درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل (انسداد مظالم) قانون، 1989ء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل (انسداد مظالم) قانون، 1989ء
Scheduled Caste and Scheduled Tribe (Prevention of Atrocities) Act and Rules 1995
سمناعلامیہ
نفاذ بذریعہبھارتی پارلیمان
تاریخ نفاذ11 ستمبر، 1989ء
تاریخ آغاز31 مارچ، 1995ء (اعلامیہ کے مشمولات)
ترمیم(ات)
23 جون، 2014ء (قواعد میں تبدیلی، معاوضے میں اضافہ) اور 8 نومبر، 2013ء (ذیلی تقسیم والے وی ایم سی ایس اور نام زدگان)
Repealing legislation
4 مارچ، 2014ء کا اعلامیہ (باز ترتیب کاری: نئے قطعات، ابواب اور دفعات کا اضافہ )
خلاصہ
درج فہرست ذات و درج فہرست قبائل کے خلاف مظالم کو روکنا
کلیدی الفاظ
ذات پات، دلت، پی او اے، ایس سی / ایس ٹی، مظالم سے متعلق قانون
صورت حال: نافذ

درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل (انسداد مظالم) قانون، 1989ء بھارتی پارلیمان کا ایک قانون ہے جس کے نفاذ کا مقصد درج فہرست طبقات و درج فہرست قبائل کے خلاف مظالم کی روک تھام کرنا ہے۔ اس قانون کو عرف عام میں پی او اے، ایس سی / ایس ٹی قانون، انسداد مظام قانون یا پھر صرف مظالم سے متعلق قانون بھی کہا جاتا ہے۔

بھارتی دستور کی دفعہ 17 کی رو سے 'اچھوتاپن' کو منسوخ کیا گیا ہے اور ایسی تمام امتیازی رسمیں ممنوع قرار پائے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر "اصول کا بیان ہے" جس پر عمل در آمد کرنے کے لیے دیگر کسی مقصد کو بہ رو ئے کار لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ذلت اور ہمہ قسم کی ہراسانی کو دور کیا جا سکے جسے دلت طبقہ جھیلتے آیا ہے اور یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ان کے بنیادی اور سماجی و معاشی، سیاسی اور تہذیبی حقوق بر قرار رہیں۔

اس کا مقصد بھارتی سماج کو روایتی طور پر اندھے اور غیر فطری اعتقادات سے آزاد کرانا ہے اور جانب داری سے آزاد سماج قائم کرنا ہے۔ اس کے لیے، اچھوتاپن (جرائم) قانون 1955ء کو نافذ کیا گیا تھا۔ تاہم اس کی کمیوں اور خامیوں کی وجہ سے حکومت کو اس بات کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے اس قانونی آلۂ تدارک کو باز ترتیب دے۔ 1976ء سے اس قانون کو نئی شکل دی گئی اور اسے شہری حقوق کے تحفظ کا نام دیا گیا۔ حالاں کہ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے سماجی اور معاشی حالات کو بدلنے کی کئی کوششیں کی گئی ہیں، پھر بھی یہ لوگ ظلم کا شکار ہوتے ہیں اور کئی قسم کے جرائم، بے عزتی کی کیفیات، ذلت آمیز صورت حال اور ہراسانی سے گزرتے ہیں۔ جب جب یہ لوگ اچھوتے پن کے خلاف اپنے حقوق کا ادعا کرتے ہیں، ان کے خلاف کچھ مفاد حاصلہ انھیں ڈرانے اور دہشت زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان دونوں زمروں کے لوگوں کے خلاف مظالم اب بھی جاری تھے۔

نافذ العمل قوانین جیسے کہ شہری حقوق کے تحفظ کا قانون 1955ء اور تعزیرات ہند کو ان مظالم کو ان مظالم کی روک تھام میں ناکافی ثابت ہوئے تھے [1] جو درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل پر ڈھائے جاتے ہیں۔ اسی بات کو تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ نے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل (انسداد مظالم) قانون، 1989ء اور ضوابط 1995ء کو منظور کیا تھا۔ اس کے پیچھے مقاصد اور وجوہ جو تجویز کو پارلیمنٹ میں پیش کیے جاتے وقت بیان کیے گئے تھے اس طرح ہیں: کئی شہری حقوق کے ہونے کے باوجود جن کا مقصد درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے سماجی و معاشی حالات کو بدلنا ہے، یہ لوگ آسانی سے شکار بنتے ہیں۔ انھیں کئی شہری حقوق نہیں دیے جاتے ہیں؛ وہ کافی جرائم، بے عزتی، ذلت اور ہراسانی جھیلتے ہیں۔ یہ لوگ کئی وحشت ناک واقعات میں زندگی اور جائداد سے محروم ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف کئی سنگین مظالم انجام پائے ہیں جن کے وجوہ تاریخی، سماجی اور معاشی ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. The Statement of the object and reasons for SC/ST(PoA)ACT 1989