دبستان دہلی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دبستان دہلی اردو ادب کا اولین اور مخصوص دبستان ہے جو دہلی شہر اور خصوصاً قلعہ معلی کی زبان و ادب کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا معظم تخت نشین ہوا لیکن اس کے بعد معظم کے بیٹے معز الدین نے اپنے بھائی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ معز الدین کے بھتیجے ”فرخ سیر“ نے سید بردران کی مدد سے حکومت حاصل کی لیکن سید بردران نے فرخ سیر کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس طرح 1707ء سے لے کر 1719ء تک دہلی کی تخت پر کئی بادشاہ تبدیل ہوئے۔ محمد شاہ رنگیلا کی عیاشی کے دور میں نادرشاہ درانی نے دہلی پر حملہ کر دیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مزید کسر بھی پوری کر دی۔ دوسری طرف مرہٹے، جاٹ اور روہیلے آئے دن دہلی پر حملہ آور ہوتے اور قتل عام کرتے اس دور میں کئی بادشاہ بدلے اور مغل سلطنت محدود ہوتے ہوتے صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر کے رنگوں بھیج دیا۔ یہ تھی دہلی کی مختصر تاریخ جس میں دبستان دہلی کا ادب پروان چڑھا۔ یہ ایک ایسا پرآشوب دور تھا جس میں ہر طرف بدنظمی، انتشاراور پستی کا دور دورہ تھا۔ ملک میں ہر طرف بے چینی تھی۔ اس حالت کی وجہ سے جس قسم کی شاعری پروان چڑھی۔ دبستان دہلی کے چند شعرا کا ذکر درج زیل ہے۔

اہم شعرا[ترمیم]

میر تقی میر[ترمیم]

میر تقی میر 1723ء آگرہ میں پیدا ہوئے اور 1810ء لکھنؤ میں انتقال کیا۔ اردو شاعری کے خدائے سخن کہلاتے ہیں۔ پروفیسر مجنوں گورکھپوری نے کہا کہ :اردو شاعری بھی اگر اپنا خدا رکھتی تو وہ میر تقی میر ہوتے ۔ میرتقی میر کی شاعری کا اہم بنیادی عنصر غم سب سے نمایاں ہے۔ خود میر نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا ہے:

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کے صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

میر کا غم آفاقی نوعیت کا ہے جس میں غم عشق سے لے کر غم دنیا کا احوال موجود ہے۔ انھوں نے جو کچھ محسوس کیا بڑی صداقت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ ان کی شاعری اپنے تجربات اور احساسات کاصحیح اور سچا اظہار ہے۔ ان کے اشعار جو بھی پڑھتا ہے اس کے دل میں اتر جاتے ہیں۔

ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

میر کی شاعری ہندوستانی اور ایرانی تہذیب کی آمیزش کی بہترین مثال ہے۔ ان کے ہاں فارسی تراکیب کے ساتھ ساتھ ہندوستانی کا ترنم اور موسیقیت بھی ملتی ہے۔

اب تو جاتے ہیں مے کدے سے میر
پھر ملیں گے، اگر خدا لایا

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

درد و غم[ترمیم]

درد و غم میر صاحب کی شاعری کا بنیادی موضوع ہے، خود کہتے ہیں :

سرہانے میر کے کوئی نہ بولو

ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے

ایک اور غزل میں کہتے ہیں :

جو اس شور سے میر روتا رہے گا

تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

مرزا محمد رفیع سودا[ترمیم]

سودا، میر کے ہمعصر تھے۔ ان کا شمار اردو زبان کے اہم شعراءمیں ہوتا ہے۔ انھوں غزل، قصیدہ، مثنوی، مخمس، ہجو، رعبایاں، قطعے، ترجیع بند، واسوخت، سلام، مرثیے غرض کہ ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ لیکن ان کی شہرت بحیثیت قصیدہ گو اور ہجو گو کے زیادہ ہے۔ ان کی غزلوں کی تعداد نسبتاً کم ہے لیکن غزل میں ان کے مقام اور مرتبہ سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا۔ بقول خلیق انجم :
” سودا کے ہاں زور بیان، معنی آفرینی ،خیال بندی ،پرواز تخیل، جدت بیان، قدرتِ اظہار، نشاط انگیزی اور جو جوش و خروش ملتا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔“
لیکن یہ بات یاد رہے کہ سودا کی غزلوں میں خلوص اور جذبات کی سادگی، بے ساختگی اور درد و سوز بھی ہے۔ جو میر کی غزل کا طرہ امتیاز ہے۔

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے

کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

سودا جو تیرا حا ل ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے تو اسے کس حال میں دیکھا

