تحصیل خوشاب اور قائد آباد میدانی ، تحصیل نوشہرہ پہاڑی اور تحصیل نور پور تھل صحرائی علاقہ ہے۔ تحصیل قائد آباد کا واحد گاؤں اوکھلی موہلہ ہے جو کوہ کے علاوہ تمام تر زمینوں سے گھرا ہوا ہے۔اس میں ریتلی،میدانی،چکنی،پھتریلی اور رتی وغیرہ شامل ہیں۔۔

سوغات[ترمیم]

خوشاب کی سب سے اہم سوغات ڈھوڈا (مٹھائی) ہے۔ یہ ایک مٹھائی ہے جو یہاں نسل در نسل تیار کی جاتی ہے اور اپنے ذائقہ میں بے مثال ہے۔

اسلامک ریسرچ سنٹر[ترمیم]

ضلع خوشاب کے موضع شاہ حسین تھل میں نواب اللہ بخش کھارا ایک معروف سماجی و سیاسی شخصیت تھے اب ان کے پوتے پروفیسر ملک جاوید اقبال کھارا نے ان کے نام پر نواب اللہ بخش کھارا اسلامک ریسر چ سنٹر شاہ حسین تھل کی بنیاد رکھی ہے۔اس سنٹر کے ذریعے مختلف علمی و ادبی موضوعات پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔اس فورم پر تحقیقی و تنقیدی کام کرنے والوں میں پروفیسر پیر محمد جاوید اقبال کھارا، پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق ظفر، علامہ عبد الحفیظ ارشد (ایل ایل ایم) اور پروفیسر ڈاکٹر سیدامیر کھوکھر( المعروف علامہ محمد امیر القادری) شامل ہیں۔ ڈاکٹر سیدامیر کھوکھر معروف ادیب اور نقاد ہیں۔علمی و ادبی موضوعات پر ان کی نگارشات شائع ہو کر اہل علم و ادب افراد کی ضیافت طبع کا سامان کر چکی ہیں۔ وہ دار العلوم محمدیہ غوثیہ انوار القرآن کیمپس اوکھلی موہلہ کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی نگرانی میں قائدآباد ضلع خوشاب میں قیوم الزمان سیرت ریسرچ سنٹر بھی چل رہا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

ضلع خوشاب کے بڑے موضع جات[ترمیم]

ضلع خوشاب کے بڑے موضع جات میں اوکھلی موہلہ،ہڈالی،روڈہ،مٹھہ ٹوانہ ، اتراء اور گولیوالی شامل ہیں۔

( پدھراڑ ، پیل، کٹھ سکھرال منگوال دیو ال جسوال نلی ،ناڑی خالق آباد، کھبیکی، انگہ کفری، کوڑا

سندرال، نامے والی، ہڈالی ، بوتالا ، لکو، کاتی مار یہ بھی اہم موضع جات ہیں ) ان موضع جات کی نشان دہی شکیل احمد اعوان نے کی ہے

لُڑکا قوم کی تاریخ[ترمیم]

لُڑکا قوم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ضلع خوشاب میں لُڑکا قوم کے بہت سے گھر موجود ہیں۔اوکھلی موہلہ ،مٹھہ ٹوانہ اور بندیال میں یہ قوم موجود ہے۔

خوشاب کا خوبصورت گاؤں اوکھلی موہلہ[ترمیم]

اوکھلی موہلہ ضلع خوشاب کی تحصیل قائد آباد میں واقع ہے۔یہ ایک تاریخی اور قدیمی گاؤں ہے۔اوکھلی موہلہ تحصیل قائد آباد کی سب سے بڑی یونین کونسل ہونے کے ساتھ ساتھ ضلع خوشاب کا سب سے بڑا موضع ہے۔اس گاؤں کو اولیاء اللہ کی سرزمین بھی کہتے ہیں۔یہ انتہائی قدیمی گاؤں ہونے کے ساتھ بہت خوبصورت بھی ہے۔اس گاؤں کی تاریخ کافی پرانی ہے۔

وادی سون سکیسر


 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔
  1.   ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"صفحہ خوشاب في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2024ء