خواجہ میر درد[ترمیم]

میردرد ایک مشہور خاندان کے چشم و چراغ تھے اور ایک صوفی باپ کے بیٹے تھے۔ انھوں نے تصوف کو صرف روایت سے مجبور ہو کر نہیں اپنایا بلکہ وہ خود ایک باعمل صوفی تھے۔ ان کے مزاج میں اعتدال، توازن،حلم، تحمل اور بردبادری کی صفات موجود تھیں۔ اس لیے جہاں جاتے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ قناعت اور خوداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی انہی صفات کا عکس ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ بقول عظمت اللہ :
”خواجہ میر درد اردو ادبیات میں صوفیانہ شاعری کے باوا آدم تھے“

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

اس ہستی خراب سے کیا کام تھا ہمیں
اے نشہ ظہور یہ تری ترنگ تھی

ابراہیم ذوق[ترمیم]

ذوق کو بعض نقادوں نے سودا کے مشابہ قرار دیا ہے ایک تو اس لیے ہجوگوئی کے باوجود دونوں کا کوئی مخصوص طرز احساس نہیں اور دوسرے قصیدہ کو بھی پایہ کمال تک پہنچایا۔ ان کی غزل میں جذبے کافقدان نظر آتا ہے اس لیے کہ انھوں نے محض الفاظ کے ذریعے شاعری کی۔ انھوں نے فکر اور جذبہ کی کمی کو محاورات کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی۔ بعض اشعار دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ صرف محاورہ بندی کے لیے لکھے گئے ہیں۔ ان کی شاعری میں حسن و عشق کی واردات بھی ہیں اور تصوف اور اخلاقی پند بھی لیکن یہ سب روایتی محسوس ہوتے ہیں۔

وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

لائی حیا ت آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے

مرزا اسد اللہ خان غالب[ترمیم]

غالب کی شاعری ہر دور میں نہ صرف زندہ رہی بلکہ جدید بھی رہی۔ ان کے ہاں ہمیں جنس کا ایک صحت مندانہ رویہ ملتا ہے۔ انھیں مسلسل پریشانیوں اور محرومیوں نے نہ صرف زندگی سے پیار کرنا سکھایا۔ انھوں نے غم کو ایک حقیقت کے روپ میں قبول کیا۔ ان کے نزدیک غم کے وجود کو تسلیم کر لینے کے بعد اس کی تلخی اور چبھن میں کافی کمی ہو جاتی ہے۔

نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

غالب کی شاعری اس کے فلسفیانہ اور جدید ذہن کی غمازی کرتا ہے۔ جو نئی تہذیب اور پرانی تہذیب کی آویزش اور کشمکش سے وجود میں آئی ہے۔

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے یہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

ہیں آج کیوں زلیل کہ کل تک نہ پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

مومن خان مومن[ترمیم]

مومن تمام عمر غزل کے پابند رہے اور غزل میں کم سے کم الفاظ میں بڑے سے بڑے خیال ابلاغ اور شدید سے شدیدجذبہ کی عکاسی کی کوشش کی۔ ا سی لیے جذبہ عشق سے وابستہ تہ در تہ کیفیات کے اظہار میں کمال پیدا کیا۔ چنانچہ انھوں نے دہلی کی خالص اردو میں صاف ستھری غزل تخلیق کی۔ لکھنوی شعراءکے برعکس انھوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدو د میں رہنے دیا۔ ان کی معاملہ بندی لکھنوی شعراءسے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں ایک جدید تصور عشق ملتا ہے۔ مومن کاعاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔

ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی

نقادوں نے ان کی شاعری کی اہم خصوصیت نکتہ آفرینی کو بھی قرار دیا ہے۔

تانہ خلل پڑے کہیں آپ کے خواب ناز میں
ہم نہیں چاہتے کمی اپنی شب دراز میں

عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

سیاسی اور معاشرتی حالات کی بدولت دبستان ِ دلی میں جس رنگ شاعری کا رواج ہوا اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔

خصوصیات[ترمیم]

فارسی آمیز زبان[ترمیم]

دبستا ن دہلی کے شعرا کے ہاں فارسیت کا بہت غلبہ تھا کیونکہ شعرائے دہلی فارسی کی شعری روایت سے متاثر تھے اور ان پر فارسی شعراءکا گہرا اثر تھا۔ ایران سے جو شعراءآتے تھے ان میں سے اکثر یہاں ہی رہ جاتے تھے۔ چنانچہ، خسرو، حسن، عرفی ،نظیری، طالب، صائب اور بیدل وغیرہ مختلف ادوار میں یہاں رہے۔ اس کے علاوہ یہاں فارسی شعراءکی زبا ن تھی۔ نیز یہاں کے شعرا ءاردو اور فارسی زبانوں میں دسترس رکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ فارسی اسالیب و موضوعات وغیر ہ دہلی کے دبستان شاعری میں شامل ہو گئے۔ اس طرح بہت سے شعرا نے فارسی شعراءسعدی، وحافظ کا ترجمہ کیا۔ اور خزانہ اردو کو مالا مال کیا۔ اس طرح دبستان دہلی کی شاعری میں فارسیت کا غلبہ ہے۔

جذبات عشق کا اظہار[ترمیم]

دبستان دہلی کے شعراءکے ہاں جذبات و احساسات کے اظہار پر زیادہ زور ہے۔ دبستان دہلی کے شعراءنے عشق کے جذبے کو اولیت دی۔ بقول ڈاکٹر نور الحسن شعرائے دہلی کو اس بات کی پروا نہیں تھی کہ ان کا اسلوب بیان اور طرز ادا خوب تر ہو بلکہ ان کی کوشش تھی کہ شاعری میں جذبات و احساس کا اظہار ہو جائے۔ اس لیے بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا شاعر کو عشق سے عشق ہو گیا ہے۔ دہلی کے کچھ شعراءعشق مجازی سے گذر کر عشق حقیقی سے سرشار ہوئے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالٰیٰ سے لو لگائی اور فیضان عشق کی بدولت ان میں ایسی بصیرت پیدا ہوئی کہ وہ تمام بنی نوع انسان سے محبت کرنے لگے۔ جبکہ کچھ لوگ عشق مجازی کی منزل پر رک گئے۔ چنانچہ ان کی شاعر ی میں محبت کا سوز اور تڑ پ موجود ہے۔ جبکہ کچھ لوگ نفس پر قابو نہ پا سکے اور وہ ابولہوسی میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ دہلی میں عشق کے یہ تینوں مدارج موجود ہیں۔ مثلاً درد جیسے شاعروں نے صوفی شاعری کی اور عشق حقیقی کو اپنی شاعر ی کا موضوع بنایا ۔

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں

عشق مجازی[ترمیم]

عشق کا دوسرا انداز جو دہلی میں بہت مقبول ہوا اس میں عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی کے جذبات بھی شامل ہو گئے۔ یہ رنگ میرتقی میر نے بہت خوبی سے نبھایا۔ ان کے جذبہ عشق میں وہ خلوص اور گہرائی تھی جس نے ان کی شاعری کوحیات جاوداں عطا کی۔ عشق کا یہ تیکھا انداز دبستان دہلی سے مخصوص ہے۔ عشق مجازی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ جن میں دہلی کے تمام شعراءنے بڑی خوبصورتی سے ان جذبات کو شاعری کا روپ دیا ہے۔

پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے

لوگ کہتے ہیں عاشقی جس کو
میں جو دیکھا بڑی مصیبت ہے

پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
تیرے کچھ دل میں گذر کر گیا

حزن و یاس[ترمیم]

دبستان دہلی کی شاعری کی ایک اور نمایاں خصوصیت رنج و الم اور حزن و یاس کا بیان ہے۔ دبستان دہلی کی شاعری کا اگر بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ دبستان دہلی کی شاعری میں یاس و ناامیدی کے جذبات بکثرت موجود ہیں۔ شاعرخواہ کسی موضوع پر بات کرے رنج و الم کا ذکرضرور آجاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس سارے دور میں کسی کو اطمینان و سکون نصیب نہ تھا۔ زندگی ایک خواب پریشاں بن کر رہ گئی تھی۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم تھا۔ کسی شے کو ثبات نہ تھا۔ ان حالات کا شاعری پر بھی گہرا عکس نظرآتا ہے۔ خارج میں تباہی و بربادی پھیلی ہوئی تھی اور تباہی و بربادی کے تاریک سائے شاعری میں بھی راہ پاتے ہیں۔ چنانچہ فنا کا احساس بہت تیز ہے۔ اس کے ساتھ اجڑے ہوئے شہر، لٹے ہوئے نگر اور ویران گذر گاہیں جا بجا موجود ہیں۔ خصوصاً میر و سودا کے دور میں زندگی کی ناپائیداری کا احساس بہت شدت سے اظہار کی راہ پاتا ہے۔ چنانچہ حزن و یاس کے چند شعر ملاحظہ ہوں:

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
جب آنکھ گل کی کھلی تو موسم تھا خزاں کا

دل گنوانا تھا اس طرح قائم
کیا کیا تو نے ہائے خانہ خراب

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

اس حزن و یاس کی فضاءکے بارے میں نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ ” ظاہر ہے دہلی کی شاعری یک سر جذبات کی زبان و گفتگو ہے اور جذبات بھی وہی ہیں جن کا تعلق زیادہ تر حرماں و مہجوری و ناکامی سے ہے۔“

تصوف[ترمیم]

واردات قلبی کے اظہار کے بعد دبستان دہلی کے شعراءکا دوسرا محبوب ترین موضوع تصوف ہے۔ چونکہ ابتداءمیں اردو شاعری پر فارسی شاعری کی شعری روایت کا بہت زیادہ غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے اردو شعراءنے غیر شعوری طور پر فارسی شاعری کے اسالیب، سانچے اور موضوعات قبول کر لیے۔ دوسری طرف اس موضوع کو اس لیے بھی مقبولیت ملی کہ کہ تصوف میں بھی قناعت، صبر و توکل اور نفی ذات کے نظریات نے زیادہ زور پکڑا کیونکہ اس زمانے کے حالات ہی ایسے تھے جن کی بناءپر لوگ ترک دنیا کی طرف مائل ہو رہتے تھے۔ اس زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است
ان میں کچھ تو صوفی شعراءتھے لیکن زیادہ تر شعراءنے محض رسمی طور پر تصوف کے مضامین کو نظم کیا۔ چنانچہ ذوق اور غالب کے زمانے تک تقریباً ہر شاعر کے کلام میں تصوف کے مضامین نظرآتے ہیں۔ تصوف کی مقبولیت کا دوسرا سبب یہ تصورات و اقدار تھے جو ہندوستان کی فضاءمیں رچے بسے ہوئے تھے۔ جن کی بدولت انھوں نے تصوف کو موضوع بنایا۔

مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے جانب منزل
بجے ہیں کوچ کا ہر دم نقارہ شاہ حاتم

غافل قدم کو اپنے رکھیو سنبھال کر یاں
ہر سنگ راہ گذر کا دکاں شیشہ گرکا ہے

ہے جلوہ گاہ تیرا، کیا غیب کیا شہادت
یاں بھی شہود تیرا، واں بھی شہود تیرا

اس ہستی خراب سے کیا کام تھا ہمیں
اے نشہ ظہور یہ تیری ترنگ تھی

سرسر ی تم جہاں سے گذرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا

اس قدر سادہ و پرکار کہیں دیکھا ہے
بے خود اتنا نمودار کہیں دیکھا ہے

اسے کو ن دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

راز پوشیدہ پوچھے کس سے
بے خبر ہے، جو باخبر ہے

رمزیت اور اشاریت[ترمیم]

تصوف کی بدولت اردو شاعری میں بڑی وسعت پیدا ہوئی چنانچہ بقول ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی ، ” دہلی میں تصوف کی تعلیم اور درویشی کی روایت نے خیالات میں بلندی اور گہرائی پیدا کی اور اسلوب میں متانت و سنجیدگی کو برقرار رکھا۔ تصوف کے روایات نے شاعری کو ایک اخلاقی لب و لہجہ دیا اور ابتذال سے دور رکھا۔ “
مسائل تصوف نے اردو غزل کو رمز و کنایہ کی زبان دی، پیر مغاں، گل، بلبل، چمن، شمع، پروانہ، میکدہ، اسی طرح کی اور بہت سی علامتیں تصوف کے راستے اردو شاعری میں داخل ہوئیں۔ تصوف نے اردو شاعری کو فکری پہلو بھی دیا اور استغنا کا درس دے کر دربارداری سے الگ رکھا۔ مزاجوں میں خوداری اور بے نیازی پیدا کی۔ تصوف کی بدولت اردو شاعری میں جو رمزیت اور اشاریت آئی اس سے شعراءنے بہت فائدہ اٹھایا اور چند لفظوں میں معنی کی دنیائیں آباد کیں۔ ذیل کے اشعار دیکھیے کہ پردوں میں کتنے جہاں آباد دکھائی دیتے ہیں۔

ساقی ہے اک تبسم گل، فرصت بہار
ظالم بھرے ہے جام تو جلدی سے بھر کہیں

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک

وہ بادہ و شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی

داخلیت[ترمیم]

دبستان دہلی کی شاعری کا ایک اور نمایاں پہلو داخلیت ہے۔ داخلیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر باہر کی دنیا سے غرض نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے دل کی واردات کا اظہار کرتا ہے۔ اگر باہر کی دنیا کے متعلق کچھ کہتا ہے تو اُسے بھی شدید داخلیت میں ڈبو کر پیش کرتا ہے۔ یہ داخلیت دہلی کے ہر شاعر کے یہاں ملتی ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیں کہ شعرائے دہلی کے ہاں خارجیت بالکل نہیں ہے۔ خارجیت بھی ہے۔ لیکن داخلیت میں واردات قلبی یعنی عشق و محبت کے مضامین اور ان مصائب کا بیان شعرائے دہلی نے نہایت خوش اسلوبی سے کیاہے۔

پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا

واقعیت و صداقت[ترمیم]

دبستان دہلی کی ایک خصوصیت واقعیت و صداقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان شعراءکے ہاں مبالغہ وغیرہ کم ہے۔ ان شعراءنے مبالغہ سے زیادہ کام نہیں لیا اگرچہ مبالغہ کا استعمال شاعری میں برا نہیں ہے لیکن جس بھی کسی چیز کا استعمال حد سے تجاوز کر جائے تو پھر اُسے مناسب و موزوں نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح حد سے زیادہ مبالغہ شاعری کو مضحکہ خیز بنا دیتا ہے۔ شعراءدہلی کے ہاں اعتدال پایا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ صداقت کے اظہار کے لیے پر تکلف زبان کو بھی موزوں سمجھا جاتا ہے۔

ہر گھڑی کان میں و ہ کہتا ہے
کوئی اس بات سے آگاہ نہ ہو

سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے

تم میر ے پاس ہوتے گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

سادگی[ترمیم]

شعرائے دہلی کے ہاں زبان میں بھی سادگی، صفائی اور شستگی پائی جاتی ہے۔ شعرائے دہلی نے جس طرح مضامین میں واقعیت و صداقت کو مدنظر رکھا ہے۔ اسی طرح زبان بھی سادہ اور عام فہم استعمال کی ہے۔ اگرچہ ان شعراءنے صنعتوں کا استعمال کیا ہے لیکن وہ صنعت برائے صنعت کے لیے نہیں ہے۔ اس کی بجائے ان شعراءنے معنوی حسن کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں تشبیہ اور استعارے کا استعمال حد سے آگے نہیں بڑھتا۔

میراُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ

اختصار[ترمیم]

شعرائے دہلی کے کلام میں جہاں زبان میں سلاست و روانی کا عنصر نمایاں ہے وہاں اختصار بھی ہے۔ اس دور میں دوسری اصناف کے مقابلے میں غزل سب سے زیادہ نمایاں رہی ہے۔ اور غزل کی شاعری اختصار کی متقاضی ہوتی ہے۔ اس میں نظم کی طرح تفصیل نہیں ہوتی بلکہ بات اشاروں کنایوں میں کی جاتی ہے۔ اس لیے ان شعراءکے ہاں اختصار ملتا ہے۔ نیز غزل کا مخصوص ایمائی رنگ بھی موجود ہے۔ یہاں کے شعراءاپنے دلی جذبات و احساسات کو جو ں کا توں بڑی فنکاری سے پردے ہی پردے میں پیش کر دیتے ہیں۔ اسی با ت کا ذکر کرتے ہوئے محمد حسن آزاد لکھتے ہیں کہ : ان بزرگوں کے کلام میں تکلف نہیں جو کچھ سامنے آنکھوں کے دیکھتے ہیں اور اس سے خیالات دل پر گزرتے ہیں وہی زبان سے کہہ دیتے ہیں۔ اس واسطے اشعار صاف اور بے تکلف ہیں۔ “

ہم نشیں ذکر یار کر کچھ آج
اس حکایت سے جی بہلتا ہے

شائد اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا

بے وفائی پہ اس کی دل مت جا
ایسی باتیں ہزار ہوتی ہیں

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خواب ِ عد م میں شب ہجراں ہوں گے

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تیری عادت ہی سہی

مجموعی جائزہ[ترمیم]

دبستان دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی لکھے ہیں کہ

دہلویت ایک خاص افتاد ذہنی یا مزاج شعری کا نام نہیں ہے جس کا اظہار مخصوص تمدن و شہری اثرات کی وجہ سے ہوا۔ دہلی کا شاعر غم ِ روزگار کا ستایا ہوا غم عشق کا مارا ہواہے۔ اسی لیے اس کے کلام میں دونوں کی کسک اور کھٹک پائی جاتی ہے۔ سیاسی حالات نے اسے قنوطی بنایا، تصوف نے اس میں روحانیت پیدا کی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی نصب العین اور تصور عطا کیا ۔ اسی نے اس کی آنکھیں اندر کی طرف کھولیں۔(نورالحسن ہاشمی ،دلی کا دبستان شاعری ،ص:13)